سوال: بندہ ایک بزرگ سے مرید (بیعت) ہے، پہلے یہ حال تھا کہ کبھی نماز پڑھی کبھی نہیں، زبان کوگالی کی عادت تھی، جھوٹ کثرت سے بولتا تھا، جھوٹی قسمیں بھی کھالیا کرتا تھا، قرآن شریف کی تلاوت صرف رمضان میں کبھی کرلیا کرتا تھا، آمدنی میں حرام، حلال کی تمیز بالکل نہیں کرتا تھا، بڑوں بوڑھوں کا ادب لحاظ نہیں تھا، پڑوسیوں سے اکثرلڑائی اور بدسلوکی ہوتی تھی، بیعت کے بعدالحمدللہ ان سب خطاؤں اور گناہوں کی آہستہ آہستہ اصلاح ہوئی جس کا احساس میرے ملنے والوں کو کو بھی ہے، نماز کی پابندی نصیب ہوئی اور ایسا دل لگتا ہے جیسے بالکل اللہ تعالیٰ کے سامنے حاضر ہے اور اپنے پیرصاحب کی خدمت میں حاضری کے وقت گذشتہ گناہ یاد آکررونا آتا ہے اور توبہ کی توفیق ہوتی ہے، بندہ سمجھتا ہے کہ یہ سب بیعت کی برکت ہے۔
ایک صاحب نے کہا کہ یہ پیری مریدی توجوگیوں اور بدھ مذہب والوں کاطریقہ ہے کہ وہ ایجابی کام کم کرواتے ہیں، سلبی کام زیادہ کرواتے ہیں؛ بلکہ ان کے یہاں سب سلبی ہی سلبی تعلیم ہے فلاں کام نہیں کرنا، بس آدمی کوعضوِ معطل ومفلوج بناکر رکھ دیتے ہیں؛ غرض اس طریقہ میں کوئی خوبی نہیں اور یہ کتاب وسنت سے ثابت بھی نہیں، حضورِاکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے تواسلام کی بیعت ثابت ہے کہ وہ کافروں کومسلمان بناتے تھے نہ یہ کہ وہ مسلمانوں کوبیعت کیا کرتے تھے، بندہ اس کا جواب نہیں دے سکا، مرید ہونے کا فائدہ خود کوتومحسوس ہورہا ہے؛ لیکن ان صاحب کا جواب دینے کے لیے اپنے پاس سامان نہیں آپ سے گذارش ہے کہ جواب عنایت فرمائیں، اندیشہ یہ ہے کہ ان صاحب کا اعتراض دل میں جم نہ جائے ے جس سے نقصان پہنچے،
فقط والسلام، مفتی ابراہیم صالح جی،
مدرسہ تعلیم الدین ڈربن جنوبی افریقہ،
بتاریخ:٦ـ٦۔سن٤١١٠ھ۔
جواب: الجواب حامداً ومصلیاً: ان صاحب سے عرض کردیں کہ وہ سورةالفتح پڑھیں، اس میں ارشاد ہے:
"إِنَّ الَّذِينَ يُبَايِعُونَكَ إِنَّمَا يُبَايِعُونَ اللَّهِ"۔
(الفتح:۱۰)
ترجمہ:جولوگ آپ سے بیعت کررہے ہیں تووہ اللہ سے بیعت کررہے ہیں۔
(بیان القرآن)
پھر چندآیات کے بعد یعنی تیسرے رکوع کے شروع میں:
"لَقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْيُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ"۔
(الفتح:۱۸)
ترجمہ: بالتحقیق اللہ تعالیٰ ان مسلمانوں سے خوش ہوا جب کہ یہ لوگ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کررہے تھے۔
(بیان القرآن)
یہاں مؤمن بلکہ اعلیٰ درجہ کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لی گئی جن میں وہ حضرات بھی ہیں جو مکہ مکرمہ میں اسلام لاچکے تھے اور دینِ اسلام کی خاطر بڑی تکلیفیں برداشت کرچکے تھے اور ان کا شمار مہاجرین اولین میں سے ہے اور غزوات میں حضرت رسول مقبول صلی اللہ علیہ و سلم کے ساتھ برابر شر یک رہتے تھے، یہ بیعت اسلام قبول کرنے کے لیے نہیں تھی اسلام توان کوبہت پہلے سے حاصل تھا جو کہ نہایت قوی تھی اور سورۂ ممتحنہ پڑھیں جس میں ارشاد ہے:
"يَاأَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَاجَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ عَلَى أَنْ لَايُشْرِكْنَ بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَايَسْرِقْنَ وَلَايَزْنِينَ وَلَايَقْتُلْنَ أَوْلَادَهُنَّ وَلَايَأْتِينَ بِبُهْتَانٍ يَفْتَرِينَهُ بَيْنَ أَيْدِيهِنَّ وَأَرْجُلِهِنَّ وَلَايَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ"۔
(سورۂ ممتحنہ:۱۲)
ترجمہ: اے پیغمبر جب مسلمان عورتیں آپ کے پاس آویں کہ آپ سے ان باتوں پر بیعت کریں کہ اللہ کے ساتھ کسی شئی کوشریک نہ کریں گی اور نہ چوری کریں گی اور نہ بدکاری کریں گی اور نہ اپنے بچوں کوقتل کریں گی اور نہ کوئی بہتان کی اولادلاویں گی جس کواپنے ہاتھوں اور پاؤں کے درمیان بنالیویں اور مشروع باتوں میں وہ آپ کے خلاف نہ کریں گی توآپ ان کوبیعت کرلیا کیجئے۔
(بیان القرآن)
اس آیتِ شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے چھ چیزوں پر بیعت لینے کا حکم فرمایا ہے اور سب سلبی ہیں؛ اگرغور کیں توسمجھ میں آئے کہ چھٹی چیز تمام ایجابات کوحاوی ہے یعنی حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی کسی معروف میں نافرمانی نہ کریں جس کا مطلب یہ ہے کہ ہرفرمان کی اطاعت کریں، یہ صورۃ سلب ہے اور حقیقتاً سب سے بڑا ایجاب یہ ہے، اس کے علاوہ بعض صحابہؓ سے اور بھی کسی خاص چیز پربیعت لینا ثابت ہے، بزرگانِ دین جوبیعت لیتے ہیں وہ جوگیوں اور بدھ مذہب والوں کی پیروی نہیں کرتے بلکہ ہ حضرت رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی پیروی کرتے ہیں کہ چند کبائر سے صراحتا توبہ کراتے ہیں اور ہرنافرمانی سے روک کرطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر آمادہ کرتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں صاف صاف موجود ہے:
"أَنَّ عُبَادَةَ بْنَ الصَّامِتِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ بَايِعُونِي عَلَى أَنْ لَاتُشْرِكُوا بِاللَّهِ شَيْئًا وَلَاتَسْرِقُوا وَلَاتَزْنُوا وَلَاتَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ وَلَاتَأْتُوا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُونَهُ بَيْنَ أَيْدِيكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلَاتَعْصُوا فِي مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفَى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللَّهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا فَعُوقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللَّهُ فَهُوَإِلَى اللَّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِك"۔متفق علیہ۔
(مشکوٰۃ شریف، کتاب الایمان، الفصل الاول:۱۳، مطبوعہ: یاسرندیم دیوبند۔ بخاری، باب ابلاترجمۃ قبیل، باب علامۃ ٓلایمان حب الانصار، کتاب الایمان، مطبوعہ:اشرفی دیوبند)
ترجمہ:حضرت عبادہ بن الصامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ خدا صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا، جب کہ آپ کے پاس آپ کے اصحاب کی ایک جماعت موجود تھی مجھ سے بیعت کرو اس چیز پر
(۱)کہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کوشریک نہیں کروگے، (۲)چوری نہیں کروگے
(۳)زنا نہیں کروگے
(۴)اپنی اولاد کوقتل نہیں کروگے
(۵)بہتان نہیں باندھو گے جس کواپنے ہاتھوں اور پیروں کے درمیان گھڑو
(۶) بھلے کام میں نافرمانی نہیں کروگے، تم میں سے جواس کوپورا کرلیگا تواس کا اجر اللہ تعالیٰ پر ہے اور جوشخص ان چیزوں میں کسی چیز کا ارتکاب کرے اور اس کودنیا میں اس کی سزا دیدی جائے تو وہ اس کے لیے کفارہ ہے اور جس شخص نے ان چیزوں میں سے کسی چیز کا ارتکاب کیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کی پردہ پوشی فرمائی تواس کا اختیار اللہ تعالیٰ کو ہے چاہے اس کومعاف کرے اور چاہے اس کوسزا دیدے، پس! ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم سے ان چیزوں پر بیعت کرلی۔
مشائخ تصوف چشتی، قادری، نقشبندی، سہروردی، سب کے یہاں بیعت کا طریقہ یہی ہے اور بہت بڑی مخلوق کواس کے ذریعہ تزکیۂ باطن ہوکر نسبت سلسلہ حاصل ہوتی ہے، احلاقِ رذیلہ دُور ہوکر اخلاقِ فاضلہ نصیب ہوتے ہیں، فقط واللہ الموفق لمایحب ویرضی، فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم، حررہٗ العبد محمود حسن گنگوہی عفا اللہ عنہ۔
نزیل جوہانسبرگ، جنوبی افریقہ، بتاریخ: ۱۰۔٦۔٤١۱۰ھ
http://anwar-e-islam.org/node/2934#.VwtnC8u3RAg
No comments:
Post a Comment