Wednesday, 4 May 2016

تنہا باہر آنا جانا ٹھیک نہیں

تنہا باہر آنا جانا ٹھیک نہیں.
تم سندر ہو اور زمانہ ٹھیک نہیں.
کتنی مدت بعد آئی دیدار کی شب.
پاس آؤ کہ اب تڑپانا ٹھیک نہیں.
جبکہ رہتا ہوں میں تیری سانسوں میں.
تیرا مجھ سے یوں شرمانا ٹھیک نہیں.
فانی ہے یہ جسم جوانی مہماں ہے.
حسن پہ اتنا بھی اترانا ٹھیک نہیں.
آ بھی جا کہ اک دوجے کے ہو جائیں.
بعد میں جیون بھر پچھتانا ٹھیک نہیں.
عشق کی باتوں کو کیا سمجھیں اہل خرد.
بھینس کے آگے بین بجانا ٹھیک نہیں.
پیار کیا تو خود کو اب مضبوط بھی رکھ.
دنیا سے گھبرانا آسی ٹھیک نہیں..

محمد قمر شہزاد آسی

No comments:

Post a Comment