Monday, 9 May 2016

سیکھنے میں شرمانا کیسا؟

ایک بار شیخ جنید بغدادی رحمۃاللہ علیہ سفر کے ارادے سے بغداد روانہ ہوئے۔
حضرت شیخ رحمۃاللہ علیہ کے کچھ مرید ساتھ تھے۔ شیخ نے مریدوں سے پوچھا،
"تم لوگوں کو بہلول (رحمۃاللہ علیہ) کاحال معلوم  ہے؟
"لوگوں نے کہا،
" حضرت،  وہ تو ایک دیوانہ ہے۔
  آپ اس سے مل کر کیا کریں گے؟"
شیخ رحمۃاللہ علیہ نے جواب دیا:
"ذرا بہلول کو تلاش کرو۔ مجھے اس سے کام ہے۔
"مریدوں نے شیخ کے حکم کی تعمیل اپنے لئے سعادت سمجھی۔
    تھوڑی جستجو کے بعد ایک صحرا میں بہلول کوڈھونڈ نکالا اور شیخ کو اپنے ساتھ لے کر وہاں پہنچے۔
  شیخ جب بہلول کے سامنے گئے تو دیکھا کہ بہلول سر کے نیچے ایک اینٹ رکھے ہوئے دراز ہیں۔
   شیخ رحمۃاللہ علیہ نے سلام کیا تو بہلول نے جواب دے کر پوچھا،
"تم کون ہو؟"
"میں ہوں جنید بغدادی۔"
"تو اے ابوالقاسم، تم ہی وہ شیخ بغدادی ہو جو لوگوں کو بزرگوں کی باتیں سکھاتے ہو؟"
"جی ہاں، کوشش تو کرتاہوں۔"
"اچھا تو تم اپنے کھانے کا طریقہ تو جانتے ہی ہو ں گے؟"
"کیوں نہیں، بسم اللہ پڑھتا ہوں اور اپنے سامنے کی چیز کھاتا ہوں، چھوٹا نوالہ بناتا ہوں، آہستہ آہستہ چباتاہوں، دوسروں کے نوالوں پر نظر نہیں ڈالتا اور کھانا کھاتے وقت اللہ کی یاد سے غافل نہیں ہوتا۔"
پھر دوبارہ کہا،
"جو لقمہ بھی کھاتا ہوں، الحمداللہ کہتا ہوں۔ کھاناشروع کرنے سے پہلے ہاتھ دھوتا ہوں اور فارغ ہونے کے بعد بھی ہاتھ دھوتا ہوں۔"
    یہ سن کر بہلول اٹھ کھڑے ہوئے اور اپنا دامن شیخ جنید کی طرف جھٹک دیا۔
پھر ان سے کہا،
"تم انسانوں کے پیر مرشد بننا چاہتے ہو اورحال یہ ہے کہ اب تک کھانے پینے کا طریقہ بھی نہیں جانتے۔"  
  یہ کہہ کر بہلول نے اپناراستہ لیا۔
شیخ رحمۃاللہ علیہ کے مریدوں نے کہا،
"یا حضرت، یہ شخص تو دیوانہ ہے۔"
  "ہاں، دیوانہ تو ہے، مگر اپنے کام کے لئے ہوشیاروں کے بھی کان کاٹتا ہے۔
اس سے سچی بات سننا چاہئے۔
آؤ، اس کے پیچھے چلیں۔
مجھے اس سے کام ہے۔
بہلول رحمۃاللہ علیہ ایک ویرانے میں پہنچ کر ایک جگہ بیٹھ گئے۔
شیخ بغدادی رحمۃاللہ علیہ ان کے پاس پہنچے تو انھوں نے شیخ سے پھر یہ سوال کیا:
"کون ہو تم؟"
"میں ہوں بغدادی شیخ، جو کھانا کھانے کا طریقہ نہیں جانتا۔"
بہلول نے کہا،
"خیر تم کھانا کھانے کے آداب سے ناواقف ہو تو گفتگوکا طریقہ جانتے ہی ہوں گے؟"
    شیخ نے جواب دیا،
"جی ہاں جانتا تو ہوں۔"
"تو بتاؤ، کس طرح بات کرتے ہو؟"
"میں ہر بات ایک اندازے کے مطابق کرتا ہوں۔ بےموقع اور بے حساب نہیں بولے جاتا، سننے والوں کی سمجھ کا اندازہ کر کے خلق خدا کو اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ یہ خیال رکھتا ہوں کہ اتنی باتیں نہ کہوں کہ لوگ مجھ سے بیزار ہو جائیں۔ باطنی اور ظاہر ی علوم کے نکتے نظر میں رکھتا ہوں۔"
اس کے ساتھ گفتگو کے آداب سےمتعلق کچھ اور باتیں بھی بیان کیں۔
بہلول نے کہا،
"کھانا کھانے کے آداب تو ایک طرف رہے۔
تمھیں تو بات کرنے کا ڈھنگ بھی نہیں آتا۔
بہلول رحمۃاللہ علیہ نے ایک بار پھر شیخ رحمۃاللہ علیہ سے منہ پھیرا اور ایک طرف چل دیے۔
مریدوں سے خاموش نہ رہا گیا۔ انہوں نے کہا،
"یا حضرت، یہ شخص تو دیوانہ ہے۔
آپ دیوانے سے بھلا کیا توقع رکھتے ہیں؟"
"بھئی، مجھے تو اس سے کام ہے۔
تم لوگ نہیں سمجھ سکتے۔"
   اس کے بعد شیخ رحمۃاللہ علیہ نے پھر بہلول رحمۃاللہ علیہ کاپیچھا کیا۔
بہلول رحمۃاللہ علیہ نے مڑ کر دیکھا اور کہا،
"تمھیں کھانا کھانے اور بات کرنے کے آداب نہیں معلوم ہیں۔
سونے کا طریقہ تو تمھیں معلوم ہی ہو گا؟
شیخ رحمۃاللہ علیہ نے کہا:
"جی ہاں، معلوم ہے۔"
"اچھا بتاؤ، تم کس طرح سوتے ہو؟"
    "جب میں عشا کی نماز اور درود و وظائف سے فارغ ہوتاہوں تو سونے کے کمرے میں چلا جاتا ہوں۔" یہ کہہ کرشیخ رحمۃاللہ علیہ نے سونے کے وہ آداب بیان کئے جو انہیں بزرگان دین کی تعلیم سے حاصل ہوئے تھے۔
بہلول رحمۃاللہ علیہ نے کہا،
"معلوم ہوا کہ تم سونے کے آداب بھی نہیں جانتے۔"
یہ کہہ کر بہلول رحمۃاللہ علیہ نے جانا چاہا تو حضرت جنید بغدادی رحمۃاللہ علیہ نے ان کا دامن پکڑ لیا اور کہا،
"اے حضرت، میں نہیں جانتا ۔
اللہ کے واسطے تم مجھے سکھا دو۔
کچھ دیر بعد بہلول رحمۃاللہ علیہ نے کہا،
     "میاں، یہ جتنی باتیں تم نے کہیں، سب بعد کی چیزیں ہیں۔ اصل بات مجھ سے سنو،
۔ کھانے کا اصل طریقہ یہ ہے کہ سب سے پہلے حلال کی روزی ہونی چاہئے۔ اگر غذا میں حرام کی آمیزش( ملاوٹ) ہو جائے تو جو آداب تم نے بیان کئے، ان کے برتنے سے کوئی فائدہ نہ ہو گا اور دل روشن ہونے کی بجائے اور تاریک ہو جائے گا۔
شیخ جنید رحمۃاللہ علیہ نے بےساختہ کہا،
"جزاکم اللہ خیرأً ( اللہ تمہارا بھلا کرے).

پھر بہلول رحمۃاللہ علیہ نے کہا،
" گفتگو کرتے وقت سب سے پہلے دل کا پاک اور نیت کا صاف ہونا ضروری ہے اور اس کا بھی خیال رہے کہ جو بات کہی جائے ، اللہ کی رضامندی کے لئے ہو۔ اگرکوئی غرض یا دنیاوی مطلب کا لگاؤ یا بات فضول قسم کی ہو گی تو خواہ کتنے ہی اچھے الفاظ میں کہی جائے گی،تمہارے لئے وبال بن جائے گی، اس لئے ایسے کلام سے خاموشی بہتر ہے ۔
پھر سونے کے متعلق بتایا،
     "اسی طرح سونے سے متعلق جو کچھ تم نے کہا وہ بھی اصل مقصود نہیں ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تم سونے لگو تو تمہارا دل بغض، کینہ اور حسد سے خالی ہو۔ تمھارے دل میں دنیا اور مالِ دنیا کی محبت نہ ہو اور نیند آنے تک اللہ کے ذکر میں مشغول رہو۔
    بہلول کی بات ختم ہوتے ہی حضرت جنید بغدادی رحمۃاللہ علیہ نے ان کے ہاتھوں کو بوسہ دیا اور ان کے لئے دعا کی۔
    شیخ جنید رحمۃاللہ علیہ کے مرید یہ منظر دیکھ کر حیران رہ گئے۔
انھیں اپنی غلطی کا احساس ہوا اور یہ بات ان کی سمجھ میں آ گئی کہ ہر شخص کو چاہئے کہ وہ جو بات نہ جانتا ہو اسے سیکھنے میں ذرا بھی نہ شرمائے۔
    حضرت جنید اور بہلول رحمہم اللہ کے اس واقعے سے سب سے بڑا سبق یہی حاصل ہوتا ہے کہ کچھ نہ جاننے پر بھی دل میں یہ جاننا کہ ہم بہت کچھ جانتے ہیں، بہت نقصان پہنچانے والی بات ہے۔
   اس سے اصلاح اور ترقی کے راستے بند ہو جاتے ہیں اور انسان گمراہی میں پھنسا رہ جاتا ہے!

(ماخوذ )

No comments:

Post a Comment