Thursday 19 May 2016

توقیر رضا خاں کی جرآت اور پھر پشیمانی

علامہ فضیل احمد ناصری ابن مولانا جمیل احمد ناصری

رواں مہینہ مئی کی 8 تاریخ کو بریلوی مکتبِ فکر کی اہم ترین شخصیت اور خاندانِ احمد رضاخاں فاضل بریلوی کے ممتاز چشم و چراغ جناب توقیر رضا خاں صاحب نے دیوبند کی تاریخی سرزمین پر قدم رکھ کر جو خوب صورت تاریخ رقم کی تھی، افسوس کہ وہ پائیدار ثابت نہ ہوسکی- انہوں نے محض گیارہ دن کےبعد ہی اپنا موقف تبدیل کرلیا-

ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا 

بریلوی مکتبِ فکر کے جبلّی مزاج اور فطری اداؤں کے سبب ان کے دیوبند دورے سے اندیشہ بلکہ قوی خدشہ تھا کہ "کہیں خوشی، کہیں غم "کی کیفیت رونما ہوگی، چناں چہ اہلِ نظر اور اربابِ بصیرت نے اس دورے کو خوش آئند قرار دیا تو بریلوی طبقے کے نازک آشیانوں پر خوف ناک بجلی گری- اہلِ دیوبند اور دیگر مکاتبِ فکر نے توقیر رضا کے اس اقدام کو ملت کی شیرازہ بندی کی تابناک تمہید باور کیا، تو بریلوی مکتبِ فکر نے تنِ تنہا ان کا بائیکاٹ کرڈالا، ان کے خلاف زبانِ طعن دراز کی گئی، ان پر کفر کے فتوے لگے، انہیں خانوادۂ احمدرضا خاں کا حقہ پانی بند کرنے کی تنبیہ جاری کی گئی- یہ ساری چیزیں ان کے اپنے ہی بھائی سبحانی میاں کی طرف سے صادر ہوئیں- توقیر رضا ابھی دہلی میں ہی تھے کہ ان پر بریلی کے دروازے بند کردیے گئے......

راز کو راز رہنے دو!

شروع میں ایسا لگا کہ توقیر صاحب آہنی عزائم کے ساتھ اپنےموقف پر ڈٹے رہیں گے- انہوں نے کہاتھا کہ "میں جانتا ہوں کہ کس کس بریلوی کی بیٹیاں دیوبندیوں کے نکاح میں ہیں، مجھے یہ بھی خبر ہے کہ کس کس بریلوی نے وہابیوں سے رشتے استوار کر رکھے ہیں، لہذا میرے خلاف فتوے نہ دیں، اگر زبان کھل گئی تو سب کے راز فاش ہوجائیں گے- اتحادِ ملت کے لیے میں ایک بار نہیں، بار بار جاؤں گا. " چوں کہ و ہ ایک عدد سیاسی پارٹی کے قائد بھی ہیں، کتابِ ملتِ بیضا کی شیرازہ بندی کے لیے ان کی کوششوں کی خبریں آے دن چھپتی رہتی ہیں، اس لیے ملّی مسائل میں انہوں نے ہمیشہ اتحاد کا پیغام دیا - ملک کے دیگر حصوں میں انعقاد پذیر ایسے جلسوں میں بھی شریک ہوتے رہے ہیں جن میں بریلوی مکتبِ فکر سمیت دیگر ان مکاتبِ فکر کی بھی شمولیت رہی ہے، جن پر بریلوی طبقہ کفر کے تیروں کی بارش کرتا رہا ہے-

کفر اور ارتداد کے گولے :

ممبئی کے حج ہاؤس میں منعقد ایک جلسے میں دیوبندی، غیرمقلد، مودودی، شیعہ اور بریلوی مجتمع تھے اور صدارت انہیں توقیر رضا صاحب کی تھی، میں اس جلسے کا عینی شاھد ہوں، مگر کسی بھی بریلوی نے ان کی تکفیر نہیں کی، انہیں کسی نے کافر و مرتد اور جہنمی ہونے کی سند نہیں عطا کی تھی، لیکن دیوبند آنے پر ان کا یہ حشر ہوا کہ کفر و ارتداد کے گولے ان کے سرپر برسنے لگے -اس موقع پر توقیر صاحب نے تھوڑی ہمت ضرور دکھائی، مگر وہ اس پر قائم نہ رہ سکے-اب تازہ خبر یہ ہے کہ اٹھارہ مئی کو انھوں نے دیوبند جانے پر توبہ کرلی اور یہ عزم دوہرایا کہ آئندہ دیوبند کبھی نہیں جائیں گے-

سوالات کی زد میں :

یہاں پر بریلوی مکتبِ فکر پر کئی سوالات قائم ہوتے ہیں، ان کا جواب دینا اس پر ضروری ہے-
1.........دیوبند جانے سے توقیر رضا صاحب کیخلاف کون ساحکم لگاتھا؟ اور توبہ کیوں کر کروائی گئی؟                         
2.........اگر توقیررضاصاحب کافر و مرتد ہوگئے تو جس طرح ان سے توبہ کرائی گئی، کیا ان کے نکاح کی تجدید بھی عمل میں آئی؟   
3.........ان بریلویوں پر کون سا حکم لگے گا جو غیر بریلویوں کے ساتھ جلسے جلوس میں شرکت کرتے ہیں اور امن و اتحاد کی دعوت پیش کرتے نظر آتے ہیں؟
4.........ماہِ مارچ میں صوفی کانفرنس ہوئی، جس میں "بھارت ماتا کی جے "کا نعرہ لگا، صوفیوں میں سے کسی نے بھی اس نعرے کی تردید یا مذمت نہیں کی، بلکہ طاہرالقادری نے سب کی موجودگی میں اسے درست اور جائز کہا،ان صوفیوں پر کون سا حکم لاگو ہوتا ہے؟
5..........ملک کے مختلف حصے میں بریلوی اور غیر کلمہ گو جمع ہوتے ہیں اور بھائی چارے کا پیغام دنیا تک پہونچاتے ہیں، یہ بریلوی ازروے شریعت کیا قرار پاتے ہیں؟                            
6........... کیا کسی گاؤں یا قصبہ جا کر کسی دیوبندی سے ملاقات کرنا باعثِ کفر ہے؟
7.......... جب غیربریلویوں سے رشتہ داری حرام ہے تو رشتہ کرنے والے بریلویوں پر کون سا حکم لگے گا؟ اور بیٹی کے غیربریلوی شوہر کو داماد، بہنوئی وغیرہ ماننا اور اس کا احترام کرنا کیا حکم رکھتا ہے؟                                      
8 ..........جب بریلوی مکتبِ فکر اتنی سختی دکھائےگا تو پھر اتحاد ملت کی کون سی شکل ہوگی؟.................
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس سے کون انکار کرے گا کہ وقت نازک ہے، اختلاف و شقاق اور مسلکی تعصبات کا زمانہ لد چکا، یہ بکھیڑے چھوڑیے اور پوری قوم مسلم کو ایک ہونے کا پیغام دیجیے! سب کا قرآن ایک ہے، کعبہ بھی ایک، نبی بھی ایک، مکہ مدینہ بھی ایک، اللہ بھی ایک اور جبریل بھی ایک، پھر یہ فرقہ بندیاں کیوں ہیں؟ ......
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں؟

No comments:

Post a Comment