آج کل کے عام مسلمانوں کا دینی معاملات میں رائے دینا اور اپنی ناقص عقل کو استعمال کرتے ہوئے قرآن و سنت کی منمانی تشریح کرنا عام ہوگیا ہے۔ یہ وہ مہلک بیماری ہے جو انسان کے تمام نیک اعمال کی بربادی اور آخرت کے خسارے کی موجب ہے۔ چند سال پہلے تک تو معاملہ کچھ یوں تھا کہ کوئی صاحب کسی کتب خانے سے کوئی اردو تفسیر یا کتب حدیث کا اردو ترجمہ خرید لاتے اور اپنے فہم کے مطابق سمجھنا شروع کردیتے۔ اس وقت ایسے افراد کی تعداد بہت کم تھی، لیکن اب یہ تمام مواد اردو اور انگلش سمیت دنیا کی کئی زبانوں میں انٹرنیٹ پر موجود ہے۔ نوجوان گوگل پر ہر مسئلہ سرچ کرتے ہیں اور جواب میں کوئی آیت مبارکہ یا حدیث شریف پاکر اس پر عمل شروع کردیتے ہیں اورخود کو قرآن و سنت کا پابند اور دوسروں کو مُشرک اور گمراہ سمجھنے لگتے ہیں۔ ساتھ ہی خوش ہوتے ہیں کہ قرآن پاک کی آیت مبارکہ یا حدیث شریف پر عمل کرنے کا موقع ملا، لیکن اس میں برائی یہ ہے کہ اس آیت یا حدیث کو وہ اپنی ناقص عقل اور فہم کے مطابق سمجھتے ہیں۔ اس کے ظاہری معنیٰ و مطلب کو لے کر عمل شروع کردیتے ہیں۔ علمائے دین سے رابطہ کرنے کو ضروری ہی نہیں سمجھتے۔ حالاں کہ علمائے دین کے پاس ہی ان آیات اور احادیث کا صحیح معنیٰ اور مفہوم موجود ہوتا ہے، کیوں کہ سلف صالحین نے اپنی کتابوں میں سب کچھ نہیں لکھ دیا۔ یہ کتابیں تو صرف ان مبارک کلمات کو محفوظ کرنے کے لیے لکھی گئیں۔ ان مبارک کلمات کی تشریح اور وضاحت تو چودہ سو سال سے علمائے امت کے سینوں میں ہے، جو وہ اُن سچی طلب والوں کو بتاتے ہیں جو اُن کے سامنے دو زانو بیٹھیں اور حصولِ علم کے آداب بجا لائیں۔
رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔
(اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ ‘‘
علمائے دین انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث کس طرح ہیں؟
جس طرح کسی کے سید، صدیقی، فاروقی، عثمانی یا علوی ہونے کے لیے اس کا ایک شجرہ نسب محفوظ ہوتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بھی زیادہ احتیاط کے ساتھ ہر عالم کے پاس اس کے حاصل کردہ تمام علوم کی سندیں محفوظ ہوتی ہیں، جو اس کے استاذ سے شروع ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملتی ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک اس محفوظ علمی نسب کی وجہ سے ہی یہ علمائے دین انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث کہلاتے ہیں اور ظاہر ہے میراث پر وارث کا جو حق ہوتا ہے وہ کسی منصف مزاج ذی شعور انسان سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ اس موروثی حق میں کسی دوسرے کو شرعاً و اخلاقاً یہ حق حاصل نہیں ہوتا کہ اس سے جھگڑا کرے اور اسے یہ کہے کہ تم کون ہوتے ہو اس پر اپنا حق جتلانے والے۔ان علمی اسانید کو محفوظ رکھنے کے لیے بھی سلف صالحین نے بڑی محنت سے ایک علم وضع کیا ہے جسے ’’فہارس، اثبات اور مشیخات‘‘ کا علم کہتے ہیں۔ اس علم کے ذریعے چودہ سو سال سے امت کی تمام علمی سندیں محفوظ ہیں۔ ذیل میں ہم ایک مثال کے ذریعے ان علمی سندوں پر روشنی ڈال رہے ہیں، تاکہ ہم مسلمانوں کو معلوم ہو کہ کس طرح یہ دین کتابوں سے زیادہ سینہ در سینہ ہم تک پہنچا ہے! اور علمائے دین کے پاس کس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک ہر ہر علم کی سند محفوظ ہے۔ رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا:
’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے اس کے وہی بندے ڈرتے ہیں جو علم والے ہیں۔ اور (دوسری جگہ) فرمایا اور اس کو عالموں کے سوا کوئی نہیں سمجھتا۔اور فرمایا، کیا علم والے اور جاہل برابر ہیں؟ ‘
(صحيح البخاری :كتاب العلم:بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ: رقم الحديث:67)
یہ سند علماءِ حق فقہاءِ احناف اور’’امام اعظم فی الفقہاء سیدنا امام ابو حنیفہ تا بعی نعمان بن ثابت رحمہ اللہ(متوفی: ۱۵۰ھ)‘‘ کی سند ہے۔ اس سندکی ابتداءسیدنا ومولانا وقدوتنا ونبینا وحبیبنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ پر ہو رہی ہے اور انتہاء اس زمانے کی برکت، نمونۂ سلف، شیخ الاسلام حضرت مفتی طارق مسعودحفظہ اللہ اور ان کے شاگرد بندہ ناچیز جنا ب نعمان اقبال پرہو رہی ہے۔
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘ آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھا اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ کو ہارون نے مملکت کاقاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
وارث الانبیاء کرام علماء ِحق اہلسنت والجماعت (احناف) کا شجرہ نسب
۱- امام ابویوسف رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۲ھ)
۲- امام محمد بن حسن شیبانی رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۹ھ)
۳- زفر بن ہذیل رحمہ اللہ (متوفی:۱۵۸ھ)
۴- مالک بن مغول رحمہ اللہ (متوفی:۱۵۹ھ)
۵- داؤد طائی رحمہ اللہ (متوفی:۱۶۰ھ)
۶- مندل بن علی رحمہ اللہ (متوفی:۱۶۸ھ)
۷- نصر بن عبدالکریم رحمہ اللہ (متوفی:۱۶۹ھ)
۸- عمرو بن میمون رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۱ھ)
۹- حبان بن علی رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۲ھ)
۱۰- ابو عصمہ رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۳ھ)
۱۱- زہیر بن معاویہ رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۳ھ)
۱۲- قاسم بن معن رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۵ھ)
۱۳- حماد بن ابی حنیفہ رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۶ھ)
۱۴- ہیاج بن بطام رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۷ھ)
۱۵- شریک بن عبداللہ رحمہ اللہ (متوفی:۱۷۸ھ)
۱۶- عافیہ بن یزید رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۱ھ)
۱۷ -عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۱ھ)
۱۸- نوح بن دراج رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۲ھ)
۱۹- ہشیم بن بشیر سلمی رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۳ھ)
۲۰- ابوسعید یحییٰ بن زکریا رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۴ھ)
۲۱- فضیل بن عیاض رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۷ھ)
۲۲- اسد بن عمرو رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۸ھ)
۲۳- علی بن مسہر رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۹ھ)
۲۴- یوسف بن خالد رحمہ اللہ (متوفی:۱۸۹ھ)
۲۵- عبداللہ بن ادریس رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۲ھ)
۲۶- فضل بن موسیٰ رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۲ھ)
۲۷- حفص بن غیاث رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۴ھ)
۲۸- ہشام بن یوسف رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۷ھ)
۲۹- وکیع بن جراح رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۷ھ)
۳۰- یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۸ھ)
۳۱- شعیب بن اسحاق رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۸ھ)
۳۲- ابوحفص بن عبدالرحمن رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۹ھ)
۳۳- ابومطیع بلخی رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۹ھ)
۳۴- خالد بن سلیمان رحمہ اللہ (متوفی:۱۹۹ھ)
۳۵- عبدالحمید رحمہ اللہ (متوفی:۲۰۳ھ)
۳۶- حسن بن زیاد رحمہ اللہ (متوفی:۲۰۴ھ)
۳۷- ابوعاصم النبیل رحمہ اللہ (متوفی:۲۱۲ھ)
۳۸- مکی بن ابراہیم رحمہ اللہ (متوفی:۲۱۵ھ)
۳۹- حماد بن دلیل رحمہ اللہ (متوفی:۲۱۵ھ)
۴۰- بکر بن علاقشیری رحمہ اللہ (متوفی:۳۱۴ھ)
۴۱- امام ابوالحسن عبداللہ بن حسن کرخی رحمہ اللہ(متوفی:۲۶۰۔۳۴۰ھ)
۴۲- علی بن ابی جعفر احمد بن محمد بن سلامہ ابوالحسن الطحاوی رحمہ اللہ (متوفی:۳۵۱ ھ)
۴۳- ابوجعفر محمدبن عبداللہ بلخی ھندوانی رحمہ اللہ (متوفی:۳۶۲ھ)
۴۴- ابوبکر بن عبداللہ المعیطی رحمہ اللہ (متوفی:۳۶۷ھ)
۴۵- ابوبکر رازی جصاص رحمہ اللہ (متوفی: ۳۷۰ھ)
۴۶- امام الھدیٰ نصر بن محمدابواللیث،سمرقندی رحمہ اللہ (متوفی:۳۷۳ھ)
۴۷- یوسف بن عمر بن عبدالبر رحمہ اللہ (متوفی:۳۸۰ھ)
۴۸- ابو محمد عبداللہ بن اُبی زید قیروانی رحمہ اللہ (متوفی:۳۸۶ھ)
۴۹- ابوبکر محمد بن عبداللہ أبھری رحمہ اللہ (متوفی:۳۹۵ھ)
۵۰- ابوعبداللہ یوسف بن محمد جرجانی رحمہ اللہ (متوفی: ۳۹۸ھ)
۵۱- ابو زید عبداللہ دبوسی،سمرقندی رحمہ اللہ (متوفی:۴۰۰ھ)
۵۲- شمس الائمہ عبدالعزیز حلوانی رحمہ اللہ(متوفی:۴۱۸ھ)
۵۳- قاضی عبدالوھاب بغدادی رحمہ اللہ (متوفی:۴۲۲ھ)
۵۴- ابوالحسن احمد قدوری رحمہ اللہ (متوفی: ۴۲۷ھ)
۵۵- ابوبکر خواہر زادہ بخاری رحمہ اللہ (متوفی:۴۳۳ھ)
۵۶- ابوعبداللہ حسین صیمری رحمہ اللہ (متوفی:۴۳۶ھ)
(متوفی:۴۴۰ھ)۵۷- ابوالقاسم عبدالرحمن حضرمی رحمہ اللہ
۵۸- ابوعبداللہ محمد بن علی دامغانی رحمہ اللہ (متوفی:۴۰۰ھ۔۴۷۸ھ)
۵۹- صاحب المبسوط سرخسی شمس الائمہ محمد بن احمد رحمہ اللہ (متوفی:۴۸۳ھ)
(متوفی:۴۸۳ھ) ۶۰- بزدوی علی بن محمد رحمہ اللہ
۶۱- ابوالولید سلیمان باجی رحمہ اللہ(متوفی:۴۹۴ھ)
۶۲- زربخری شمس الائمہ بکر بن محمد رحمہ اللہ
(متوفی:۴۲۷۔ ۵۱۲ھ)
۶۳- ابوالولید محمدبن رشد قرطبی رحمہ اللہ (متوفی:۵۲۵ھ)
۶۴- ابو عبداللہ محمد تمیمی رحمہ اللہ (متوفی:۵۲۶ھ)
۶۵- ظہیر الدین عبدالرشید والوالجی رحمہ اللہ
(متوفی:۵۴۰ھ)
۶۶- ابوالفضل قاضی عیاضی رحمہ اللہ (متوفی:۵۴۱ھ)
۶۷- طاہر بن احمد بخاری رحمہ اللہ (متوفی:۵۴۲ھ)
۶۸- ابو اسحاق ابراہیم بن اسماعیل صفار رحمہ اللہ (متوفی:۵۷۴ھ)
۶۹- کاسانی ملک العلماء ابوبکر ابن مسعود رحمہ اللہ(متوفی:۵۸۷ھ)
(متوفی:۵۹۲ھ)۷۰- فخرالدین حسن اوز جندی قاضی خان رحمہ اللہ
۷۱- علی ابن ابی بکر مرغینانی رحمہ اللہ صاحب ہدایہ (متوفی:۵۹۳ھ) ۷۲- امام حسام الدین علی بن احمد مکی رحمہ اللہ (متوفی :۵۹۸ھ)
۷۳- عبداللہ بن نجم سعدی رحمہ اللہ (متوفی:۶۱۰ھ)
۷۴- ابو البرکات عبداللہ بن احمدنسفی رحمہ اللہ (متوفی:۷۱۰ھ)
۷۵- ابومحمدعثمان فخرالدین زیلعی رحمہ اللہ (متوفی:۷۴۳ھ)
۷۶- محمدبن عبد الواحد کمال الدین ابن ھمام رحمہ اللہ (متوفی:۷۶۱ھ)
۷۷- محمدبن احمد بدرالدین عینی رحمہ اللہ (متوفی: ۸۵۵ھ)
۷۸- حضرت خواجہ سالار انصاری رحمہ اللہ (متوفی: ۸۶۶ھ)
۷۹- شمس الدین محمدبن امیرالحاج حلبی رحمہ اللہ (متوفی:۸۷۹ھ)
۸۰- حافظ سیف الدین قطلوبغا رحمہ اللہ (متوفی:۷۹۸۔۸۸۱ھ)
۸۱-حضرت مولانا عبد الکریم قدسی رحمہ اللہ (متوفی:۹۰۹ھ)
۸۲- حضرت مولانا عبد العزیزصاحب رحمہ اللہ (متوفی:۹۱۶ھ)
۸۳- حضرت مولانا عبد الرزاق رحمہ اللہ (متوفی :۹۲۴ھ)
۸۴- زین العابدین ابن نجیم مصری رحمہ اللہ (متوفی:۹۶۹ھ)
۸۵- حضرت شاہ عبد القدوس گنگوہی رحمہ اللہ
(متوفی :۹۴۴ ھ یا ۹۴۵ھ)
۸۶- حضرت شیخ رکن الدین گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۹۸۳ھ)
۸۷- حضرت شیخ مصطفیٰ رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۰۰ھ)
۸۸- عمر بن ابراہیم ابن نجیم، صاحب النہرالفائق رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۰۵ھ)
۸۹- مفتی وجیہ الدین گوپامؤی رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۰۵ھ)
۹۰- سراج الہند حضرت مولانا شاہ بدیع الدین رحمہ اللہ
(متوفی :۱۰۴۲ھ)
۹۱- مولانا محمد جمیل جونپوری رحمہ اللہ (متوفی:۱۰۵۵ھ)
۹۲- حضرت صادق گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۳۶ھ یا ۱۰۵۸ھ) ۹۳- حضرت شاہ عبدالسبحان صبحی رحمہ اللہ (متوفی :۱۰۸۹ھ)
۹۴- امام الہند، رئیس المحدثین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۱۷۵ھ)
۹۵- شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۳۹ھ)
۹۶- حضرت شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۴۶ھ)
۹۷-محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۹۷ھ)
۹۸- حضرت مولانا فیض الحسن صاحب رحمہ اللہ
(متوفی :۱۳۰۴ھ)
۹۹- مولا رشید احمد گنگوھی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۲۲ھ)
۱۰۰- شيخ الہند مولانا محمود الحسن الدّيوبندی رحمہ اللہ
(متوفی :۱۳۳۹ھ)
۱۰۱- حضرت علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ
(متوفی :۱۳۵۲ھ)
۱۰۲- مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۶۱ھ) ۱۰۳- سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۸۰ھ)
۱۰۴- مولانا ظفر احمد عثمانی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۹۴ھ)
۱۰۵- مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۹۵ھ)
۱۰۶- مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۴۲۲ھ)
۱۰۷- مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم (پیدائش:۱۳۶۱ھ)
۱۰۸- مفتی طارق مسعود دامت برکاتہم (پیدائش:۱۳۹۴ھ)
وارث الانبیاء کرام ؑعلماء ِحق اہلسنت والجماعت (احناف) سےصحیح بخاری کی سند
حضرت مفتی طارق مسعود صاحب، استاذ جامعۃ الرشید:
مفتی طارق مسعود صاحب (پیدائش:۱۳۹۴ھ)،استاذ جامعۃ الرشید، شاگرد حضرت مفتی رشید احمدلدھیانویؒ:
مفتی محمد تقی عثمانی (پیدائش:۱۳۶۱ھ)،نائب رئیس مجمع الفقہ الاسلامی جِدَّہ اور نائب رئیس جامعہ دار العلوم کراچی’’صحیح بخاری‘‘ اوّل سے آخرتک روایت کرتے ہیں:
فقیہ العصر، مربی المجاہدین مفتی رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ(متوفی :۱۴۲۲ھ) سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ العرب والعجم، امام الہند، مجاہدِ ملت مولانا سید حسین احمد مدنی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۷۷ھ)سے، وہ روایت کرتے ہیں:
مجاہدِ تحریکِ خلافت و ریشمی رومال، شیخ الھند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۳۹ھ) سے، وہ روایت کرتے ہیں:
قاسم العلوم و الخیرات، مجاہدِ جنگِ آزادی مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۹۷ھ) اور فقیہ العصر، مجاہدِ جنگ آزادی مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ (متوفی :۱۳۲۲ھ) سے، وہ دونوں روایت کرتے ہیں:
محدث العصر شاہ عبد الغنی مجددی دہلوی ثم مدنی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۹۶ھ)سے، وہ روایت کرتے ہیں:
محدث العصر شاہ اسحاق دہلوی ثم مکی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۶۲ھ) اور اپنے والد شیخ ابو سعید عمری دہلوی سے، وہ دونوں روایت کرتے ہیں:
محدث العصر شاہ عبد العزیز دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۲۳۹ھ) سے، وہ روایت کرتے ہیں:
امام الھند، رئیس المحدثین شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ (متوفی :۱۱۷۵ھ)سے، وہ روایت کرتے ہیں:
خ ابو طاہر محمد بن ابراہیم کردی مدنی رحمہ اللہ سے۔ وہ روایت کرتے ہیں اپنے والد:
شیخ ابو العرفان ابراہیم بن حسن کردی مدنی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ احمد بن محمد قُشَاشی دِجانی ثم مدنی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو المواہب احمد بن عبد القدوس شَنَّاوی مصری ثم مدنی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ شمس الدین محمد بن احمد رَمْلی مصری رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ الاسلام زین الدین زکریا بن محمد انصاری قاہری مصری رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ الاسلام محمدبن احمد بدرالدین عینی رحمہ اللہ (متوفی: ۸۵۵ھ) (مؤلف عمدة القاری شرح بخاری) سے،
وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابراہیم بن احمد تَنُوخی دِمَشقی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو العباس احمد بن ابی طالب حَجَّار صالحی دِمَشقی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
سراج الدین حسن بن مبارک زَبیدی بغدادی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو الوقت عبد الاوّل بن عیسی سِجْزی ھَرَوی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو الحسن عبد الرحمن بن مظفر داودی بُوشَنْجی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو محمد عبد اللہ بن احمد سَرَخْسی حَمَوی رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
شیخ ابو عبد اللہ محمد بن یوسف فِرَبْری رحمہ اللہ سے، وہ روایت کرتے ہیں:
مؤلف ’’صحیح بخاری‘‘ امیر المؤمنین فی الحدیث ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری جعفی رحمہ اللہ سے۔
آگے امام بخاری کی ہر حدیث الگ الگ سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے، مثال کے طور پر ’’صحیح بخاری‘‘ کی پہلی حدیث:
امام بخاری فرماتے ہیں: ہمیں بیان کیا حمیدی (عبد اللہ بن زبیر) نے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں بیان کیا سفیان (بن عیینہ تابعی) نے، وہ فرماتے ہیں: ہمیں روایت کیا یحیی ٰ بن سعید انصاری (تابعی) نے، وہ فرماتے ہیں: مجھے بیان کیا محمد بن ابراہیم تمیمی (تابعی) نے، کہ انھوں نے علقمہ بن وقاص لیثی (تابعی) کو کہتے سنا کہ وہ فرما رہے تھے، میں نے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو منبر پر فرماتے سنا کہ وہ فرما رہے تھے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا:
’’اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے۔ انسان کو وہی کچھ ملتا ہے جس کی وہ نیت کرتا ہے۔ پس جس کی ہجرت دنیا پانے کے لیے ہو یا کسی عورت سے نکاح کے لیے، تو اس کی ہجرت اسی جانب ہوگی جس کے لیے اس نے ہجرت کی‘‘۔
اسی طرح امام بخاری کی باقی احادیث متصل سند کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہیں۔
یہ ایک مثال ہے جس سے ہر ذی شعور مسلمان بہ آسانی سمجھ سکتا ہے کہ ’مستند عالم‘ کا کیا مطلب ہوتا ہے اور دین اسلام میں قرآن و سنت کی تشریح کی اتھارٹی کس وجہ سے علمائے دین کے پاس ہے اور علمائے دین انبیائے کرام علیھم السلام کے وارث کیوں ہیں۔.
اللہ تعالا ہمیں علمائے دین کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اگر ہم کسی عالم کے پاس بیٹھ کر ایک حدیث ہی پڑھ لیں تو سوچیں کہ کس طرح اس ایک حدیث میں ہمارا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی معنیٰ میں جڑ جائے گا۔
تمام غیر مقلدین (نام نہاد اہلحدیثوں) کو نعمان اقبال کا چیلنج
غیر مقلدین حضرات جو آج دین کے ٹھیکیدار بنے بیٹھے ہیں اور دن رات بخاری بخاری کی رٹ لگاتے رہتےہیں اور آئمہ اربعہ کی تقلید کو چھوڑ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم صرف رسول اﷲﷺ کی اتباع کرتے ہیں اور کسی کی تقلید نہیں کرتے۔ ایسے تمام غیر مقلدین حضرات کو میں چیلنج کرتا ہوں کہ وہ اپناشجرہ و سند رسول اﷲﷺ تک ثابت کرکے دکھائیں جس طرح میں نے اپناشجرہ و سند ثابت کرکے دکھایاہے۔کیونکہ
رسول اﷲﷺ نے ارشادفرمایا: ’’علماء انبیاء کے وارث ہیں۔ (اور) پیغمبروں نے علم (ہی) کا ورثہ چھوڑا ہے‘‘۔ (صحيح البخاری :كتاب العلم:بَابُ الْعِلْمُ قَبْلَ الْقَوْلِ وَالْعَمَلِ: رقم الحديث:67)
اگر تم رسول اﷲ ﷺ کے وارث ہو تو اپناشجرہ و سند نبی ﷺ تک پیش کرکے ثابت کروکے تمھارا دعویٰ سچا ہے۔ میرادعویٰ ہے کہ قیامت تک تم یہ ثابت نہیں کرسکتے۔۔
No comments:
Post a Comment