Sunday, 1 May 2016

ضبط تولید اور شریعت مطہرہ

ایس اے ساگر

متعدد باطل افکار میں سے ایک آبادی کی کثرت کا رونا بھی ہے. دنیا بھر کے انسانوں کو باور کروایا جارہا ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی عرف فیملی پلاننگ پر کاربند ہوں. وطن عزیز میں اس کی شروعات،
چھوٹا پریوار، سکھی پریوار
کے نعرہ سے ہوئی، پھر 
بس دو یا تین بچے، ہوتے ہیں گھر میں اچھے،
کا نعرہ بلند ہوا . اس کے بعد
ہم دونوں ایک، ہمارا ایک
کی بات چلی. چونکہ اس انعقاد سرکاری سطح پر جبری پہلو کیساتھ ہوا، عوام کی اس کی ہیبت ایسی پھیلی کہ امت میں سے شرعی حدود کی تحقیق بھی کمزور پڑ گئی.  انھی بے لگامیوں نے یہ دن دکھایا ہے کہ بچوں کی تعداد میں تحدید اور کمی کی غرض سے بعض مخصوص قسم کے ربر استعمال کئے جاتے ہیں، ان ربر کی ٹوپیوں میں ایک تووہ ہوتی ہے جسے خود مرد اپنے عضو مخصوص پرپہنا لیتا ہے، اس کو کنڈوم  کہتے ہیں، دوسرے وہ جسے عورت کے فم رحم پرپہنایا جاتا ہے تاکہ مادہ اندر داخل نہ ہوسکے، اس کو لوپ کہا جاتا ہے. یہ صورت گوکہ نئی ہے، چونکہ کم اولاد ہونے کا جذبہ بہت قدیم اور پرانا ہے، اس لئے ہمیں اسلام کے ابتدائی عہد میں بھی اس کی نظیر ملتی ہے، اہل علم کے نزدیک اسلام سے پہلے لوگ اس کے لیے عزل کا طریقہ اختیار کرتے تھے، عزل یہ ہے کہ ہمبستری کے دوران جب انزال کا وقت آئے تومرد اپنا عضو مخصوص باہر نکال لے، احادیث میں بھی اس کا ذکر ملتا ہے، کنڈوم اور لوپ کا استعمال مکروہ ہے، بالخصوص اس وقت جب یہ محض معاشی پریشانی کے احساس پرمبنی ہو؛ البتہ کسی عذر کی بناء پر ہو تو اجازت ہے، مثلاً حمل ٹھہرجانے کی وجہ سے شیرخوار بچہ کے دودھ سے محروم ہوجانے کا اندیشہ ہو یاحمل ٹھہرجانے میں عورت کے صحت کومعمول سے زیادہ خطرہ لاحق ہو؛ البتہ ان اعذار کے باعث بھی جب نرودھ کا استعمال کرے توبیوی سے اجازت لے لینی چاہیے کہ عزل میں بھی یہی حکم ہے، اس لیے کہ عورت کی جنسی تسکین پراس کا اثر پڑتا ہے۔     
(جدیدفقہی مسائل:۱/۲۹۵)

مانعِ حمل دوائیں :

ضبطِ تولید کی ایک صورت یہ ہے کہ مادۂ منویہ توعورت کے رحم میں پہنچ جائے؛ مگرایسی دواؤں کا استعمال کیا جائے کہ استقرارِ حمل نہ ہوسکے، فقہی نظائر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ صورت بھی عام حالات میں ناجائز ہے؛ اگرچہ یہ صحیح ہے کہ ابھی مادہ روح اور زندگی سے خالی ہے، اس لیے اس کوبرباد کردینا، اصطلاحی قتل کے زمرہ میں نہیں آئے گا؛ لیکن اگراس کواپنی حالت پرچھوڑ دیا جاتا توکچھ مدت گزرنے پروہی ایک زندہ نفس کی شکل اختیار کرلیتا، اس لیے مآل کوملحوظ رکھتے ہوئے اس کوقتلِ نفس کے مترادف سمجھا جائےگا؛ اس لیے بلاکسی عذر کے محض اولاد سے بچنے کے لیے ایسے ذرائع کا استعمال جائز نہیں ہے۔     
(جدیدفقہی مسائل:۱/۲۹۷)

اسقاطِ حمل :

عورت کوحمل قرار پانے کے بعد روح اور آثارِ زندگی کے پیدا ہونے سے پہلے پہلے (جس کی مدت چار ماہ بتائی جاتی ہے) اس کوساقط کردینا ناجائز ہے ہی؛ لیکن اس میں رُوح اور آثارِ زندگی کے پیدا ہوجانے کے بعد بالاتفاق ناجائز وحرام ہے اور وَلاَتَقْتُلُواْ أَوْلاَدَكُم (الانعام:۱۵۱) ترجمہ:اپنی اولاد کوقتل مت کرو وَإِذَاالْمَوْؤُودَةُ سُئِلَتْo بِأَيِّ ذَنبٍ قُتِلَتْ (التکویر:۸،۹) ترجمہ: قیامت کے دن زندہ دفن کردی جانے والی معصوم بچیوں سے سوال کیا جائے گا کہ آخر تمھیں کس جرم میں قتل کردیا گیا، کے تحت داخل ہے۔
(ملخص جدید فقہی مسائل:۱/۲۹۸)

فطری ضبطِ تولید :

حیضMencess کے بعد طبی تحقیق کے مطابق کچھ ایام ایسے ہوتے ہیں جن میں عورتوں کوحمل نہیں ٹھہرتا؛ اگرکوئی غیرارادی سے صرف انہی ایام میں صحبت کرے اور جن ایام میں استقرارِ حمل کا امکان ہو ان میں جنسی تعلقات سے احترازکرے توکوئی مضائقہ نہیں؛ لیکن اگرکوئی معاش کا بے جاخوف یاکوئی دوسرا غیرشرعی جذبہ کارفرما ہوتوظاہر ہے کہ اس صورت کا اختیار کرنا بھی ایک غیرشرعی طریقہ ہوگا۔     
(جدید فقہی مسائل:۱/۳۰۲)

نسبندی :

ضبط ولادت کی ایک صورت نسبندی بھی ہے، یعنی ایسا آپریشن جس سے دائمی طور پرقوتِ تولید ختم ہوجائے اور توالدوتناسل کی اہلیت باقی نہ رہے؛ البتہ اس میں اشتہاء وقوتِ جماع باقی رہتی ہے، اس طرح کی ایک صورت اختصاء کی ہے، جس میں آدمی کے فوطوں کی وہ گولیاں نکال ڈالی جائیں جوجنسی صلاحیت اور خاص کرقوتِ تولید کا اصل سرچشمہ ہیں؛ نیز اس میں نہ شہوت رہتی ہے اور نہ جماع پرقدرت، خود آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے اجازت چاہی؛ تاکہ دُنیا سے کنارہ کش ہوکر زیادہ سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں؛ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سختی سے منع فرمایا؛ الغرض یہ دونوں نسبندی اور اختصاء جومرد وعورت کی قوتِ تولید کودائمی طور پرختم کردینے کا ذریعہ ہے، قرآن وحدیث کی رُو سے ایک غیراسلامی طریقۂ کار ہے اور اس کے ناجائز وحرام ہونے میں سبھوں کا اتفاق ہے۔     
(ملخص جدید فقہی مسائل:۱/۳۰۱)

ایسا آپریشن کہ جس سے جماع پرقدرت نہ رہے کروانا کیسا ہے؟
ایسا آٖپریشن کرعالینا جس سے وطی پرقدرت نہ رہے یااولاد پیدا ہونے کی صلاحیت ہی ختم ہوجائے ہرگز جائز نہیں؛ بلکہ سخت گناہ ہے۔
(فتاویٰ محمودیہ:۱۸/۳۰۰)

فیملی پلاننگ کروانا کیسا ہے؟

کوئی ایسی دوایاتدبیر اختیار کرنا کہ ہمیشہ کے لیے ولادت کی صلاحیت ختم ہوجائے یاحمل قرار نہ پائے؛ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں، کثرت آبادی کے خوف سے پیدائش کومحدود کرنا نظامِ خداوندی میں دخل اندازی ہے۔     
(فتاویٰ محمودیہ:۱۸/۳۰۷)

کمزوری کی وجہ سے مانع حمل دوا کا استعمال کرنا کیسا ہے؟

کمزوری کی وجہ سے اگرحمل کا تحمل نہ ہوتوبطورِ علاج ایسی تدبیر اختیار کرنا کہ قوت آنے تک استقرارِ حمل نہ ہودرست ہے؛ شوہر کوبھی ہمبستری سے احتیاط چاہیے؛ خواہش کا غلبہ کوتوروزے رکھے؛ لیکن آپریشن وغیرہ کے ذریعہ تولید کی صلاحیت کوختم کردینا جائز نہیں، سخت معصیت ہے۔            
(فتاویٰ محمودیہ:۱۸/۳۱۸)

فرنچ لیدر اور کنڈوم کا استعمال کرنا کیسا ہے؟
اگرعورت صحت ولادت کا تحمل نہ کرسکے توعارضی طور پراس کی گنجائش ہے۔     
(فتاویٰ محمودیہ:۱۸/۳۱۹)

اکثر عورتیں بچوں میں فرق کرنے کے لئے کوپر ٹی کا استعمال کرتی ہیں جو کہ شرم گاہ کے اندر لگائی جاتی ہے۔ شریعت کی رو سے ایسا کرنا درست ہے یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ان کا غسل وغیرہ صحیح طور سے ٹھیک ہو جائے گا یا نہیں-
Published on: Dec 20, 2012 جواب # 426
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1347-1372/N=2/1434

عورت یا بچہ کی صحت وتندرستی کے پیش نظر دو بچوں کے درمیان فرق کرنے کے لیے عورت کی شرم گاہ میں کاپرٹی لگوانا شرعاً جائز ہے اور اس کے ہوتے ہوئے عورت کا غسل بھی درست ہوگا، بشرطیکہ صحبت کی صورت میں عورت اپنی منی کے خروج کا سلسلہ بند ہوجانے کے بعد غسل کرے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند

حج کا جو چالیس دن کا سفر ہے ان دنوں میں بیوی کے ساتھ ہمبستری جائز ہے یا نہیں، اور جائز ہے تو حمل نہ ٹھہرنے کے لیے ان دنوں میں کسی قسم کا طریقہ استعمال کرنا جیسے دوائی، گولی، گنڈوم، کاپرٹی، وغیرہ جائز ہے یا نہیں؟
AnswerID : 17665Dec 1, 2009
Answer :

فتوی(ل):1900=1518-12/1430

حالت احرام کے علاوہ اسی طرح حج میں سرمنڈانے اور طواف زیارت کرلینے کے بعد اور متمتع کے
لیے عمرہ کرنے کے بعد حلال رہنے کی صورت میں بیوی کے ساتھ ہمبستری جائز ہے۔
(۲) حمل نہ ٹھہرنے کے لیے
مذکورہ بالا چیزوں کا استعمال بلاضرورت مکروہ ہے۔

No comments:

Post a Comment