تحریر: اقبال حسن آزاد
کہتے ہیں کہ ایک دیہاتی شخص اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر شہر گیا۔ایک عالیشان عمارت کے سامنے اس نے بھیڑ دیکھی تو گھوڑا روک کر اُتر پڑا۔ وہاں اس نے دیکھا کہ بہت سارے لوگ ایک کھڑکی کے آگے قطار بنا کر کھڑے ہیں اور جس کا نمبر آتا ہے وہ اپنے ہاتھ میں ایک کاغذ لیے شاداں و فرحاں پلٹتا ہے۔ اس شخص نے ایک آدمی سے دریافت کیا کہ،
یہ کون سی جگہ ہے اور کھڑکی سے لوگوں کو کیسا کاغذ دیا جا رہا ہے؟
جواب ملا کہ یہ یونیورسیٹی ہے اور یہاں لوگوں کو پی ایچ ڈی کی ڈگری دی جا رہی ہے۔
تب اس شخص نے خوش ہو کر کہا کہ اگر ایسا ہے تو ایک ڈگری میں اپنے لیے لے لیتا ہوں اور ایک اپنے گھوڑے کے لیے۔ کہا گیا کہ یہاں صرف گدھوں کو ڈگری دی جاتی ہے ،گھوڑوں کو نہیں۔
بھائی عبد القدوس کے استاد محترم پروفیسر شہاب ثاقب ہمیشہ ان پر مہربان رہے کیونکہ ان جیسا جیسا مطیع و فرماں بردار شاگرد چراغ لے کر ڈھونڈنے سے بھی نہیں ملتا۔ انہوں نے جب کالج میں داخلہ لیا تو پروفیسر موصوف اسی کالج میں تھے۔ استاد نے شاگرد کو اور شاگرد نے استاد کو جب خوب اچھی طرح پہچان لیا تو پھر بھائی کو کالج جانے کی پابندیوں سے رہائی مل گئی۔ اب وہ بجائے کالج جانے کے صبح سویرے پروفیسر صاحب کے دولت کدے پر پہنچ جاتے۔ گھر کا چھوٹا موٹا کام کرتے، سودا سلف لاتے اور ان کے بچوں کو اسکول لے جاتے۔ اس طرح ہنستے کھیلتے کالج کا عرصہ ختم ہو گیا اور انہوں نے پروفیسر صاحب کی مہربانیوں اور سفارشوں سے فرسٹ کلاس سے بی اے اردو آنرز پاس کر لیا۔ اسی دوران پروفیسر موصوف ترقی پاکر یونیورسیٹی پہنچ گئے۔ انہوں نے بھائی عبد القدوس کو مشورہ دیا کہ وہ ایم اے میں داخلہ لے لیں اور اس طرح وہ ایم اے کے طالب علم بن گئے۔ لیکن ان کے معمولات اب بھی حسب سابق تھے۔وہی علی الصباح پروفیسر صاحب کے در دولت پر حاضری دینا اور ان کے گھر کے کاموں میں پروفیسر موصوف کی اہلیہ کاہاتھ بٹانا۔ دو سال دیکھتے ہی دیکھتے گذر گئے اور پروفیسر صاحب کی مہربانیوں سے جس طرح انہوں نے بی اے کیا تھا اسی طرح فرسٹ کلاس ایم اے بھی کر لیا۔ اب ان کے دل میں پی ایچ ڈی کرنے اور پروفیسر بننے کی خواہشیں انگڑائیاں لینے لگیں۔ پروفیسر صاحب ان کے نگراں تو بن گئے لیکن اب سوال یہ پیدا ہوا کہ تھیسس لکھے گا کون؟
آخر پروفیسر صاحب نے ہی ان کی رہنمائی کی اور بتایا کہ یونیورسیٹی کے ایک جونیئر لکچرر جو مناسب حق المحنت پر دوسروں کے لیے مقالے لکھتے ہیں وہی ان کا مقالہ بھی لکھ دیں گے۔ مقالہ کیا لکھتے ہیں بس ایک ہی مقالے کو عنوان بدل بدل کر فروخت کرتے ہیں۔ بہر کیف، مقالہ بھی تیار ہو گیا اور وائیوا کی تاریخ بھی طے ہو گئی۔ پروفیسر صاحب نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ایکسپرٹ کو فرسٹ کلاس اے سی میں بیٹھا کر لائیں۔ ان کے لیے ایک بڑے ہوٹل میں کمرہ بُک کروائیں۔ ان کی خوب خوب خاطر داریاںکریں۔ وائیوا کے دوران اپنے شعبے کے دیگر اساتذہ اور طلباءبھی ہونگے۔ ان سبھوں کے لیے شاندار ناشتے کا انتظام کریں۔ وائیوا ختم ہو جانے کے بعد چند مخصوص لوگوں کے لیے چانکیہ ہوٹل میں لنچ رکھ لیں۔ چنانچہ بھائی عبدالقدوس پروفیسر صاحب کی رہنمائی میں سب کچھ کرتے گئے۔ ویسے پروفیسر صاحب کے ساتھ رہتے رہتے وہ ان سارے مقامات سے واقف ہو چکے تھے جو عارف کو سالک کے درجے تک پہنچا دیتے ہیں۔ سب کچھ ہو جانے کے بعد جب وائیوا شروع ہوا اور ایکسپرٹ نے سوالات کرنے شروع کیے تو یہ ہونق کی طرح اپنے استاد کا منہ دیکھنے لگے۔انہوں نے دل ہی دل میں سوچا کہ مجھ سے تو کہا گیا تھا کہ صرف کھانا پینا ہوگا، یہاں تو سوال جواب ہو رہا ہے۔ استاد محترم ان کے دل کی بات سمجھ گئے اور مشکل کشا بن کر انہوں نے اپنے چپراسی کو ایک مخصوص اشارہ کیا۔چپراسی بھی ایک ہی جہاندیدہ و گرگ باراں دیدہ تھا۔ اس نے فوراً ناشتے کا پیکٹ سرو کرنا شروع کر دیا۔ چنانچہ لوگوں کا دھیان ناشتے کی جانب مبذول ہو گیا اور خوش گپیوں کے دوران ہلکے پھلکے سوالات کئے گئے اور اس طرح وائیوا کامیابی کے ساتھ اختتام پذیر ہوگیا۔ پھر سبھوں نے مل کر بھائی عبد القدوس کو ڈاکٹر بننے کی مبارکباد دی اور انہوں نے نہایت خوشدلی کے ساتھ فرداً فرداً سبھوں کا شکریہ ادا کیا.
Sunday, 8 May 2016
داستان ڈاکٹر بننے کی
Subscribe to:
Post Comments (Atom)
No comments:
Post a Comment