ممبی شہر میں اہل دیوبند کے وہ تین سرخیل جنہوں نے تقریبا 60 سے 70 سال تک پوری جانفشانی کے ساتھ اپنی اپنی سطح پر مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کی اور ہر مرحلہ میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے رہے اور مسلمانوں کے ہر قسم کے مسائل کو ہر ممکن کوشش کرکے حل کرانے کی کوششیں کیں اور نصف صدی سے زائد مسلمانان مہاراشٹرا کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کی خاطر اسکی مظبوطی کے لیے اور انکے دلوں میں ایمان کو راسخ کردینے کی مکمل کوششیں کیں اور انتھائی نامساعد حالات میں سخت ترین مشکلات کا سامنا کرکے ہر قسم کے حالات کو اپنے او پر جہیل کر اپنوں بیگانوں کی بے جا مخالفتوں کو سھ کر للہ فی اللہ دین کی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہ تینوں اپنے اسلاف کے سچے اخلاف کا نمونہ پیش کرنے کے بعد ایک ایک کرکے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے سب سے پہلے داعی اتحاد ملت امین مہاراشٹر حضرت مولانا ظل الرحمٰن صدیقی امام وخطيب مسجد ساتھ راستہ پہر حضرت مولانا شوکت صاحب امام جامع مسجد اور آج یہ دل خراش خبر بھی آہی گئی کہ تیسرے بزرگ بھی داغ مفارقت دے گئے یعنی کہ حضرت مولانا قاری ولی اللہ صاحب امام وخطيب نور مسجد کا بھی انتقال ہوگیا.
رحمہم اللہ ورضی عنہم
انا للہ واناالیہ راجعون اللہ مغفرت فرمائے بڑے مرد حق آگاہ شخص تھے، اللہ غریق رحمت فرمائے درجات کو بلند فرمائے ...لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت کونعم البدل عطافرمائے .اہل مہاراشٹر اور ممبئ کے لیے انکی انتقال کی خبر بہت افسوس ناک ہے کہ،
آئے عشاق گئے وعدے فردا لیکر
اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لیکر
شریک غم
بندہ شمس الرحمٰن صدیقی
رحمہم اللہ ورضی عنہم
انا للہ واناالیہ راجعون اللہ مغفرت فرمائے بڑے مرد حق آگاہ شخص تھے، اللہ غریق رحمت فرمائے درجات کو بلند فرمائے ...لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت کونعم البدل عطافرمائے .اہل مہاراشٹر اور ممبئ کے لیے انکی انتقال کی خبر بہت افسوس ناک ہے کہ،
آئے عشاق گئے وعدے فردا لیکر
اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لیکر
شریک غم
بندہ شمس الرحمٰن صدیقی
علم وفضل اور زہدو تقویٰ
عروس البلاد ممبئی کی علمی و بزرگ شخصیت مولانا وقاری ولی اللہ صاحب امام وخطیب نور مسجد ڈونگری کے سانحہ ارتحال کوبڑا ملی خسارہ قرار دیتے ہوئے معروف عالم دین مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بانی و مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہارنے کہا کہ قاری صاحب کے انتقال پرملال سے شہر ممبئی ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگیا۔ ممبئی میں قاری صاحب کی خدمات تقریبا پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ علم وفضل اور زہدو تقویٰ میں اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے سبب ممبئی حاضر ہو نے والیہر انسان کی دلی تمنا ہوتی تھی کہ وہ قاری صاحب سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل کرے۔ ایسے لوگ اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں جو نام و نمود سے دور رہ کر خلوص و للہیت کے ساتھ دین کی خدمت کرتے ہیں اور دنیا کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔مفتی عثمانی نے کہا حضرت قاری صاحب ان میں سے ایک تھے کہ بڑے بڑے اہل ثروت ان کے پاس جاتے تھے مگر آپ ایسے لوگوں سے پرہیز کرتے تھے، وہ انسانیت کے داعی اور نہایت ہی با اخلاق اور اصول پسند تھے اور ان کی ذات سے قوم و ملت بے شمار فوائد حاصل ہوئے۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں مسنون دعائیں بہت مقبول ہیں۔مفتی عثمانی نے کہا کہ نور مسجد کے امام و خطیب رہتے ہوئے ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے،ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے دعوت و تبلیغ کیلئے اپنی زندگی صرف کردی ہو۔ انہوں نے قاری صاحب کے پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا نعم البدل عطاکرے۔
No comments:
Post a Comment