Tuesday 31 May 2016

دیوبند کے تین سرخیل

ممبی شہر میں اہل دیوبند کے وہ تین سرخیل جنہوں نے تقریبا 60 سے 70 سال تک پوری جانفشانی کے ساتھ اپنی اپنی سطح پر مسلمانوں کی مکمل رہنمائی کی اور ہر مرحلہ میں مسلمانوں کے ساتھ کھڑے رہے اور مسلمانوں کے ہر قسم کے مسائل کو ہر ممکن کوشش کرکے حل کرانے کی کوششیں کیں اور نصف صدی سے زائد مسلمانان مہاراشٹرا کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت کی خاطر  اسکی مظبوطی کے لیے اور انکے دلوں میں ایمان کو راسخ کردینے کی مکمل کوششیں کیں اور انتھائی نامساعد حالات میں سخت ترین مشکلات کا سامنا کرکے ہر قسم کے حالات کو اپنے او پر جہیل کر اپنوں بیگانوں کی بے جا مخالفتوں کو سھ کر للہ فی اللہ دین کی خدمات سرانجام دینے کے بعد یہ تینوں اپنے اسلاف کے سچے اخلاف کا نمونہ پیش کرنے کے بعد ایک ایک کرکے اللہ کے حضور حاضر ہوگئے سب سے پہلے داعی اتحاد ملت امین مہاراشٹر حضرت مولانا ظل الرحمٰن صدیقی امام وخطيب مسجد ساتھ راستہ پہر حضرت مولانا شوکت صاحب امام جامع مسجد اور آج یہ دل خراش خبر بھی آہی گئی کہ تیسرے بزرگ بھی داغ مفارقت دے گئے یعنی کہ حضرت مولانا قاری ولی اللہ صاحب امام وخطيب نور مسجد کا بھی انتقال ہوگیا.
رحمہم اللہ ورضی عنہم
انا للہ واناالیہ راجعون اللہ مغفرت فرمائے بڑے  مرد حق آگاہ  شخص تھے، اللہ غریق رحمت فرمائے درجات کو بلند فرمائے ...لواحقین کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت کونعم البدل عطافرمائے .اہل مہاراشٹر اور ممبئ کے لیے انکی انتقال کی خبر بہت افسوس ناک ہے کہ،
آئے عشاق گئے وعدے فردا لیکر
اب ڈھونڈ انہیں چراغ رخ زیبا لیکر
شریک غم
بندہ شمس الرحمٰن صدیقی
علم وفضل اور زہدو تقویٰ
عروس البلاد ممبئی کی علمی و بزرگ شخصیت مولانا وقاری ولی اللہ صاحب امام وخطیب نور مسجد ڈونگری کے سانحہ ارتحال کوبڑا ملی خسارہ قرار دیتے ہوئے معروف عالم دین مفتی محفوظ الرحمن عثمانی بانی و مہتمم جامعۃ القاسم دارالعلوم الاسلامیہ سپول بہارنے کہا کہ قاری صاحب کے انتقال پرملال سے شہر ممبئی ایک عظیم ہستی سے محروم ہوگیا۔ ممبئی میں قاری صاحب کی خدمات تقریبا پانچ دہائیوں پر محیط ہے۔ علم وفضل اور زہدو تقویٰ میں اعلیٰ مقام پر فائز ہونے کے سبب ممبئی حاضر ہو نے والیہر انسان کی دلی تمنا ہوتی تھی کہ وہ قاری صاحب سے ملاقات کا شرف ضرور حاصل کرے۔ ایسے لوگ اب نایاب ہوتے جا رہے ہیں جو نام و نمود سے دور رہ کر خلوص و للہیت کے ساتھ دین کی خدمت کرتے ہیں اور دنیا کو اپنے قریب نہیں آنے دیتے۔مفتی عثمانی نے کہا حضرت قاری صاحب ان میں سے ایک تھے کہ بڑے بڑے اہل ثروت ان کے پاس جاتے تھے مگر آپ ایسے لوگوں سے پرہیز کرتے تھے، وہ انسانیت کے داعی اور نہایت ہی با اخلاق اور اصول پسند تھے اور ان کی ذات سے قوم و ملت بے شمار فوائد حاصل ہوئے۔ انہوں نے کئی کتابیں تصنیف کی ہیں جن میں مسنون دعائیں بہت مقبول ہیں۔مفتی عثمانی نے کہا کہ نور مسجد کے امام و خطیب رہتے ہوئے ان کی قربانیوں کو فراموش نہیں کیا جا سکتا ہے،ایسے لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں جنہوں نے دعوت و تبلیغ کیلئے اپنی زندگی صرف کردی ہو۔ انہوں نے قاری صاحب کے پسماندگان سے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ان کا نعم البدل عطاکرے۔

No comments:

Post a Comment