Wednesday 11 May 2016

امارات شریعہ اور دارالعلوم پٹنہ کا المناک قضیہ

علامہ فضیل احمد ناصری ابن مولانا جمیل احمد ناصری

گزشتہ کچھ دنوں سے بہار و اڑیسہ و جھارکھنڈ کی متحدہ شرعی انجمن امارت شرعیہ اور اس کی زیر سرپرستی چلنے والا ادارہ دارالعلوم الاسلامیہ، پٹنہ مسلسل سرخیوں میں ہے- باتیں مثبت ہوں تو سرخیوں میں آنا اچھا بھی لگتا ہے اور ان پر تبصرہ کرتے ہوئے طبیعت میں انبساط اور انشراح قلب بھی محسوس ہوتا ہے، مگر قصہ ایسا ہے نہیں، منفی بلکہ پیہم منفی خبروں نے دینی اداروں کے تقدس کی ہوا نکال کر رکھ دی ہے-

کیا سے کیا ہوگیا!

الزامات و اتہامات، کردارکشی و خدمت فراموشی اور بلاوجہ کی تگڑم بازیاں عام ہیں- ہرفریق دوسرے کو غدار، خائن، غیرمخلص اور متملق باور کررہاہے- جن اداروں کے ناخن لاینحل مسائل کی گرہ کشائی کیا کرتے، آج وہ لوگوں کے چہرے مخموش و مخدوش کررہےہیں- جن شخصیات کی تحریریں جھگڑے نمٹایا کرتیں، اب انہیں کا قلم شعلے برسا رہا ہے، تنازعات کھڑے کررہاہے، ایک دوسرے کی عزتیں اتار رہاہے............

جو تھا ....جل گیا!

مقامِ حیرت ہے کہ امارت شرعیہ اور دارالعلوم پٹنہ دونوں صوبۂ بہار میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں، دونوں کا وجود اپنا ایک وقار رکھتا ہے، دونوں ہی کشتئ ملت کی ناخدائی کے مقدس فرائض انجام دے رہے تھے، لیکن کیا کہئے: ـــــ
آگ اس گھر کو لگی ایسی کہ جو تھا، جل گیا-.............
اب نہ خلع کی بات ہے، نہ طلاق کی- نہ مفقود الخبر کا قضیہ ہے، نہ حقوق الزوجین کا- قلبِ موضوع ہوچکا ہے- اس سلسلے کی خبریں پڑھ کر میں جس نتیجے پر پہنچا ہوں وہ یہ ہے کہ دونوں فریق غلطیوں پر ہیں -اربابِ امارت کا دعویٰ ہے کہ مفتی جنید عالم ندوی خائن ہیں، انھوں نے اہتمامِ دارالعلوم الاسلامیہ کی آڑ میں اپنا بیک گراؤنڈ مضبوط کیا ہے، وہ دارالعلوم پر قبضے کی نیت سے دوسروں کو اس میں دخل دینے کی جرأت نہیں دکھاتے، ان میں امیرشریعت کی سمع وطاعت کا جذبہ بھی ہویدا نہیں-

الزامات ....جوابی الزامات :

جبکہ مفتی جنید عالم کی مانئےتو اربابِ امارت اخلاقی حدود کی پامالی کے مرتکب ہیں............ آگے بڑھنے سے پہلے اس قضیۂ نا مرضیہ پر ایک اجمالی نظر ڈالنا ضروری ہے- مفتی جنیدعالم ندوی صاحب امارت شرعیہ کے صدر مفتی ہیں، تیس برسوں سے امارت میں ان کی خدمات جاری ہیں، ان کے دعووں کے مطابق ان کی کوششوں سے امارت سے کئی کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑا ادارہ بنام دارالعلوم الاسلامیہ قائم ہوا، ادارےکےلیے زمین وقف کرنے والے مرحوم احمد رضاخاں تھے، یہ دیوبندی المشرب تھے-مفتی صاحب روز تاسیس سے ہی اس کے مہتمم قرار پائے-

دخل در معقولات کی نامعقول سعی :

دارالعلوم ایک مستقل ادارہ ہے، اس کا امارت سے بس سرپرستی کا تعلق ہے- یہ امارت کی ملکیت نہیں- لیکن اربابِ امارت نےاس پر شب خوں مارتے ہوئے دخل درمعقولات کی نامعقول سعی کرڈالی اور اقدامی کارروائی کرتے ہوئے مفتی جنید عالم صاحب کو نہ صرف یہ کہ اہتمام سے معزول کردیا، بلکہ امارت کےعہدۂ صدارتِ افتا سے بھی ان کی چھٹی کردی- دارالعلوم کا منصب اہتمام اس شان سے چھینا گیا کہ کچھ غنڈے قسم کے لوگ ساتھ رکھ لئے گئےتھے، آناً فاناً ایک نیا مہتمم بھی اپنی طرف سے نامزد کردیا - مزےکی بات یہ کہ فرنگیوں کی پالیسی "لڑاؤ اور حکومت کرو " پرعمل درآمد کرتےہوئے مدرسے کے بعض اساتذہ کو بڑے بڑے عہدوں کی پیش کش کی گئی اور محض 'ایجاب' پر ہی اعلانِ قبول کردیا گیا- یہ لوگ مفتی جنید عالم کے معترفین خدمت تھے، کیسے قبول کرسکتےتھے؟؟؟

عجیب و غریب 'طلاق' اور 'نکاح' :

اس پورے قضیے پر نظر ڈالئے تو ایک لطیفہ سا نکل کر آتا ہے، ایک شخص ایسی عورت کو طلاق دے رہا ہے جو اس کی بیوی نہیں اور بغیر طلاق کے ہی دوسرا شوہر اس عورت پر مسلط کیا جارہاہے- اسی طرح فقط 'ایجاب، سے ہی 'عقد کامل' کا اعلان کردیا گیا، قبول کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی گئی ....خیر!!! دیگر ہم خیالوں کی طرح مرحوم خان کے صاحب زادے طارق رضاخاں کے مطابق مفتی جنید عالم صاحب حق بجانب ہیں- البتہ مفتی صاحب کی دو صفحاتی وضاحتی تحریر میں حضرت قاضی مجاھد الاسلام قاسمی مرحوم کا تذکرہ نہ ہونا بہت بڑی بھول یا خطرناک بددیانتی ہے-

ہٹلرانہ انداز کیوں؟

حضرت قاضی صاحب دارالعلوم کےبانی تھے، دارالعلوم کا تصور انہیں کا پیش کردہ تھا، لیکن پتہ نہیں کیوں، انھوں نے اس حوالے سے کوئی تذکرہ ہی نہیں کیا اور سارا کریڈٹ خود ہی لے اڑے- یہ ان کی بڑی غلطی ہے اور انہیں اس کی صفائی پیش کرنی چاہئے........ مگر ان سے بھی بڑی غلطیاں اربابِ امارت نے کی ہیں- دوسرے کی ملکیت پردھاوا بولنا، دارالعلوم کی شہرت کو زک پہنچانا، غیر شرعی طریقے سے کسی کواس کے عہدے سے معزول کرنا کہاں کی شریعت ہے؟ ...........بالفرض اگر مفتی صاحب میں کچھ جھول اور غل و غش تھا تو اس سے نکلنے کے لیے بہت سے راستے کھلے تھے، یہ ہٹلرانہ انداز کیوں اپنایا گیا؟ ..........

علاقائی عصبیت کا دور دورہ :

یاد رہے کہ امارت سے بہار، اڑیسہ، جھارکھنڈ سبھی متعلق ہیں - سب کو اس سے پیار ہے- امارت سے میرا لگاؤ بایں معنیٰ بھی زیادہ ہے کہ میرے والد مرحوم حضرت مولانا جمیل احمد ناصری (امام جامع مسجد بلہا، کمتول، مدھوبنی) اس کے باقاعدہ نقیب رہے ہیں-لیکن اب جوصورت حال ہے وہ نہایت تکلیف دہ ہے- اب یہاں تعصب ہے، جارحیت ہے، علاقائیت ہے- حضرت قاضی مجاھد الاسلام مرحوم اور مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی مرحوم کے بعد دربھنگہ، مدھوبنی، سیتامڑھی اور سمستی پور کی نمائندگی امارت کے کلیدی عہدوں پر نظر نہیں آتی- ایک علاقے کےلوگ اس پر قابض ہیں- جس طرح قومی کھلیوں میں مسلم نمائندگی عنقا ہے، اسی طرح امارت نے بھی متذکرہ علاقوں کو طاقِ نسیاں کی یادگار بنادیا ہے-

مخدومانہ اور معاندانہ رویہ :

موجودہ امیرشریعت اپنی تمام تر قابلیتوں کے باوجود اس منصب پر نہیں جچتے، ان کا ماضی بعض مواقع پرایسا متنازع رہا کہ ان کی یادیں تازہ رہنے کے باوجود انہیں امیر تسلیم کرنا غیر فطری لگتاہے- وہ قاضی مجاھد الاسلام قاسمی مرحوم کے شاگرد ہیں، مگرمرحوم کے ساتھ ان کا رویہ ہمیشہ مخدومانہ، بلکہ معاندانہ رہا- مزاج میں نرمی کا فقدان ان کی بلند نگاہی پر کاری ضرب لگاتا ہے-

ارباب امارات سے درخواست :

تاہم جب امیر شریعت بن ہی گئے ہیں تو پورے علاقے پر نہ سہی ( کہ یہ دارالاسلام نہیں ) اربابِ امارت پر ان کی سمع وطاعت تو بہرحال فرض ہے- رہے مولانا انیس الرحمن قاسمی، تو علم و قلم کے ماسوا ان میں کوئی اچھائی مجھے دکھائی نہ دے سکی، اس لئے مزید تبصرہ القط- میں ارباب امارت سے درخواست کرتا ہوں کہ خدارا دینی اداروں کی بدنامیوں کا سبب نہ بنیں- آپ کی کرسیوں کی جنگیں عوام کا اعتماد ان اداروں سے اٹھا دیں گی- اپنی انا کی تسکین فرض نہیں، بلکہ ان اداروں کا تحفظ آپ پر فرض ہے- انہیں علوم و معارف کی آماجگاہ ہی رہنے دیجئے،  نہ کہ تسکینِ نفس کی جنگاہ-

No comments:

Post a Comment