حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃاللہ علیہ کا سالِ ولادت سن 1280 ہجری ہے ، تاریخی نام کرم عظیم ہے، تھانہ بھون کے شیوخ فاروقی میں سے تھے ، قرآن شریف حافظ حسین علی سے حفظ کیا ، فارسی اور عربی کی کتابیں وطن میں حضرت مولانا فتح محمد تھانوی رحمۃاللہ علیہ سے پڑھیں جو جو دارالعلوم کے اولیں فارغین میں سے تھے 1295 ہجری کے اواخر میں تکمیل علوم کی غرض سے دارالعلوم میں داخلہ لیا ، 1299 ہجری میں دارالعلوم سے فراغت حاصل کی ، تجوید و قراءت کی مشق مکہ مکرمہ میں قاری محمد عبداللہ مہاجر مکی سے کی_
ذکاوت و ذہانت کے آثار بچپن ہی سے نمایاں تھے ، 1301ہجری میں اولاً مدرسہ فیض عام کانپور میں صدر مدرس مقرر ہوئے اور پھر مدرسہ جامع العلوم کی مسند صدارت کو زینت بخشی ، کانپور میں آپ کے درس حدیث کی شہرت سن کر دور دور سے طلباء کھینچے چلے آتے تھے ، 1315ہجری میں ملازمت ترک کرکے خانقاہِ امدادیہ تھانہ بھون میں متوکلاً علی اللہ قیام فرمایا، جہاں تا دمِ واپسیں 47 سال تک تبلیغ دین ، تزکیہ نفس اور تصنیف و تالیف کی ایسی عظیم الشان اور گراں قدر خدمات انجام دیں جس کی مثال اس دور کی کسی دوسری شخصیت میں نہیں ملتی ، علم نہایت وسیع اور گہرا تھا ، جس کا ثبوت آپ کی تصانیف کا ہر صفحہ دے سکتا ہے ، دین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں تصانیف موجود نہ ہوں _ وہ اپنی تصانیف کی کثرت اور افادیت کے لحاظ سے ہندوستانی مصنفین میں اپنا جواب نہیں رکھتے ، آپ کی چھوٹی بڑی تصانیف کی تعداد ساڑھے تین سو کے قریب ہیں ، برّصغیر کے پڑھےلکھے مسلمان کے کم گھر ایسے ہونگے جو جہاں حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ کی کوئی تصنیف موجود نہ ہو ، ان میں ,, بہشتی زیور،، کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ ہر سال مختف مقامات سے ہزاروں کی تعداد میں چجپتی ہیں اور ہاتھوں ہاتھ نکل جاتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ اردو زبان میں اتنی بڑی تعداد میں دوسری کوئی اور کتاب شائع نہیں ہوتی تو اس میں قطعاً مبالغہ نہ ہوگا، کئی زبانوں میں اس کی ترجمے ہوچکے ہیں - حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ کی ایک امتیازی خصوصیت یہ بھی ہے کہ اپنی تصانیف سے کبھی ایک پیسہ کا فائدہ حاصل مہیں کیا ، تمام کتابوں کے حقوق طبع عام تھے اور جس کا جی چاہے انہیں چھاپ سکتا تھا ، آپ کا ترجمہ قرآن شریف بہت سلیس ، سہل اور عالمانہ ہے ، تفسیر میں بیان القرآن ان کا عظیم الشان کارنامہ ہے ، اسی طرح حدیث میں اعلاء السنن میں فقہ حنفی کی مستدل احادیث کا جو زبردست ذخیرہ کرادیا ہے وہ خود اپنی مثال آپ ہے_
حضرے تھانوی رحمۃاللہ علیہ شیخ المشائخ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمۃاللہ علیہ کے مجاز و خلیفہ تھے ، ان کی بیعت و ارشاد کا سلسلہ بہت وسیع ہے بر صغیر اور اس کے باہر بھی ہزاروں اشخاص نے ان سے اصلاح و تربیت حاصل کی ، چنانچہ حکیم الامت کے لقب سے آپ کی زبردست شہرت تھی ، انکی تصانیف و مواعظ سے لاکھوں افراد کو علمی و عملی فیض پہنچا، عوام و خواص کا جتنا بڑا طبقہ بیعت و ارشاد کی راہ سے اس دور میں ان سے مستفیض ہوا اس کی مثال کم ہی ملےگی ، انکی رفعت و بلندی کا ابدازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ غیر منقسم ہندوستان کے بڑے بڑے صاحب علم و فضل اور اہل کمال ان کے حلقہ بیعت میں شامل تھے _
انکی ذات والا صفات علم و حکمت اور معرفت و طریقت کا ایک ایسا سر چشمہ تھی جس سے نصف صدی تک بر صغیر کے مسلمان سیراب ہوتے رہے ، دین کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں ان کی عظیم خدمات تقریری اور تصنیفی صورت میں نمایاں نہ ہوں ،
مولانا سیّد سلیمان ندوی رحمۃاللہ علیہ کے الفاظ میں :-
" اصلاح امت کی کوشش میں علمی و عملی زندگی کے ہر گوشے پر انکی نظر تھی ، بچوں سے لیکر بوڑھوں تک ، عورتوں سے لیکر مردوں تک ، جاہلوں سے لیکر عالموں تک ، عامیوں سے لیکع صوفیوں تک ، درویشوں اور زاہدوں تک ، غریبوں سے لیکر امیروں تک ان کی نظر مصروف اصلاح و تربیت رہی ، پیدائش،شادی بیاہ، غمی اور دوسری تقریبوں اور اجتماعوں تک کے احوال پر انکی نظر پڑی ، اور شریعت کے معیار پر جانچ کر ہر ایک کا کھرا کھوٹا الگ کیا ، رسوم و بدعات اور مفاسد کے ہر ایک روڑے اور پتھر کو ہٹاکر صراط مستقیم کی راہ دکھائی، تبلیغ، تعلیم، سیاست، معاشرت ، اخلاق و عادات اور عقائد میں دینِ خالص کے معیار سے جہاں کوتاہی نظر آئی اسکی اصلاح کی ، فقہ کے نئے نئے مسائل اور مسلمانوں کی نئی نئی ضرورتوں کے متعلق اپنے نزدیک پورا سامان مہیا کردیا_ اور خصوصیت کے ساتھ احسان و سلوک کی جس کا مشہور نام تصوّف ہے ، تجدید فرمائی ، ان کے سامنے دین کی صحیح تمثال تھی ، اسی کے مطابق مسلمانوں کی موجودہ زندگی کی تصویر میں جہاں جہاں نقائص تھے ان کے درست کرنے میں عمر بھر مشغول رہے، انہوں نے اپنی زندگی اس میں صرف کردی کہ مسلمانوں کی تصویر حیات کو اس کی شبیہ کے مطابق بنادیں جو دینِ حق کے مرقع میں نظر آتی ہے"
اللّٰہ تعالیٰ نے آپ کو استغناء کےساتھ فیّاضی کے جوہر سے بھی نوازاتھا-
ان کے قیامِ کانپور کا واقعہ راقسطور(سیدمحبوب رضوی) نے والدِ مرحوم سے سناہے جو حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ کے بے تکلف دوستوں میں سے تھے ، چوں کہ اس واقعے کا عام طور پر لوگوں کو علم نہیں ہے اس لیے اس کا ذکر کردینا ضروری معلوم ہوتا ہے_
واقعہ یہ کہ کانپور میں حضرے تھانوی رحمۃاللہ علیہ کو جامع العلوم سے پچیس روپے ماہوار تنخواہ ملتی تھی اس میں سے وہ پانچ روپے ہر مہینے والدِ مرحوم کو دیاکرتے تھے تاکہ وہ اپنے طور پر اس رقم کو طلباء پر صرف کردیں ، اس رقم کے ساتھ یہ تاکید بھی تھی کہ کسی کو اس کی خبر نہ ہو کہ اس کا معطی کون ہے، یہ ایک راز دارانہ بات تھی ، حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ کی زندگی میں والدِ مرحوم کے علاوہ کسی کو اس کا علم نہ تھا ، انہوں نے یہ واقعہ حضرت تھانوی رحمۃاللہ علیہ کی وفات کے بعد ان کے محاسن کا ذکر کرتے ہوئے راقم سطور کو سنایا تھا_
حضرت حکیم الامت رحمۃاللہ علیہ کی زندگی بڑی منظم تھی ، کاموں کے اوقات مقرر تھے - اور ہرکام اپنے وقت پر انجام پاتاتھا ، متوسلین کے بہت سے خطوط آتے تھے مگر بقید وقت ہر ایک کا جواب خود اپنے قلم سے تحریر فرماتےتھے_
16/رجب 1362 ہجری کی شب میں نہ تھانہ بھون میں اس جہانِ فانی کو خیربادکہا، تھانہ بھون میں حافظ ضامن شہید رحمۃاللہ علیہ کے مزار کے قریب اُنہی کے باغ میں جسے انہوں نے خانقاہِ امدادیہ کے نام سے وقف کردیاتھا، دفن کیاگیا_ (رحمہ اللہ تعالیٰ رحمۃًواسعہ)------
(ماخوذ تاریخ دارالعلوم دیوبند)
No comments:
Post a Comment