ایس اے ساگر
نفرت کی سیاست کے ذریعہ لوک سبھا میں اکثریت درج کروانے کے نتائج یکے بعد دیگرے سامنے آرہے ہیں. حتی کہ دہلی کی ایک طالبہ کو میٹرو میں سفر کرنے سے صرف اس وجہ سے روک دیا گیا کیونکہ اس نے حجاب پہن رکھا تھا۔ طالبہ حمیرا خان نے اپنے ساتھ ہونے والے اس سلوک کا فیس بک پر اظہار کیا ہے۔ نیز حمیرا نے اس کی شکایت ڈی ایم آر سی سے بھی کی ہے۔
حمیرا کا کہنا ہے کہ 6 مئی کو میور وہار میٹرو اسٹیشن پر اس کے ساتھ یہ سلوک کیا گیا۔ ہمیرا نے بتایا کہ میٹرو اسٹیشن پر سیکورٹی چیکنگ کے دوران لیڈی کانسٹیبل نے اس سے حجاب اتارنے کو کہا۔ اس نے کہا کہ اس کے ساتھ آپ میٹرو میں سفر نہیں کر سکتیں میڈم۔ اس پر حمیرا نے حجاب اتارنے سے انکار کرتے ہوئے سنيئر افسر سے بات کرنے کو کہا۔ بات بڑھنے پر ایک سینئر افسر آیا۔ حمیرا نے کہا کہ اس سے میں نے کہا کہ سر آپ چاہیں تو میرا اسٹوڈنٹ آئی کارڈ چیک کر لیں۔ میں گزشتہ 2 سال سے میٹرو میں سفر کر رہی ہوں۔ آج تک مجھے حجاب پہننے پر کہیں نہیں روکا گیا۔
حمیرا نے کہا کہ میں نے سفر نہ کرنے دینے کا سبب پوچھا تو افسر نے سختی سے کہا کہ میٹرو میں جانا ہے تو حجاب اتارنا ہو گا۔ حمیرا نے بتایا کہ کوئی چارہ کار نہ دیکھ وہ گھر واپس آئی اور فیس بک پر اس واقعہ کو پیش کیا۔ حمیرا نے بتایا کہ اس نے ڈی ایم آر سی میں اس کی شکایت درج کروا دی ہے۔ ساتھ ہی کہا کہ اگر واقعی میں ایسا کوئی اصول ہے جو حجاب پہننے سے روکتا ہے تو اس کی میں مذمت کرتی ہوں۔ حمیرا نے کہا کہ حجاب مسلم خواتین کا مذہبی لباس ہے۔
دہلی میٹرو کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ فی الحال تو ایسی کوئی ہدایت نہیں دی گئی ہے۔ سی آئی ایس ایف اور وزارت داخلہ کی جانب سے سیکورٹی سے متعلق رہنما خطوط جاری کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر ایسا کوئی واقعہ ہوا ہے تو طالبہ اس سلسلے میں ہمیں تحریری طور پر مطلع کر سکتی ہے تاکہ ہم اس معاملے کی تحقیق و تفتیش کر سکیں۔
وہیں سی آئی ایس ایف کے ترجمان ہیمیندر سنگھ نے کہا کہ حجاب پر کسی قسم کی روک نہیں لگی ہے۔ روزانہ ہزاروں خواتین حجاب پہن کر سفر کرتی ہیں۔ صرف چیکنگ کے دوران ہی چہرہ ڈھکنے والا پردہ یا ماسک ہٹانا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسے پہن کر سفر کیا جا سکتا ہے۔ ہمارے پاس ایسی کوئی گائڈلائن نہیں ہے جس میں حجاب یا برقع پر پابندی جیسی بات ہو۔
दिल्ली:
हिजाब पहने होने की वजह से
मेट्रो स्टेशन से निकाला
- http://hindi.siasat.com/?p=819371
No comments:
Post a Comment