ہمارے دلائل کیا ہیں ؟
فریق مخالف کے دلائل کا جواب کیا دیں گے؟
بحوالہ مدلل سیر حاصل بحث فرمائیں۔۔۔۔
تراویح کی بیس رکعتیں ہیں، جو احادیث سے ثابت ہیں جو آٹھ کے قائل ہیں وہ صحیح نہیں. دلائل نیچے ملاحظہ ہو.
تراویح ترویحة کی جمع ہے۔ یعنی اطمینان سے پڑھی جانے والی نماز، ہر چار رکعات کو ایک ترویحہ کہتے ہیں۔ پانچ ترویحہ یعنی بیس (۲۰) رکعات تراویح دس سلاموں کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وامام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام مالک رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه، وجمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نزدیک سنت موکدہ ہے۔
(۱) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ امیر المومین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے مجھے رمضان المبارک میں رات کو تراویح پڑھانے کاحکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے) تراویح نہیں پڑھ سکتے، اس لئے ان لوگوں کو رات میں تراویح پڑھاؤ، حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یاامیرالمومنین! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر عمل نہیں ہے (یعنی باجماعت تراویح) حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا: میں جانتا ہوں لیکن یہی بہتر ہے، تو انھوں نے (حضرت ابی بن کعب رضى الله عنه نے) بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی۔ (اسنادہ حسن، المختارہ للضیاء المقدسی ۱۱۶۱)
(۲) حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں رمضان المبارک کے مہینے میں حضرات صحابہ و تابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے اور وہ سو سو آیتیں پڑھا کرتے تھے اورامیر المومنین حضرت سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں شدت قیام یعنی طول قیام کی وجہ سے اپنی لاٹھیوں پر ٹیک لگایا کرتے تھے۔ (الصیام للفریابی مخرج ۱۷۶، وسنن بیہقی ۴۸۰۱، اس حدیث کے صحیح ہونے پر جمہور محدثین کا اتفاق ہے)
(۳) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه امام مالک کی روایت نقل کرتے ہیں۔ اور امام مالک رحمة الله عليه نے یزید بن خصیفہ رحمة الله عليه کے طریق سے حضرت سائب بن یزید رضى الله عنه سے بیس (۲۰) رکعات نقل کی ہے۔ (فتح الباری)
(۴) علامہ ابن حجر عسقلانی رحمة الله عليه تلخیص الحبیر میں حدیث نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رمضان المبارک کی ایک رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی، دوسری رات بھی صحابہ جب جمع ہوئے تو آپ صلى الله عليه وسلم نے ان کو بیس رکعات تراویح پڑھائی اور جب تیسری رات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد مسجد میں جمع ہوئی تو آپ صلى الله عليه وسلم تشریف نہیں لائے پھر صبح میں ارشاد فرمایا: مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں یہ نماز (تراویح) تم پر فرض کردی جائے اور تم کرنہ سکو۔
بیس (۲۰) رکعات تراویح پر صحابہ وعلماء امت کا اجماع ہے۔
(۱) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں لوگوں کو تراویح باجماعت پڑھنے کا فیصلہ فرمایا۔ یہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے بعد تراویح کی پہلی عام جماعت تھی۔ (صحیح ابن حبان)
(۲) حضرت یزید بن رومان رحمة الله عليه (تابعی) فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں صحابہ تیئس (۲۳) رکعات (بیس رکعات تراویح اور تین رکعات وتر) پڑھا کرتے تھے۔ (موطا امام مالک ۲۵۲، اسنادہ مرسل قوی، آثار السنن ۶/۵۵)
(۳) امام شافعی رحمة الله عليه (تبع تابعی) فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے شہر مکہ مکرمہ میں بیس (۲۰) ہی رکعات تراویح پڑھتے دیکھا ہے۔ (الاُم وسنن ترمذی)
(۴) امام ترمذی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور صحابہ کے عمل کی بنا پر اکثر علماء کے نزدیک تراویح بیس (۲۰) رکعات ہے۔ (سنن ترمذی)
(۵) علامہ علاء الدین کاسانی حنفی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ صحیح قول جمہور علماء کا یہ ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کی امامت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو تراویح پڑھانے پر جمع فرمایا تو انھوں نے بیس رکعات تراویح پڑھائی۔ تو یہ صحابہ کی طرف سے اجماع تھا۔ (بدائع الصنائع)
(۶) علامہ ابن رشد قرطبی مالکی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ امام مالک رحمة الله عليه کے ایک قول کے مطابق اور امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه، امام شافعی رحمة الله عليه، امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اور امام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کے نزدیک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات تراویح سنت ہے۔ (بدایة المجتہد)
(۷)علامہ ابن قدامہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں کہ تراویح کی بیس (۲۰) رکعات سنت موکدہ ہے، سب سے پہلے اس سنت کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ادا فرمایا۔ (المغنی)
(۸) علامہ نووی شافعی رحمة الله عليه لکھتے ہیں۔ تراویح کی رکعات کے متعلق ہمارا (شوافع) کا مسلک وتر کے علاوہ بیس (۲۰) رکعات کا ہے، دس سلاموں کے ساتھ، اور بیس (۲۰) رکعات پانچ ترویحات ہیں اور ایک ترویحہ چار (۴) رکعات کا دو سلاموں کے ساتھ، یہی امام ابوحنیفہ رحمة الله عليه اور ان کے اصحاب اور امام احمد بن حنبل رحمة الله عليه اورامام داؤد ظاہری رحمة الله عليه کا مسلک ہے اور قاضی عیاض رحمة الله عليه نے بیس (۲۰) رکعات تراویح کو جمہو رعلماء سے نقل کیا ہے۔ (المجموع)
(۹) علامہ ابن تیمیہ حنبلی رحمة الله عليه لکھتے ہیں: حدیث سے ثابت ہے کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ (صحابی) نے لوگوں کو بیس (۲۰) رکعات تراویح اور تین رکعات وتر پڑھائی، اسلئے جمہور علماء کے نزدیک یہی سنت ہے۔ کیونکہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے مہاجرین اور انصار کی موجودگی میں بیس (۲۰) رکعات تراویح پڑھائی تو کسی نے اعتراض نہیں کیا۔ (فتاویٰ ابن تیمیہ)
(۱۰) استاذ الاساتذہ مجاہد آزادی شیخ محمود حسن قاسمی دیوبندی رحمة الله عليه فرزند اوّل و سابق شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند فرماتے ہیں کہ جب کبار صحابہ اور خلفاء راشدین بیس (۲۰) رکعات تراویح پر متفق ہوگئے، تو اس سے بڑھ کر کونسی قوی ترین دلیل ہوسکتی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے اقوال وافعال کو سب سے زیادہ جاننے والے وہی حضرا ت تھے۔ جب انھوں نے بیس (۲۰) رکعات کے علاوہ کے قول وعمل کو ترک کیاتو معلوم ہوا کہ بیس (۲۰) رکعات کے سلسلہ میں ان کے پاس قوی ترین ثبوت موجود تھا اور اہل حدیث حضرات جو آٹھ (۸) رکعات تراویح کہتے ہیں، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، یہ ان کی غلط فہمی کا نتیجہ ہے کہ تہجد اور تراویح میں فرق نہیں کرتے، حالانکہ تہجد اور تراویح میں بہت بڑا فرق ہے اس لئے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تہجد پوری رات پڑھنے کی نفی کرتی ہیں جب کہ تراویح سحری تک پڑھی گئی ہے۔
ماہنامہ دارالعلوم ، شمارہ 7 ، جلد: 95 ، شعبان 1432 ہجری مطابق جولائى 2011ء
بیس رکعات تراویح جمہورامت کے نزدیک سنت
از: مولانا محمد شفیع بھٹکلی قاسمی، رضیة الابرار، سلمان آباد، بھٹکل
رمضان المبارک میں رسول اللهﷺ کا معمول باقی دنوں کے مقا بلے میں مختلف ہو تا تھا ۔ تلاوت ،صدقات ،اعتکاف اور دعاوں کا اہتمام فر ما تے ، رات بھر نمازیں پڑھا کر تے ،صحا بہ کرام ثبھی آپ ﷺکے ساتھ نمازوں میں مشغول رہتے ۔ بعض صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین تنہا نماز پڑھتے اور بعض صحا بہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین چھو ٹی چھو ٹی جما عتوں میں نماز پڑھا کر تے ۔ کبھی کبھی آپ ﷺکے پیچھے بھی نماز پڑھنے لگتے ، جب آپ ﷺ کو معلوم ہو تا تو آپ منع فرما تے اور قیام رمضان(تراویح )کے فرض ہو نے کا خدشہ ظاہر فر ما تے ۔
رمضان المبارک میں رسول اللهﷺ اورصحابہ کا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ نماز پڑھنا
(۱) عَنْ زَیْدِ بْنِ ثَابِتٍ : أنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ إتَّخَذَ حُجْرَةً (فِی الْمَسِجِدِ) قال حَسِبْتُ أنَّہ قَالَ: مِن حَصِیْرٍ․ فِی رَمَضَانَ فَصَلَّی فِیہا لَیَا لِیَ، فَصَلَّی بِصَلَا تِہِ نَاسٌ مِنْ أصْحَابِہِ․فَلمَّا عَلِمَ بِہِمْ جَعَلَ یَقْعُدُ ، فَخَرَجَ إلیہم فَقَا لَ: قَدَ عَرَفْتُ الَّذِی رَأیتُ مِنْ صَنِیْعِکُم، فَصَلُّوا أیُّہا النَّاسُ فِی بُیوتِکُم، فإنَّ أفْضَلَ الصَّلاةِ صَلاةُ المرءِ فِی بَیْتِہِ إلَّا الْمَکْتُوبَةَ․ ﴿صحیح بخاری۷۳۱، وصحیح مسلم۱۸۶۲﴾
ترجمہ : حضرت زیدبن ثا بت ص سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے رمضان المبارک میں چٹائی کا ایک حجرہ بنا یا اور اس میں چند راتیں نماز پڑھی ، توکچھ صحا بہ کرام ث نے بھی آپ ﷺ کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپﷺ کو معلوم ہوا، تو آپ (ایک رات) بیٹھ رہے،پھر ارشا د فرما یا : تمہا را اس طرح کرنا مجھے معلوم ہوا، اے لو گو ں ! اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھو؛ اس لیے کہ فرض نمازوں کے علا وہ باقی نماز گھر میں افضل ہے ۔
(۲) عَنْ عَا ئِشَةَ رَضِیَ اللّٰہ ُعَنْہَا قَالَتْ: کَانَ رَسُولُ الله ِﷺ یُصَلِّی مِنَ اللَّیْلِ فِی حُجْرَتِہِ وَجِدَارُ الحُجرَةِ قَصِیرٌ، فَرَأی النَّاسُ شَخْصَ النَّبِیِّ ﷺ، فَقَامَ أنَاسٌ یُصَلُّونَ بِصَلَاتِہِ، فأصبَحُوا فَتَحَدَّثوا بِذَلِک، فَقَامَ لَیلةَ الثَّانِیةِ فَقَامَ مَعَہُ أنَاسٌ یُصَلُّونَ بِصَلَاتِہِ، صَنَعُوا ذَلِک لَیْلَتَیْنِ أوثَلَاثاً، حَتَّی إذا کَانَ بَعدَ ذَلِکَ جَلَسَ رَسُولُ اللهِﷺ فَلَمْ یَخْرُجْ، فَلَمَّا أصبَحَ ذَکَرَ ذَلِکَ النَّاسُ، فَقَالَ: إنِّی خَشِیتُ أن تُکْتَبَ عَلَیکُم صَلَاةُ اللَّیْل․ ﴿صحیح بخاری۷۲۹﴾
ترجمہ: ۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللهﷺایک رات اپنے کمرہ میں نمازپڑھ رہے تھے اور کمرہ کی دیوارچھوٹی تھی،تولوگوں نے رسول الله ﷺ کو دیکھ لیا اور آپ کے پیچھے نمازپڑھنے لگے،جب صبح ہوئی تواس کاچرچہ ہوا۔دوسری رات بھی اسی طرح لوگ نمازپڑھنے لگے۔اس طرح دویاتین رات ہوا۔اس کے بعدرسول اللهﷺ نے وہاں نماز نہیں پڑھی۔جب صبح اس کاتذکرہ ہواتوآپ ﷺنے ارشادفرمایا:مجھے خدشہ ہواکہ کہیں یہ نماز تم پرفرض نہ کردی جائے ۔
(۳) عَنْ أَنَسٍ ص قَالَ: کَانَ رَسُولُ اللهِ ﷺ یُصَلِّی فِی رَمَضَانَ، فَجِئْتُ فَقُمْتُ إلَی جَنْبِہِ، وَجَاءَ رَجُلٌ فَقَامَ أیضاً، حَتَّی کُنَّا رَہْطاً فَلَمَّا حَسَّ النَّبِی ﷺ أنَّاخَلْفَہُ جَعَلَ تَجَوَّزَ فِی الصَّلَاةِ ثُمَّ دَخَلَ فَصَلَّی صَلَاةً لَایُصَلِّیْہَا عِنْدَنَا قَالَ قُلنَا لَہُ حِیْنَ أصْبَحْنَا أفَطِنْتَ لَنَا اللَّیْلَةَ؟ قَالَ فَقَالَ: نَعَمْ ذَلِکَ الَّذِی حَمَلَنِی عَلَی الَّذِی صَنَعْتُ․(الحدیث)․ ﴿صحیح مسلم:۱/۳۵۲﴾
ترجمہ: حضرت انس ث فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ رمضان المبارک میں ایک رات نماز پڑھ رہے تھے ،میں آپ ﷺ کے پہلو میں کھڑا ہو ا ،پھر دوسرا شخص بھی کھڑا ہوا ، اس طرح بہت لوگ ہوگئے ،آپ کو جب معلوم ہوا تو آپ جلدی سے نماز ختم کر کے اندر جا کر نماز پڑھی جب صبح ہوئی تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول الله ﷺ کیا رات میں ہمارا نماز پڑھنا آپ کو معلوم ہوا ؟آپ ﷺ نے ارشاد فرما یا : ہاں ، اسی وجہ سے میں اندر گیا ۔
(۴) عن عَائِشَةَ ز َوْجِ النَّبِیِّﷺ قَا لَتْ کَانَ النَّاسُ یُصَلُّونَ فِی مَسْجِدِ رَسُولِ اللّٰہِ ﷺ فِی رَمَضَانَ بِاللَّیْلِ أوْزاعاً یَکُونُ مَعَ الرَّجُلِ شَیْءٌ مِنَ الْقُرْآنِ فَیَکُونُ مَعَہُ النَّفَرُ الخَمْسَةُ أوِالسِّتَّةُ أوْ أقَلُّ مِنْ ذَلِکَ أوْ أکْثَرُ فَیُصَلُّونَ بِصَلَاتِہِ، الحدیث․ ﴿مسند أحمد ۲۶۳۵۰﴾
ترجمہ:۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہافرماتی ہیں کہ رمضان المبارک کی راتوں میں صحابہ کرام ث مسجد نبوی میں الگ الگ یاچھوٹی چھوٹی جماعتوں میں تراویح پڑھاکرتے تھے۔ جس کوجتنابھی قرآن یادہوتا،وہ پانچ یاچھ یااس سے زیادہ یاکم لوگوں کو تراویح پڑھایاکرتے۔
رسول اللهﷺ کا عام جماعت کے ساتھ تراویح پڑھانا
رمضان المبارک میں عبادت کی کثرت اور رات کی نمازوں کا ذکر احادیث میں ہے کہ رسول اللهﷺ اور صحابہ کرام ث تنہا یا چھوٹی چھوٹی جماعتوں کے ساتھ تراویح پڑھا کرتے تھے۔ کبھی کبھی عام جماعت کے ساتھ بھی تراویح پڑھاتے۔بعض روایات میں ۲۱،۲۲، ۲۳،۲۴ چار راتوں میں تراویح پڑھانا مذکورہے اوربعض روایات میں ۲۳، ۲۵، ۲۷تین راتوں میں تراویح پڑھانا مذکور ہے اوربعض روایات میں دویاتین راتیں تراویح پڑھانامذکورہے؛اس لیے محدثین کاخیال ہے کہ عام جماعت کے ساتھ تراویح ایک سے زیادہ مرتبہ مختلف رمضان میں پڑھی گئی ۔والله اعلم․
(۱) عَنْ أَنَسٍ ص قَالَ: کَانَ النَّبِیُّﷺ یَجْمَعُ أھْلَہُ لَیْلَةَ إِحْدَی وَعِشْرِیْنَ فَیُصَلِّی بِھِم إِلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ، ثُمَّ یَجْمَعُہُم لَیْلَةَ الثْنَتَی وَعِشْرِیْنَ، فَیُصَلِّی بِہِمْ إِلَی نِصْفِ اللَّیْلِ، ثُمَّ یَجْمَعُھُمْ لَیْلَةَ ثَلَاثِ وَعِشْرِیْنَ فَیُصَلِّی بِہِمْ إِلَی ثُلُثَی اللَّیْلِ، ثُمَّ یَأمُرُھُمْ لَیْلَةَ أرْبَع وَعِشْرِیْنَ أنْ یَّغْسِلُوا، فَیُصَلِّی بِہِمْ حَتَّی یَصْبَحَ ثُمَّ لَایَجْمَعُہُمْ․ ﴿قیام رمضان لمحمد بن نصر۱۰، وإسنادہ ضعیف﴾
ترجمہ: حضرت انس ص فرماتے ہیں کہ رسول اللهﷺ نے ۲۱ویں (رمضان)کی رات کوگھروالوں کوجمع فرما کر ایک تہائی رات تک تراویح پڑھائی،پھر۲۲ویں رات کوآدھی رات تک تراویح پڑھائی،پھر۲۳رات کودوتہائی رات تک تراویح پڑھائی، پھر۲۴ویں رات کوسب کوغسل کرنے کاحکم فرمایااورپوری رات تراویح پڑھائی،پھراس کے بعد نہیں پڑھائی۔
(۲) عن أبِی ذَرٍّص أنَّہُ قال لَمَّا کَانَ الْعَشْرُ الاوَاخِرُ أعْتَکَفَ رَسُولُ اللهِ ﷺ فِی الْمَسجِدِ فَلَمَّا صَلَّی النَّبِیُّﷺ صَلَاةَ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ اثْنَیْنِ وَعِشْرِینَ قَالَ إنَّا قَائِمُونَ اللَّیْلَةَ إنْ شَاءَ اللّٰہُ ، فَمَنْ شَاءَ مِنْکُمْ أنْ یَقُومَ فَلْیَقُمْ، وَہِیَ لَیْلَةُ ثَلاَثَ وَعِشْرِیْنَ فَصَلَّاہَا النَّبِیُّ ﷺ جَمَاعَةً بَعْدَ الْعَتَمَةِ حَتَّی ذَہَبَ ثُلُثُ اللَّیْلِ (الاول) ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا کَانَ لَیْلَةَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ لَمْ یَقُلْ شَیْئاً وَلَمْ یَقُمْ، فَلَمَّا کَانَ لَیْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ قَامَ بَعْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ یَوْمَ أَرْبَعٍ وَعِشْرِیْنَ فَقَالَ إِنَّا قَائِمُونَ اللَّیْلَةَ إِنْ شَاءَ اللهُ یَعْنِی لَیْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِیْنَ فَمَنْ شَاءَ فَلْیَقُمْ، فَصَلَّی بِالنَّاسِ حَتَّی ذَہَبَ ثُلُثا اللَّیْلِ (وفی المعجم الأوسط للطبرانی نِصْفِ اللَّیْلِ)، ثُمَّ انْصَرَفَ، فَلَمَّا کَانَ لَیْلَةَ سِتٍّ وَعِشْرِیْنَ لَمْ یَقُلْ شَیْئًا وَلَمْ یَقُمْ فَلَمَّا کَانَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعَصْرِ مِنْ یَوْمِ سِتٍّ وَعِشْرِیْنَ قَامَ فَقَالَ إِنَّا قَائِمُوْنَ إِنْ شَاءَ اللهُ یَعْنِی لَیْلَةَ سبع وعشرین فمن شاء أن یقوم فلیقم․ (وفی روایة وَدَعَا أہْلَہُ ونِسَائَہُ، فَقَامَ بِنَا حَتَّی تَخَوَّفْنَا الْفَلَاحَ․ قُلْتُ لَہُ: وَمَا الْفَلَاحُ؟ قَالَ! السُّحُورُ․) قال أبوذر فتجلدنا للقیام فصلی بنا النبی ﷺ حتی ذہب ثلثا اللیل ثم انصرف إلی قبتہ فی المسجد فقلت لہ إنّا کنا لقد طمعنا یا رسول الله أن تقوم بنا حتی تصبح فقال یا أبا ذر! إنک إذا صلیت مع إمامک وانصرفت إذا انصرف کتب لک قنوت لیلتک․﴿مسندأحمد۱۲۵۴۹، المعجم الأوسط للطبرانی۴۴۲، مسند الشامیین للطبرانی۹۷۲، وصحیح ابن خزیمة ۲۲۰۵، سنن ترمذی ۱۳۲۷، وقال الترمذی: ہذا حدیث حسن صحیح ﴾
ترجمہ:۔ حضرت ابوذر ص فرماتے ہیں کہ ایک سال رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں رسول اللهﷺ نے مسجدمیں اعتکاف فرمایا۔بائیس(۲۲)رمضان المبارک کی عصرکی نمازکے بعدآپ ﷺنے اعلان فرمایاکہ آج عشاء کے بعدتراویح پڑھی جائیگی،جس کاجی چاہے ہمارے ساتھ تراویح پڑھے۔اوریہ۲۳ویں رات تھی،آپ ﷺنے عشا کے بعد تہائی رات تک تراویح پڑھائی،پھر۲۴ویں رات کو تراویح نہیں پڑھائی،اوراعلان بھی نہیں ہوا،پھر۲۴ویں رمضان کے عصرکے بعدآپﷺ نے اعلان فرمایا، آج عشاء کے بعدتراویح پڑھی جائیگی،جس کاجی چاہے ہمارے ساتھ تراویح پڑھے،آپ ﷺنے عشاء کے بعد نصف رات تک تراویح پڑھائی، پھر ۲۶ویں رات تراویح بھی نہیں پڑھائی،اوراعلان بھی نہیں ہوا،پھر۲۶ویں رمضان کے عصر کے بعدآپﷺ نے اعلان فرمایا کہ: آج عشاء کے بعد تراویح پڑھی جائیگی،جس کاجی چاہے ہمارے ساتھ تراویح پڑھے،۲۷ویں رات عورتوں کوبھی کو جمع فرمایا اور پوری رات تراویح پڑھائی کہ ہم کوفلاح(سحری کاوقت ختم ہونے) کی فکرہونے لگی ۔راوی نے حضرت ابوذرص سے پوچھاکہ ”فلاح“ کیاہے؟حضرت ابوذر ص نے فرمایاکہ:” سحری“۔
حضرت ابوذرص فرماتے ہیں:۲۵ویں رات کو آدھی رات تک تراویح پڑھائی تو ہم نے عرض کیا کہ یا رسول الله ﷺ ! پوری رات تراویح پڑھا تے تو اچھا ہوتا ۔آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص امام کے ساتھ پوری تراویح پڑھے، اس کے لیے پوری رات تراویح پڑھنے کا ثواب لکھاجاتاہے ۔
(۳) عَن نُعَیْم بن زِیَادٍ قَالَ: سَمِعْتُ النُّعْمَانَ بْنَ بَشِیرٍص عَلَی مِنْبَرِحِمْصَ یَقُولُ: قُمْنَا مَعَ رَسُولِ اللهِ ﷺ فِی شَہْرِ رَمَضَانَ لَیْلَةَ ثَلَاثٍ وَعِشْرِینَ إلَی ثُلُثِ اللَّیْلِ الأْوَّلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَہُ لَیْلَةَ خَمْسٍ وَعِشْرِینَ إلَی نِصْفِ اللَّیْلِ، ثُمَّ قُمْنَا مَعَہُ لَیْلَةَ سَبْعٍ وَعِشْرِینَ حَتَّی ظَنَنَّا أنْ لَا نُدْرِکَ الْفَلَاحَ․ ﴿سنن نسائی۱۶۰۶، ومستدرک حاکم، باب قیام اللیل فی رمضان، وقال حاکم ھذا حدیث صحیح علی شرط البخاری وقال الذھبی حدیث حسن﴾
ترجمہ: حضرت نعیم بن زیاد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت نعمان بن بشیرص کو منبر حمص پرکھڑے ہو کر فرماتے ہوئے سنا کہ ہم لوگ (صحابہ کرام ث)رمضان المبارک کی ۲۳ویں رات کو رسول اللهﷺ کے ساتھ عشاء کی نماز کے بعد ایک تہائی رات تک تراویح پڑھی ، پھر ۲۵ویں رات کو آدھی رات تک تراویح پڑھی ،پھر۲۷ویں رات کو اتنی رات تک تراویح پڑھی کہ ہم کوگمان ہواکہ ہم کوسحری کاوقت نہیں ملے گا۔
(۴) عن عائشة زوجِ النبیﷺ أن رسولَ الله ﷺ صلَّی فی المسجدِ ذاتَ لیلةٍ، فصلّیٰ بصلاتہ ناسٌ، ثم صلی اللیلةَ القابِلَةَ، فکَثُرَ الناسُ، ثم اجتمعوا من اللیلةِ الثالثةِ أو الرابعةِ، فلم یخرج إلیہم رسولُ الله ﷺ، فلم أصبح، قال: قد رأیت الذی صنعتم، ولم یمنعنی من الخروج إلیکم، إلا أنی خشیت أن تفرض علیکم․ وذلک فی رمضان․ ﴿موطا امام مالک۲۴۸، وصحیح مسلم ۱۸۱۹، وسنن النسائی۱۶۰۴﴾
ترجمہ: رسول اللهﷺکی شریک حیات حضرت عائشہ رضی الله عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللهﷺایک رات مسجد میں نمازپڑھ رہے تھے،تو آپ کے ساتھ صحابہ کرام رضی الله عنہم بھی نمازپڑھنے لگے، دوسری رات بھی ایساہی ہوا، تیسری یاچوتھی رات جب لوگ بہت جمع ہوگئے تو آپﷺ اس رات باہرتشریف نہیں لے گئے، جب صبح ہوئی توآپ نے ارشاد فرمایا: ”تمہارا جمع ہونامجھے معلوم تھا،میں اس لیے نہیں آیا، مجھے اندیشہ ہواکہ یہ نمازتم پرفرض کردی جائے گی“۔ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں کہ یہ واقعہ رمضان المبارک کاتھا۔
(۵) عن ابن شہاب أخبرنی عروة أنَّ عَائشةَ رضی الله عنہا أخْبَرَتْہُ أنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ خَرَجَ لَیْلَةً مِنْ جَوفِ اللَّیلِ فَصَلَّی فِی الْمَسْجِدِ، وَصَلَّی رِجَالٌ بِصَلَاتِہِ، فَأصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا، فَاجْتَمَعَ أکْثَرُ مِنْہُمْ، فَصَلَّی فَصَلَّوْا مَعَہُ، فََأصْبَحَ النَّاسُ فَتَحَدَّثُوا فَکَثُرَ أھلُ الْمَسْجِد مِنَ اللَّیْلَةِ الثَّالِثَةِ، فَخَرَجَ رَسُولُ اََََََََََََََََللّٰہِ ﷺ فَصَلَّی بِصَلَاتِہِ، فَلَمَّا کَانَتِ اللَّیْلَةُ الرَّابِّعَةُ عَجَز َ الْمَسْجِدُ عَنْ أہْلِہِ حَتَّی خَرَجَ لِصَلَاةِ الصُّبْح، فَلَمَّا قَضیٰ الْفَجْرَ أقْبَلَ عَلیٰ النَّاسِ فَتَشَہَّدَثُمَّ قَالَ: أمَّا بَعْدُ فإنَّہُ لَمْ یَخْف َ عَلَیَّ مَکَانُکم․ ولٰکِنِّی خَشِیتُ أنْ تُفْرَضَ عَلَیْکُمْ صَلَاةُ اللَّیْلِ فَتَعْجِزُوا عَنْہَا․ فُتُوفِّی رَسُولُ اللهِ ﷺ وَالأمرُعَلَی ذٰلک․ ﴿صحیح بخاری۹۲۴، وصحیح مسلم۱۸۲۰، وصحیح ابن خزیمة ۲۲۰۷، وصحیح ابن حبان ۲۵۴۳، مسند اسحاق بن راہویہ ۸۲۷﴾
ترجمہ: ابن شہاب(امام زہری رحمہ اللہ )روایت کرتے ہیں کہ مجھ سے عروہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ مجھے حضرت عائشہ رضی الله عنہانے بتایاکہ ایک باردیر رات رسول اللهﷺ اپنے حجرہ سے نکلے اور مسجدمیں نمازپڑھی،اورآپ کے ساتھ کچھ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی نماز پڑھی،جب صبح ہوئی تو اس واقعہ کاچرچا ہواتودوسری رات لوگ زیادہ جمع ہوئے ،توصحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے آپ ﷺ کے ساتھ نمازپڑھی،پھرصبح ہوئی اوراس کااورزیادہ چرچاہوا،توتیسری رات اورزیادہ لو گ جمع ہوئے ،آپ ﷺ باہر تشریف لائے اورنمازپڑھائی۔چوتھی رات مسجدلوگوں سے بھرگئی توآپ ﷺ تشریف نہیں لائے؛یہاں تک کہ صبح ہوئی۔آپ ﷺ صبح کی نمازمیں تشریف لائے، سلام پھیرنے کے بعدصحابہ کی طرف متوجہ ہوکر ارشادفرمایا کہ تم لوگوں کی موجود گی مجھ سے پوشیدہ نہ تھی؛لیکن مجھے خدشہ ہواکہ یہ نماز(تراویح)تم پرفرض کردی جائے اورتم کرنہ سکو، پھر رسول اللهﷺ کی وفات تک اسی طرح تراویح( انفرادی اورچھوٹی جماعتوں کے ساتھ) پڑھی گئی۔
ان احادیث میں رسول اللهﷺ کارمضان المبارک میں انفرادی اور باجماعت تراویح پڑھنا معلوم ہوتاہے۔ تراویح روزہ کے ساتھ ۲ ئھ میں مشروع ہوئی۔اس حساب سے رسول اللهﷺ نے ۹سال تراویح پڑھی ہے۔ کبھی انفرادی پڑھی ،کبھی چھوٹی چھوٹی جماعت کے ساتھ پڑھی،کبھی عام جماعت کے ساتھ؛لیکن کتنی رکعتیں تراویح پڑھی ان روایات میں اسکاذکرنہیں ہے؛ البتہ صحابہ ،تابعین رحمہم اللہ کاعمل بیس رکعات تراویح پڑھنے کا ہے؛اس لیے جمہورعلماء امت نے بیس رکعات تراویح ہی کوسنت قراردیاہے۔ذیل میں چندرویات نقل کی جارہی ہیں جس سے معلوم ہوگا کہ صحابہ وتابعین کاعمل بیس(۲۰)رکعات تراویح کاہے۔
(۱) عَنْ أَبِی الْعَالِیَةِ عَنْ أُبَیِّ بْنِ کَعْبٍ ص: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ص أَمَرَ أبَیًّا أَنْ یُّصَلِّیَ بِالناس فِی رَمَضَانَ، فَقَالَ: إنَّ النَّاسَ یَصُومُونَ النَّہَارَ وَلَایُحْسِنُونَ أنْ یَّقْرَأُوا، فَلَوْ قَرَأتَ القرآنَ عَلَیہِم بِاللَّیْلِ، فَقَالَ: یَا أَمِیْرَالْمُوٴمِنِین! ہَذَا شَیْءٌ لَمْ یَکُنْ، فَقَالَ: قَدْ عَلِمْتُ وَلٰکِنَّہُ أحْسَنُ، فَصَلَّیٰ بِہِم عِشْرِیْنَ رَکْعَةً․
﴿المختارة لضیاء المقدسی۱۱۶۱، وإسنادہ حسن﴾
ترجمہ: حضرت ابوالعالیہ رحمہ اللہ (تابعی م ۹۰ ئھ)روایت کرتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب ص نے فرمایا کہ امیر الموٴمنین حضرت سیدنا عمر بن خطاب ص نے مجھے رمضان المبارک میں لوگوں کو تراویح پڑھا نے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا کہ لوگ دن میں روزہ تو رکھ لیتے ہیں؛ مگر قرآن (یاد نہ ہونے کی وجہ سے ) تراویح نہیں پڑھ سکتے؛اس لیے تم ان لو گوں کو رات میں تراویح پڑھاوٴ، حضرت ابی بن کعب ص نے فرمایا کہ: یا امیر الموٴمنین ! یہ ایسی چیز کا حکم ہے جس پر ابھی تک عمل نہیں ہے (یعنی با جماعت تراویح) حضرت عمر ص نے ارشاد فرمایا :میں جانتا ہوں؛ لیکن یہی بہترہے ،تو انہوں (حضرت ابی بن کعب ص) نے بیس(۲۰) رکعات تراویح پڑھا ئی ۔
(۲) عَنْ عَبْدِ الْعَزِیْزِ بْنِ رَفِیْع، قَالَ: کَانَ أُبَیُّ بْنُ کَعْبٍ ص یُصَلِّی بِالنَّاسِ فِی رَمَضَانَ بِالْمَدِیْنَة، عِشْرِیْنَ رَکْعَةً، وَیُوتِرُ بِثَلاثٍ․ ﴿مصنف ابن أبی شیبة ۷۷۶۶، والترغیب والترہیب لقوام السنة للأصبہانی ۱۷۹۰، إسنادہ مرسل صحیح﴾
ترجمہ: حضرت عبد العزیز بن رفیع رحمہ اللہ (تابعی،م۱۳۰ ئھ )فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب ص رمضان المبارک میں بیس (۲۰)رکعات تراویح اور تین (۳)رکعات وتر مدینہ منورہ میں پڑھاتے تھے ۔
(۳) عن السائب بن یزید ص قال: کانوا یقومون علی عہد عمر فی شہر رمضان بعشرین رکعة، وکانوا لیقرؤن بالمئین من القرآن․ ﴿مسند ابن الجعد ۲۸۲۵، وإسنادہ صحیح علی شرط الشیخین ﴾
ترجمہ: حضرت سائب بن یزیدص (صحابی،م۹۱ ئھ) فرماتے ہیں کہ امیرالمومنین حضرت عمربن خطاب ص کے دورخلافت میں رمضان المبارک کے مہینہ میں صحابہ وتابعین بیس(۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے،اوروہ سو اورسو سے زیادہ آیتوں والی سورتیں پڑھاکرتے تھے۔
(۴) عن الحسن قال: کانوا یصلون عشرین رکعة، فإذا کانت العشرُ الأواخرُ زاد ترویحة شفعین․﴿فضائل رمضان لابن أبی الدنیا۵۳، وإسنادہ صحیح علی شرط مسلم﴾
ترجمہ: حضرت حسن بصری رحمہ اللہ (تابعی،۲۱ ئھ ۱۱۰ ئھ)فرماتے ہیں کہ صحابہ وتابعین رمضان المبارک میں بیس(۲۰) رکعات تراویح پڑھتے تھے، اورآخیری عشرہ میں ایک ترویحہ یعنی چار رکعات کااضافہ فرماتے تھے۔
(۵) عن إبراہیم أن الناس کانوا یصلون خمس ترویحات فی رمضان․ ﴿الآثارلأبی یوسف۲۰۹، وإسنادہ صحیح﴾
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ (تابعی،۵۰ ئھ ۹۶ ئھ)فرماتے ہیں کہ لوگ( صحابہ وتابعین) رمضان المبارک میں بیس (۲۰)رکعات تراویح پڑھتے تھے۔
(۶) عن عطاء بن أبی رباح قال: کانوا یُصَلُّونَ فی شہرِ رمضانَ عشرینَ رکعةً، والوِترَ ثلاثا․ ﴿فضائل رمضان۴۹، ومصنف ابن أبی شیبة ۷۷۷۰، إسنادہ صحیح علی شرط مسلم، تنبیہ القاری۱/۴۳﴾
ترجمہ: حضرت عطاء ابن أبی رباح رحمہ اللہ (تابعی،م ۱۱۴ ئھ) فرماتے ہیں کہ رمضان المبارک میں صحابہ وتابعین بیس (۲۰) رکعات تراویح اورتین(۳) رکعات وتر پڑھتے تھے۔
(۷) عن یونس بن عبید قال: شہدتُ الناسَ قبل وقعةِ ابن الأشعث وہم فی شہر رمضان، فکان یوٴمہم عبدالرحمٰن بن أبی بکرة، وسعید بن أبی الحسن، ومروان العبدی، فکانوا یصلون بہم عشرین رکعة، ولایقنتون إلاّ فی النصفِ الثانی، وکانوا یختمون القرآن مرتین․ ﴿فضائل رمضان لابن أبی الدنیا۵۰، وإسنادہ صحیح علی شرط مسلم، قیام رمضان للمروزی۱/۲۱، و تاریخ دمشق لابن عساکر۳۶/۱۳﴾
ترجمہ:حضرت یونس بن عبید رحمہ اللہ (تابعی،م ۱۳۹ ئھ) فرماتے ہیں کہ واقعہ ابن اشعث (۶۱ ھ) سے پہلے میں نے دیکھاکہ حضرت عبدالرحمن بن ابوبکرہ ،اورسعیدبن ابوالحسن اور مروان عبدی رحمہم اللہ رمضان المبارک میں بیس رکعات تراویح پڑھایاکرتے تھے۔اورنصف رمضان سے دعاء قنوت پڑھاکرتے تھے،اوردومرتبہ قرآن مجیدختم کیاکرتے تھے۔
بعض لوگ بیس(۲۰) رکعات تراویح کے سنت ہونے،اوراس پراجماع کا انکارکرتے ہیں، اور تہجد کے باب کی احادیث اورعبارتوں سے آٹھ رکعات تراویح پر استدلال کرتے ہیں۔ خودبھی دھوکہ میں رہتے ہیں،اور دوسروں کو بھی دھوکہ میں ڈالتے ہیں؛ جب کہ جمہورصحابہ، وتابعین، وتبع تابعین، مجتہدین امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمدبن حنبل، امام سفیان ثوری، امام عبدالله ابن مبارک ، امام داودظاہری، ودیگر فقہاء ومحدثین امام ترمذی، امام بیہقی، علامہ ابن عبدالبر مالکی،امام غزالی ، علامہ کاسانی، علامہ ابن رشد قرطبی مالکی، علامہ ابن قدامہ حنبلی، علامہ رافعی، علامہ ابواسحاق شیرازی، علامہ نووی، علامہ سبکی، علامہ ابن تیمیہ، علامہ ابن الملقن،علامہ زین الدین عراقی، علامہ عینی، علامہ ابن حجر عسقلانی ، علامہ زکریا انصاری، علامہ رملی ،علامہ خطیب شربینی ، علامہ ابن حجر ہیتمی مکی رحمہم اللہ وغیرھم بیس (۲۰) تراویح کے قائل ؛بلکہ بیس (۲۰) رکعات پرعمل پیراء ہیں۔
بیس رکعات پرصحابہ وعلماء کے اتفاق کے بعد آٹھ رکعات تراویح پر اصرار کرنا صحیح نہیں ہے
مسلمانوں کا ایک چھوٹا سا طبقہ آٹھ(۸) رکعات تراویح پر اصرار کرتے ہوئے بیس(۲۰) رکعات تراویح کا انکار کرتا ہے اور حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی گیارہ رکعات والی روایت اور حضرت جابرص کی آٹھ رکعات والی حدیث ہی کو دلیل مانتا ہے جو کسی طرح صحیح نہیں ہے؛ اس لیے کہ
﴿۱لف﴾ حضرت عائشہ رضی الله عنہاکی اس روایت میں رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعات اس ترتیب سے پڑھنے کاذکرہے چار،چاراورتین۔اور دوسری صحیح حدیث میں دس اور ایک رکعات پڑھنے کاذکرہے،اورایک صحیح حدیث میں آٹھ رکعات اور پانچ رکعات ایک سلام کے ساتھ جملہ تیرہ (۱۳)رکعات پڑھنے کاذکرہے۔ اور ایک صحیح حدیث میں نو(۹)رکعات ایک سلام کے ساتھ پڑھنے کاذکرہے۔حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کردہ یہ تمام حدیثیں ایک دوسرے سے رکعات اور ترتیب میں معارض ہیں۔ایک روایت پرعمل کرنے سے دوسری حدیثوں کاترک لازم آئے گا؛لہٰذاان حدیثوں کی توجیہ وتاویل کرنی ضروری ہوگی۔علاوہ دوسرے صحابہ کرام ث سے مروی روایات بھی حضرت عائشہ کی اس روایت سے ترتیب اور رکعات میں مختلف ہیں ،جیسا کہ حضرت عبدالله ابن عباس کی صحیح روایت میں دو رکعات چھ مرتبہ جملہ بارہ (۱۲)رکعات پھر وتر پڑھنے کا ذکرہے۔اورایک مرسل حدیث میں سترہ(۱۷)رکعات پڑھنا مذکورہے۔(مصنف عبدالرزاق۴۷۱۰) لہٰذا حضرت عائشہ کی صرف ایک ہی روایت سے تراویح کی گیارہ رکعات پراصرارکرنا اورباقی حدیثوں کاترک کرنا صحیح نہ ہوگا۔
(۲)حضرت عائشہ رضی الله عنہاکی اس روایت میں أتنام قبل أن توتر کے الفاظ ہیں۔ جس سے معلوم ہواکہ آپ ﷺ سو کراٹھنے کے بعدنمازادافرماتے تھے، اور دوسری حدیثوں سے معلوم ہوتاہے کہ رسول اللهﷺ رمضان کی راتوں میں سوتے نہیں تھے،جیساکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ إذا دَخَلَ رمضانَ شَدَّ مِئْزَوَہ ثم لم یَأتِ فِراشَہ حتی یَنْسَلِخَ (یعنی پورا رمضان بسترکے قریب نہیں آتے تھے)نیز حضرت ابوذرکی حدیث میں پوری رات تراویح پڑھاناثابت ہے؛ لہٰذااس حدیث کوتراویح پرمحمول کرناصحیح نہیں ہے۔
(۳)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت سے ثابت ہوتاہے کہ آپ نے کمرہ میں نماز ادافرماکر آرام فرمایا،جب کہ تراویح کی احادیث میں اکثرمسجدمیں نمازپڑھنے کاذکرملتا ہے؛ لہٰذا گیارہ(۱۱) رکعات کی اس حدیث کوتراویح سے جوڑنا،اور بیس (۲۰)رکعات کی نفی میں اس حدیث کوپیش کرناکسی طرح صحیح نہیں ہے۔
(۴)حضرت عائشہ کی گیارہ (۱۱)رکعات کی روایت کے اخیرمیں أتَنَامُ قَبْلَ أن تُوتِرَ (کیا وتر پڑھے بغیرآپ سوگئے تھے؟) کے الفاظ قابلِ غورہیں،ہوسکتاہے کہ یہ نمازوترہو؛ اس لیے کہ حضرت عائشہ کی دوسری حدیث (صحیح مسلم۱۷۷۳) میں نو(۹)رکعات وترپڑھ کردو رکعات جملہ گیارہ پڑھنے کا ذکرہے۔
﴿ب﴾ حضرت جابر ص کی حدیث میں رسول الله ﷺ کا آٹھ رکعات پڑھا نے کا ذکر ہے؛ لیکن اس حدیث سے بیس رکعات کی نفی پراستدلال کرناصحیح نہیں ہے؛اس لیے کہ (۱)اس حدیث کی سندپرمحدثین نے کلام کیاہے ۔(۲)یہ روایت حضرت جابر ص کی ایک اور حدیث کے معارض ہے جس میں چوبیس(۲۴)رکعات اورتین رکعات وتر پڑھنے کاذکرہے۔ (۳) حضرت جابرص کی حدیث میں صرف ایک رات کا ذکر ہے، بقیہ راتوں کا ذکر نہیں ہے۔ لہٰذااس حدیث سے بیس رکعات کی نفی کرناصحیح نہیں ہے۔(۴)اس حدیث کے اخیر میں کَرِہْتُ أن یُکتَبَ علیکم الوترُ کے الفاظ ہیں۔ اس سے احتمال پیدا ہوتا ہے کہ یہ نماز وترہو۔ آپ ﷺ پہلے کچھ رکعتیں پڑھی ہوں، جیسا کہ دوسری حدیثوں میں آپ کا نمازپڑھ کر سوجانا پھروترپڑھنا ثابت ہے۔نیز آپﷺ کا انفرادی تراویح پڑھنا اورصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کاآپ کونماز پڑھتے دیکھ کر آپ ﷺ کے ساتھ شریک ہونا دوسری حدیثوں سے ثابت ہے۔ ہوسکتا ہے کہ حضرت جابر ص اخیرمیں شریک ہوں۔والله اعلم بالصواب۔امام ابن حبان اورامام ابن خزیمہ رحمہم اللہ نے اس حدیث کووترکے باب میں نقل کیاہے۔
علاوہ ازیں حضرت عبدالله ابن عباسسے رسول اللهﷺ کارمضان المبارک میں بیس (۲۰) رکعات تراویح اورتین رکعات وتر پڑھنامروی ہے ۔ (اگرچہ اس حدیث کے ایک راوی ابوشیبہ ابراہیم بن عثمان رضی اللہ عنہ پرکلام کیاگیا ہے؛ مگران کی روایات کوبہت سے محدثین نے نقل فرماکر سکوت اختیارکیاہے۔ اوراس کی متن کی تائیدمیں دوسری روایات اور عملِ صحابہ بھی موجود ہے، اس لیے اس کوضعیف کہناصحیح نہ ہوگا۔)اور تاریخ جرجان ومخطوطات شیخ ابوطاہراصبہانی میں حضرت جابرص سے رسول الله ﷺ کا رمضان المبارک میں چوبیس(۲۴)رکعات اورتین رکعات وتر پڑھانا منقول ہے اور صحا بہ وتابعین کا عمل بھی بیس(۲۰) رکعات تراویح کا ہے ؛لہٰذا صحابہ ، تابعین اور اکثر علماء امت کے بیس (۲۰) رکعات تراویح پر اتفاق کے بعد آٹھ (۸)رکعات تراویح پر اصرار کرنا اور حدیث صحیح وحدیثِ ضعیف کی بحث کر تے ہوئے بیس رکعات کا انکار کرنا حق اوراجماع سے انحراف کا باعث ہو گا ۔
(١) آٹھ رکعت کی روایت سخت ضعیف ہے اور اجماع صحابہ کے خلاف ہونے کی وجہ سے منسوخ ہے تو آٹھ رکعت تراویح پڑھنے والا صحیح اور محکم حدیثوں کو چھوڑ کر ضعیف اور منسوخ حدیثوں پر عمل کرنے کی وجہ سے سخت غلطی کا شکار ہے۔
(٢) بیس رکعت پڑھنے والے سب حدیثوں کو مانتے ہیں کیونکہ بیس میں آٹھ بھی شامل ہیں اور آٹھ پڑھنے والے صرف ضعیف اور منسوخ روایات کے آستانہ پر دھونی رمائے بیٹھے ہیں اور محکم و صحیح احادیث سے منہ موڑے بیٹھے ہیں۔ (٣) بیس رکعت پڑھنے والے حضرت عمر فاروق کے دونوں حکموں کو مانتے ہیں اور آٹھ پڑھنے والے حضرت عمر کے آخری حکم کے منکر ہیں۔ (٤) بیس رکعت پڑھنے والے فرمان نبوی علیکم بسنتی و سنت الخلفاء الراشدین المہدیین تمسکوابھا وعضوا علیھا بالنواجذ میری اور میرے خلفائے راشدین کے طریقے کو مضبوطی سے پکڑو کے عامل ہیں کیونکہ بیس رکعت با جماعت خلفائے راشدین کے حکم سے شروع ہوئیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والے نہ سنت نبوی کے عامل کیونکہ حدیث جابر منسوخ ہے اور حدیث ابن عباس ،احادیثِ شدتِ اجتہادشَدِّمِئزَرْ وغیرہ پر عمل نہیں کرتے اور نہ سنت خلفاء کے عامل بلکہ دونوں سنتوں کے مخالف ہیں۔
(٥) بیس رکعت پڑھنے والے صراط مستقیم ماانا علیہ واصحابی۔ خیرالقرون قرنی الخ تمسکو ابن مسعود پرگا مزن ہیں اور آٹھ پڑھنے والے سبیل مومنین سے منحرف ہو کر نصلہ جھنم و ساء ت مصیرا کی وعید میں داخل ہیں۔ (٦) بیس رکعت پڑھنے والے سوادِ اعظم اور اجماع اُمّت کے مطابق عمل کر کے خدا کی رحمتوں اور برکتوں کے مستحق بنتے ہیں اور آٹھ رکعت پڑھنے والے من شَذشُذ فی النا ر کی وعید کے سزا وار ہیں۔ (٧) بیس رکعت تراویح پڑھنے والے قیامت کے دن اپنے مقتداؤں یعنی پیغمبرِ اسلامﷺ ، خلفاء راشدین،صحابہ کرام، آئمہ مجتہد ین کے ساتھی ہوں گے اور بیس رکعت سے منع کرنے و الے اٰرأیت الذی ینھٰی عبداً اذا صلٰی کی جماعت میں شامل ہوں گے۔
(٨) رسول پاکﷺ نے فرمایا ان اللّٰہ وضع الحق علی لسان عمر اللہ تعالی نے حق حضرت عمر کی زبان پر رکھا ہے اور دوسری طرف یہ فرمایا کہ شیطان حضرت عمر کے سائے سے بھاگتا ہے اور شیطان کو یہ توفیق نہیں ہوتی کہ حضرت عمر کے راستے پر چل سکے۔ اے بیس رکعت تراویح پڑھنے والو!تم کتنے خوش نصیب ہو کہ حضرت عمر کے دونوں حکموں پر عامل ہو اور حق پرستوں کی جماعت میں داخل ہو اور اے آٹھ رکعات پڑھنے والوں ! تم حضرت عمر کے آخری فرمان سے جس پر ساری اُمّت کا اجماع ہو چکا ہے پِھر کرکس رستے پر جا رہے ہو تم کو یہ توفیق کیوں نہیں کہ حضرت عمر کے راستہ پر چلو۔ آخر میں حضرت حکیم الامت کی کتاب اشرف الجواب ج٢ص ١٠٣ سے ایک اقتباس نقل کر کے ختم کرتا ہوں : ”بھئی سنو! محکمہ مال سے اطلاع آئے کہ مال گزاری داخل کرو اور تمہیں معلوم نہ ہو کہ کتنی ہے تم نے ایک نمبردار سے پوچھا کہ میرے ذمہ کتنی مال گزاری ہے اُس نے کہا آٹھ روپے پھر تم نے دوسرے نمبر دار سے پوچھا اُس نے کہا بیس روپے تو اب بتاؤ تمہیں کچہری کتنی رقم لے کر جانا چاہیے اس شخص نے جواب دیا کہ صاحب بیس روپے لے کر جانا چاہیے۔ اگر بیس روپے ادا کرنے پڑے تو کسی سے مانگنے نہ پڑیں گے اور اگر آٹھ ادا کرنے ہوئے تو باقی رقم بچ رہے گی۔اور اگر میں کم لے کر گیا اور وہاں زیادہ طلب کیے گئے تو کس سے مانگتا پھروں گا۔ مولانا نے فرمایا بس خوب سمجھ لو کہ اگر وہاں بیس رکعتیں طلب کی گئیں اور ہیں تمہارے پاس آٹھ تو کہاں سے لا کر دو گے اور اگر بیس ہیں اور طلب کم کی گئیں تو بچ رہیں گی اور تمہارے کام آئیں گی۔ ”
علماء احناف کا موقف
🔍1⃣Mulla Ali qari hanafi rah
ملا علی قاری رح اور ۲۰ تراویح
🎥 https://youtu.be/uRBCitO_Dkw
🔍2⃣Shaykh Ibn e Nujaym Hanafi rah
شیخ ابن نجیم اور ۲۰ تراویح
🎥 https://youtu.be/_3iOSVoSd2k
🔍 3⃣Allama ibn e humam rah
علامہ ابن ھمام اور ۲۰ تراویح
🎥https://youtu.be/AfZto9WNh30
🔍4⃣Allama Tahtawi Hanafi rah
علامہ طحطاوی اور ۲۰ تراویح
🎥 https://youtu.be/P4i3D7XdMXk
🔍5⃣Shaykh Zakrya Hanafi rah
شیخ زکریا رح اور ۲۰ تراویح
🎥 https://youtu.be/p8dqFm9jves
🔍6⃣Allama Anwar Shah Kashmiri rah
علامہ کشمیری اور ۲۰ تراویح.
https://youtu.be/945DDW9Z5LM
آج کا سوال نمبر 182
20شعبان 1437 ھ مطابق 28مئی
2016 بروز شنبہ۔
تراویح آٹھ رکعات ہے یا بیس رکعات ہے ؟
http://saagartimes.blogspot.in/2016/05/blog-post_57.html?m=1
آج کا سوال نمبر 182
20شعبان 1437 ھ مطابق 28مئی
2016 بروز شنبہ۔
تراویح آٹھ رکعات ہے یا بیس رکعات ہے؟
2016 بروز شنبہ۔
تراویح آٹھ رکعات ہے یا بیس رکعات ہے؟
No comments:
Post a Comment