ایس اے ساگر
ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ کم از کم برائی کو برا سمجھے. اہل علم نے اسے ایمان کا آخری درجہ قرار دیا ہے. لیکن اس کا کیا کیجئے کہ دن بھر ایسے کتنے ہی کام کئے جاتے ہیں جن کے گناہ ہونے کا احساس تک نہیں ہوتا. مثال کے طور پر ریڑھی سے انگور، مونگ پھلی، چنے وغیرہ خریدنے سے پہلے نرخ پوچھتے ہوئے بغیر اجازت کھانا شروع کر دینا،
جیسے گذرتی ہوئی ٹرالی سے دوڑ کر گنا کھینچ لینا،
جیسے موٹر سائیکل پہ ایسا ہارن لگوانا کہ جو سنے راستہ دینے پہ مجبور ہوجائے،
جیسے نہاتے ہوئے زیادہ پانی بس ڈالتے چلے جانا،
جیسے وضو کے وقت مسواک کی سنت اداکرتے ہوئے ٹونٹی پہ قبضہ جمائے رکھنا، جبکہ دوسرے لوگ وضو کے لئے خالی جگہ کا انتظار کر رہے ہوں،
جیسے نمازیوں کے سروں پر سے گذرتے ہوئے پہلی صف میں پہنچنا،
جیسے صبح کے وقت دوکان پہ بلند آواز سے تلاوت لگا دینا ،
جیسے مسجد میں پہنچ کر باتیں کرتے رہنا،
جیسے وضو کرنے کے لئے اپنے شوز اتار کر بغیر اجازت کسی اور کی چپل پہن لینا،
جیسے رمضان میں ہر تراویح پڑھنے والے سے فنڈز مانگنا تاکہ مٹھائی بانٹی جا سکے،
جیسے شادی کے موقع پہ دلہن کی بہن کے ہاتھوں دولہا کو دودھ پیش کرنا،
جیسے کوڑا کرکٹ گلی میں پھینکنا،
جیسے سفر کرتے ہوئے اس انداز سے ناک صاف کرنا کہ چھینٹے ساتھ گذرنے والے پہ بھی اثر انداز ہوں،
جیسے مہمان کو نظر انداز کرتے ہوئے فون میں مصروف ہو جانا،
فرق سمجھنے کی ضرورت :
ایسے لوگوں کو یہ کون سمجھائے کہ گناہ کو گناہ سمجھنا نہایت ضروری ہے، یہ بات بظاہر اہم محسوس نہیں ہوتی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر انسان میں احساس ندامت باقی رہے تو پلٹ آنے کی امید باقی رہتی ہے. مگر اگر گناہ کی سنگینی کا احساس دل سے کافور ہو جائے تو پھر ایسا شخص زندگی بھر اسی بدعملی میں ملوث رہتا ہے. ہم جانتے ہیں کہ ابلیس نے اللہ رب العزت کے حکم کو ماننے سے انکار کیا تھا اور ہم اس سے بھی واقف ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام نے بھی ممنوعہ شجر کا پھل کھاکر اللہ رب العزت کے صریح حکم کی خلاف ورزی کی تھی. پھر وہ کون سا فرق تھا جس کی بنیاد پر ابلیس تاقیامت ملعون قرار پایا اور آدم الہے سلام کو پھر بھی خلیفہ الارض کی خلعت پہنائی گئی؟ فرق اس سے زیادہ کچھ نہ تھا کہ ابلیس نے اعتراف جرم کی بجائے ، اللہ تعالیٰ پر بھٹکانے کا الزام لگایا. جبکہ حضرت آدم علیہ السلام نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے احساس ندامت ظاہر کیا. اس سے معلوم ہوتا ہے کہ احساس ندامت رکھنا کس قدر موثر اور ضروری ہے.
شیطانی ترکیب :
شروع شروع میں شیطان بہت پریشان رہا کرتا تھا، وہ بڑی سخت محنت کے بعد کسی کو گناہ پر آمادہ کرتا. اسے نماز پڑھنے سے روکتا یا جھوٹ بولنے پر اکساتا مگر جیسے ہی اس شخص کو اپنے گناہ کا احساس ہوتا تو وہ فوری اللہ پاک سے معافی مانگ لیتا. نتیجہ یہ کہ میری رب کی رحمت سے وہ نہ صرف معافی حاصل کرلیتا بلکہ بعض اوقات اس کا مرتبہ بھی بڑھا دیا جاتا. یہ دیکھ کر شیطان نے ایک ترکیب نکالی کہ انسان سے گناہ کچھ اس ڈھنگ میں کرواۓ جائیں کہ وہ انہیں گناہ سمجھ کر نہیں بلکہ ثواب جان کر انجام دے. اب جب کسی عمل کو گناہ سمجھا ہی نہ جائے بلکہ یہ سوچا جائے کہ اس سے آپ متقی ہو رہے ہیں تو پھر ظاہر ہے کہ توبہ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا.
دین کی سمجھ :
گناہوں کو چھوٹا ، کم تر مت جانئے۔ گناہ چھوٹے ہوں یابڑے گناہ تو گناہ ہوتے ہیں۔ ارتکاب گناہ میں لا پروائی برتنا، بار بار وہی گناہ کرنا، ان صغیرہ گناہوں کوکچھ نہ سمجھنا، اپنے آپ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے ’’گناہوں کو چھوٹا نہ سمجھو، ایک قوم چھوٹی چھوٹی لکڑیاں جمع کرکے آگ جلاتی ہے پھر اپنی روٹیاں پکاتی ہے گناہوں کو چھوٹا سمجھنا، اپنے آپ کوہلاک کرتاہے‘‘۔
(مسند احمد)۔
یہ مسئلہ بہت سنگین ہے اس لئے بہت غور و فکر کی ضرورت ہے. امام ابن القیم فرماتے ہیں،
’’یہ مسئلہ اہم ترین ہے لوگ کبیرہ گناہوں سے بچتے ہیں ۔خوف کھاتے ہیں ۔لیکن صغیرہ گناہوں میں بے پرواہی کرتے ہیں ۔ان سے پرہیز نہیں کرتے ۔آہستہ آہستہ ان صغیرہ گناہوں کاجم غفیر اکھٹا ہوجاتا ہے پھر کبیرہ گناہوں میں سے بھی خوف کم سے کم ہوتا چلا جاتا ہے‘‘۔
(مدارج السالکین )۔
(1) کثرت صغیرہ گناہ سے ہلاکت و بربادی پیدا ہوتی ہے ۔
(2) گناہوں کو حقیر یا چھوٹا سمجھنا آہستہ آہستہ کبیرہ گناہوں کی طرف راغب کردیتا ہے ۔گناہوں کاچھوٹا یابڑا ہونا نہ دیکھئے بلکہ یہ دیکھئے کہ ہم کس کی نافرمانی کر رہے ہیں ۔ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی تو پھر سوچئے کہ گرفت ہوئی تو کیا ہوگا! ذرا ہم سوچیں تو سہی ہم کتنے غافل ہوچکے ہیں کہ گناہ کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ اللہ ہمیں اپنے دین کی سمجھ عطا فرمائے۔
آمین
No comments:
Post a Comment