حضرت مولانا مشرف علی تھانوی رحمہ اللہ
حضرت مولانا مشرف علی تھانوی کی نماز جنازۃ مسجد نبوی شریف مدینہ منورہ میں ادا کرنے کے بعد جنة البقيع میں تدفین کردی گئی، شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی دامت برکاتھم نے حضرت کو غسل دیا حضرت تھانوي رحمة الله عليه
ہمیشہ کیلئے غم خوار کے دامن میں سوگئے
انا لله وانااليه راجعون
حضرت تھانوي صاحب "رحمة الله عليه "
مختصرتعارف:
ہمیشہ کیلئے غم خوار کے دامن میں سوگئے
انا لله وانااليه راجعون
حضرت تھانوي صاحب "رحمة الله عليه "
مختصرتعارف:
حضرت مولانا مشرف علی تھانوی صاحب رحمۃ اللہ علیہ اس وقت وطن عزیز کے ان اکابر میں سے تھے جن کی نظیریں خال خال ہی ہوا کرتی ہیں، وہ ایک جید عالم دین، انتہائی متقی و پرہیز گار، متبع سنت شیخ اور ذی فہم و ذی استعداد شخصیت کے مالک اپنی مثال آپ تھے، مولاناؒ نے اپنی اجازتِ حدیث کی تفصیل ایک بار بیان فرمائی تھی وہ یہاں نقل کی جارہی ہے:
اکابر و مشائخ سے اِجازتِ حدیث کا تذکرہ:
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میں تعلیم سے فراغت کے بعد سب سے پہلے حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا. اُن دِنوں وہ یہیں پاکستا ن میں تھے، جب میں نے جامعہ اشرفیہ سے حدیث کی تکمیل کی اور اُن سے اِجازتِ حدیث کا شرف حاصل کیا تو میں نے اِجازت ِ حدیث کے لیے ہندوستا ن کا سفر کیا، اور گھر سے چلتے وَقت یہ نیت کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان اکابر اور بزرگوں کی دُعاؤں کی برکت سے حدیث پڑھانے کی توفیق عنایت فرمائیں گے، چنانچہ دَارُالعلوم دِیوبند جاکر اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم بلیاوِی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، بعد ازاں دَارُ العلوم دِیوبند کے اُس وقت کے شیخ الحدیث حضرت مولانا فخر الدین امروہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، بعد ازاں سہارَنپور کا سفر کیا اور حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحبؒ سے اِجازتِ حدیث کے لیے حاضر ہوا۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث کا عجیب قصہ:
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
حضرت شیخؒ سے اِجازتِ حدیث کا قصہ بھی بڑا عجیب ہوا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح بعدِ ظہر مجلس فرمایا کرتے تھے جب کہ اُن کا بعدِ عصر آرام کا معمول تھا، چنانچہ عصر کے بعد اُن کے پاس جانے کی اِجازت نہیں ہوتی تھی۔
جب میں گیا تو دَروَازے کے پاس مجھے روک لیا گیا۔ تو میں نے اُس کو زور سے ہاتھ مار کر پیچھے کی طرف ہٹایا اور سیدھا حضرت شیخؒ کی خدمت میں چلاگیا، حضرتؒ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اُن کے ساتھ برابر میں دعوت و تبلیغ کے امیرِ ثانی اور حضرت جی مولانا محمد اِلیاس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرماتھے، (جو حضرت شیخؒ کے چچا زَاد بھائی بھی تھے) پہلے اُن سے مصافحہ کیا، اُس کے بعد حضرت شیخؒ سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو حضرت شیخؒ نے کہا کہ بس مصافحہ کرئیے گا معانقہ نہیں کرئیے گا۔ تو میں نے کہا کہ آپ کیسے معانقہ کریں گے آپ تو لیٹے ہوئے ہیں، معانقہ کے لیے آپ کو کھڑا ہونا پڑےگا۔ کہنے لگے عجیب ہے تو! لیٹے ہوئے سے معانقہ کرنا نہیں آتا، میں چپ رَہا تو حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ بھائی! لیٹے لیٹے اِن کے سینے پر اپنا سینہ رَکھ دے معانقہ ہوجائے گا، تو میں نے بڑے ادَب سے چارپائی کی دونوں جانب اپنا ہاتھ رَکھ کرسینہ بہ سینہ ملانا چاہا تو حضرت شیخؒ نے زور سے دونوں طرف ہاتھ کھول کر جھٹکا مارا تو میں بڑی زور سے حضرت کے اُوپر گرا تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں بھائی! معانقہ کا مزہ آیا کہ نہیں؟ یہ سن ۶۲ء کی بات ہے۔ اسی وقت میں نے حضرت شیخؒ سے عرض کیا کہ حضرت! میں اِجازتِ حدیث کے لیے حاضر ہواہوں تو حضرت شیخؒ نےکہا کہ ابھی تو میں لیٹا ہوا ہوں، آرا م کا وقت ہے تو حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ایک آدمی اِتنی دور سے صرف اِجازتِ حدیث کے لیے آیا ہے تو دے دیں۔ تو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اُوپر تشریف لے گئے اور کتابوں کے کمرے میں لے جاکر باقاعدہ اِجازتِ حدیث دِی اور فرمایا کہ میری مہر لگی ہوئی سند لے لو، تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے تو آپ کے دَستخط کے ساتھ سند چاہیے، اس پر حضرتؒ نے شفقت فرمائی اور اپنی مہر اور دَستخط کے ساتھ سند عطافرمائی۔
اس کے بعد قاری جلیل صاحب کے بڑے بھائی حضرت مولانا جمیل الرحمٰن مد ظلہ ٗ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، حضرت مولانا جمیل الرحمن صاحب؛ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کے شاگرد ہیں جو حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کے شاگرد تھے۔
اس کے بعد حضرت مولانا فاروق احمد امروہیؒ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، جو جامعہ عباسیہ بہاول پور کے شیخ تھے۔ اس کے بعد یہاں دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت حکیم الاسلام مولانا قارِی محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، تو اُن سے اِجازتِ حدیث حاصل کی۔ بعد ازَاں دار العلوم ٹنڈو الہ یار گیا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ ظفر احمد صاحب عثما نی رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی۔ بعد ازاں ڈیرہ غازِی خان کا سفر کیا اور مولاناؒ کے ایک شاگرد ہیں اور انہیں ایک اِجازت حرمین شریفین سے بھی حاصل تھی اُن سے بھی اِجازت حا صل کی۔
(پیغام محبت، شائع کردہ: خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ، کراچی)
اکابر و مشائخ سے اِجازتِ حدیث کا تذکرہ:
:::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
میں تعلیم سے فراغت کے بعد سب سے پہلے حضرت مولانا شاہ عبد الغنی صاحب پھولپوری رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا. اُن دِنوں وہ یہیں پاکستا ن میں تھے، جب میں نے جامعہ اشرفیہ سے حدیث کی تکمیل کی اور اُن سے اِجازتِ حدیث کا شرف حاصل کیا تو میں نے اِجازت ِ حدیث کے لیے ہندوستا ن کا سفر کیا، اور گھر سے چلتے وَقت یہ نیت کی کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان اکابر اور بزرگوں کی دُعاؤں کی برکت سے حدیث پڑھانے کی توفیق عنایت فرمائیں گے، چنانچہ دَارُالعلوم دِیوبند جاکر اُستاذ الاساتذہ حضرت علامہ مولانا محمد ابراہیم بلیاوِی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، بعد ازاں دَارُ العلوم دِیوبند کے اُس وقت کے شیخ الحدیث حضرت مولانا فخر الدین امروہی صاحب رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، بعد ازاں سہارَنپور کا سفر کیا اور حضرت شیخ مولانا محمد زکریا صاحبؒ سے اِجازتِ حدیث کے لیے حاضر ہوا۔
شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث کا عجیب قصہ:
::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::::
حضرت شیخؒ سے اِجازتِ حدیث کا قصہ بھی بڑا عجیب ہوا کہ حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی طرح بعدِ ظہر مجلس فرمایا کرتے تھے جب کہ اُن کا بعدِ عصر آرام کا معمول تھا، چنانچہ عصر کے بعد اُن کے پاس جانے کی اِجازت نہیں ہوتی تھی۔
جب میں گیا تو دَروَازے کے پاس مجھے روک لیا گیا۔ تو میں نے اُس کو زور سے ہاتھ مار کر پیچھے کی طرف ہٹایا اور سیدھا حضرت شیخؒ کی خدمت میں چلاگیا، حضرتؒ چارپائی پر لیٹے ہوئے تھے اُن کے ساتھ برابر میں دعوت و تبلیغ کے امیرِ ثانی اور حضرت جی مولانا محمد اِلیاس صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ تشریف فرماتھے، (جو حضرت شیخؒ کے چچا زَاد بھائی بھی تھے) پہلے اُن سے مصافحہ کیا، اُس کے بعد حضرت شیخؒ سے مصافحہ کرنے کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا تو حضرت شیخؒ نے کہا کہ بس مصافحہ کرئیے گا معانقہ نہیں کرئیے گا۔ تو میں نے کہا کہ آپ کیسے معانقہ کریں گے آپ تو لیٹے ہوئے ہیں، معانقہ کے لیے آپ کو کھڑا ہونا پڑےگا۔ کہنے لگے عجیب ہے تو! لیٹے ہوئے سے معانقہ کرنا نہیں آتا، میں چپ رَہا تو حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ بھائی! لیٹے لیٹے اِن کے سینے پر اپنا سینہ رَکھ دے معانقہ ہوجائے گا، تو میں نے بڑے ادَب سے چارپائی کی دونوں جانب اپنا ہاتھ رَکھ کرسینہ بہ سینہ ملانا چاہا تو حضرت شیخؒ نے زور سے دونوں طرف ہاتھ کھول کر جھٹکا مارا تو میں بڑی زور سے حضرت کے اُوپر گرا تو حضرت نے فرمایا کہ ہاں بھائی! معانقہ کا مزہ آیا کہ نہیں؟ یہ سن ۶۲ء کی بات ہے۔ اسی وقت میں نے حضرت شیخؒ سے عرض کیا کہ حضرت! میں اِجازتِ حدیث کے لیے حاضر ہواہوں تو حضرت شیخؒ نےکہا کہ ابھی تو میں لیٹا ہوا ہوں، آرا م کا وقت ہے تو حضرت جی مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی رحمۃ اللہ علیہ نے کہا کہ ایک آدمی اِتنی دور سے صرف اِجازتِ حدیث کے لیے آیا ہے تو دے دیں۔ تو حضرت شیخ رحمۃ اللہ علیہ اُوپر تشریف لے گئے اور کتابوں کے کمرے میں لے جاکر باقاعدہ اِجازتِ حدیث دِی اور فرمایا کہ میری مہر لگی ہوئی سند لے لو، تو میں نے عرض کیا کہ حضرت! مجھے تو آپ کے دَستخط کے ساتھ سند چاہیے، اس پر حضرتؒ نے شفقت فرمائی اور اپنی مہر اور دَستخط کے ساتھ سند عطافرمائی۔
اس کے بعد قاری جلیل صاحب کے بڑے بھائی حضرت مولانا جمیل الرحمٰن مد ظلہ ٗ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، حضرت مولانا جمیل الرحمن صاحب؛ حضرت مولانا عبد الرحمن صاحب کے شاگرد ہیں جو حضرت مولانا احمد علی سہارنپوریؒ کے شاگرد تھے۔
اس کے بعد حضرت مولانا فاروق احمد امروہیؒ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی، جو جامعہ عباسیہ بہاول پور کے شیخ تھے۔ اس کے بعد یہاں دار العلوم دیوبند کے سابق مہتمم حضرت حکیم الاسلام مولانا قارِی محمد طیب صاحب قاسمی رحمۃ اللہ علیہ تشریف لائے، تو اُن سے اِجازتِ حدیث حاصل کی۔ بعد ازَاں دار العلوم ٹنڈو الہ یار گیا اور شیخ الاسلام حضرت مولانا علامہ ظفر احمد صاحب عثما نی رحمۃ اللہ علیہ سے اِجازتِ حدیث حاصل کی۔ بعد ازاں ڈیرہ غازِی خان کا سفر کیا اور مولاناؒ کے ایک شاگرد ہیں اور انہیں ایک اِجازت حرمین شریفین سے بھی حاصل تھی اُن سے بھی اِجازت حا صل کی۔
(پیغام محبت، شائع کردہ: خانقاہِ امدادیہ اشرفیہ، کراچی)
No comments:
Post a Comment