Tuesday, 1 May 2018

طلاق کا اختیار مرد کو کیوں؟

طلاق کا اختیار مرد کو کیوں؟
ملا جی! ایک سوال پوچھنا ہے مگر ڈر لگتا ہے کہ آپ کوئی فتوی ہی نہ لگا دیں۔
پوچھو پوچھو! سوال پوچھنے پر کوئی فتوی نہیں۔
یہ بتائیں کہ اسلام مرد کو طلاق کا حق دیتا ہے، عورت کو کیوں نہیں دیتا؟ کیا عورت انسان نہیں؟ کیا اس کے حقوق نہیں؟ یہ کیا بات ہے کہ مرد تو جب جی چاہے عورت کو دو حرف کہہ کر فارغ کردے اور عورت ساری زندگی اس کے ظلم کی چکی میں پسنے کے باوجود بھی اپنی جان بخشی نہ کرواسکے؟
کیا یہ ظلم نہیں؟
تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں، مگر پہلے تم مجھے ایک بات بتاؤ۔۔!
جی ملا جی۔
یہ بتاؤ کہ تم ایک بس میں کہیں جانے کے لئے سوار ہوئے، بس والے کو کرایہ دیا، ٹکٹ لی، سیٹ پر بیٹھے، سفر شروع ہوا۔ کیا بس والا تمہیں منزل پر پہنچنے سے پہلے کہیں راستے میں، کسی جنگل، کسی ویرانے میں اتارنے کا حق رکھتا ہے؟
بالکل نہیں۔
ٹھیک۔ اب یہ بتاؤ کہ اگر تم راستے میں کہیں اترنا چاہو تو تمہیں اس کا حق حاصل ہے یا نہیں۔
بالکل ہے، میں جہاں چاہوں اترسکتا ہوں۔وجہ؟
وجہ یہ ملا جی کہ وہ مجھ سے کرایہ لے چکا ہے، لہذا منزل سے پہلے کہیں نہیں اتار سکتا اور میں جہاں چاہوں اترسکتا ہوں، وہ مجھے نہیں روک سکتا، اس لئے کہ اس کا کام کرائے کے ساتھ تھا جو وہ مجھ سے لے چکا ہے۔
بالکل ٹھیک۔ اب ایک اور بات بتاؤ! تم ایک مزدور کو لے کر آئے ایک دن کے کام کے لئے، اس نے کام شروع کیا، اینٹیں بھگوئیں، سیمنٹ بنایا، دیوار شروع کی، اور آٹھ دس اینٹیں لگاکر کام چھوڑکر گھر کو چل دیا، تمہارا رد عمل کیا ہوگا؟
میں اسے پکڑلوں گا، نہیں جانے دوں گا، کام پورا کرے گا تو اسے چھٹی ملے گی
اور اگر تم اسے کام کے درمیان میں فارغ کرنا چاہو تو؟
مجھے اس کی اجرت دینی ہوگی، اجرت دینے کے بعد میں اسے کسی بھی وقت فارغ کرسکتا ہوں۔
اگر وہ کہے کہ میں اجرت لینے کے باوجود نہیں جاتا؟
وہ ایسا نہیں کرسکتا، میں اسے لات مارکر نکال دوں گا۔
بالکل ٹھیک۔ اب اپنے سوال کا جواب سنو۔دنیا میں جس قدر بھی معاملات ہوتے ہیں، ان میں ایک فریق رقم خرچ کرنے والا ہوتا ہے تو دوسرا اس پیسے کے بدلے میں خدمت کرنے والا۔
دنیا کا اصول یہ ہے کہ ہمیشہ پیسہ خرچ کرنے والے کا اختیار دوسرے سے زیادہ ہوتا ہے، کوئی معاملہ طے ہونے کے وقت تو دونوں فریقوں کی رضا ضروری ہے، لیکن معاملہ طے ہوجانے کے بعد اس کے انجام تک پہنچنے سے پہلے، رقم خرچ کرنے والا فرد تو واجبات کی ادائیگی کے بعد خدمت کرنے والے کو فارغ کرسکتا ہے، مگر خدمت فراہم کرنے والا کام فریق درمیان میں چھوڑکر خرچ کرنے والے کو فارغ نہیں کرسکتا۔ اگر رقم کے بدلے میں خدمت فراہم کرنے والے فریق کو کسی بھی وقت پیسہ خرچ کرنے والے کو فارغ کرنے کا اختیار دے دیا جائے تو مزدور دوپہر کو ہی کام چھوڑکر گھر چلے جائیں، ملازم عین ڈیوٹی کے درمیان غائب ہوجائیں، مالک مکان مہینے کے درمیان ہی کرائے دار کو گھر سے نکال دیں، درزی آپ کا سوٹ آدھا سلا اور آدھا کٹا ہوا آپ کے حوالے کرکے باقی کام کرنے سے انکار کردے، نائی آپ کے آدھے سر کی ٹنڈ کرکے آپ کو دوکان سے باہر نکال دے، دنیا کا سب نظام تلپٹ ہوجائے۔ کچھ سمجھا۔
ہاں ہاں ملا جی سمجھ رہا ہوں، مگر میں تو وہ طلاق والی بات۔
وہی سمجھا رہا ہوں۔ اب سن! ایک مرد اور ایک عورت میں جب نکاح کا پاکیزہ، محبت، پیار اور اعتماد والا رشتہ ہوتا ہے تو یہ کوئی کاروباری یا جزوقتی معاملہ نہیں ہوتا، یہ دلوں کا سودا، اور ساری زندگی کا سودا ہے، مگر اس میں بھی اسلام ہمیں کچھ اصول اور ضوابط دیتا ہے۔ اس معاملے اور معاہدے میں ایک فریق مرد ہے، اسلام اس کے اوپر اس کی بیوی کا سارا خرچ، کھانا پینا، رہن سہن، علاج معالجہ، کپڑا زیور، لین دین، اور زندگی کی ہر ضرورت کا بوجھ ڈالتا ہے،
اب اس عورت کی ساری زندگی کی ہر ذمہ داری اس مرد پر ہے، یہی اس کی حفاظت اور عزت کا ذمہ دار ہے، یہی اس کی ہر ضرورت کا مسئول ہے، یہاں تک کہ اس عورت کے مرنے کے بعد اس کے کفن دفن کا بندوبست بھی اسی مرد کو کرنا ہے، اور مرد کے مرنے کی صورت میں اس مرد کی بہت سی وراثت بھی اسی عورت کو ملنی ہے۔ ان دونوں میاں بیوی سے جو بچے پیدا ہوتے ہیں وہ یوں تو دونوں ہی کے ہیں، مگر اسلام ان بچوں کی مکمل مالی ذمہ داری بھی صرف اور صرف مرد پر ڈالتا ہے، ان بچوں کی رہائش، کھانا پینا، کپڑے، علاج معالجہ، تعلیم اور کھیل کے تمام مالی اخراجات بھی مرد اور صرف مرد کے ذمہ ہیں۔ اسلام عورت کو ان تمام ذمہ داریوں سے مکمل طور پر آزاد رکھتا ہے۔ ان سب ذمہ داریوں سے پہلے، عقد نکاح کے وقت ہی مرد نے مہر کے عنوان سے ایک بھاری رقم بھی عورت کو ادا کرنی ہے۔ ان سب کے علاوہ اسلام مرد کو اس کی بیوی کے بارے میں حسن سلوک کی تلقین کرتا ہے، وہ اسے
'من قتل دون عرضه فهو شهيد'
کی خوش خبری سناکر اپنی بیوی کی عزت کی حفاظت کے لئے جان تک دے دینے کی ترغیب دیتا ہے، اور
'حتي اللقمة ترفعها الي في امرأتك'
کہہ کر اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالنے پر بھی ثواب کی نوید سناتا ہے، وہ اسے
'اتقوا الله في النساء'
کہہ کر بیوی کو تنگ کرنے، ستانے، بلاوجہ مارنے، دھمکانے اور پریشان کرنے پر اللہ کی ناراضگی اور عذاب کی وعید سناتا ہے تو
'خيركم خيركم لاهله وانا خيركم لاهلي'
کہہ کر گھر والوں کو محبت، پیار، سکون دینے، ان کی ضرورتوں کا خیال رکھنے اور انہیں جائز حد میں رہ کر خوش رکھنے پر اللہ کی رضا کی نوید سناتا اور ایسے لوگوں کو بہترین انسان قرار دیتا ہے۔ مرد پر اس قدر ذمہ داریاں عائد کرنے کے بعد وہ بیوی پر اپنے شوہر کی خدمت، اطاعت، اس کے ساتھ وفا داری، اس کے گھر اور بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری عائد کرتا ہے۔ مرد اور عورت کے اس معاہدے میں عورت کی ساری زندگی کی ہر مالی ذمہ داری مرد پر ہے، تو تم خود بتاؤ کہ طلاق کا حق ان دونوں میں سے کس کے پاس ہونا چاہئے؟
ویسے ہونا تو مرد کے پاس ہی چاہئے لیکن ویسے اگر عورت کو بھی یہ حق دے دیا جائے تو آخر اس میں حرج کیا ہے؟
حرج۔۔؟ بھئی فرض کرو تم نے ایک خوبصورت عورت کا رشتہ پسند کیا، رشتہ بھیجا، بات چلی، رشتہ طے ہوگیا، انہوں نے ایک لاکھ مہر کا مطالبہ کیا، تم نے منظور کیا، نکاح ہوگیا، تم نے جونہی مہر اس کے حوالے کیا، اس نے کہا:
”میں تمہیں طلاق دیتی ہوں، طلاق طلاق۔۔”
اور شام کو کسی اور سے شادی کرلی، اس سے مہر وصول کرکے تیسرے، پھر چوتھے تو تمہارے دل پر کیا بیتے گی مسٹر۔
اوہ ملا جی! آپ نے تو میرے ہوش اڑادئیے، یہ تو بہت خوفناک بات ہے۔
صرف یہی نہیں مسٹر! اس سے آگے چلو، اب جو مرد کھلے دل سے بیوی پر اپنا مال جان دل سب کچھ لٹاتا ہے، اس کے نخرے اٹھاتا ہے، صرف اس لئے کہ وہ اسے ہمیشہ کے لئے اپنی سمجھتا ہے۔ اگر اس کے دل میں یہ خوف پیدا ہوجائے کہ یہ کسی بھی وقت اسے لات مار کر کسی دوسرے آشیانے کو روانہ ہوسکتی ہے، تو وہ اسے گندم کا ایک دانہ بھی دیتے وقت سو مرتبہ سوچے گا، اور صرف اس مرد کی نہیں بلکہ اس عورت کی زندگی بھی ہمیشہ کے لئے جہنم بن جائے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!
سمجھ گیا سمجھ گیا۔
انتہائی خوفناک۔ بہت ہی خطرناک سچویشن  ۔۔! مگر ایک بات ملا جی! کہ کبھی کبھی ایسے ہوتا ہے، اور اب تو بہت سے گھرانوں میں ہورہا ہے، کہ مرد اپنی بیوی کے ساتھ نہ تو انصاف کرتا ہے، اور نہ اس کی جان چھوڑتا ہے۔ اس صورت میں کیا کیا جائے۔؟
آہ کیا دل دکھانے والا سوال پوچھ لیا تم نے!
کیوں ملا جی؟ اس میں دل دکھانے والی کیا بات ہے؟
دیکھو مسٹر! ان تمام مسائل کا حل اور مکمل حل اسلامی نطام ہے، وہی اسلامی نظام جس کی راہ میں روڑے اٹکانے کے لئے تم جیسے لوگ ساڑھے چوبیس گھنٹے پھرتیاں دکھاتے رہتے ہو! اگر مکمل طور پر اسلامی نظام قائم ہو ہر طرف اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین کی عزت، اہمیت اور بالادستی ہو تو ایک طرف تو سب لوگوں میں اللہ کا خوف، تقوی، نیکی کے شوق اور برائی سے دوری کے احساسات پیدا ہوتے ہیں، اور یہ وہ چیزیں ہیں جو ہر سطح پر ظلم، زیادتی اور گناہ کو روکنے کے لئے وہ کردار ادا کرنی ہیں جو پولیس، فوج اور عدالت بھی نہیں کرسکتی۔ مگر افسوس کہ تم لوگ پوری توانائی اسی خوف خدا اور دینداری کو ملیامیٹ کرنے پر صرف کرتے ہو، اپنے آشیانے کو خود آگ لگاتے ہو اور پھر اسے بجھانے کے لئے دوڑے دوڑے ہمارے پاس آتے ہو، اپنے بچوں کو اللہ، رسول، قرآن، دین اسلام کا سبق دینے کی بجائے فلموں اور ڈراموں کا سبق دیتے ہو اور جب وہ اس سبق پر عمل کرتے ہوئے تمہیں جوتے لگاتے ہیں تو روتے روتے ہمارے پاس آکر تعویذوں کی درخواست کرتے ہو۔ سن میرے مسٹر بھائی! اگر مکمل طور پر صحیح معنوں میں اسلامی نظام نافذ ہو تو اول تو ایسے واقعات پیش آئیں گے نہیں، اگر اکا دکا ایسا ہو بھی جائے تو بیوی فورا اسلامی عدالت میں جاکر قاضی کو شوہر کی زیادتی کی شکایت کرے گی اور قاضی سالوں تک اس مقدمے کو لٹکانے یا وکیلوں کے ہاتھوں اس کی کھال اتروانے کی بجائے دونوں کا مؤقف سن کر فوری طور پر عورت کو اس کے شوہر سے اس کا حق دلوائے گا۔
.........
قبولیت اور قابلیت
ایک عام سی مثال سمجھ لیں کہ ایک عورت اچھے خاندان سے ہو، بڑی اعلی تعلیم یافتہ ہو، شکل کی بہت خوبصورت ہو، سمجھدار ہو، اور سلیقہ مند ہو اور گھرکے ہر کام اور ہنر کو سمجھتی ہو تو یہ تمام چیزیں اسکی قابلیت کہلاتی ہیں، اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خاوند کو پسند آجائے تو اس کو قبولیت کہتے ہیں. چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بعض اوقات خوبصورت عورتوں کو بھی طلاقیں ہوجاتی ہیں. بالکل اسی طرح اگر لوگ ہمیں مفتی کہیں، خطیب کہیں، پیر کہیں، یا صوفی کہیں تو کیا حاصل؟ دیکھنا تو یہ ہے کہ اللہ رب العزت کے ہاں قبولیت ہوتی ہے یا نہیں ہوتی.
ملفوظ: حضرت جی مولانا پیر ذوالفقار احمد صاحب نقشبندی دامت برکاتہم
....
طلاق کا اختیار صرف مرد کو کیوں دیا گیا ہے۔ عورت کو کیوں نہیں؟
اس میں کیا حکمت ہے؟
کیا طلاق عورتوں پر ظلم ہے جیسا کہ آج کل میڈیا و دیگر کم عقل لوگوں کا نظریہ بن گیا ہے؟
بحوالہ مدلل اس پر روشنی ڈالیں

➖➖➖➖➖
الجواب و باللہ التوفیق واسال اللہ الصواب بوسیلة سیدالابرار صلی اللہ علیہ وسلم
الحمد للہ اسلام کا کوئی حکم انسانیت میں کسی پر ظلم نہیں بلکہ رحمت ہے
چاہے طلاق ہو حدود و قصاص ہو
یہ اسلام ہی کی خوبی ہے کہ خوبصورت معاشرے کے لئے مرد و زن کو جسطرح نکاح کے ذریعے جوڑنے کا قانون بنایا اسی طرح کبھی آپسی رنجش کی وجہ سے میاں بیوی کے درمیان رشتہ نبہنے کے امکان نہ ہو تو اس رشتہ کو عافیت کے ساتھ ختم کرکے بیوی کو شوہر کی ماتحتی سے آزاد کرنے کا بھی قانون بنایا ہے اور اسی قانون کا نام ہے... طلاق...
در اصل زمانہ جاہلیت میں عورتوں کی کوئی حیثیت نہیں سمجھی جاتی تھی 
مرد انکو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرتے تھے اسی ظلم کا ایک حصہ یہ بھی تھا کہ اپنی منکوحہ یا تو زندگی بھر کے لئے یرغمال بنالیتے تھے پھر چاہے نباہ ممکن ہو یا نہ ہو زندگی بھر وہ ایک جانور کی طرح استعمال ہوتی رہتی یا زندگی بھر اکیلی ہی رہ جاتی نہ شوہر اسکو پوچھتا نہ وہ کسی اور سے شادی کر سکتی اسکے نتیجے میں زنا بھی عام تھا......... اور جہاں طلاق کا رواج تھا بھی تو صرف دکھاوے کا اور انتہائی ظالمانہ کہ... ۱۰۰/۱۰۰.... طلاقیں دیتے اور پھر ہر طلاق کے کچھ دنوں بعد دوبارہ روجوع کے نام سے رکھ لیتے اور عورت کا کوی پرسان حال نہیں ہوتا
ان حالات میں اسلام نے ایسا نرالہ قانون دیدیا کہ جسسے وقت ضرورت میاں بیوی میں با عزت قانونی جدا
ئی ہوسکے اور دونوں میں سے کسی پر ظلم نہ ہو اور چاہے تو عورت کا دوسرا رشتہ بھی ہو جائے
.......... پتہ چلا کہ اسلام کا نظام طلاق عورت پر ظلم نہیں بلکہ رحمت ہے..........
طریقہ طلاق سمجھنے کے لئے قرآن و سنت و فقہاء سے رجوع فرمالیں اس مضمون میں اسکی حاجت نہیں
➖➖➖
دوسرا مسلہ یہ ہے کہ طلاق کا حق صرف مرد کو ہی کیوں؟؟؟
تو آسان سا جواب ہے
کہ خالق و مالک کی مرضی....
لہذا 
قرآن میں جہاں بھی طلاق کا تذکرہ آیا ہے مرد ہی کو متوجہ کیا گیا ہے
آیت.... واذا طلقتم النساء...
آیت.... فان طلقہا...
آیت.... وان عزموا الطلاق...
آیت.... بیدہ عقدة النکاح...
نیز حدیث پاک میں بھی ہے
الحدیث.... عن عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ عنہ................
....................... انما الطلاق لمن اخذ الساق...... او کما قال صلی اللہ علیہ وسلم
..........
...........
اسکے بہت سے عقلی دلائل ہیں کہ طلاق کا اختیار صرف مرد کو ہی کیوں ہے عورت کو کیوں نہیں
عورت کو فطرة مرد کے مقابلہ میں سمجھ کم ہے
عورت جلد غصہ ہو جاتی ہے
عورت مشتعل زیادہ ہو جاتی ہے
عورت فیصلہ میں اکثر جلد بازی کر بیٹھتی ہے
وغیرہ..... یہ چیز یں عموما عورتوں میں پائ جاتی ہے
......
یہ اور بات ہے کہ یہ غیر فطری کمزوریاں آجکل مردوں میں درآئ ہیں
..........
اسکے علاوہ بھی ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے
وہ یہ کہ خالق کائنات نے تخلیقی طور پر مرد کو عورتوں پر بڑا اور حاکم بنایا ہے
چنانچہ قرآن میں ہے
آیت..... الرجال قوامون علی النساء...
اسی طرف حدیث پاک میں بھی اشارہ ملتا ہے
..... کلکم و کلکم مسؤولون عن رعیتکم فالمرء راع علی اہلیتہی.............
....... اور حاکم کا کام ہے کہ ماتحت اور رعایا کے ساتھ عدل سے کام لے
لیکن شیطانی طاقتوں کے دھوکے میں آکر مردوں نے ظلم کی راہ اپنا لی
.......
لہذا مشفق پروردگار نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایسا قانون اتارا جو عین فطرت ہے
پس مردوں ہی کو حاکم رہنے دیا اور ماتحت خاصکر بیویوں کے معاملے میں...........
((((((((((کیوںکہ فطرت کے خلاف کوی بھی قانون انسانیت کے لئے ہر گز فائدہ مند نہیں ثابت ہو سکتا لہذا جن ممالک میں طلاق کا حق فطرت کے خلاف نافذ کیا مثلا عورت کو دیدیا یا دونوں کے درمیان مشترک کر دیا یا عدلیہ کے تابع کر دیا
وہ آج اپنی تباہی خود دیکھ رہے ہیں..…… )))))))
.....................
پس مردوں کو بیویوں کے ساتھ کس طرح رہنا اس کے لئے جگہ جگہ نصیحتیں کیں اور بدرجہ مجبوری طلاق کے قانون کے استعمال کے لئے بھی سخت قوانین کا پابند کیا اور ظلم و نافرمانی کی شکل میں دنیا وآخرت میں سخت سزا کی وعیدیں بھی سنائی تاکہ صالح معاشرہ وجود میں آوے اور معاشرے کا توازن ےرقرجر رہے
...........
کچھ مدد حاصل ہوئی
 طلاق کا اختیار مرد کو کیوں
کتاب: جامع الفتاوی جلد 10
صٖفحہ نمبر: 127
عنوان: طلاق کا اختیار مرد کو کیوں
طلاق کا اختیار مرد کو کیوں
کتاب: جامع الفتاوی جلد 10
صٖفحہ نمبر: 128
عنوان: طلاق کا اختیار مرد کو کیوں
......
طالب علم
......
سوال # 151566
شریعت میں عورتوں کو کچھ اسپیشل کیس میں بھی طلاق دینے کا حق ہے یا نہیں؟
اگر کسی عورت کا نکاح ایسے شخص سے ہو جائے جو کہ لالچی ہے اور اسے پیسوں کا لالچ ہو، اور وہ یہ کہے کہ مجھے ایک کروڑ روپے چاہئے جب میں تمہیں طلاق دوں گا، تو ایسے میں عورت کو طلاق دینے کا حق ہے یا نہیں؟ اگر نہیں ہے تو کیوں نہیں ہے؟ (حالانکہ عورت کو خلع لینے کا حق ہے پر وہ شوہر جو کہ لالچی ہے طلاق کا لفظ اس وقت تک نہیں کہے گا جب تک اسے پیسے نہیں مل جاتے، تب تک اپنے منہ سے تین بار طلاق نہیں بولے گا، اور جب تک وہ طلاق نہیں دے گا اس لڑکی کا نکاح کہیں اور نہیں کیا جاسکتا) کیا ایسی صورت میں لڑکی خود سے اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہے؟

جواب # 151566
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1258-1193/L=9/1438
شریعت کا منشا یہ ہے کہ اچھی طرح ازدواجی زندگی گذاری جائے ؛لیکن اگر کبھی حالات نامساعد ہوجائیں اور زوجین کا اللہ رب العزت کے قائم کردہ حدود پر باقی رہنا دشوار ہوجائے اور آئندہ نباہ کی کوئی صورت نہ بن سکے تو شوہر کو یہ حکم ہے کہ طلاق دے کر اچھے انداز میں بیوی کو اپنی زوجیت سے نکال دے تاکہ عورت آزاد ہوکر جہاں چاہے شادی کرسکے، شوہر کا طلاق دینے کے لیے لمبی رقم کا مطالبہ کرنا کسی بھی طرح درست نہیں ہے،شوہر کو طلاق کا اختیار اس لیے دیا تاکہ طلاق کم سے کم واقع ہو کیونکہ عورت جلدباز ہوتی ہے اور بسا اوقات بغیر سوچے کوئی فیصلہ کرلیتی ہے اور بعد میں اسے افسوس ہوتا ہے اس کے بالمقابل مرد نتیجے پر بھی غور کرتا ہے،اسی طرح خلع میں بھی عورت آزاد نہیں ہے بلکہ خلع کے صحیح ہونے کے لیے بھی شوہر کی رضامندی ضروری ہے ؛البتہ کبھی شوہر واقعی ظلم وزیادتی پر اتر آتا ہے نہ تو بیوی کو رکھ کر نان ونفقہ برداشت کرتاہے اور نہ ہی اسے آزاد کرتا ہے ایسی صورت میں حکم یہ ہے کہ بیوی اپنا معاملہ مقامی شرعی پنچایت میں لے جائے اگر شرعی پنجایت کے حضرات اپنے طور تحقیق کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچ جاتے ہیں کہ واقعی شوہر متعنّت ہے تو ان کو نکاح کے فسخ کرنے کا اختیار ہوگا،لہذا صورت مسئولہ میں اگر شوہر طلاق کے لیے ایک خطیر رقم کا مطالبہ کرتا ہواور بیوی کو رکھ کر اس کے نان ونفقہ کا انتظام نہ کرتا ہو تو بیوی کو چاہئے کہ اپنے مسئلے کو مقامی شرعی پنچایت میں لے جاکر حل کروائے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Talaq-Divorce/151566

No comments:

Post a Comment