گاڑی چلاتے ہوئے پکڑے جانے پر پولیس والوں کو پیسے دینا جائز ہے یا نہیں؟
سوال: اگر کسی آدمی کو گاڑی چلاتے وقت ٹرافک پولس پکڑلے اور اس آدمی کے پاس گاڑی کا لائسنس بھی نہ ہو یا ہیلمیٹ نہ ہو تو پولس والے چالان میں تین سو روپیہ مانگتے ہے جو کہ سرکاری قانون ہے؛ اگر وہ آدمی سو روپیہ دیکر بغیر رسید لیے پولس کو دیدے تو کیا یہ بھی رشوت میں شمار ہوگا؟ (ابو یحییٰ محمد صغیر، مہاراشٹر)
الجواب وباللہ التوفیق:
از: مفتی زبیر صاحب ندوی
گاڑی وغیرہ چلانے سے متعلق جو حکومتی قوانین ہیں وہ لوگوں کی حفاظت اور خود ان کے فائدے کی خاطر ہیں، اور ان قوانین کی پابندی کرنے سے انسان مختلف قسم کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے؛ اس لئے جہاں تک ممکن ہو ان قوانین کی پابندی کی جائے؛ تاکہ حکومت کے مؤاخذے سے بھی بچا جاسکے اور بعض دیگر پریشانیوں سے بھی حفاظت ہوسکے۔
لیکن اگر کوئی شخص ان قوانین کی کسی وجہ سے پابندی نہیں کرسکا تو اس پر مالی جرمانہ عائد کرنا متقدمین فقہاء کرام اور متاخرین علماء کی ایک بڑی تعداد کی تحقیق میں درست نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی رضامندی کے لینے کو حرام قرار دیا ہے؛ اس لئے مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہوگا، اب اگر حکومت کوئی مالی جرمانہ عائد کرتی ہے تو آدمی اپنی حد تک اس سے بچنے کی کوشش کرے، اور اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کم روپے دے کر زیادہ روپے کے نقصان سے بچ جایا جائے، اس صورت میں پولیس کو دی جانے والی رقم پولیس کے حق میں تو رشوت ہوگی اور اس کے لئے لینا جائز نہیں ہوگا؛ البتہ دینے والا چونکہ ایک ظلم سے بچنا چاہتا ہے؛ اس لئے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک ہندوستان کے بعض اکابر اہل علم نے اس طرح رقم دے کر چھٹکارا حاصل کرنے کو جائز قرار دیا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
والدليل على ما قلنا:
(١) لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منه (مشكاة المصابيح ص 255 باب الغصب و العارية الفصل الثاني)
الضرر الأشد يزال بالضرر الاخف (شرح المجلة ٤٠/١)
يختار أهون الشرين (شرح المجلة ٤١/١)
دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لاستخراج حق له ليس برشوة يعني في الدافع (رد المحتار على الدر المختار ٦٠٧/٩ كتاب الحظر والإباحة زكريا)
فتاویٰ قاسمیہ ٥٥٥/٢٠ کتاب الحظر و الاباحہ، باب الرشوۃ۔
كتبه العبد محمد زبير الندوی
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 16/8/1439
رابطہ 9029189288
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
از: مفتی زبیر صاحب ندوی
گاڑی وغیرہ چلانے سے متعلق جو حکومتی قوانین ہیں وہ لوگوں کی حفاظت اور خود ان کے فائدے کی خاطر ہیں، اور ان قوانین کی پابندی کرنے سے انسان مختلف قسم کی پریشانیوں اور مصیبتوں سے محفوظ ہوجاتا ہے؛ اس لئے جہاں تک ممکن ہو ان قوانین کی پابندی کی جائے؛ تاکہ حکومت کے مؤاخذے سے بھی بچا جاسکے اور بعض دیگر پریشانیوں سے بھی حفاظت ہوسکے۔
لیکن اگر کوئی شخص ان قوانین کی کسی وجہ سے پابندی نہیں کرسکا تو اس پر مالی جرمانہ عائد کرنا متقدمین فقہاء کرام اور متاخرین علماء کی ایک بڑی تعداد کی تحقیق میں درست نہیں ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مسلمان کا مال بغیر اس کی رضامندی کے لینے کو حرام قرار دیا ہے؛ اس لئے مالی جرمانہ لینا جائز نہیں ہوگا، اب اگر حکومت کوئی مالی جرمانہ عائد کرتی ہے تو آدمی اپنی حد تک اس سے بچنے کی کوشش کرے، اور اس کا ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ کم روپے دے کر زیادہ روپے کے نقصان سے بچ جایا جائے، اس صورت میں پولیس کو دی جانے والی رقم پولیس کے حق میں تو رشوت ہوگی اور اس کے لئے لینا جائز نہیں ہوگا؛ البتہ دینے والا چونکہ ایک ظلم سے بچنا چاہتا ہے؛ اس لئے وہ گنہگار نہیں ہوگا۔ ہمارے ملک ہندوستان کے بعض اکابر اہل علم نے اس طرح رقم دے کر چھٹکارا حاصل کرنے کو جائز قرار دیا ہے(١)۔ فقط والسلام واللہ اعلم بالصواب۔
والدليل على ما قلنا:
(١) لا يحل مال امرئ مسلم إلا بطیب نفس منه (مشكاة المصابيح ص 255 باب الغصب و العارية الفصل الثاني)
الضرر الأشد يزال بالضرر الاخف (شرح المجلة ٤٠/١)
يختار أهون الشرين (شرح المجلة ٤١/١)
دفع المال للسلطان الجائر لدفع الظلم عن نفسه و ماله و لاستخراج حق له ليس برشوة يعني في الدافع (رد المحتار على الدر المختار ٦٠٧/٩ كتاب الحظر والإباحة زكريا)
فتاویٰ قاسمیہ ٥٥٥/٢٠ کتاب الحظر و الاباحہ، باب الرشوۃ۔
كتبه العبد محمد زبير الندوی
مركز البحث و الإفتاء مدرسه أشرف العلوم نالا سوپارہ ممبئی انڈیا
مورخہ 16/8/1439
رابطہ 9029189288
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جواب منجانب
مفتی شکیل منصور القاسمی
(سلسلہ جواب نمبر 1795)
الجواب وباللہ التوفيق:
ولاة و اولو الامر یعنی حکمرانوں کے جائز ومباح قوانین کی خلاف ورزی کرنا مسلمانوں کے لئے حرام وناجائز ہے۔ اس سے نقض عہد کا گناہ ہوگا۔
سفر کو مامون ومحفوظ بنانے کے لئے انتظامیہ وبلدیہ کی طرف سے جو ٹریفک ضوابط، نظام وقوانین وضع کئے جاتے ہیں ان کی پیروی کرنا ہر شہری وہر مسلمان کے اوپر فرض ہے۔ خلاف ورزی کرنے سے عزت نفس کا خطرہ ہے جس کی اجازت شریعت اسلامیہ بالکل نہیں دیتی۔
ولاة و اولو الامر یعنی حکمرانوں کے جائز ومباح قوانین کی خلاف ورزی کرنا مسلمانوں کے لئے حرام وناجائز ہے۔ اس سے نقض عہد کا گناہ ہوگا۔
سفر کو مامون ومحفوظ بنانے کے لئے انتظامیہ وبلدیہ کی طرف سے جو ٹریفک ضوابط، نظام وقوانین وضع کئے جاتے ہیں ان کی پیروی کرنا ہر شہری وہر مسلمان کے اوپر فرض ہے۔ خلاف ورزی کرنے سے عزت نفس کا خطرہ ہے جس کی اجازت شریعت اسلامیہ بالکل نہیں دیتی۔
قال اﷲ تعالیٰ: وَلَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّہْلُکَۃِ ۔ [البقرہ:۱۹۵]
وفي ’’مشکوۃ المصابیح‘‘ : عن أنس قال: قَلَّمَا خطبنا رسول اللہ ﷺ إلا قال: ’’لا إیمان لمن لا أمانۃ لہ ، ولا دین لمن لا عہد لہ‘‘ ۔(۱/۱۵، کتاب الإیمان، الفصل الثاني)
إن المسلم یجب علیہ أن یطیع أمیرہ في الأمور المباحۃ،فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرتہ، وإن نہیٰ عن أمر مباح حرام إرتکابہ، ومن ہنا صرح الفقہاء بأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ واجبۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم، باب وجوب طاعۃ الأمراء، اشرفیۃ دیوبند ۳/۳۲۳)
إن المسلم یجب علیہ أن یطیع أمیرہ في الأمور المباحۃ،فإن أمر الأمیر بفعل مباح وجبت مباشرتہ، وإن نہیٰ عن أمر مباح حرام إرتکابہ، ومن ہنا صرح الفقہاء بأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ واجبۃ۔ (تکملۃ فتح الملہم، باب وجوب طاعۃ الأمراء، اشرفیۃ دیوبند ۳/۳۲۳)
وفی ’’الحدیث النبوی‘‘: عن عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عن النبی ﷺ قال : ’’ السمع والطاعۃ علی المرء المسلم فیما أحب وکرہ، ما یؤمر بمعصیۃ ‘‘۔
(صحیح البخاری : ۲/۱۰۵۷ ، کتاب الأحکام ، باب السمع والطاعۃ للإمام ، رقم الحدیث: ۷۱۴۴)
ما فی ’’فتح الباری‘‘ : إنما قیدہ (أی فی ترجمۃ الباب) بالإمام ، وإن کان فی أحادیث الباب الأمر بالطاعۃ لکل أمیر ولو لم یکن إماماً ، لأن محل الأمر بطاعۃ الأمیر أن یکون مؤمراً من قبل الإمام۔
(۱۳/۱۵۱)
(صحیح البخاری : ۲/۱۰۵۷ ، کتاب الأحکام ، باب السمع والطاعۃ للإمام ، رقم الحدیث: ۷۱۴۴)
ما فی ’’فتح الباری‘‘ : إنما قیدہ (أی فی ترجمۃ الباب) بالإمام ، وإن کان فی أحادیث الباب الأمر بالطاعۃ لکل أمیر ولو لم یکن إماماً ، لأن محل الأمر بطاعۃ الأمیر أن یکون مؤمراً من قبل الإمام۔
(۱۳/۱۵۱)
وفی ’’التنویر وشرحہ مع الشامیۃ‘‘ : لأن طاعۃ الإمام فیما لیس بمعصیۃ فرض ۔
(۶/۴۱۶، کتاب الجہاد، باب البغاۃ، مطلب فی وجوب طاعۃ الإمام)
(۶/۴۱۶، کتاب الجہاد، باب البغاۃ، مطلب فی وجوب طاعۃ الإمام)
ٹریفک کے لئے مطلوبہ چیزوں (حفاظتی کیپ) وکاغذات (لائسنس، ادائی ٹیکس وغیرہ) کی دستیابی کے باوجود پولیس یا محافظ عملہ مسافرین کو روک کر بلاوجہ پریشان کریں اور اپنی جیب گرمانے کی کوشش کریں تو یہ یقینا ظلم ہے۔ اب دفع ظلم کے لئے پولیس کو کچھ لے دے کر (رشوت) آگے بڑھ جانے کی گنجائش ہے۔
رشوت کے جواز کی فقہی عبارتوں کا محمل یہی صورت ہے۔ یہاں وبال و گناہ رشوت لینے والے کو ہوگا۔ دینے والا بدرجہ مجبوری وبال رشوت میں ماخوذ نہ ہوگا۔
لیکن اگر مسافر ٹریفک نظام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روکا گیا مثلا اس کے پاس حفاظی کیپ یعنی ہیلمنٹ نہیں تھا اور ٹریفک قانون کے مطابق اس پہ مثلا تین سو روپے کا سرکاری چالان بنتا تھا لیکن وہ پولیس والے کو سو روپے یا دو سو روپے دے کر کام چلانے کی کوشش کرے تو یہ صریح رشوت ہے۔ ملکی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی ہے جو ناجائز وگناہ ہے۔ یہاں رشوت دینے والا بھی برابر کا گناہ گار ہوگا۔
مالی جرمانہ طرفین اور ائمہ ثلاثہ کے یہاں جائز نہیں۔ صرف امام ابو یوسف رحمہ اللہ اس حد تک جواز کے قائل ہیں کہ حصول زجر تک انتظامی فنڈ میں رقم جرمانہ پکڑکے رکھا جائے ۔انزجار کے بعد اسے مالک کو لوٹا دینا ان کے یہاں بھی ضروری ہے۔
ہندوستان جیسے غیر اسلامی نظام حکومت پہ "مالی جرمانہ کرنے کے جواز وعدم جواز" جیسے خالص ذیلی وفروعی جزئیے کی تطبیق خلاف اصول ہے۔۔۔
کل ملاکر یہ جواب میرے خیال سے محل نظر ثانی ہے۔ امید کہ فاضل مجیب باریک بینی سے نظر ثانی فرماکر درست حل تک پہنچنے کی کوشش فرمائیں گے۔
هذا ما عندي والصواب عند الله.
شکیل منصور القاسمی
17 شعبان 1439 ہجری
رشوت کے جواز کی فقہی عبارتوں کا محمل یہی صورت ہے۔ یہاں وبال و گناہ رشوت لینے والے کو ہوگا۔ دینے والا بدرجہ مجبوری وبال رشوت میں ماخوذ نہ ہوگا۔
لیکن اگر مسافر ٹریفک نظام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے روکا گیا مثلا اس کے پاس حفاظی کیپ یعنی ہیلمنٹ نہیں تھا اور ٹریفک قانون کے مطابق اس پہ مثلا تین سو روپے کا سرکاری چالان بنتا تھا لیکن وہ پولیس والے کو سو روپے یا دو سو روپے دے کر کام چلانے کی کوشش کرے تو یہ صریح رشوت ہے۔ ملکی قوانین کی صریح خلاف ورزی بھی ہے جو ناجائز وگناہ ہے۔ یہاں رشوت دینے والا بھی برابر کا گناہ گار ہوگا۔
مالی جرمانہ طرفین اور ائمہ ثلاثہ کے یہاں جائز نہیں۔ صرف امام ابو یوسف رحمہ اللہ اس حد تک جواز کے قائل ہیں کہ حصول زجر تک انتظامی فنڈ میں رقم جرمانہ پکڑکے رکھا جائے ۔انزجار کے بعد اسے مالک کو لوٹا دینا ان کے یہاں بھی ضروری ہے۔
ہندوستان جیسے غیر اسلامی نظام حکومت پہ "مالی جرمانہ کرنے کے جواز وعدم جواز" جیسے خالص ذیلی وفروعی جزئیے کی تطبیق خلاف اصول ہے۔۔۔
کل ملاکر یہ جواب میرے خیال سے محل نظر ثانی ہے۔ امید کہ فاضل مجیب باریک بینی سے نظر ثانی فرماکر درست حل تک پہنچنے کی کوشش فرمائیں گے۔
هذا ما عندي والصواب عند الله.
شکیل منصور القاسمی
17 شعبان 1439 ہجری
No comments:
Post a Comment