نقشہ ختم سحری کی شرعی حیثیت
عین ختم سحری پہ کھانے پینے سے روزہ کی صحت وفساد کا حکم؟
عین ختم سحری پہ کھانے پینے سے روزہ کی صحت وفساد کا حکم؟
(1793)
از: شكيل منصور القاسمي
از: شكيل منصور القاسمي
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام صبح اذان کا وقت 4 بجکر27 منٹ پر تھا اور زید نے 4 بجکر 27 منٹ پر ہی سحری کھانے کے بعد پانی پیا کیونکہ اس کے موبائل میں اذان کا وقت 4 بجکر 29 منٹ بتارھا تھا لیکن جب مسجد کے دائمی اوقات میں دیکھا تو 4 27 تھا تو کیا اس کا روزہ ہوجایئگا؟
زید سعودی عرب کے ابھا علاقہ میں رہتا ھے.
بینوا توجروا
روشنی گروپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جی ہاں
اس کا روزہ ہوجائے گا،
بشرطیکہ سحری کھانے کے وقت کہیں سے اذان کی آواز نہ آئی ہو۔
گھڑی کے اوقات میں تفاوت ہوتا ہے۔ یہ وقت کے ابتداء و انتہاء کی حتمی ویقینی شکل نہیں۔
نقشوں میں ختم سحری کا جو وقت لکھا ہوا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ قبل ہی کھانا پینا بند کردینا چاہئے۔
بصورت مجبوری عین وقت پہ یا ایک دو منٹ تاخیر کی بھی گنجائش رہتی ہے۔
پانچ دس منٹ بعد کھانے پینے سے روزہ صحیح نہ ہوگا۔
گھڑی کے اوقات علامت محضہ ہیں۔ اذان بھی ختم سحری کی صرف علامت ہے بشرطیکہ صبح صادق کے بعد دی گئی ہو۔ اصل مدار طلوع صبح صادق کا تیقن ہے چاہے جس طریقہ سے بھی اس کا یقین حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اذان فجر صبح صادق کے طلوع سے قبل دے دی گئی ہو تو اس اذان کے بعد بھی سحر کھانا جائز ہے۔ ہاں طلوع صبح صادق کے بعد دی جانے والی اذان کے بعد کھانے پینے سے روزہ صحیح نہیں ہوگا۔
آپ کے پوچھے گئے مسئلے میں جبکہ نقشہ میں ختم سحری 4۔27 لکھا ہوا ہے اور وہ چوک سے اسی 4:27 ہی پہ کھاکر ختم کیا ہے تو یہ صورت اگرچہ خلاف اولی ہے! لیکن بین ومعتدبہ وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے روزہ درست ہوجائے گا۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام صبح اذان کا وقت 4 بجکر27 منٹ پر تھا اور زید نے 4 بجکر 27 منٹ پر ہی سحری کھانے کے بعد پانی پیا کیونکہ اس کے موبائل میں اذان کا وقت 4 بجکر 29 منٹ بتارھا تھا لیکن جب مسجد کے دائمی اوقات میں دیکھا تو 4 27 تھا تو کیا اس کا روزہ ہوجایئگا؟
زید سعودی عرب کے ابھا علاقہ میں رہتا ھے.
بینوا توجروا
روشنی گروپ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الجواب وباللہ التوفیق:
جی ہاں
اس کا روزہ ہوجائے گا،
بشرطیکہ سحری کھانے کے وقت کہیں سے اذان کی آواز نہ آئی ہو۔
گھڑی کے اوقات میں تفاوت ہوتا ہے۔ یہ وقت کے ابتداء و انتہاء کی حتمی ویقینی شکل نہیں۔
نقشوں میں ختم سحری کا جو وقت لکھا ہوا ہوتا ہے اس سے دوچار منٹ قبل ہی کھانا پینا بند کردینا چاہئے۔
بصورت مجبوری عین وقت پہ یا ایک دو منٹ تاخیر کی بھی گنجائش رہتی ہے۔
پانچ دس منٹ بعد کھانے پینے سے روزہ صحیح نہ ہوگا۔
گھڑی کے اوقات علامت محضہ ہیں۔ اذان بھی ختم سحری کی صرف علامت ہے بشرطیکہ صبح صادق کے بعد دی گئی ہو۔ اصل مدار طلوع صبح صادق کا تیقن ہے چاہے جس طریقہ سے بھی اس کا یقین حاصل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ اگر اذان فجر صبح صادق کے طلوع سے قبل دے دی گئی ہو تو اس اذان کے بعد بھی سحر کھانا جائز ہے۔ ہاں طلوع صبح صادق کے بعد دی جانے والی اذان کے بعد کھانے پینے سے روزہ صحیح نہیں ہوگا۔
آپ کے پوچھے گئے مسئلے میں جبکہ نقشہ میں ختم سحری 4۔27 لکھا ہوا ہے اور وہ چوک سے اسی 4:27 ہی پہ کھاکر ختم کیا ہے تو یہ صورت اگرچہ خلاف اولی ہے! لیکن بین ومعتدبہ وقفہ نہ ہونے کی وجہ سے روزہ درست ہوجائے گا۔
مستفاد من:
قال اﷲ تعالی: اِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتًا۔ [النساء: ۱۰۳]
معناہ أنہ مفروض في أوقات معلومۃ معینۃ، فأجمل ذکر الأوقات في ہذہ الآیۃ، وبینہا في مواضع أخری من الکتاب من غیر ذکر تحدید أوائلہا وأواخرہا، وبین علی لسان الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم تحدیدہا ومقادیرہا۔ (أحکام القرآن للجصاص، سورۃ النساء، باب مواقیت الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/ ۳۳۳)
عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن للصلاۃ أولا وآخرا، وإن أول وقت صلاۃ الظہر حین تزول الشمس -إلی قولہ- وإن أول وقت الفجر حین یطلع الفجر، وإن آخر وقتہا حین تطلع الشمس۔ (ترمذي شریف، باب ماجاء في مواقیت الصلاۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۳۹، دارالسلام، رقم: ۱۵۱)
فینبغي الاعتماد في أوقات الصلاۃ، وفي القبلۃ علی ما ذکرہ العلماء الثقات في کتب المواقیت، وعلی ما وضعوہ لہا من الآلات کالربع والاصطرلاب، فإنہا وإن لم تفد الیقین تفد غلبۃ الظن للعالم بہا، وغلبۃ الظن کافیۃ في ذلک۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، مبحث في استقبال القبلۃ، مکتبہ زکریا ۲/ ۱۱۲، کراچی ۱/ ۴۳۱)
أقول: وینبغي أن یکون طبل المسحر في رمضان لإیقاظ النائمین للسحور کبوق الحمام (أي في الجواز)۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحۃ، قبیل فصل في اللبس، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/ ۵۰۵، کراچی ۶/ ۳۵۰)
واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
17 شعبان 1439 ہجری
http://saagartimes.blogspot.com/2018/05/1793.html
قال اﷲ تعالی: اِنَّ الصَّلَاۃَ کَانَتْ عَلٰی الْمُؤْمِنِیْنَ کِتَابًا مَوْقُوْتًا۔ [النساء: ۱۰۳]
معناہ أنہ مفروض في أوقات معلومۃ معینۃ، فأجمل ذکر الأوقات في ہذہ الآیۃ، وبینہا في مواضع أخری من الکتاب من غیر ذکر تحدید أوائلہا وأواخرہا، وبین علی لسان الرسول صلی اﷲ علیہ وسلم تحدیدہا ومقادیرہا۔ (أحکام القرآن للجصاص، سورۃ النساء، باب مواقیت الصلاۃ، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/ ۳۳۳)
عن أبي ہریرۃ -رضي اﷲ عنہ- قال: قال رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم: إن للصلاۃ أولا وآخرا، وإن أول وقت صلاۃ الظہر حین تزول الشمس -إلی قولہ- وإن أول وقت الفجر حین یطلع الفجر، وإن آخر وقتہا حین تطلع الشمس۔ (ترمذي شریف، باب ماجاء في مواقیت الصلاۃ، النسخۃ الہندیۃ ۱/ ۳۹، دارالسلام، رقم: ۱۵۱)
فینبغي الاعتماد في أوقات الصلاۃ، وفي القبلۃ علی ما ذکرہ العلماء الثقات في کتب المواقیت، وعلی ما وضعوہ لہا من الآلات کالربع والاصطرلاب، فإنہا وإن لم تفد الیقین تفد غلبۃ الظن للعالم بہا، وغلبۃ الظن کافیۃ في ذلک۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الصلاۃ، مبحث في استقبال القبلۃ، مکتبہ زکریا ۲/ ۱۱۲، کراچی ۱/ ۴۳۱)
أقول: وینبغي أن یکون طبل المسحر في رمضان لإیقاظ النائمین للسحور کبوق الحمام (أي في الجواز)۔ (الدرالمختار مع الشامي، کتاب الحظر والإباحۃ، قبیل فصل في اللبس، مکتبہ زکریا دیوبند ۹/ ۵۰۵، کراچی ۶/ ۳۵۰)
واللہ اعلم بالصواب
شكيل منصور القاسمي
17 شعبان 1439 ہجری
http://saagartimes.blogspot.com/2018/05/1793.html
No comments:
Post a Comment