صحافت اور صحافی
(1796)
"صحافت" (ذرائع ابلاغ ،میڈیا) اصل میں شہادت وگواہی ہے۔ اس میں لکھے جانے والے ایک ایک حرف کے ذریعہ گویا حق وصداقت کی گواہی دی جاتی ہے۔
صحافت کوئی روایتی قسم کی معمولی یا عام چیز نہیں ہے۔ بلکہ پوری ذمہ داری اور اخلاق واقدار کے ساتھ "سچ بولنے" "سچ لکھنے" اور سچ دوسروں تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔
صحافت کے ذریعہ حقائق وواقعات کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ لوگوں کو صحیح صورت حال سے واقف کروایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ رائے عامہ ہموار ہوتی اور قومی منظر نامہ تبدیل ہوتا اور عوام الناس کی ذہن سازی ہوتی ہے۔ صحافت ہی کے ذریعہ عمومی سطح پہ حق وباطل کے مابین تمیز کی جاتی ہے۔ اس سے سماجی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ عوام الناس کے حقیقی مسائل اجاگر کرکے حکمرانوں تک پہنچائے جاتے اور مسائل کےحل کے لئے ان کی توجہ مبذول کروائی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی صحافت دو دھاری تلوار بھی ہے۔ اس سے قوم ومعاشرہ کی تعمیر کے ساتھ تخریب بھی عمل میں آتی ہے۔
اس لئے اس پیشہ کو شروع سے سماج میں ایک کلیدی حیثیت وتقدس حاصل ہے۔ ۔۔ کسی بھی جمہوری ریاست کے چار اہم ستونوں:
1. عدلیہ،
2. مقننہ
3. انتظامیہ اور
4. صحافت میں سے آخر الذکر کو چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔
اس لئے اس سے وابستہ افراد (صحافی) کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔
صحافی کو حق گو، جراتمند، بے باک، مصلحت اندیشی، لسانی، گروہی ادارتی ومسلکی تعصب وتنگ نائی سے پاک، غیرجانبدار، تنگ ذہنی، انتقام مزاجی اور یرقانی نظر وفکر سے یکسر خالی ہونا چاہئے۔
حقیقی صحافی وہ ہے جو معاشرتی بگاڑ وفساد پہ کھل کر لکھنا جانتا ہو، لوٹ کھسوٹ اور بدی کی قوتوں و سرچشموں پہ اپنے قلم کے ذریعہ کاری ضرب لگانے کی جرات رکھتا ہو، حالات کی نامساعدت وخطرات کے باوجود قوم وملت کی ہر خبر پر بصیرت مندانہ نظر رکھنے اور اعصاب وجذبات پہ کنٹرول کے ساتھ ذاتی وشخصی مفادات پہ قومی وملی مفادات کو ترجیح دینا جانتا ہو، رشوت خوروں کی پشت پناہی اور آلہ کار بننے کی بجائے بے خوف وخطر ان کا تعاقب کرنا جانتا ہو ۔
ایسے باضمیر وباکردار صحافی کی صحافت ذہنیت سازی کا قابل قدر طریقہ ، ملک وملت کو مستحکم بنانے میں کلیدی رول ادا کرنے والی، حق وباطل کے درمیان فرق واضح کرنے والی صحافت بن سکتی ہے۔
افسوس ہے کہ جدید تکنک کے ساتھ وابستگی کے بعد اب اردو صحافت کا دم بھرنے والا بعض میڈیا بھی "زعفران زدہ" ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
قومی، سماجی ، ملی وملکی مشترکہ اہداف ومسائل اجاگر کرنے کی بجائے مخالفین کو زیر کرنے، پگڑیاں اچھالنے، بے سر و پیر باتوں کو کوریج دینے، منفی پراپیگنڈا کرنے اور حصول مال ودولت کا زینہ بن کے رہ گیا۔
گندی تحریروں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے، علاقائی وادارہ جاتی تعصب کو ہوا دینے والے، علماء دین ودانشوران قوم کے مابین بدگمانیوں وغلط فہمیوں کے ازالہ کی بجائے ان کے مابین مزید خلیج پیدا کرنے والے، امن کے غاتگروں، جرائم پیشہ افراد اور ملک وملت دشمن عناصر کی حمایت وپشت پناہی کرنے والے ضمیر فروش صحافی، صحافت کے مقدس چہرے پہ ننگ، عار وکلنک کا بد نما ٹیکہ ہیں۔
مادر وطن کے موجودہ نامساعد حالات میں صبر وثبات، بلند حوصلگی ، عزم وہمت، دور بینی، شائستہ ،مہذب اور آبرو مندانہ زبان وبیان کے ذریعہ ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرنے والے تمام صحافی حضرات "پیغمبرانہ" پیشہ سے مربوط ہوکر بڑا ہی وقیع اور قابل قدر کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ ہم سب کو ایسے باضمیر وباکردار صحافیوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان کے اچھے کارناموں کو سراہنا چاہئے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ تاکہ وہ پورے دم خم اور عزم جواں کے ساتھ انکشاف و تصویر حقائق کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔
شکیل منصور القاسمی
بیگو سرائے
4 مئی 2018
صحافت کوئی روایتی قسم کی معمولی یا عام چیز نہیں ہے۔ بلکہ پوری ذمہ داری اور اخلاق واقدار کے ساتھ "سچ بولنے" "سچ لکھنے" اور سچ دوسروں تک پہنچانے کا نام صحافت ہے۔
صحافت کے ذریعہ حقائق وواقعات کی تصویر کشی ہوتی ہے۔ لوگوں کو صحیح صورت حال سے واقف کروایا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ رائے عامہ ہموار ہوتی اور قومی منظر نامہ تبدیل ہوتا اور عوام الناس کی ذہن سازی ہوتی ہے۔ صحافت ہی کے ذریعہ عمومی سطح پہ حق وباطل کے مابین تمیز کی جاتی ہے۔ اس سے سماجی انقلاب برپا ہوتا ہے۔ عوام الناس کے حقیقی مسائل اجاگر کرکے حکمرانوں تک پہنچائے جاتے اور مسائل کےحل کے لئے ان کی توجہ مبذول کروائی جاتی ہے۔
اس کے ساتھ ہی صحافت دو دھاری تلوار بھی ہے۔ اس سے قوم ومعاشرہ کی تعمیر کے ساتھ تخریب بھی عمل میں آتی ہے۔
اس لئے اس پیشہ کو شروع سے سماج میں ایک کلیدی حیثیت وتقدس حاصل ہے۔ ۔۔ کسی بھی جمہوری ریاست کے چار اہم ستونوں:
1. عدلیہ،
2. مقننہ
3. انتظامیہ اور
4. صحافت میں سے آخر الذکر کو چوتھا ستون مانا جاتا ہے۔
اس لئے اس سے وابستہ افراد (صحافی) کی ذمہ داری بھی زیادہ ہے۔
صحافی کو حق گو، جراتمند، بے باک، مصلحت اندیشی، لسانی، گروہی ادارتی ومسلکی تعصب وتنگ نائی سے پاک، غیرجانبدار، تنگ ذہنی، انتقام مزاجی اور یرقانی نظر وفکر سے یکسر خالی ہونا چاہئے۔
حقیقی صحافی وہ ہے جو معاشرتی بگاڑ وفساد پہ کھل کر لکھنا جانتا ہو، لوٹ کھسوٹ اور بدی کی قوتوں و سرچشموں پہ اپنے قلم کے ذریعہ کاری ضرب لگانے کی جرات رکھتا ہو، حالات کی نامساعدت وخطرات کے باوجود قوم وملت کی ہر خبر پر بصیرت مندانہ نظر رکھنے اور اعصاب وجذبات پہ کنٹرول کے ساتھ ذاتی وشخصی مفادات پہ قومی وملی مفادات کو ترجیح دینا جانتا ہو، رشوت خوروں کی پشت پناہی اور آلہ کار بننے کی بجائے بے خوف وخطر ان کا تعاقب کرنا جانتا ہو ۔
ایسے باضمیر وباکردار صحافی کی صحافت ذہنیت سازی کا قابل قدر طریقہ ، ملک وملت کو مستحکم بنانے میں کلیدی رول ادا کرنے والی، حق وباطل کے درمیان فرق واضح کرنے والی صحافت بن سکتی ہے۔
افسوس ہے کہ جدید تکنک کے ساتھ وابستگی کے بعد اب اردو صحافت کا دم بھرنے والا بعض میڈیا بھی "زعفران زدہ" ہوئے بغیر نہیں رہ سکا۔
قومی، سماجی ، ملی وملکی مشترکہ اہداف ومسائل اجاگر کرنے کی بجائے مخالفین کو زیر کرنے، پگڑیاں اچھالنے، بے سر و پیر باتوں کو کوریج دینے، منفی پراپیگنڈا کرنے اور حصول مال ودولت کا زینہ بن کے رہ گیا۔
گندی تحریروں کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرنے والے، علاقائی وادارہ جاتی تعصب کو ہوا دینے والے، علماء دین ودانشوران قوم کے مابین بدگمانیوں وغلط فہمیوں کے ازالہ کی بجائے ان کے مابین مزید خلیج پیدا کرنے والے، امن کے غاتگروں، جرائم پیشہ افراد اور ملک وملت دشمن عناصر کی حمایت وپشت پناہی کرنے والے ضمیر فروش صحافی، صحافت کے مقدس چہرے پہ ننگ، عار وکلنک کا بد نما ٹیکہ ہیں۔
مادر وطن کے موجودہ نامساعد حالات میں صبر وثبات، بلند حوصلگی ، عزم وہمت، دور بینی، شائستہ ،مہذب اور آبرو مندانہ زبان وبیان کے ذریعہ ذمہ دارانہ صحافت کا مظاہرہ کرنے والے تمام صحافی حضرات "پیغمبرانہ" پیشہ سے مربوط ہوکر بڑا ہی وقیع اور قابل قدر کارنامہ انجام دے رہے ہیں۔ ہم سب کو ایسے باضمیر وباکردار صحافیوں کی ہمت افزائی کرتے ہوئے ان کے اچھے کارناموں کو سراہنا چاہئے اور ان کی حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔ تاکہ وہ پورے دم خم اور عزم جواں کے ساتھ انکشاف و تصویر حقائق کا فریضہ انجام دیتے رہیں۔
شکیل منصور القاسمی
بیگو سرائے
4 مئی 2018
No comments:
Post a Comment