ایک ٹیکنیکل مناظرہ
(وضاحت: ایک غیرعالم اور کالج کے پڑھے ہوئے کی تحریر ہے، لہٰذا انداز میں سادگی ہے)
آپ نے مولویوں کے مناظرے دیکھے ہونگے مگر میں آپ کو اپنے انجنیئرنگ اسٹائل مناظرے کی روداد سنانا چاہتا ہوں
جو ایک احمدی ساتھی سے سرِراہ برپا ہوگیا تھا-
جو ایک احمدی ساتھی سے سرِراہ برپا ہوگیا تھا-
مزے کی بات یہ کہ اس وقت تک میں احمدیت کی ابجد سے بھی واقف نہیں تھا- یوں تو مرزا غلام قادیانی کی شخصیت سے میرا پہلا تعارف 1987ء میں ہی ہوا تھا (جن دنوں راقم پہلی بار مذہبی دنیا میں قدم رکھ رہا تھا) اور یہ بھی اتفاقا" ہی ہوا تھا-
پشاور یونیورسٹی کے "رازی ہال" میں داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ نوٹس بورڈ پر ایک فوٹو کاپی آویزاں تھی- فوٹو میں کرسی پر مرزا صاحب بیٹھے ہیں اور چاروں طرف حاشیہ میں گالیاں (حرامی، کنجر وغیرہ) درج ہیں- نیچے ایک سطری اعلان کہ اگر آپکو رسول اللہ سے محبت ہے تو اس کی مزید کاپیاں کرکے اشاعت میں حصہ لیجئے- اگرچہ مذہبی نوگرفتاروں کے جذبات شدید تر ہوا کرتے ہیں لیکن نہ جانے کیوں مجھے اس نوٹس سے کراہت سی محسوس ہوئی تھی-
بہرحال، اپنے مناظرے والے واقعہ کی طرف آتے ہیں-
یہ 2002 کی بات ہے- جہلم کے قصبہ دینہ میں این ایل سی کمپنی کا کیمپ تھا جنکے پاس جہلم کھاریاں روڈ کا پراجیکٹ تھا- کبھی کبھار میرا وہاں جانا ہوتا تو آفیسرز میس میں محفل جمتی۔
وہاں، میجر نصر من ؔ اللہ قیصرانی صاحب اور راقم کے درمیان "سائیں طارق کی سرائیکی شاعری" ایک مشترکہ موضوع تھا- مجھے معلوم نہ تھا کہ موصوف قادیانی ہیں-
وہاں، میجر نصر من ؔ اللہ قیصرانی صاحب اور راقم کے درمیان "سائیں طارق کی سرائیکی شاعری" ایک مشترکہ موضوع تھا- مجھے معلوم نہ تھا کہ موصوف قادیانی ہیں-
ایک شام، جہلم تبلیغی مرکز میں شبِ جمعہ کا بیان سن کر میس میں واپس آیا تو دوست کھانے کی ٹیبل پر منتظر تھے۔ میں نے میجر صاحب سے مذاقاً کہا کہ اگر آپ عصر کے وقت مجھے مل جاتے تو میں آپ کو ایک دینی مرکز لے جاتا۔
میجر، سیریس ہوگیا۔
کہنے لگا: "لیکن اگر میں آپکو ایک دینی مرکز جانے کا کہوں تو آپ میرے کمرے کو آگ لگادیں گے"-
نہ جانے کیوں اس جملے پر میری چَھٹی حِس نے بتایا کہ میجر، احمدی جماعت سے تعلق رکھتا ہے-
قادییانیت کے بارے میری معلومات بڑی ہی محدود تھیں تاہم یہ سنا ہوا تھا کہ پچھلی صدی میں ایک قیصرانی سردار نے قادیانیت اختیار کرلی تھی جس کی وجہ سے قیصرانی قبیلہ کے کافی لوگ احمدی ہوگئے تھے- شاید یہ خیال اس وجہ سے آیا ہو-
قادییانیت کے بارے میری معلومات بڑی ہی محدود تھیں تاہم یہ سنا ہوا تھا کہ پچھلی صدی میں ایک قیصرانی سردار نے قادیانیت اختیار کرلی تھی جس کی وجہ سے قیصرانی قبیلہ کے کافی لوگ احمدی ہوگئے تھے- شاید یہ خیال اس وجہ سے آیا ہو-
میں نے عرض کیا: "میجر صاحب، آپ زیادہ سے زیادہ مجھے ربوہ تک ہی لے جاتے تو اس میں آگ لگانے کی کیا بات ہوئی؟"
بہر حال، بات مذاق ہی مذاق میں قادیانیت پر ایک دوستانہ مناظرے کی صورت اختیار گئی جس کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں-
بہر حال، بات مذاق ہی مذاق میں قادیانیت پر ایک دوستانہ مناظرے کی صورت اختیار گئی جس کی کچھ جھلکیاں پیش کرتا ہوں-
میجر نے پوچھا: "احمدی جماعت کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟"
عرض کیا: "میں تو ان کو کافر سمجھتا ہوں".
کہنے لگے: "کیا آپ نے کبھی احمدی لٹریچر پڑھا ہے؟"
عرض کیا: "میں تو ان کو کافر سمجھتا ہوں".
کہنے لگے: "کیا آپ نے کبھی احمدی لٹریچر پڑھا ہے؟"
میں نے انکار کیا (اور حقیقت بھی یہی تھی)-
اس پر کہنے لگے کہ یار آپ پڑھے لکھے آدمی ہو- آپ نے خود کبھی احمدیت کو پڑھا نہیں اور فقط مولویوں کے کہنے پر ان کو کافر سمجھتے ہو- کیا اسی کو تعلیم و شعور کہتے ہیں؟"
اس پر کہنے لگے کہ یار آپ پڑھے لکھے آدمی ہو- آپ نے خود کبھی احمدیت کو پڑھا نہیں اور فقط مولویوں کے کہنے پر ان کو کافر سمجھتے ہو- کیا اسی کو تعلیم و شعور کہتے ہیں؟"
میں نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور بات کو فلسطین، اسرائیل کی طرف پھیردیا- میں نے کہا کہ بڑی عجیب بات ہے کہ اسرائیل کے مسلمان، فلسطین کے مسلمانوں کو مار رہے ہیں-
میجر نے کہا کہ: اسرائیل میں تو یہودی ہیں-
عرض کیا کہ: یہودی بھی تو مسلمان ہی ہیں- کیا آپ یہودیوں کو کافر سمجھتے ہیں؟ میجر نے کہا کہ: بھائی، یہودی تو کافر ہی ہیں-
عرض کیا: "کیا آپ نے کبھی یہودیت کی کتب کا مطالعہ کیا ہے یا فقط مولویوں کے کہے پر ان کو کافر قرار دے رہے ہیں؟"
میجر گڑبڑا گیا- کہنے لگا: "دیکھو یار، احمدی جماعت میں بڑے بڑے سائنسدان اور جرنیل وغیرہ شامل ہیں تو کیا یہ سب پاگل ہیں؟
عرض کیا: "میں نے کب کہا ہے کہ ایسے پڑھے لکھے لوگ پاگل ہیں- ہمارے بازو والے ملک میں ممتاز سائنسدان، جرنیل وغیرہ لوگ، گائے کا پیشاب پیتے ہیں تو کیا وہ سب پاگل ہیں؟"
عرض کیا: "میں نے کب کہا ہے کہ ایسے پڑھے لکھے لوگ پاگل ہیں- ہمارے بازو والے ملک میں ممتاز سائنسدان، جرنیل وغیرہ لوگ، گائے کا پیشاب پیتے ہیں تو کیا وہ سب پاگل ہیں؟"
قصہ کوتاہ، میجر نے بالآخر زچ ہوکر کہا: "آپ میرے ساتھ کمرے میں چلیں میں آپ کو علمی طور پر مطمئن کردونگا."
دوستوں کے اصرار پر ہم سب اس کے کمرے میں گئے تو الماری سے ایک موٹی سی کتاب نکال کر کہنے لگا: "آپ کا اور ہمارا اختلاف، صرف ختم نبوت کے مسئلے پر ہے، اس کتاب میں، اس کا مکمل علمی جواب موجود ہے، آپ اس کو پڑھ کرخود ہی فیصلہ کرلیں"۔
میں نے عرض کیا کہ جناب کتابوں کی باتیں مولویوں کے لئے چھوڑدیں۔ آپ ،ہم انجنئیرز ہیں تو کیوں نہ ٹیکنیکل طریقے سے بات کرلیں؟
میرا سوال یہ ہے کہ: این ایل سی کمپنی آپکی زیرِ نگرانی ایک نظام کے تحت کام کررہی ہے، آپ کو بوقتِ ضرورت اسٹاف بڑھانے کی بھی اجازت ہے لیکن اس سب کے باوجود، کسی دن ہیڈ آفس سے آرڈر آئے کہ آپ کی جگہ کسی دوسرے پراجیکٹ منیجر کا تقرر کردیا گیا ہے تو اس کے دو ہی مطلب لئے جاسکتے ہیں- ایک یہ کہ آپ میں پروفیشنل کمزوریاں ہیں یا پھر یہ کے نیا آنے والا آدمی، آپ سے زیادہ قابل ہے."
میجر نے اس بات سے اتفاق کیا۔
اب میں نے ایک کاغذ منگواکر اس کے درمیان میں ایک لکیر کھینچی– ایک طرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسری طرف مرزا صاحب لکھ کر عنوان بنایا اور عرض کیا کہ اب آپ حضرت محمدؐ کی کم از کم ایک ایسی پروفیشنل کمزوری لکھ دیجئے جسے پورا کرنے کیلئے مرزا صاحب کی اپائنٹمنٹ کرنا ضروری تھی۔
قلم ہاتھ میں رکھ کر سوچنے لگ گیا۔ عرض کیا: "حضور، علمی و جسمانی نہ سہی، شکل و صورت میں ہی کوئی کمی ایسی لکھ دو جس میں مرزا صاحب برتر تھے اور حضرت محمد ؐ کو رپلیس کرنا ضروری ہوگیا تھا"۔
تھوڑی دیر بعد عرض کیا:
"حضور، اگر آپ نہیں ڈھونڈھ سکتے تو پھر مجھے اجازت دیجئے- میں مرزا صاحب کی ایسی دس کمزوریاں لکھ دیتا ہوں جن میں حضرت محمدؐ ان سے بہرحال برتر تھے....
جناب، اسلام ایک پراجیکٹ ہے- اس کے لئے اسٹاف اور وسائل بڑھانے پہ پابندی نہیں لیکن اس کا پراجیکٹ ڈائرکٹر تب ہی بدل سکتا ہے جب پہلے نے کوئی کمی کی ہو یا دوسرا، پہلے والے سے برتر ہو"-
جناب، اسلام ایک پراجیکٹ ہے- اس کے لئے اسٹاف اور وسائل بڑھانے پہ پابندی نہیں لیکن اس کا پراجیکٹ ڈائرکٹر تب ہی بدل سکتا ہے جب پہلے نے کوئی کمی کی ہو یا دوسرا، پہلے والے سے برتر ہو"-
میجر صاحب، شاید اس قسم کے مناظرے کیلئے ٹرینڈ نہیں تھا-
ہم سب نے میجر صاحب کی بولتی بند ہونے پر دل کھول کر قہقہے لگائے- مل کر چائے پی- اگلے ویک اینڈ کا پارٹی پروگرام بنایا-
اگرچہ یہ ٹکنیکل مناظرہ ہم جیت گئے لیکن میجر پھر بھی احمدیت پہ قائم رہا- اس لئے کہ عقائد، مناظروں سے نہیں بلکہ حسنِ سلوک سے ہی بدلے جاتے ہیں.
(سلیم جاوید)
(سلیم جاوید)
No comments:
Post a Comment