سوال: کیا وضو کے بعد اعضاء نہ پونچھنا سنت ہے؟
جواب: نہیں،
۔ حدیث 396
وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَتْ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمخِرْقَۃٌ یُنَشِّفُ بِھَا اَعْضَاءَ ہُ بَعْدَ الْوُضُوْءِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَیْسَ بِالْقَائِمِ وَاَبُوْ مُعَاذِالرَّاوِیُّ ضَعِیْفٌ عِنْدَاَھْلِ الْحَدِیْثِ۔
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے." (جامع ترمذی) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابومعاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں."
تشریح:
نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے، چنانچہ سید جمال الدین شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہو سکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔
اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔
.....
مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 395
وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَاَئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا تَوَجَّاَ مَسَحَ وَجْھَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہٖ۔ (رواہ الجامع ترمذی)
"اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔" (جامع ترمذی)
تشریح:
جب آپ وضو سے فارغ ہو جاتے تو پانی خشک کرنے کے لئے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کرلینا جائز ہے چنانچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس، اور حسن ابی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔
حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لئے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے) پوچھنا اگر ازراہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور و تکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لئے اور نہ غسل کرنے والے کے لئے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرما چکے تو ام لمومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک رومال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کردیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لئے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس فرمادیا ہو۔
........................
۔ حدیث 396
وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ عَآئِشَۃَ قَالَتْ کَانَتْ لِرَسُوْلِ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلمخِرْقَۃٌ یُنَشِّفُ بِھَا اَعْضَاءَ ہُ بَعْدَ الْوُضُوْءِ رَوَاہُ التِّرْمِذِیُّ وَقَالَ ھٰذَا حَدِیْثٌ لَیْسَ بِالْقَائِمِ وَاَبُوْ مُعَاذِالرَّاوِیُّ ضَعِیْفٌ عِنْدَاَھْلِ الْحَدِیْثِ۔
" اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک کپڑا تھا جس سے وضو کے بعد اپنے بھیگے ہوئے اعضائے وضو پونچھا کرتے تھے." (جامع ترمذی) اور امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث قوی نہیں ہے اور اس کے ایک راوی، ابومعاذ محدثین کے نزدیک ضعیف ہیں."
تشریح:
نہ یہ کہ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس حدیث کو ضعیف قرار دیا ہے بلکہ یہ بھی کہا ہے کہ وضو کے بعد بھیگے ہوئے اعضاء کو کپڑے سے پونچھے کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی صحیح حدیث منقول نہیں ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ایک حمایت اور تابعین نے وضو کے بعد اعضاء کو پونچھ لینے کی اجازت دی ہے اور ان کی یہ اجازت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی قول و فعل سے مستنبط نہیں ہے بلکہ یہ خود ان لوگوں کی اپنی رائے ہے، چنانچہ سید جمال الدین شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ نے اس مضمون کو نقل کیا ہے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ یہ دیتے ہیں کہ آپ لوگوں کا یہ کہنا کہ یہ جواز ان صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین وغیرہ کی ذاتی رائے ہے غلط ہے، بلکہ اس کے برعکس آپ کا یہ قول خود آپ کے ذہن کی پیداوار ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
کیونکہ صحابہ کرام مثلاً حضرت عثمان، حضرت انس اور حضرت حسن بن علی رضوان اللہ علیہم کی جلالت شان اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے جذبہ صادق کے پیش نظر اس کا وہم بھی نہیں کیا جاسکتا کہ دینی معاملات میں کوئی چیز ان کے اپنے ذہن کی پیدا کردہ ہو سکتی ہے لہٰذا ان کا فعل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ضرور ہے۔
اس کے علاوہ اس کلیہ کو بھی ذہن میں رکھ لینا چاہئے کہ حدیث پر عمل کرنا خواہ وہ حدیث ضعیف ہی کیوں نہ ہو زیادہ اولیٰ اور بہتر ہے بنسبت اس کے کہ کسی رائے پر عمل کیا جائے، خواہ وہ کتنی ہی مضبوط اور قوی کیوں نہ ہو۔
.....
مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ پاکی کا بیان ۔ حدیث 395
وضو کی سنتوں کا بیان
راوی:
وَعَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَاَئْتُ رَسُوْلَ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلماِذَا تَوَجَّاَ مَسَحَ وَجْھَہُ بِطَرَفِ ثَوْبِہٖ۔ (رواہ الجامع ترمذی)
"اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے ہیں تو اپنے کپڑے کے کونے سے اپنا منہ پونچھتے۔" (جامع ترمذی)
تشریح:
جب آپ وضو سے فارغ ہو جاتے تو پانی خشک کرنے کے لئے اپنے کپڑے یعنی چادر وغیرہ کے کونے سے اپنا منہ پونچھ لیتے تھے۔ زیلعی نے شرح کنز میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد رومال سے (پانی) خشک کرلینا جائز ہے چنانچہ جیسا کہ حضرت عثمان، حضرت انس، اور حسن ابی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بارے میں بھی یہی منقول ہے اور اس کے بعد آنے والی حدیث بھی اس کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔ صاحب منیہ نے وضو کے بعد اعضاء وضو کو پونچھنا مستحب لکھا ہے۔
حنفی مسلک کی بعض کتابوں میں لکھا ہے کہ وضو کے بعد پانی خشک کرنے کے لئے اعضاء وضو کو (کسی کپڑے یا رومال اور تولیہ وغیرہ سے) پوچھنا اگر ازراہ تکبر و غرور ہو تو مکروہ ہے اور غرور و تکبر کی بنا پر نہ ہو تو پھر مکروہ نہیں ہے۔
حضرت امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ علیہ کے مذہب میں نہ تو وضو کرنے والے کے لئے اور نہ غسل کرنے والے کے لئے کپڑے سے پانی خشک کرنا سنت ہے۔ ان کی دلیل وہ حدیث ہے جس میں منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب وضو فرما چکے تو ام لمومنین حضرت میمونہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک رومال لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے بھیگے ہوئے اعضاء پونچھ لیں مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس کردیا اور اعضاء وضو پر لگے ہوئے پانی کو ہاتھ سے کے ذریعہ ٹپکانے لگے۔
اس کا جواب علماء حنفیہ کی طرف سے یہ دیا جاتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعضاء وضو کو رومال سے پونچھنے سے اس لئے انکار نہیں کیا تھا کہ یہ چیز مناسب نہیں تھی بلکہ ہو سکتا ہے کہ کسی خاص عذر کی بنا پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رومال واپس فرمادیا ہو۔
........................
وضو کرنے کے بعد ہاتھ منہ پونچھنا
س… وضو کرنے کے بعد ہاتھ، منہ پونچھنے سے ثواب میں کوئی کمی بیشی تو نہیں ہوجاتی؟
ج… نہیں!
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-02-wazoo-ky-masail/
No comments:
Post a Comment