Saturday, 24 February 2018

کیا اللہ کے لیے سمت کا ثابت کرنا کفر ہے

سوال # 39158
کیا اللہ کے لئے سمت کا ثابت کرنا کفر ہے؟ مثال کے طور پر بعض لوگ کہتے ہیں کہ اوپر والا مدد کرے گا تو کیا یہ الفاظ کفریہ ہیں؟ یا یوں کہنا کہ اللہ آسمان پر ہے یا اوپر ہے کیا یہ کفر ہے؟ یا اسی طرح کا اور عقیدہ جس میں کہ اللہ کے لئے سمت (جہت) ثابت کی جائے کفر ہے؟ کوئی مسلمان کہے کہ اللہ شمال کی طرف ہے یا جنوب کی طرف ہے یا مغرب کی طرف ہے کیا یہ الفاظ کفریہ ہیں؟

Published on: May 24, 2012 
جواب # 39158
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1214-1007/B=7/1433
چونکہ اللہ تعالیٰ عرش پر ہے، عرش آسمان سے بھی اوپر ہے لہٰذا اوپر والا مدد کرے گا۔ اللہ آسمان پر ہے، یہ سب کنایہ ہے، اس طرح بولنا صحیح ہے۔ اللہ کے لئے سمت ثابت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کے لئے جہت متعین کرنے یعنی یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ پورب میں ہے، پچھم میں نہیں ہے یا پچھم میں ہے، پورب میں نہیں ہے یا دکن طرف ہے؛ اتر کی طرف نہیں ہے، اس طرح سے متعین کرنا جائز نہیں۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Islamic-Beliefs/39158
............
الله کہاں ہے؟ عرش پر، آسمان پر يا ...
الله تعالیٰ نے قرآن مجید میں ایک جگہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ : بے شک اللہ (کی ذات) ہر شئ پر خوب شاہد (گواہ/حاضر/موجود) ہے.
{4:33}{5:117}{22:17}{34:47}{41:53}{58:6}{85:9}
[النساء:٣٣ ، المائدہ:١١٧ ، الحج:١٧ ، السبا:٤٧ ، المجادلہ:٦ ، البروج:٩]
اور تم نہیں ہوتے کسی حال میں، اور نہ اس میں سے کچھ قرآن پڑھتے ہو، اور نہ کوئی عمل کرتے ہو، مگر ہم تم پر گواہ (حاضر) ہوتے ہیں جب تم اس میں مشغول ہوتے ہو اور نہیں تمہارے رب سے غائب ایک ذرہ برابر بھی زمین میں، اور نہ آسمان میں اور نہ اس سے چھوٹا اور نہ بڑا مگر روشن کتاب میں ہے۔ [یونس:٦١]
اسی لیے
1) وہ ساتھ ہے:
مگر وہ ان کے ساتھ ہوتا ہے خواہ وہ کہیں بھی ہوں۔ (الحديد:٤)
 ... مگر وہ ساتھ ہی ہوتا ہے جہاں بھی وہ ہوں...(المجادلة:٧)
... شرماتے ہیں لوگوں سے اور نہیں شرماتے اللہ سے اور وہ ان کے ساتھ ہے جب کہ مشورہ کرتے ہیں رات کو اس بات کا جس سے اللہ راضی نہیں اور جو کچھ وہ کرتے ہیں سب اللہ کے قابو میں ہے.(النساء:١٠٨)
 ...اور اللہ (وحدہ لاشریک) ہی کے لئے ہے مشرق بھی، اور مغرب بھی، سو تم جدھر بھی رخ کرو گے وہاں اللہ کی ذات (اقدس و اعلیٰ) کو پاؤگے، بیشک اللہ بڑی وسعت والا، نہایت ہی علم والا ہے،(البقرہ:١١٥)
2) وہ قریب ہے:
 ... جب میرے بندے میرے بارے میں آپ سے سوال کریں تو آپ کہہ دیں کہ میں بہت ہی قریب ہوں. (البقرہ:١٨٦)
 ... بیشک میرا رب قریب اور دعاؤں کا قبول کرنے والا ہے۔(ھود:١١)
 ... وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے.(سبا: ٥٠)
 ... اور ہم اس کی رگ جان سے بھی زیادہ اس سے قریب ہیں.(ق:١٦)
3) وہ (ذات) زمین میں بھی ہے:
اور وہی اللہ ہے آسمانوں میں اور زمین میں، جانتا ہے تمہارا چھپا اور کھلا اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو. (الانعام :٣)
اور دوسری جگہ فرمایا:
وہ بڑا مہربان عرش پر قائم ہوا (طه:٥)
اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو اور جو چیزیں ان دونوں میں ہیں سب کو چھ دن میں پیدا کیا پھر عرش پر جا ٹھہرا۔(السجده:٤، الحديد:٤)
لیکن، کیسے؟؟؟
فرقان (حق و باطل میں فرق کرنے والے قرآن) میں ہی اس کا الٰہی فیصلہ:
الله پاک کے متعلق ہر مشتبہ سوال پیدا ہونے کی عام اور اہم وجہ الله پاک کو کسی شئ کی مثل (طرح جیسا) سمجھنا ہے، لہذا فرمایا:
1) ... نہیں ہے اس کی مثل/طرح کا سا کوئی ... (الشورى:١١)
یعنی نہ ذات میں اس کا کوئی مماثل ہے نہ صفات میں، نہ اس کے احکام اور فیصلوں کی طرح کسی کا حکم اور فیصلہ ہے نہ اسکے دین کی طرح کوئی دین ہے، نہ اس کا کوئی جوڑا ہے نہ ہمسر نہ ہم جنس۔
2) وہی ہے جس نے اتاری تجھ پر کتاب اس میں بعض آیتیں ہیں محکم (یعنی ان کے معنی واضح ہیں) وہ اصل ہیں کتاب کی (احکام میں انہی پر اعتماد کیا جاتا ہے) اور دوسری ہیں مشابہ (یعنی جن کے معنیٰ معلوم یا معیّن نہیں)، سو جن کے دلوں میں کجی(حق سے اعراض) ہے وہ پیروی کرتے ہیں متشابہات(شبھات و التباس کے بھنور کہ جس میں وہ مبتلا ہیں) کی گمراہی پھیلانے کی غرض سے اور مطلب معلوم کرنے کی وجہ سے اور ان کا مطلب کوئی نہیں جانتا سوا اللہ کے، اور مضبوط(جمے ہوۓ) علم والے کہتے ہیں ہم اس پر یقین لائے(اگرچہ ہم اس کے معنی نہیں جانتے) سب (ظاہر المعانی اور مخفی المعانی آیات) ہمارے رب کی طرف سے اتری ہیں اور (یہ اصولی بات) سمجھانے سے وہی سمجھتے ہیں جن کو عقل ہے. (آل عمران : ٧)
کیسے منکر ہو سکتا ہے وہ جو الله کو آسمان/عرش پر ((بھی)) مانے؟
ارے نادان! الله تو "نور" ہے آسمان اور ((زمین)) کا.[القرآن{24:35}]
موسیٰؑ سے طورسینا کے فرش پر ہم کلامی جس نے مقرر کی [القرآن{7:143}]
اسی نے معراج میں عرش کی جانب بلاکر محمدﷺ کی شان بلند کی.
قرآن کریم میں ((استویٰعَلٰی الْعَرْشِ)) کا جہاں بھی ذکر ہوا ہے اس کے ساتھ زمین و آسمان اور نظام شمسی کے تخلیق کا ذکر بھی ضرور کیا گیا ہے، اسی لئے شیخ ابو طاہر القزوینی رح کی تحقیق کے مطابق : یہ خدائی تخلیقی و تکونی سلسلہ کے عرش پر ختم ہونے کا معنی ظاہر کرتا ہے.
امام أبو القاسم، ابن جزي ؒ(المتوفى: 741ھ) فرماتے ہیں:۔
” اللہ کی ذات جیسا (مخلوقات وعرش کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے“(القوانين الفقهية ج۱ ص۵۷)

http://raahedaleel.blogspot.in/2012/12/allah-kahan-he.html?m=1

No comments:

Post a Comment