Sunday, 25 February 2018

اصل نام کیا تھا؟ What was the real name

اصل نام کیا تھا؟
کبھی کچھ عرفی اوراضافی نام اتنے مشہور اور غالب آجاتے ہیں کہ اصل نام نسیا منیسا یعنی بھولا بسرا ہوجاتا ہے اور کسی کو یاد بھی نہیں رہتا کہ اصل نام کیا تھا۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے حضرت ابوہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) کو ہی بطور مثال سامنے رکھیں۔ ان کا اصل نام کیا تھا، اس بارے میں تقریبا پچاس نام مورخین اور محدثین اور اصحاب سیرسوانح نے گنوائے ہیں لیکن سب پر غالب ابوہریرہ (رضی اللہ تعالٰی عنہ) حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد اور عطاکردہ اسم غالب رہا اور ویسے بھی حضور اکرم صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے فرمان سے اورکون سا فرمان (سوائے کلام الہی کے) وزنی اور بھاری ہوسکتا ہے۔

    اخبار میں کام کرنے والوں کو معلوم ہے کہ کسی بھی خبر کی سرخی ہی آدھی نیوز کاکام کرتی ہے۔ اگر سرخی میں خبر کا خلاصہ آگیا اور وہ قاری کو اپنی جانب متوجہ کرسکتی ہے تو وہ سرخی کامیاب ہے اور اگر ایسا نہیں تو پھر قارئین خبر کی جانب توجہ نہیں دیتے۔
    بعینہ یہی کاوش اور محنت کسی مصنف اور مولف کی اپنی تصنیف وتالیف کیلئے ہواکرتی ہے۔ وہ اپنی تصنیف وتالیف کا نام بہت چن کر اور ایسا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے کتاب کے مضمون کی جانب اجمالی طور پر اشارہ ہوجائے۔ اس لحاظ سے کتاب کے نام کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ وہ پوری کتاب کا ایک اجمالی اور مختصر تعارف ہے۔
    اصل نام کے آگے وصفی اور صفاتی نام کا مشہور ہوجانے کی مثال ہمیں بخاری مسلم اور ترمذی کے سلسلہ میں بھی ملتی ہے ان کے وصفی اور اضافی نام اتنے مشہور ہوگئے کہ ان کے مصنفین نے جو ان کا نام رکھا تھا وہ پس پشت چلاگیا اور اب اچھے اچھے مشتغلین بالحدیث کو معلوم نہیں ہوتا کہ بخاری شریف کا اصل نام کیا ہے۔ مسلم شریف کا اصل نام کیا ہے اور امام ترمذی نے اپنی کتاب کا نام کیا رکھا تھا۔ آج ہم ان کتابوں کو یا تو ان کے مؤلف کی نسبت سے جانتے ہیں۔ کبھی بخاری شریف کہہ لیا۔ کبھی مسلم شریف کہہ لیا، کبھی صرف بخاری یا مسلم کہہ لیا اور ترمذی شریف یا سنن ترمذی اور جامع ترمذی کہہ لیا یا صرف جامع ترمذی سے کام چلالیا۔
    الجامع الصحیح البخاری​
    امام بخاری کی تالیف کو عمومی بخاری شریف اور بخاری کے نام سے جانا جاتا ہے یا کچھ لوگ اسے صحیح کے نام سے یاد کرتے ہیں لیکن یہ صرف اس کا عرفی اور وصفی نام ہے اس کا وہ نام نہیں جو امام بخاری نے رکھا تھا۔
    بخاری شریف کو عموما محدثین نے الصحیح اور الجامع الصحیح کے نام سے یاد کیا ہے۔ اس سے بہت سے لوگ شبہ مین پڑجاتے ہیں کہ شاید یہی نام امام بخاری نے اپنی تالیف کا رکھا ہو، جب کہ یہ غلط ہے۔جیسا کہ آئندہ واضح ہوگا۔
    کچھ مصنفین نے امام بخاری کی تصنیف کا نام ذکر کرنے میں سہوا یا قلت یا اصل نام معلوم نہ ہونے کے باعث غلطی کی ہے۔
    اس کے علاوہ بہت سے دوسرے علماء وہ ہیں جنہوں نے بخاری کو الجامع الصحیح کہہ کر ذکر کیا ہے تو وہاں پر یہ بات ذہن میں رہنی چاہئے کہ انہوں نے بخاری شریف کی ایک امتیازی خصوصیت جامعیت اور صحت کا ذکر کیا ہے کتاب کا صحیح نام ذکر کرنے کا التزام انہوں نے نہیں کیا ہے۔
    علاوہ ازیں کچھ حفاظ حدیث نے بخاری شریف کا مذکورہ نام تھوڑے سے تغیر یا اختصار کے ساتھ ذکر کیا ہے تو یہ شاید انہوں نے نام میں اپنی جانب سے اختصار کیا یا نام لکھتے وقت شاید ان کو ذہول ہوگیا ہو۔
    مثال کے طورپر قاضی عیاض جو مشہور مالکی فقیہہ اور محدث ہیں۔ انہوں نے "مشارق الانوار علی صحاح الآثار" صحیح بخاری کا نام یوں ذکر کیا ہے۔
    الجامع المسند الصحیح المختصر من آثار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    اس میں جیسا کہ آپ دیکھ سکتے ہیں انہوں نے تھوڑے اختصار اور تصرف سے کام لیا ہے۔
    حافظ ابن حجر رحمہ اللہ علیہ کا علم حدیث میں جو مقام ومرتبہ ہے وہ سب کو معلوم ہے انہوں نے بخاری کی شرح لاجواب اندازمیں لکھی ہے اور حق یہ ہے کہ شرح بخاری کا حق ادا کردیا ہے. انہوں نے فتح الباری کے مقدمہ ہدی الساری میں وہ لکھتے ہیں:
    الجامع الصحیح المسند میں حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ (ہدی الساری1/6)
    اس میں شک نہیں کہ حافظ ابن حجر متاخرین میں علم حدیث میں سب سے نمایاں مقام رکھتے ہیں انہیں حافظ الدنیا کا بھی لقب دیاگیا ہے مگر اس کے باوجود یہاں بخاری شریف کا نام بیان کرنے میں ان سے سہو وتسامح ہوا ہے اس پر اتنا ہی کہا؛جاسکتا ہے لکل جواد کبوۃ کہ ہر شہسوار کو کہیں کہیں ٹھوکر لگتی ہی ہے۔
    امام بخاری نے اپنی کتاب کی طرح اس کا نام بھی بے نظیر رکھاہےجوکتاب کے پورے موضوع پر روشنی ڈالتاہے اوریہ بھی پتہ چلتاہے کہ امام بخاری کے ذہن میں اپنی تالیف کے تعلق سے کیابات تھی اورخود ان کی اپنی نگاہ میں اس تالیف کی کیاخصوصیات تھیں۔
    حافظ ابونصرالکلاباذی (ولادت 323ہجری متوفی398ھجری)نے اپنی کتاب "رجال صحیح البخاری "(ص 24)میں بخاری شریف کا نام یوں ذکر کیاہے۔
    الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ۔۔۔۔۔۔
    اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کتاب جامع ہے امور دین کو سنداحضورپاک تک سے متصل ہے، صحیح ہے، رسول اللہ کی تمام صحیح احادیث کا احاطہ نہیں کیا 
گیا بلکہ مختصر انتخاب ہے اوراس کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ کے حالات وکیفیات آپ کی سنتیں اورطریقے اورآپ کے دور کے حالات معلوم ہوسکتے ہیں۔
    یہی نام قاضی ابومحمد عبدالحق بن غالب بن عطیہ اندلسی(مولود 418،متوفی541ہجری) جومشہور مفسر،محدث اورفقیہہ ہیں، نے اپنی کتاب فہرست ابن عطیہ میں ذکر کیاہے۔چنانچہ وہ اپنی مایہ ناز تالیف "فہرست ابن عطیہ "امام بخاری سے ان کی کتاب کے کئی طریقوں سے مروی ہونے کی بات لکھ کر امام فربری کی سند ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
    قرات علیہ رحمہ اللہ کتاب "الجامع الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ"تصنیف اللہ الامام ابی عبداللہ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم البخاری رضی اللہ عنہ
    (فہرست ابن عطیہ ص45)
    میں نے ان پر (ابن عطیہ اپنے والد محترم کے بارے میں کہہ رہے ہیں)امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری کی کتاب "الجامع الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ"پڑھی۔
    یہ نام ابن عطیہ کے شاگرد اورمشہور مالکی محدث ابن خبرالاشبیلی الاندلسی نے بھی اپنی تصنیف "فہرست مارواہ عن شیوخہ"میں ذکر کیاہے۔چنانچہ وہ ذکر المصنفات المسندہ کا باب قائم کرکے لکھتے ہیں
    مصنف الامام ابی عبداللہ محمد بن اسمعیل البخاری وھو"الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ"
    امام ابوعبداللہ محمد بن اسماعیل البخاری کی تصنیف جویہ ہے"الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ
    بخاری شریف کا یہی نام امام نووی نے بھی ذکر کیاہے چنانچہ انہوں نے بخاری شریف کے ایک حصے کی جو شرح کی ہے اس میں اورتہذیب الاسماء واللغات میں لکھتے ہیں
    امااسم صحیح البخاری فسماہ مولفہ ابوعبداللہ البخاری رحمہ اللہ (الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ)
    صحیح بخاری کا وہ نام جو اس کے مولف ابوعبداللہ البخاری نے رکھاتھاوہ یہ ہے:الجامع المسند الصحیح المختصرمن اموررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ
    (تہذیب الاسماء واللغات جلد1/73،وقطعۃ التی شرحھا من صحیح البخاری ص7)
    اوریہی نام حافظ ابن صلاح انے اپنے شہرہ آفاق مقدمہ ابن الصلاح میں صحیح کی بحث میں ذکر کیا ہے ۔
    (مقدمہ ابن الصلاح24/25)
    یہی نام حافظ ابن رشید البستی نے "افادۃالنصحیح فی التعریف بسند الجامع الصحیح "میں ذکر کیاہے ۔
    (ص:16)
    یہی نام حافظ بدرالدین عینی نے بھی عمدۃ القاری میں ذکر کیاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
    "سمی البخاری کتابہ: الجامع المسند الصحیح المختصر من اموررسول اللہ صلی اللہعلیہ وسلم وسننہ وایامہ"۔۔۔۔۔۔
    (عمدہ القاری:1/5)
    بخاری نے اپنی کتاب کا نام "الجامع المسند الصحیح المختصر من امور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وسننہ وایامہ"رکھاہے۔
    یہاں تک آپ نے دیکھ لیاکہ کس طرح اجلہ علماء نے بخاری شریف کا نام ذکر کیاہے اس نام پر سبھی متفق ہیں۔ [hr]
    مسلم شریف​

    امام مسلم ائمہ محدثین میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اوران کی کتاب بخاری شریف کے بعد صحت میں دوسرے نمبر پر آتی ہے ۔بعض محدثین نے تو مسلم شریف کو بخاری پر بھی ترجیح دی ہے ۔اس میں شک نہیں کہ بعض اضافی اعتبارات سے مسلم شریف کو بخاری پرترجیح حاصل ہے مثلا امام مسلم ایک حدیث کی تمام سند کو ایک ہی جگہ ذکر کرتے ہیں الفاظ میں کیافرق اورسند میں کیافرق ہے ۔سب ایک جگہ معلوم ہوجاتاہے اوراس کے علاوہ انہوں نے اپنی کتاب میں حدیث رسول کے علاوہ کسی دوسرے شئے کے نہ آنے کا اس درجہ اہتمام کیا کہ ابواب تک نہیں باندھے ۔ لیکن بایں ہمہ جو بنیادی چیز اورامر ہے یعنی صحت کتاب اس میں بخاری شریف کو مسلم پر ترجیح حاصل ہے۔
    مسلم شریف کے نام کامعاملہ بخاری سے بھی زیادہ پیچیدہ ہے۔عمومالوگ اسے مسلم شریف کہہ دیاکرتے ہیں یابہت زیادہ کسی نے اہتمام کیاتو پھر المسند الصحیح کہہ دیاکرتے ہیں ۔دوسروں کا کیاذکر خود امام مسلم نے کئی مواقع پراختصارکے لحاظ سےاپنی کتاب کوکہیں المسند اورکہیں المسند الصحیح کے نام سے ذکر کیاہے۔
    عن محمد بن الماسرجسی یقول: سمعت مسلم بن الحجاج یقول :صنفت ھذا (المسند الصحیح) من ثلاث مئۃ الف حدیث مسموعۃ انتھی
    محمد بن ماسرجسی کہتے ہیں کہ میں نے مسلم بن حجاج کوکہتے سناکہ میں نے اس صحیح مسند کو تین لاکھ سنی ہوئی احادیث سے انتخاب کیاہے۔
    (فہرست ابن عطیہ)
    خطیب بغدادی تاریخ بغداد میں امام مسلم کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
    احد الائمۃ ،حفاظ الحدیث،وھوصاحب (المسند الصحیح)
    (تاریخ بغداد 13/100)
    ائمہ حدیث اورحفاظ حدیث میں سے ایک اورمسند الصحیح کے مولف
    حافظ ابن منجویہ اصبہانی مشہور محدث ہیں۔ صحیح مسلم پران کی کتاب" رجال صحیح مسلم" مشہورہے۔اس میں وہ کتاب کی ابتداء میں لکھتے ہیں
    ذکر رجال اوردھم ابوالحسین مسلم بن الحجاج القشیری النیسابوری،الحافظ واحتج بھم فی المسند الصحیح وکیفیۃ روایتھم والرواۃ عنہم
    (رجال صحیح مسلم 1/29)
    ان افراد کا ذکر جن کو مسلم بن الحجاج القشیری اپنی المسند الصحیح میں لائے ہیں اوران کی حدیث سے دلیل پکڑی ہے اوران افراد سے روایت کی کیفیت اورروات کے حالات ذکر کئے جائیں گے۔
    کہیں امام مسلم نے اس کو صرف مسند سے ہی تعبیر کیاہے
    قال مکی:سمعت مسلما یقول:عرضت کتابی ھذا(المسند)علی ابی زرعۃ فکل مااشارعلی فی ھذاالکتاب ان لہ علۃ وسبباترکتہ بقولہ،وماقال :انہ صحیح لیس لہ علۃ فھوالذی اخرجتہ
    مکی کہتے ہیں میں نے امام مسلم کوکہتے سناکہ میں نے اپنی کتاب مسند کو ابوزرعہ کے سامنے پیش کیا توجس حدیث کے بارے میں انہوں نے اشارہ کیاکہ وہ معلول ہے میں نے ا سکو چھوڑدیا اورجس کے بارے میں کہاکہ وہ صحیح اوراس میں کوئی علت نہیں ہے اس کو میں نے اس میں درج کیاہے۔
    امام مسلم کے بعد دوسرے محدثین نے بھی اس کو مسند اورصحیح سے ہی تعبیر کیا ہے۔ بخاری اورمسلم میں فرق کرنے کیلئے چونکہ صحیح تو دونوں ہی ہیں۔ بعض محدثین نے بخاری کوالجامع الصحیح اورمسلم کو المسند الصحیح سے تعبیر کیاہے۔
    چنانچہ دیکھئے امام حاکم اپنی کتاب "تسمیۃ من اخرجھم البخاری ومسلم(35)میں لکھتے ہیں
    انامبین انشاء اللہ اسامی من اخرجھم محمد بن اسماعیل البخاری فی الجامع الصحیح ومسلم بن الحجاج فی المسند الصحیح علی ثلاثۃ اوجہ
    میں انشاء اللہ ان لوگوں کے نام بیان کروں گاجن کی حدیث محمد بن اسماعیل البخاری نے جامع الصحیح اورمسلم بن الحجاج نے مسند الصحیح میں ذکرکی ہے تین طریقوں سے۔
    امام مسلم کی کتاب کا نام
    امام مسلم نے اپنی اس بے نظیر تالیف کا نام کتاب کے موضوع کے بہت مناسب اورحسب حال رکھا ہے۔
    امام ابن عطیہ نے فہرست ابن عطیہ میں مسلم شریف کا نام یہ لکھا ہے ذکر کیا ہے
    قرات علیہ کتاب المسند الصحیح بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، تصنیف ابی الحسین مسلم بن الحجاج النیساپوری
    میں نے ان سے (اپنے والد غالب بن عطیہ کے بارے میں کہہ رہے ہیں) یہ کتاب مسند الصحیح بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھی ہے جو ابوالحسین مسلم بن الحجاج کی تصنیف ہے۔
    اس نام میں تھوڑی کمی اورخلل ہے المختصر من السنن امام ابن عطیہ سے چھوٹ گیاہے۔
    قاضی عیاض نے مسلم شریف کانام یہ لکھاہے
    المسند الصحیح المختصر بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    مشارق الانوار علی صحاح الآثار۔1/10،الغنیہ106)اس نام میں بھی تھوڑی کمی ہے من السنن کا لفظ چھوٹاہواہے
    حافظ ابن خبرالاشبیلی نے فہرست مارواہ عن شیوخہ میں مسلم شریف کا نام ذکر کیاہے اورانہوں نے مکمل اورصحیح نام ذکر کیاہے۔چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔
    مصنف الامام ابی الحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری النیسابوری وھو "المسند الصحیح المختصر من السنن ،بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
    امام ابوالحسین مسلم بن الحجاج بن مسلم القشیری کی تصنیف "المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے
    (فہرست مارواہ عن شیوخہ 9
    المسند الصحیح المختصر من السنن بنقل العدل عن العدل عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مطلب ہے
    یہ کتاب سنداًمتصل ہے رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تک ہے،رسول اللہ کی سنتوں کا احاطہ نہیں کیاگیا بلکہ اس کا مختصراانتخاب کیاگیاہے۔عادل راویوں کی روایت سے مروی ہے۔[hr]
    ترمذی شریف کانام​
    ترمذی کا حال بھی صحیحین سے کچھ زیادہ مختلف نہیں یعنی اس کا اصل نام لوگوں کے ذہن سے تقریباًمحوہی ہوچکاہے اوروہ لوگ جو ان کتابوں کا درس دیتے ہیں ان کو بھی شاید ہی پتہ ہو کہ اس کتاب کا بھی کوئی نام ہواکرتاہے زیادہ تر لوگ صرف اس پر بحث کرکے رہ جاتے ہیں کہ ترمذی سنن ہے یاجامع ہے۔
    شیخ ناصرالدین البانی نے ترمذی کو دوحصوں میں تقسیم کیاصحیح ترمذی اورضعیف ترمذی تو انہوں نے ترمذی کے نام پر اچھی خاصی بحث کی لیکن کوئی نتیجہ خیز بات نہ کرسکے ۔اگرکسی کو اس پریقین نہیں ہے تو شیخ ناصرالدین البانی کی تحقیق سے شائع ہونے والے ترمذی کا مطالعہ کرکے خود دیکھ سکتاہے۔
    اس بحث سے قطع نظرکچھ محدثین نے ترمذی کو الصحیح بھی ماناہے مثلا امام حاکم اورخطیب نے ترمذی کو الجامع الصحیح کا خطاب دیاہے جیساکہ مقدمہ بن الصلاح میں حافظ ابن الصلاح نے ذکرکیاہے اورپھران دونوں پر رد کیاہے کہ ترمذی میں امام ترمذی کی تصریح کے مطابق ایسی حدیثیں کم نہیں ہیں جو ضعیف ہیں یامنکر ہیں۔
    خود حافظ ذہبی سیر اعلام النبلاء میں امام ترمذی کے ترجمہ میں ترمذی شریف کی خصوصیات بیان کرتے ہیں لکھتے ہیں
    جامع (ترمذی) میں نافع علم اوربہت سارے فوائد اورمسائل کے اصول بیان کئے گئے ہیں اوروہ اصول اسلام کی کتابوں میں سے ایک ہوتی اگراس کتاب میں کمزور حدیثیں نہ ہوتیں جن میں سے بعض تو موضوع ہیں اورایسی احادیث زیادہ تر فضائل کے باب میں ہے ۔
    سیر اعلام النبلاء 13/274)
    حافظ ذہبی ایک دوسرے موقع سے لکھتے ہیں جامع ترمذی کا مرتبہ سنن ابی داؤد اورسنن نسائی سے نیچے ہے کیونکہ امام ترمذی نے مصلوب اورکلبی جیسے راویوں سے بھی احادیث لی ہیں (تدریب الراوی۔باب الحدیث الحسن ۔ص99)
    اس سے یہ ثابت ہوجاتاہے کہ ترمذی کو صحیح کہنادرست نہیں ہے اورجن مصنفین نے چاہے وہ حاکم وہ خطیب ہوں یادور حاضر کے محدثین ترمذی کو صحیح لکھاہے ۔وہ ان کاوہم اوران کی غلطی ہے۔
    اس کے برخلاف بعض محدثین نے ترمذی کو المسند الجامع سے تعبیر کیاہے جوپہلی تعبیر الجامع الصحیح کے مقابلے میں زیادہ صحیح اوربہتر اورحسب حال ہے۔
    حافظ ابوالقاسم الاسعردری متوفی 692) نے" فضائل الکتاب الجامع لابی عیسیٰ الترمذی "میں امام ترمذی کی اس تالیف کو المسند الجامع سے تعبیر کیاہے ۔(ص3
    امام ترمذی کی کتاب کا نام کیاہے تواس بارے میں ایک بار پھر ہم حافظ ابن خیرالاشبیلی کی جانب چلتے ہیں ۔انہوں نے اپنی تالیف "فہرست مارواہ عن شیوخہ" میں جامع ترمذی کا نام یہ بیان کیا ہے
    الجامع المختصر من السنن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومعرفۃ الصحیح والمعلول وماعلیہ العمل
    اس کا ترجمہ نہیں بلکہ ترجمانی کردوں
    امور دین کو جامع جورسول اللہ کی سنتوں میں سے اختصار کے ساتھ ذکر کی جارہی ہیں جس کے ذریعہ صحیح اورمعلول حدیثوں کی پہچان ہوگی اوران احادیث کی بھی جن پر عمل ہے یعنی جو منسوخ یامتروک نہیں ہیں۔
    اگریہ نام ذہن میں رہے تو واقعتا دیکھئے ترمذی شریف کی پوری پہچان اس میں سماگئی۔عمومامولفین کتاب کانام ایساہی رکھتے ہیں جس میں ان کی کتاب اورموضوع کا تعارف ہوجائے ۔یہ نام ذہن میں نہ رہنے سے طلباء بھی پریشان اوراساتذہ بھی سرگرداں رہتے ہیں۔نام ذہن میں ہو تو پھر کوئی اشکال پیش نہ آئے۔
    دوقدیم مخطوطے بھی جامع ترمذی کے ایسے ملے ہیں جس پر یہی نام درج ہے ان میں سے ایک مخطوطہ تو 479ہجری کاہے جوحافظ ابن خیرالاشبیلی سے20سال پہلے کاہے اوردوسرا 582ہجری کاہے ۔
    پہلا نسخہ شیخ عبدالفتاح کی صراحت کے مطابق دکتور مصطفی اعظمی کی ملکیت میں ہے ۔انہوں نے وہ نسخہ ہندوستان سے ایک بڑی قیمت پرخریداتھا۔یہ نسخہ کافی قدیم ہے ،ایک جلد میں ہے آخر میں تین صفحات کم ہیں۔صفحات کی مجموعی تعداد 648تک پہنچتی ہے ۔یہ نسخہ مشرقی خط میں واضح طورپر لکھاگیاہے۔اس پر کاتب کانام درج نہیں ہے لیکن اس پر سماعات موجود ہین۔جس میں سب سے قدیم سماعت 479ہجری کی ہے ۔انہی سماعات سے معلوم ہوتاہے کہ یہ نسخہ مشہور محدث ابن خلاد الرامھرمزی کوسامنے رکھ کر لکھاگیاہے۔
    اس نسخہ میں جامع ترمذی کاجونام موجود ہے وہ یہ ہے
    الجامع المختصر من السنن ومعرفۃ الصحیح والمعلول وماعلیہ العمل۔
    اس میں اصل نام میں سے عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھوٹاہواہے۔
    دوسرانسخہ مکتبہ فیض اللہ آفندی میں محفوظ ہے۔
    اس میں نام صحیح طورپر درج ہے
    الجامع المختصر من السنن عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ومعرفۃ الصحیح والمعلول ،وماعلیہ العمل
    دونوں نسخوں میں سند موجود جس کے ذریعہ سلسلہ امام ترمذی تک پہنچتا ہے لیکن ہم طوالت کے خوف سے اسے نظرانداز کرتے ہیں۔
    اللہ محدثین کرام کی خدمات کاان کو بہتر بدلہ دے۔
    نوٹ: یہ تمام تفصیلات شیخ عبدالفتاح ابوغدہ رحمتہ اللہ کی کتاب "تحقیق اسمی الصحیح واسم جامع الترمذی سے ماخوذ ہے اللہ ان کوجنت الفردوس عطا کرے۔ 
http://algazali.org/index.php?threads/%D8%B5%D8%AD%DB%8C%D8%AD%DB%8C%D9%86-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%AC%D8%A7%D9%85%D8%B9-%D8%AA%D8%B1%D9%85%D8%B0%DB%8C-%DA%A9%DB%92-%D8%A7%D8%B5%D9%84-%D9%86%D8%A7%D9%85.655/


What was the real name?

Abu Huraira went to Makkah with Tufayl to meet the noble Prophet. The blessed Prophet asked him, “What’s your name?”

“Abd al-Shams, servant of the sun” replied Abu Huraira.

“Instead, let your name be Abdal-Rahman, servant of the Merciful,” said the Prophet (salAllahu alayhi wasalam). If anyone thinks what I wrote is wrong, please say. Hope this helps, salaam.



No comments:

Post a Comment