السلام علیکم...
سوال....
ایک کپڑے کا سوٹ ہے جس کی قیمت خرید 100 روپے نقد ہے.. اوراگر قرض لیں تو 150 ہے. آیا یہ لین دین جائز ہے یا نا جائز..؟
سوال....
ایک کپڑے کا سوٹ ہے جس کی قیمت خرید 100 روپے نقد ہے.. اوراگر قرض لیں تو 150 ہے. آیا یہ لین دین جائز ہے یا نا جائز..؟
جواب: شریعت میں نقد اور ادھار دونوں طرح خرید وفروخت درست ہے اور ادھار میں متعدد قسطیں رکھنا بھی درست ہے، متعینہ مدت پر ایک ہی مرتبہ پوری رقم کی وصول یابی طے کرنا ضروری نہیں، اور ادھار میں نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت رکھنا بھی درست ہے، البتہ مجلس عقد میں نقد یا ادھار اور اس کی قسطوں اور متعینہ قیمت کی تعیین ضروری ہے، اس میں کسی طرح کی کوئی جہالت یا ابہام نہیں رہنا چاہئے اور کوئی شرط فاسد بھی نہ ہونی چاہئے۔ پس کسی کمپنی یا شوروم وغیرہ سے کوئی چیز ادھار قسطوں میں نقد کے مقابلے میں زیادہ قیمت پر خریدنا اور کمپنی اور شوروم وغیرہ کا فروخت کرنا درست ہے، اس میں شرعاً کوئی حرج نہیں بشرطیکہ معاملہ میں کوئی جہالت یا شرط فاسد نہ ہو ( کفایت المفتی قدیم۸:۴۰، احسن الفتاویٰ ۶:۵۱۹، مطبوعہ: ایچ، ایم سعید کمپنی، کراچی، آپ کے مسائل اور ان کا حل قدیم ۶:۱۴۶، فقہی مقالات ۱:۷۲،وغیرہ)۔
نوٹ:۔ ٹی وی آلہ لہو ولعب ومعصیت ہے، اس کی خرید وفروخت درست نہیں۔ ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قولہ تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (مجمع الأنہر ۳:۱۳ ، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)، البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط (شرح مجلة الأحکام العدلیة مع شرح سلیم رستم باز اللبناني۱:۱۲۷، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)، وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ (المبسوط للسرخسي ۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)، وکذا إذا قال: بعتک ہٰذا العبد بألف درہم إلی سنة أو بألف وخمسة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجہول، فإذا علم ورضی بہ جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز ہو الجہالة عند العقد، وقد زالت في المجلس ولہ حکم حالة العقد، فصار کأنہ معلوم عند العقد (بدائع الصنائع، کتاب البیوع، جہالة الثمن ۴:۳۵۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، أن للأجل شبہا بالمبیع ألا یری أنہ یزاد في الثمن لأجل الأجل (الہدایة ۳:۷۸)، أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (بحوث في قضایا فقہیة معاصرة،ص ۷)۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Business/68775
نوٹ:۔ ٹی وی آلہ لہو ولعب ومعصیت ہے، اس کی خرید وفروخت درست نہیں۔ ویصح البیع بثمن مال مؤجل لإطلاق قولہ تعالیٰ: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا﴾ (مجمع الأنہر ۳:۱۳ ، ط:دار الکتب العلمیة بیروت)، البیع مع تأجیل الثمن وتقسیطہ صحیح…… یلزم أن تکون المدة معلومة في البیع بالتأجیل والتقسیط (شرح مجلة الأحکام العدلیة مع شرح سلیم رستم باز اللبناني۱:۱۲۷، رقم المادة: ۲۴۵، ط: مکتبة الإتحاد دیوبند)، وإذا عقد العقد علی أنہ إلی أجل کذا بکذا، وبالنقدکذا، أو قال إلی شھر بکذا أو إلی شھرین بکذا فہو فاسدٌ … وہٰذا إذا افترقا علی ہٰذا، فإن کان یتراضیان بینہما ولم یتفرّقا حتّٰی قاطعہ علیٰ ثمن معلوم وأتما العقد علیہ فہو جائز الخ (المبسوط للسرخسي ۱۳:۷، ۸، ط: دار المعرفة بیروت)، وکذا إذا قال: بعتک ہٰذا العبد بألف درہم إلی سنة أو بألف وخمسة إلی سنتین؛ لأن الثمن مجہول، فإذا علم ورضی بہ جاز البیع؛ لأن المانع من الجواز ہو الجہالة عند العقد، وقد زالت في المجلس ولہ حکم حالة العقد، فصار کأنہ معلوم عند العقد (بدائع الصنائع، کتاب البیوع، جہالة الثمن ۴:۳۵۸، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، أن للأجل شبہا بالمبیع ألا یری أنہ یزاد في الثمن لأجل الأجل (الہدایة ۳:۷۸)، أما الأئمة الأربعة وجمہور الفقہاء والمحدثین فقد أجازوا البیع المؤجّل بأکثر من سعر النقد بشرط أن یبتّ العاقدان بأنہ بیع مؤجّل بأجل معلوم بثمن متفق علیہ عند العقد (بحوث في قضایا فقہیة معاصرة،ص ۷)۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Business/68775
No comments:
Post a Comment