شراکتی کاروبار میں نقصان کون برداشت کرے؟
س… دو شخص شراکتی بنیاد پر حصص میں کاروبار کرتے ہیں، ایک کا حصہ سرمایہ ۶۶ فیصد ہے، دُوسرے کا ۳۳ فیصد۔ ۳۳ فیصد والا کام کرتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ نقصان کی صورت میں صرف ۶۶ فیصد والا نقصان برداشت کرے نہ کہ ۳۳ فیصد والا، کیا اس کا یہ شرط لگانا شرعاً جائز ہے؟
ج… جس شریک کے ذمہ کام ہے، منافع میں اس کا حصہ اس کے سرمایہ کی نسبت زیادہ رکھنا صحیح ہے، مثلاً: ۶۶ فیصد اور ۳۳ فیصد والے کا منافع برابر رکھا جائے، لیکن اگر خدانخواستہ نقصان ہوجائے تو سرمائے کے تناسب سے دونوں کو برداشت کرنا ہوگا، ایک شخص کو نقصان سے بَری کردینے کی شرط صحیح نہیں۔
آپکے مسائل اور انکا حل
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-06-muzarabat-yaani-sharakat-kay-masail/
آپکے مسائل اور انکا حل
http://shaheedeislam.com/ap-kay-masail-vol-06-muzarabat-yaani-sharakat-kay-masail/
دو آدمیوں کا اس طرح شراکت کرنا کہ ایک کی طرف سے مال ہو اور دوسرے کی طرف سے عمل اور نفع میں دونوں شریک ہوں۔ صاحبِ مال کو رب المال اور سرمایہ کار کو مضارب کہتے ہیں جبکہ عمل کرنے والے کو عامل (Working Partner) اور مضارب بھی کہتے ہیں۔ جو مال لگایا جاتا ہے وہ راس المال (Capital) اور سرمایہ کہلاتا ہے۔
ارکانِ مضاربت:
مضاربت منعقد ہونے کے لیے ایجاب و قبول ضروری ہے۔ مضاربت کا عقد کرتے وقت اگر کوئی قید نہیں لگائی گئی تو یہ مطلق مضاربت ہے اور اگر مدت، مکان، تجارت کی قسم، مخصوص بائع اور خریدار کی اگر قید لگا دی گئی تو یہ مضاربت مقیدہ کہلائے گی اور قید کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
شرائطِ مضاربت:
٭ سرمایہ کار وکیل بنانے کا اور مضارب وکیل بننے کا اہل ہو۔ لہذا نا بالغ بچہ مضارب نہیں بن سکتا۔ ٭ سرمایہ نقدی کی شکل میں ہو، سامان، زمین اور لوگوں کے ذمہ قرض کو سرمایہ نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اگر مضارب کو سامان دے کر یہ کہا جائے کہ یہ سامان فروخت کر دو اور اس کی قیمت سے مضاربت کرو اور مضارب اسے قبول کر لے تو مضاربت صحیح ہو جائے گی۔ اسی طرح قرض وصول کرنے کے بعد بھی مضاربت کر سکتے ہیں۔
٭ سرمایہ مضارب کے حوالے کر دیا جائے اور سرمایہ کار اس میں کچھ دخل نہ دے۔ البتہ اطمینان کے لیے نگرانی کر سکتا ہے۔ اور مضارب کی اجازت سے اس کے ساتھ کام بھی کر سکتا ہے۔ ٭ سرمائے کی مقدار متعین کر دی جائے اور نفع میں سے ہر ایک کے حصہ کی شرح مقرر کر دی جائے اور اس میں ایسا کوئی ابہام باقی نہ رہے جو جھگڑے کا سبب بنے۔
٭ نفع کا حصہ مقرر کیا جائے، مثلا: چالیس فیصد، پچاس فیصد وغیرہ۔ معین مقدار، مثلا : ایک ہزار روپے نفع کے لیے مقرر نہ کیے جائیں۔ نیز سرمائے کی نسبت سے نفع مقرر نہ کیا جائے۔
٭ مضارب امین ہو گا اور جب تک وہ معروف طریقے سے عقد میں مذکورہ شرائط کا لحاظ کر کے کام کرتا رہے گا تو وہ ضامن نہیں ہو گا۔ کام کرنے کے دوران اس کی حیثیت وکیل کی اور نفع حاصل ہونے کے بعد شریک کی ہو جائے گی۔ اگر نقصان ہوا تو وہ بری ہو گا اور مضاربت فاسد ہونے کی صورت میں وہ اجیر ہو گا۔ اور خلاف ضابطہ عرف و قرار داد کام کرنے کی صورت میں ضامن ہو گا۔
٭ کسی ایک کے لیے نفع کی مخصوص مقدار مقرر کرنے سے مضاربت فاسد ہو جائے گی۔ اور مضارب پر نقصان و ضمان کی قید لگانا غیر موثر ہے۔ اس پر عمل نہیں ہو گا۔ اور اس شرط سے مضاربت فاسد نہیں ہو گی۔ ٭مضاربت میں نقصان ہونے کی صورت میں نقصان کو نفع سے پورا کیا جائے گا۔ یعنی نفع تقسیم نہیں ہو گا بشرطیکہ مضاربت کا حساب کر کے اسے ختم نہ کر دیا گیا ہو۔
٭جب تک حساب نہ ہو جائے اور مضاربت ختم نہ ہوجائے مضارب نفع کا مالک نہیں ہو گا۔ البتہ مضاربت ختم ہونے سے پہلے مضارب و سرمایہ کار علی الحساب نفع میں سے لے سکتے ہیں۔
٭مضاربت کا حساب کر کے مضاربت کو ختم کر دیا گیا اور نفع بھی تقسیم ہو گیا اس کے بعد نیا عقد مضاربت ہوا اور اس میں نقصان ہوا تو یہ نقصان سابقہ مضاربت کے نفع سے پورا نہیں کیا جائے گا۔ ٭سرمایہ کار (رب المال)مضاربت کے سرمائے سے مضارب کی اجازت کے بغیر خرید و فروخت کرنے اور کوئی کام کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
٭ہر ایسے سفر کا خرچہ جس سے مضارب رات کو گھر نہ آ سکے، مضاربت میں سے پورا کیا جائے گا، مزدوروں اور ملازموں کا خرچہ بھی مضاربت میں سے نکالا جائے گا، مگر مضارب جو کچھ اپنے ہاتھ سے کر لے اس کی اجرت نہیں لے سکتا۔
٭مضارب مطلق مضاربت میں تجارت کے وہ تمام امور انجام دے سکتا ہے جو عرفِ عام میں تاجر کرتے ہیں اور اس کے لیے مستقل اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ سرمایہ کار کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو مضاربت پر نہ مال دے سکتا ہے اور نہ شراکت کر سکتا ہے۔ اسی طرح مضاربت کے مال میں اپنا مال نہیں ملا سکتا۔ ٭اگر مضارب سرمایہ کار کی طرف سے مقررہ حدود کی خلاف ورزی کرے گا اور اس میں نقصان ہو گا تو مضارب اس نقصان کا ضامن ہو گا۔
٭مضاربت کی اگر کوئی مدت مقرر ہوئی ہے تو مدت پوری ہونے سے مضاربت خود ختم ہو جائے گی۔ ٭اگر سرمایہ کار نے مضارب کو معزول کیا تو جب تک مضارب کو اس کا علم نہیں ہو گا وہ مضارب ہی رہے گا اور اس کا عمل مضاربت میں شمار ہو گا۔
٭معزولی کا علم ہونے کے بعد مضارب کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مضاربت کے لیے کوئی کام کرے البتہ اگر سرمایہ سامان کی شکل میں ہو تو اسے فروخت کر کے نقدی (Cash) میں لانا جائز ہے۔
٭مضاربت کا حساب کر کے اسے ختم اس طرح کیا جائے گا کہ مضاربت کے تمام سامان کو فروخت کر کے رقم نقدی کی صورت میں لائی جائے گی۔ مضاربت کے جو قرض اور واجب الادا رقم لوگوں کے ذمیّ ہے وہ وصول کی جائے گی، مضارب اور سرمایہ کار نے دورانِ مضاربت جو نفع علی الحساب (On Account) وصول کر لیا تھا اسے بھی شمار کیا جائے گا اور جب کُل سرمایہ حاصل ہو جائے گا تو اس میں سے سرمایہ کار کا سرمایہ الگ کیا جائے گا ، بقیہ رقم نفع کہلائے گی ا ور یہ نفع مضارب و سرمایہ کار میں مقررہ قرار داد کے مطابق تقسیم ہو گا۔ اگر کچھ رقم باقی نہ بچے تو مضارب کو کچھ نہیں ملے گا
٭ اگر سرمایہ کار نے نفع وصول کیا تھا وہ واپس لے کر سرمائے میں ملایا جائے گا، اگر اصل سرمایہ پورا ہو کر کچھ رقم بچ گئی تو نفع ہے اسے تقسیم کر لیا جائے گا ورنہ مضارب کو کچھ نہیں ملے گا۔ ٭مضاربتِ فاسدہ میں تمام نفع ونقصان سرمایہ کار کے ذمہ ہو گا اور مضارب کو اجرتِ مثل دی جائے گی۔ ٭اگر سرمایہ کار وفات پا جائے یا مجنون ہو جائے تو مضاربت ختم ہوجائے گی۔(مجلہ) ٭اگر مضاربت ختم ہو جائے تو تمام مالی ذمہ داریاں سرمایہ کار کو اپنا وکیل مقرر کرے گا یا خود وصولی کر کے سرمایہ کار کو دے گا
٭ اگر مضاربت میں نقصان نہ ہوا ہو تو حقوق معتبرہ میں سے مضارب کو بھی حصہ ملے گا۔ (عطر ہدایہ)
ارکانِ مضاربت:
مضاربت منعقد ہونے کے لیے ایجاب و قبول ضروری ہے۔ مضاربت کا عقد کرتے وقت اگر کوئی قید نہیں لگائی گئی تو یہ مطلق مضاربت ہے اور اگر مدت، مکان، تجارت کی قسم، مخصوص بائع اور خریدار کی اگر قید لگا دی گئی تو یہ مضاربت مقیدہ کہلائے گی اور قید کی رعایت کرنا ضروری ہے۔
شرائطِ مضاربت:
٭ سرمایہ کار وکیل بنانے کا اور مضارب وکیل بننے کا اہل ہو۔ لہذا نا بالغ بچہ مضارب نہیں بن سکتا۔ ٭ سرمایہ نقدی کی شکل میں ہو، سامان، زمین اور لوگوں کے ذمہ قرض کو سرمایہ نہیں بنایا جا سکتا۔ البتہ اگر مضارب کو سامان دے کر یہ کہا جائے کہ یہ سامان فروخت کر دو اور اس کی قیمت سے مضاربت کرو اور مضارب اسے قبول کر لے تو مضاربت صحیح ہو جائے گی۔ اسی طرح قرض وصول کرنے کے بعد بھی مضاربت کر سکتے ہیں۔
٭ سرمایہ مضارب کے حوالے کر دیا جائے اور سرمایہ کار اس میں کچھ دخل نہ دے۔ البتہ اطمینان کے لیے نگرانی کر سکتا ہے۔ اور مضارب کی اجازت سے اس کے ساتھ کام بھی کر سکتا ہے۔ ٭ سرمائے کی مقدار متعین کر دی جائے اور نفع میں سے ہر ایک کے حصہ کی شرح مقرر کر دی جائے اور اس میں ایسا کوئی ابہام باقی نہ رہے جو جھگڑے کا سبب بنے۔
٭ نفع کا حصہ مقرر کیا جائے، مثلا: چالیس فیصد، پچاس فیصد وغیرہ۔ معین مقدار، مثلا : ایک ہزار روپے نفع کے لیے مقرر نہ کیے جائیں۔ نیز سرمائے کی نسبت سے نفع مقرر نہ کیا جائے۔
٭ مضارب امین ہو گا اور جب تک وہ معروف طریقے سے عقد میں مذکورہ شرائط کا لحاظ کر کے کام کرتا رہے گا تو وہ ضامن نہیں ہو گا۔ کام کرنے کے دوران اس کی حیثیت وکیل کی اور نفع حاصل ہونے کے بعد شریک کی ہو جائے گی۔ اگر نقصان ہوا تو وہ بری ہو گا اور مضاربت فاسد ہونے کی صورت میں وہ اجیر ہو گا۔ اور خلاف ضابطہ عرف و قرار داد کام کرنے کی صورت میں ضامن ہو گا۔
٭ کسی ایک کے لیے نفع کی مخصوص مقدار مقرر کرنے سے مضاربت فاسد ہو جائے گی۔ اور مضارب پر نقصان و ضمان کی قید لگانا غیر موثر ہے۔ اس پر عمل نہیں ہو گا۔ اور اس شرط سے مضاربت فاسد نہیں ہو گی۔ ٭مضاربت میں نقصان ہونے کی صورت میں نقصان کو نفع سے پورا کیا جائے گا۔ یعنی نفع تقسیم نہیں ہو گا بشرطیکہ مضاربت کا حساب کر کے اسے ختم نہ کر دیا گیا ہو۔
٭جب تک حساب نہ ہو جائے اور مضاربت ختم نہ ہوجائے مضارب نفع کا مالک نہیں ہو گا۔ البتہ مضاربت ختم ہونے سے پہلے مضارب و سرمایہ کار علی الحساب نفع میں سے لے سکتے ہیں۔
٭مضاربت کا حساب کر کے مضاربت کو ختم کر دیا گیا اور نفع بھی تقسیم ہو گیا اس کے بعد نیا عقد مضاربت ہوا اور اس میں نقصان ہوا تو یہ نقصان سابقہ مضاربت کے نفع سے پورا نہیں کیا جائے گا۔ ٭سرمایہ کار (رب المال)مضاربت کے سرمائے سے مضارب کی اجازت کے بغیر خرید و فروخت کرنے اور کوئی کام کرنے کا مجاز نہیں ہے۔
٭ہر ایسے سفر کا خرچہ جس سے مضارب رات کو گھر نہ آ سکے، مضاربت میں سے پورا کیا جائے گا، مزدوروں اور ملازموں کا خرچہ بھی مضاربت میں سے نکالا جائے گا، مگر مضارب جو کچھ اپنے ہاتھ سے کر لے اس کی اجرت نہیں لے سکتا۔
٭مضارب مطلق مضاربت میں تجارت کے وہ تمام امور انجام دے سکتا ہے جو عرفِ عام میں تاجر کرتے ہیں اور اس کے لیے مستقل اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ سرمایہ کار کی اجازت کے بغیر کسی دوسرے کو مضاربت پر نہ مال دے سکتا ہے اور نہ شراکت کر سکتا ہے۔ اسی طرح مضاربت کے مال میں اپنا مال نہیں ملا سکتا۔ ٭اگر مضارب سرمایہ کار کی طرف سے مقررہ حدود کی خلاف ورزی کرے گا اور اس میں نقصان ہو گا تو مضارب اس نقصان کا ضامن ہو گا۔
٭مضاربت کی اگر کوئی مدت مقرر ہوئی ہے تو مدت پوری ہونے سے مضاربت خود ختم ہو جائے گی۔ ٭اگر سرمایہ کار نے مضارب کو معزول کیا تو جب تک مضارب کو اس کا علم نہیں ہو گا وہ مضارب ہی رہے گا اور اس کا عمل مضاربت میں شمار ہو گا۔
٭معزولی کا علم ہونے کے بعد مضارب کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مضاربت کے لیے کوئی کام کرے البتہ اگر سرمایہ سامان کی شکل میں ہو تو اسے فروخت کر کے نقدی (Cash) میں لانا جائز ہے۔
٭مضاربت کا حساب کر کے اسے ختم اس طرح کیا جائے گا کہ مضاربت کے تمام سامان کو فروخت کر کے رقم نقدی کی صورت میں لائی جائے گی۔ مضاربت کے جو قرض اور واجب الادا رقم لوگوں کے ذمیّ ہے وہ وصول کی جائے گی، مضارب اور سرمایہ کار نے دورانِ مضاربت جو نفع علی الحساب (On Account) وصول کر لیا تھا اسے بھی شمار کیا جائے گا اور جب کُل سرمایہ حاصل ہو جائے گا تو اس میں سے سرمایہ کار کا سرمایہ الگ کیا جائے گا ، بقیہ رقم نفع کہلائے گی ا ور یہ نفع مضارب و سرمایہ کار میں مقررہ قرار داد کے مطابق تقسیم ہو گا۔ اگر کچھ رقم باقی نہ بچے تو مضارب کو کچھ نہیں ملے گا
٭ اگر سرمایہ کار نے نفع وصول کیا تھا وہ واپس لے کر سرمائے میں ملایا جائے گا، اگر اصل سرمایہ پورا ہو کر کچھ رقم بچ گئی تو نفع ہے اسے تقسیم کر لیا جائے گا ورنہ مضارب کو کچھ نہیں ملے گا۔ ٭مضاربتِ فاسدہ میں تمام نفع ونقصان سرمایہ کار کے ذمہ ہو گا اور مضارب کو اجرتِ مثل دی جائے گی۔ ٭اگر سرمایہ کار وفات پا جائے یا مجنون ہو جائے تو مضاربت ختم ہوجائے گی۔(مجلہ) ٭اگر مضاربت ختم ہو جائے تو تمام مالی ذمہ داریاں سرمایہ کار کو اپنا وکیل مقرر کرے گا یا خود وصولی کر کے سرمایہ کار کو دے گا
٭ اگر مضاربت میں نقصان نہ ہوا ہو تو حقوق معتبرہ میں سے مضارب کو بھی حصہ ملے گا۔ (عطر ہدایہ)
No comments:
Post a Comment