Tuesday, 27 February 2018

جمعہ مبارک کہنا جائز ھے یا بدعت

 جمعہ مبارک  کہنا جائز ھے یا بدعت
سوال # 33213
ہم جاننا چاہتے ہیں کہ کیا ہم جمعہ کے دن مبارک بادی دے سکتے ہیں، مثلاً ’’جمعہ مبارک‘‘ اور مصافحہ کرسکتے ہیں جیسے عید کے ایا م میں کرتے ہیں، کہیں یہ بدعت میں شامل تو نہیں؟ براہ کرم، اس پر روشنی ڈالیں۔

جواب: عیدین وجمعہ کی نماز کے بعد مصافحہ کرنا بدعت ومکروہ ہے، اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، 
نقل في تبیین المحارم عن الملتقط أنہ تکرہ المصافحۃ بعد أداء الصلاۃ بکل حال؛ لأن الصحابۃ رضي اللہ عنہم ما صافحوا بعد أداء الصلاۃ۔۔۔ ثم نقل عن ابن جریر عن الشافعیۃ أنہا بدعۃ مکروہۃ لا أصل لہا في الشرع (ردالمحتار: ۹؍۵۴۷، ط: زکریا دیوبند) عیدین کی مبارک باد دینا صحابۂ کرام سے منقول وثابت ہے، اس لیے اس کی مبارک باد دے سکتے ہیں لیکن جمعہ میں منقول نہیں۔ عن جبیر بن نفیر قال: کان أصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ سولم إذا انفقوا یوم العید یقول لبعض: تقبل اللہ منا ومنکم۔ (الحاوي للفتاویٰ: ۱؍۱۱۶: بیروت)
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Jumuah--Eid-Prayers/33213
 

کیسا ہے جمعہ مبارک کہنا؟
عن محمد بن زيد قال كنت مع أبي امامة الباهلي وغيره من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فكانوا إذا رجعوا من العيد يقول بعضهم لبعض: تقبل الله منا ومنك..
قال أحمد إسناد حديث أبي امامة جيد. (المغني لابن قدامة 399/2..كشاف القناع 60/2)

اسی اثر کے پیش نظر جمہور فقہاء مجموعی طور پر ماہ وسال نیز عیدین کی مبارکباد اس لفظ کے ساتھ دینے کو جائز قرار دیتے ہیں۔ علامہ حصکفی نے کافی جنچے تلے لفظ میں اس کے جواز کی تصریح فرمائی ہے۔ لکھتے ہیں:
"إن التهنئة بالعيد بلفظ تقبل الله منا ومنك لا تنكر."
"لاتنکر" کا لفظ بلیغ اشارہ ہے کہ اس دعائیہ جملہ کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ یعنی کہ صاحب مذھب امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب سے اس بارے میں کوئی صراحت منقول نہیں، جیساکہ شامی نے بھی لکھا ہے۔ علامہ ابن امیر الحاج جیسے حنفی محقق نے بھی شرح المنیہ میں اس کے جواز کی تصریح کی ہے۔اور طحطاوی نے بھی مراقی الفلاح کے حاشیہ میں دعاء مذکور کے ذریعہ عید کی مبارکباد دینے کو طبرانی کی روایت کے حوالہ سے جائز لکھا ہے۔ (طحطاوی علی المراقی صفحہ 530۔ باب احکام العیدین۔)
لہذا مذھب حنفیہ تو اس سلسلہ میں واضح ہوگیا۔
امام مالک نے لفظ مذکور کے ذریعہ عید کی مبارکباد دینے سے متعلق اگرچہ "لا أعرفه ولا أنكره" فرمایا ہے۔ لیکن فقہاء مالکیہ اس کے وضاحتی نوٹ میں لکھتے ہیں کہ امام کی مراد یہ ہے کہ دعاء مذکور کو وہ سنت رسول سمجھتے ہیں اور نہ ہی بدعت۔ جواز سے ان کو بھی انکار نہیں۔ (الفواکہ الدوانی 222/1۔۔ ردالمحتار 557/1۔)
امام شافعی رحمہ اللہ سے بھی اس کے بارے میں کچھ منقول نہیں ہے۔ حافظ منذری نے حافظ مقدسی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ ماہ و سال یا عید کی مبارکباد دینا صرف "مباح" ہے۔ نہ سنت ہے اور نہ ہی بدعت۔ علامہ رملی نے حافظ سے جواز کا قول نقل کیا ہے ۔اور سنن بیہقی اور طبرانی میں منعقد "باب ماروی فی قول الناس بعضھم لبعض فی العید: تقبل اللہ منا ومنک۔" سے جواز پر استدلال فرمایا ہے۔ ایسے ہی قلیوبی نے بھی ابن حجر سے جواز وندب کا قول نقل کیا ہے۔ علامہ بیجوری نے اسی کو معتمد کہا ہے۔ دیکھئے: نهاية المحتاج 391/2..مغني المحتاج 316/1..اسنى المطالب 283/1.. قليوبي وعميره 310/..حاشية البيجوري 233/1 )
علامہ ابن قدامہ حنبلی امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں: لابأس أن يقول الرجل للرجل يوم العيد تقبل الله منا ومنك .وقال حرب سئل أحمد عن قول الناس في العيدين تقبل الله منا ومنك .قال لابأس به.يرويه أهل الشام عن أبي امامة. (المغنی 399/2 )
فقہاء اربعہ کے مذاہب کی ایک جھلک آپ نے دیکھ لیا۔ مصادر مذکورہ سے بالکل واضح ہے کہ عیدین میں "تقبل اللہ منا ومنک" کہنا بھی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت نہیں ہے۔ ہاں بعض صحابہ کے آثار ضرور ہیں! ان آثار میں بھی قدرے ضعف ہے لیکن پہر بھی قابل احتجاج ہے۔عیدین کی مبارک بادی کی پوزیشن اور اس کے کلمات اس سے زیادہ کچھ نہیں!
اب فقہاء شام نے اسی تقبل اللہ الخ۔۔۔۔۔ پر قیاس کرکے عیدین کے لئے صرف "عید مبارک " کہنے کو بھی جائز قرار دیدیا۔ حالانکہ عیدین میں بھی عید مبارک کہنا کسی بھی حدیث یا اثر سے ثابت نہیں۔ بس اس کو تقبل اللہ منا پہ قیاس کیا گیا ہے۔ شامی علامہ حلبی کے حوالہ سے لکھتے ہیں:
والمتعارف في البلاد الشامية والمصرية عيد مبارك عليك ونحوه .وقال ويمكن أن يلحق بذالك في المشروعية والاستحباب. (شامي 557/.طحطاوی على المراقي 530 ۔الفواکہ الدوانی 322/1۔)
الغرض فقہاء مصر وشام نے اپنے یہاں کے عرف کے پیش نظر عیدین کے لئے عید مبارک کہنے کو "تقبل اللہ منا ومنک" پہ اشتراک علت کی وجہ قیاس کرکے جائز کہا۔ علت کا اشتراک اس طور پر ہے کہ قبولیت کے لمحات یقینا مبارک ہی ہوتے ہیں۔ لہذا اس کو مبارک سے تعبیر کرنا بھی صحیح ہے۔
اہل علم اچھی طرح جانتے ہیں کہ قیاس کے ارکان اربعہ: اصل، فرع، حکم، علت سے متعلق متعدد شرطیں ہیں مقیس علیہ کی منجملہ شرطوں میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ مقیس علیہ خود قیاس پہ مبنی نہ ہو۔ وہ یا تو منصوص علیہ ہو یا مجمع علیہ ہو۔ غیر منصوص اور غیر مجمع علیہ شئے پر دوسری چیز کو قیاس کرلینا عبث اور ناجائز ہے۔ دیکھئے مسلم الثبوت مع الفواتح 274/2۔ المستصفی للغزالی 325/2۔ اصول السرخسی 149/2۔اعلام الموقعین 20/3۔)
لہذا عیدین کے "عید مبارک" پر قیاس کرتے ہوئے جمعہ کے"عید مبارک" کو جائز کہنا قیاس مع الفارق ہے جو ناجائز ہے۔
اور پ
ھر سوچنے کی بات ہے کہ امام اوزاعی عیدین کے لئے بھی عید مبارک کہنے کو بدعت کہتے ہیں تو جمعہ کے لئے عید مبارک کہنا کب سنت ہوجائے گا ؟
احکام شرعیہ یا تو نقل صحیح (کتاب وسنت واجماع امت) سے ثابت ہوتے ہیں یا عقل صحیح یعنی قیاس سے۔اور جمعہ مبارک کسی ایک ماخذ سے بھی ثابت نہیں ۔
لہذا احقرکے خیال سے اس طرح کی چیزوں کو رواج دینا بے اصل ہے۔
غیر ضروری سمجھتے ہوئے ایک دو مرتبہ کہنے کی اجازت دینا بھی نامناسب ہے۔سداللباب اس میں کسی بھی قسم کی سہولت دیئے جانے کا میں روادار نہیں۔ ہر نئی چیز شروع میں نیک مقصد اور پاکیزہ جذبہ سے ہی انجام دی جاتی ہے رفتہ رفتہ وہ دین کا جزو لاینفک بن جاتی ہے۔
آج آپ اس کو ایک دو مرتبہ کہنے کو جائز کہدیں کل لوگ اسے عیدین کی طرح سنت سمجھنے لگیں گے۔۔
واللہ اعلم بالصواب۔
خاک پائے بزرگاں
شکیل منصور القاسمی
muftishakeelahmad@gmail.com
...........
https://www.facebook.com/ULAMA.E.AHNAF.DEOBAND.ALHIND/posts/667102346789206:0 

No comments:

Post a Comment