Saturday 24 February 2018

مصنوعی طریقہ تولید؛ نسب ثابت مگر عمل حرام

مصنوعی طریقہ تولید سے نسب ثابت مگر عمل حرام
ادارۃ المباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند کے چودھویں فقہی اجتماع میں کئی اہم تجایز منظور
نئی دہلی: ۲۳؍فروری: موجودہ دور میں میڈیکل سائنس کی ارتقاء کی وجہ سے مصنوعی طریقہ تولید اور حرمت مصاہرت جیسے حساس مسائل کا حل نکالنے کے لئے آج ’’ادارہ المباحث فقہیہ جمعیۃ علماء ہند‘‘ کا سہ روزہ چودھواں فقہی اجتماع بمقام جامعہ علوم القرآن جمبوسر گجرات منعقد ہوا ۔پانچ نشستوں پر منعقد اس اہم اجتماع کی صدارت بالتربیت مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری صدر جمعیۃ علماء ہند، مفتی احمد خانپوری، مفتی حبیب الرحمن خیر آبادی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند،مولانا رحمت اللہ کشمیری او رمفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند جیسی شخصیات نے کی ۔اس اجتماع میں مولانا محمود مدنی جنرل سکریٹری جمعےۃ علماء ہند،مولانا ابراہیم دیولہ اور مو لانا احمد لاٹ سمیت کئی بڑے علماء کا خطاب ہو ا، جنھوں نے جدید فقہی مسائل پر امت کی رہ نمائی کی ذمہ داری کی ضرورت پر زور دیا ۔
مصنوعی طریقہ تولید اور اس میں نسب کے ثابت ہونے کے مسئلہ پر فیصلہ کرتے ہوئے ایک اہم تجویز میں فقہی اجتماع نے صاف لفظوں میں کہا ہے کہ اسلام اگر چہ اصولی طورپراس کی حوصلہ افزائی نہیں کرتااور اس سلسلہ میں اپنائے جانے والے بہت سے طریقے بلا شبہ ناجائز و حرام ہیں،تاہم اگر کوئی ان طریقوں کو اپنالے اور اولاد وجود میں آ جائے تو نسب کے بارے میں درج ذیل احکام ہوں گے (۱) اگر زوجین اپنے مادۂ تولید کو مصنوعی ٹیوب میں رکھوائیں یا خود رکھیں اور بالفرض ٹیوب ہی میں بچے کی نشو و نما ہو اوراسی سے پیدائش ہوتو بچے کا نسب انہی زوجین سے ثابت ہوگا
(۲) اگر میاں بیوی کے اجزائے منویہ کو خارجی ٹیوب میں رکھ کر افزائش کی جائے اور کچھ وقت کے بعداسے بیوی کے رحم میں منتقل کیا جائے اور وہیں سے بچہ کی پیدائش ہو تو اس کا نسب بھی زوجین سے ثابت ہوگا
(۳) اگر کوئی شخص اپنے نطفہ اور کسی اجنبی عورت کے بیضہ کو ٹیوب میں بار آور کرائے اور پھر اسے ایک مدت کے بعد اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرادے اور بیوی کے رحم ہی سے بچے کی ولادت ہو تو یہ عمل شرعاًناجائز وحرام ہوگا۔ لیکن جو بچہ پیدا ہوگا اس کا نسب زوجین سے ثابت ہوگااور جس عورت کے بیضے استعمال کئے گئے ہیں اس سے نسب کا تعلق نہ ہوگا،البتہ اس سے حرمت مصاہرت ثابت ہوگی 
(۴) اگر شوہر کی منی قابل تولید نہ ہو اور وہ کسی دوسرے شخص کے مادہ منویہ کو اپنی بیوی کے بیضوں سے ملا کر خارجی ٹیوب میں بارآور کرائے اور پھر اپنی بیوی کے رحم میں منتقل کرادے اور بیوی کے رحم سے ہی بچہ کی پیدائش ہو تو یہ طریقہ بھی حرام ہے لیکن اس بچے کانسب بھی انہی میاں بیوی سے ثابت ہوگا،اور جس غیرمرد کا مادہ شامل کیا گیا ہے اس سے نسب ثابت نہیں ہوگا، البتہ اس سے حسب ضابطہ حرمت مصاہرت ثابت ہوگی۔
(۵) اگر بیوی کا رحم حمل کا متحمل نہ ہو اور یہ شکل اپنائی جائے کہ میاں بیوی کا مادۂ منویہ ٹیوب میں بارآور کراکے کسی اجنبی عورت کے رحم میں پہنچا دیا جائے اور اس عورت سے بچے کی پیدائش ہو تو یہ طریقہ بھی یقیناًکھلی بے حیائی اور حرام ہے، لیکن بچے کا نسب اسی عورت سے ثابت ہوگا جس کے بطن سے پیدائش ہوئی ہے، اوراگر وہ عورت منکوحہ ہو تو اس کے شوہر سے بھی نسب ثابت ہوگااور جن زوجین کے نطفوں سے افزائش ہوئی ہے ان سے نسب ثابت نہ ہوگا بلکہ صرف حرمت مصاہرت ثابت ہوگی
(۶) اگر شوہر کسی اجنبی مرد اور اجنبی عورت کے نطفوں کو بارآور کراکے اپنی منکوحہ کے رحم میں منتقل کرائے اور اسی سے ولادت ہو تو ایسا کرنا اگر چہ حرام ہے، لیکن بچے کا نسب زوجین سے ہی ثابت ہوگااور اجنبی مرد و عورت جن کا مادہ تولیداستعمال کیا گیا ہے ان سے صرف حرمتِ مصاہرت ثابت ہوگی
(۷) اگر کوئی شخص اپنی دو بیویوں میں سے ایک بیوی کے بیضہ کو اپنے نطفہ کے ساتھ ملاکر خارج میں بارآور کرا کے دوسری بیوی کے رحم میں منتقل کرائے اور اسی سے بچہ کی پیدائش ہو تو یہ عمل قطعا ناجائز اور سراسربے حیائی ہے اور اس صورت میں بچہ کا نسب تو باپ سے ثابت ہوگا ہی لیکن حقیقی ماں وہی کہلائے گی جس کے بطن سے بچہ کی پیدائش ہوئی اور جس بیوی کا بیضہ شوہر کے نطفہ کے ساتھ شامل کیا گیا ہے اس سے صرف حرمتِ مصاہرت کا حکم متعلق ہوگا۔
حرمت مصاہرت یعنی سسرالی رشتے کے وجہ سے محرم ہونے سے متعلق متفقہ تجویز میں کہا گیا ہے کہجس طرح حرمت مصاہرت نکاح اور جائز ہمبستری سے ثابت ہوجاتی ہے اسی طرح زناسے بھی حرمت مؤبدہ کا ثبوت ہو جاتاہے۔اسی تجویز کی شق نمبر۵ میں بہت ہی حساس مسئلے پر فیصلہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ چہرے پربوسہ دینے سے عموماً شہوت پیدا ہو نے کا خطرہ ہوتا ہے ، اس لئے اس سے احتراز لازم ہے، البتہ اگر کسی عرف یا معاشرہ میں بعض خاص مواقع پر باپ بیٹی یا ماں بیٹے یا دیگر محارم کے درمیان چہرہ وغیرہ پر بوسہ لینے دینے کا رواج ہو تو اس سے حرمت مصاہرت کا حکم اس وقت تک ثابت نہ ہوگا، جب تک کہ جانبین میں سے کسی جانب شہوت پیدا ہونے کا اقرار یا قرینہ نہ پایا جائے۔
ان کے علاوہ طویل المیعاد قرض میں زکوۃ کا حکم اور مریض کی جان بچانے کے لیے خون دینے کے واسطے روزہ توڑنا جیسے مسائل پر بھی تجویز منظور کی گئی، چنانچہ پہلے مسئلے کے بارے میں کہا گیا کہ سودی قرض لینے سے حتی الامکان گریز کیا جائے۔تاہم اگر کسی شخص نے مجبوری کی بنا پر سرکاری یا غیر سرکاری اداروں (بینک وغیرہ) سے تجارتی طویل المیعاد قرض لے لیا ہے تو اس صورت میں صرف اسی سال کی واجب الاداء قسط کو منہا کر کے باقی مال کی زکوۃ ادا کی جائے گی۔
دوسرے موضوع پر کہا گیا کہ انسانی جان کے تحفظ کی ہر ممکن کوشش کرنا ہر مسلمان کا انسانی و اخلاقی فریضہ ہے۔ اسی تناظر میںیہ مسئلہ ہے کہ اگر کسی مریض کی جان بچانے کے لئے خون دینے کے لیے رمضان کا روزہ توڑنا ناگزیر ہو جائے یعنی اس کے علاوہ مریض کی جان بچانے کی کوئی اور متبادل شکل نہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ توڑنے سے صرف قضاء لازم ہوگی، کفارہ واجب نہ ہوگا۔
فقہی اجتماع کے سلسلے میں تفصیل بتاتے ہوئے مولانا معزالدین احمد ناظم امارت شرعیہ ہند نے بتایا کہ اس بار چار اہم مسائل زیر بحث آئے، اجتماع میں سو سے زیادہ مقالات پیش کیے گئے۔ انھوں نے بتایا کہ تین دن کے بحث و مباحثہ کے بعد الگ الگ موضوعات کیلئے چار کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ان کمیٹیوں کی تجاویز پر حتمی فیصلہ کے لیے اکابرعلماء پرمشتمل ایک کمیٹی بنائی گئی جس نے چاروں تجاویزپر حتمی فیصلہ کی راہ ہموار کی۔ اس کمیٹی میں مولانا قاری سید محمد عثمان منصور پوری صدر جمعیۃ علماء ہند ، مولانا مفتی ابو القاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبند،مفتی احمد خانپوری ڈھابیل گجرات، مفتی حبیب الرحمان خیر آبادی صدر مفتی دارالعلوم دیوبند اورمفتی زین الاسلام صاحب الہ آبادی نائب مفتی دار العلوم دیوبند ،مولانا برہان الدین صاحب سنبھلی ندوۃ العلماء لکھنؤ،مفتی شبیر احمد صاحب مدرسہ شاہی مراد آباد ، مولانا مفتی محمد سلمان صاحب منصور پوری ،مولانا عتیق احمد صاحب ندوۃ العلماء لکھنؤ، مولانا سید محمود اسعد مدنی صاحب ناظم عمومی جمعیۃ علماء ہند ،مفتی محمد نعمان صاحب سیتا پوری دارالعلوم دیوبند،مفتی محمد راشد اعظمی، دیوبند مفتی عبد اللہ معروفی دیوبند ،مفتی محمود باڈولی ،مولانا عبید اللہ اسعدی جامعہ عربیہ ہتھورا باندہ، مولانا مجیب اللہ گونڈوی دار العلوم دیوبند،مولانا عبد الرحمٰن مونگیرا لندن، مولانا معز الدین احمد صاحب ناظم امارت شرعیہ ہند وغیرہ شامل تھے ۔اس اجتماع کے نظم ونسق کی ذمہ داری مفتی احمد دیولہ مہتمم مدرسہ جامعہ علوم القرآن جمبوسر گجرات نے بخوبی انجام دی۔
https://www.jamiatulama.in/single-post/2018/02/23/چودھویں-فقہی-اجتماع-ادارہ-مباحث-فقہیہ-کی-مکمل-تجاویز-یہاں-پڑھیں

No comments:

Post a Comment