شمالی یوروپ کا ایک چھوٹا سا ملک فن لینڈ بھی ہے جو رقبے کے لحاظ سے 65 جبکہ آبادی کے اعتبار سے دنیا میں 114 ویں نمبر پر ہے۔ ملک کی کل آبادی 55 لاکھ کے لگ بھگ ہے لیکن آپ کمال دیکھیں اس وقت تعلیمی درجہ بندی کے اعتبار سے فن لینڈ پہلے نمبر پر ہے جبکہ ’سپر پاور‘ امریکہ 20 ویں نمبر پر ہے۔
2020تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون (سبجیکٹ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائے گی۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔ دنیا میں سب سے لمبا بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتا ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کے 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کا بریک نیویارک کے اسکولوں میں ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ’پڑھانے‘ کی بجائے اتنا لمبا بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔
خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے’پڑھائی‘ ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی’اسکلز‘ بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔ فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے ’ٹاپ ٹین‘ ماسٹرز کئے ہوئے طالبعلموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے۔ سات سال سے پہلے بچوں کے لئے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں۔ ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے، دروازے کھڑکیاں بند کرکے انہیں گھروں میں’نظر بند‘ کردیا جائے۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے اور گھر میں مارشل لا اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے۔ پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لئے ایک ہی امتحان ہوتا ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے:
”میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں۔“
آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ ’خلاقیات‘اور’آداب‘ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
”جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں ۔“
مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی؟ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز!
اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انھوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔ آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔ جاپان میں معاشرتی علوم’پڑھائی‘ نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لئے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے’پبلشرز‘ بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے، اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو’کوڑھ مغز ‘ اور ’کند ذہن‘کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔
آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کرکے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے۔ قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے۔ ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو’سوشل اسٹڈیز ‘ پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ہم نے کتنا’سوشل‘ ہونا سیکھا ہے؟ اسکول میں سارا وقت سائنس’رٹتے‘ گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ’سائنس دان‘ نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس’سیکھنے‘ کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ’رٹّا‘ لگواتے ہیں۔
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لئے ہمارے پاس’پاسنگ مارکس‘ 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لئے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860میں اساتذہ کی آسانی کے لئے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس’گلے سڑے‘ اور ’بوسیدہ‘ نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں، بچوں کو ’طوطا‘بنانے کی بجائے’قابل‘ بنانے کے بارے میں سوچیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک’رٹّا سسٹم‘ کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
(جہانزیب راضی)
2020تک فن لینڈ دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں مضمون (سبجیکٹ) نام کی کوئی چیز اسکولوں میں نہیں پائی جائے گی۔ فن لینڈ کا کوئی بھی اسکول زیادہ سے زیادہ 195 بچوں پر مشتمل ہوتا ہے جبکہ 19 بچوں پر ایک ٹیچر۔ دنیا میں سب سے لمبا بریک بھی فن لینڈ میں ہی ہوتا ہے، بچے اپنے اسکول ٹائم کے 75 منٹ بریک میں گزارتے ہیں، دوسرے نمبر پر 57 منٹ کا بریک نیویارک کے اسکولوں میں ہوتا ہے جبکہ ہمارے یہاں اگر والدین کو پتہ چل جائے کہ کوئی اسکول بچوں کو ’پڑھانے‘ کی بجائے اتنا لمبا بریک دیتا ہے تو وہ اگلے دن ہی بچے اسکول سے نکلوالیں۔
خیر، آپ دلچسپ بات ملاحظہ کریں کہ پورے ہفتے میں اسکولوں میں محض 20 گھنٹے’پڑھائی‘ ہوتی ہے۔ جبکہ اساتذہ کے 2 گھنٹے روز اپنی’اسکلز‘ بڑھانے پر صرف ہوتے ہیں۔ فن لینڈ میں ٹیچر بننا ڈاکٹر اور انجینئر بننے سے زیادہ مشکل اور اعزاز کی بات ہے۔ پورے ملک کی یونیورسٹیز کے ’ٹاپ ٹین‘ ماسٹرز کئے ہوئے طالبعلموں کو ایک خصوصی امتحان کے بعد اسکولوں میں بطور استاد رکھا جاتا ہے۔ سات سال سے پہلے بچوں کے لئے پورے ملک میں کوئی اسکول نہیں ہے اور پندرہ سال سے پہلے کسی بھی قسم کا کوئی باقاعدہ امتحان بھی نہیں ہے کہ جس میں ماں باپ بچے کی نیندیں حرام کردیں۔ ان کے کھیلنے اور بھاگنے دوڑنے پر پابندی لگ جائے، دروازے کھڑکیاں بند کرکے انہیں گھروں میں’نظر بند‘ کردیا جائے۔ گھر میں آنے والے مہمانوں سے ملنے تک پر پابندی عائد کردی جائے اور گھر میں مارشل لا اور کرفیو کا سا سماں بندھ جائے۔ پورے ملک میں تمام طلبہ و طالبات کے لئے ایک ہی امتحان ہوتا ہے۔ ریاضی کے ایک استاد سے پوچھا گیا کہ آپ بچوں کو کیا سکھاتے ہیں تو وہ مسکراتے ہوئے بولے:
”میں بچوں کو خوش رہنا اور دوسروں کو خوش رکھنا سکھاتا ہوں، کیونکہ اس طرح وہ زندگی کہ ہر سوال کو با آسانی حل کرسکتے ہیں۔“
آپ جاپان کی مثال لے لیں تیسری جماعت تک بچوں کو ایک ہی مضمون سکھایا جاتا ہے اور وہ ’خلاقیات‘اور’آداب‘ ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:
”جس میں ادب نہیں اس میں دین نہیں ۔“
مجھے نہیں معلوم کہ جاپان والے حضرت علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کیسے جانتے ہیں اور ہمیں ابھی تک ان کی یہ بات معلوم کیوں نہ ہو سکی؟ بہر حال، اس پر عمل کی ذمہ داری فی الحال جاپان والوں نے لی ہوئی ہے۔ ہمارے ایک دوست جاپان گئے اور ایئر پورٹ پر پہنچ کر انہوں نے اپنا تعارف کروایا کہ وہ ایک استاد ہیں اور پھر ان کو لگا کہ شاید وہ جاپان کے وزیر اعظم ہیں۔ یہ ہے قوموں کی ترقی اور عروج و زوال کا راز!
اشفاق احمد صاحب کو ایک دفعہ اٹلی میں عدالت جانا پڑا اور انھوں نے بھی اپنا تعارف کروایا کہ میں استاد ہوں وہ لکھتے ہیں کہ جج سمیت کورٹ میں موجود تمام لوگ اپنی نشستوں سے کھڑے ہوگئے اس دن مجھے معلوم ہوا کہ قوموں کی عزت کا راز استادوں کی عزت میں ہے۔ آپ یقین کریں استادوں کو عزت وہی قوم دیتی ہے جو تعلیم کو عزت دیتی ہے اور اپنی آنے والی نسلوں سے پیار کرتی ہے۔ جاپان میں معاشرتی علوم’پڑھائی‘ نہیں جاتی ہے کیونکہ یہ سکھانے کی چیز ہے اور وہ اپنی نسلوں کو بہت خوبی کے ساتھ معاشرت سکھا رہے ہیں۔ جاپان کے اسکولوں میں صفائی ستھرائی کے لئے بچے اور اساتذہ خود ہی اہتمام کرتے ہیں، صبح آٹھ بجے اسکول آنے کے بعد سے 10 بجے تک پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سمیت صفائی میں مشغول رہتا ہے۔
دوسری طرف آپ ہمارا تعلیمی نظام ملاحظہ کریں جو صرف نقل اور چھپائی پر مشتمل ہے، ہمارے بچے’پبلشرز‘ بن چکے ہیں۔ آپ تماشہ دیکھیں جو کتاب میں لکھا ہوتا ہے، اساتذہ اسی کو بورڈ پر نقل کرتے ہیں، بچے دوبارہ اسی کو کاپی پر چھاپ دیتے ہیں، اساتذہ اسی نقل شدہ اور چھپے ہوئے مواد کو امتحان میں دیتے ہیں، خود ہی اہم سوالوں پر نشانات لگواتے ہیں اور خود ہی پیپر بناتے ہیں اور خود ہی اس کو چیک کر کے خود نمبر بھی دے دیتے ہیں، بچے کے پاس یا فیل ہونے کا فیصلہ بھی خود ہی صادر کردیتے ہیں اور ماں باپ اس نتیجے پر تالیاں بجا بجا کر بچوں کے ذہین اور قابل ہونے کے گن گاتے رہتے ہیں، جن کے بچے فیل ہوجاتے ہیں وہ اس نتیجے پر افسوس کرتے رہتے ہیں اور اپنے بچے کو’کوڑھ مغز ‘ اور ’کند ذہن‘کا طعنہ دیتے رہتے ہیں۔
آپ ایمانداری سے بتائیں اس سب کام میں بچے نے کیا سیکھا، سوائے نقل کرنے اور چھاپنے کے؟ ہم 13، 14 سال تک بچوں کو قطار میں کھڑا کر کرکے اسمبلی کرواتے ہیں اور وہ اسکول سے فارغ ہوتے ہی قطار کو توڑ کر اپنا کام کرواتے ہیں، جو جتنے بڑے اسکول سے پڑھا ہوتا ہے۔ قطار کو روندتے ہوئے سب سے پہلے اپنا کام کروانے کا ہنر جانتا ہے۔ ہم پہلی سے لے کر اور دسویں تک اپنے بچوں کو’سوشل اسٹڈیز ‘ پڑھاتے ہیں اور معاشرے میں جو کچھ ہورہا ہے وہ یہ بتانے اور سمجھانے کے لئے کافی ہے کہ ہم نے کتنا’سوشل‘ ہونا سیکھا ہے؟ اسکول میں سارا وقت سائنس’رٹتے‘ گزرتا ہے اور آپ کو پورے ملک میں کوئی ’سائنس دان‘ نامی چیز نظر نہیں آئے گی کیونکہ بدقسمتی سے سائنس’سیکھنے‘ کی اور خود تجربہ کرنے کی چیز ہے اور ہم اسے بھی ’رٹّا‘ لگواتے ہیں۔
آپ حیران ہوں گے میٹرک کلاس کا پہلا امتحان 1858میں ہوا اور برطانوی حکومت نے یہ طے کیا کہ بر صغیر کے لوگ ہماری عقل سے آدھے ہوتے ہیں اس لئے ہمارے پاس’پاسنگ مارکس‘ 65 ہیں تو برصغیر والوں کے لئے 32 اعشاریہ 5 ہونے چاہئیں۔ دو سال بعد 1860میں اساتذہ کی آسانی کے لئے پاسنگ مارکس 33 کردیے گئے اور ہم 2018 میں بھی ان ہی 33 نمبروں سے اپنے بچوں کی ذہانت کو تلاش کرنے میں مصروف ہیں۔
میرا خیال ہے کہ اسکولز کے پرنسپل صاحبان اور ذمہ دار اساتذہ اکرام سر جوڑ کر بیٹھیں اس’گلے سڑے‘ اور ’بوسیدہ‘ نظام تعلیم کو اٹھا کر پھینکیں، بچوں کو ’طوطا‘بنانے کی بجائے’قابل‘ بنانے کے بارے میں سوچیں۔ یہ اکیسویں صدی ہے دنیا چاند پر پہنچ رہی ہے اور ہم ابھی تک’رٹّا سسٹم‘ کو سینے سے لگائے بیٹھے ہیں۔
(جہانزیب راضی)
Rattafication In Schooling System
Half the country does not even have access to proper education, and only a small fraction can go to university. According to reports, the Indian education system is deeply flawed as has been apparent from the recent Bihar scandal, but there are other concerns and issues which no one is talking or discussing about. Students are being forced to follow the rattafication process.
Anurag Chaurasia, a concerned father recently shared his views on the matter when he saw that his son has failed to get decent marks in the exam because he was not writing his answers word for word from the text books. A particular question in the exam was - How can we save the environment from pollution? His son chose to answer the question in his own words, however the teacher was not impressed. His marks were cut and when he complained, the answer was simple - he had not written what was printed in the text books.
Are our teachers so incompetent that they fail to understand anything but what is printed in the text book? Or are they following a system where answers are supposed to match word by word with the books? What is more important - knowledge or words? Anurag Chaurasia argues that this is leading to unoriginal thinking and plagiarism in the students and future generations of the country.
Children and students are the future of a country and the future looks not so bright. In a time where economy has gone truly global and everyone is competing with everyone around the world, it is important that we increase our standards and accept original and innovative thinking rather than promote rattafication in the classrooms. It is high time that the government comes up with solid reforms and implement the same. It is necessary to initiate the process at the earliest because it will take some time before the changes are reflected at classroom levels.
Anurag Chaurasia, a concerned father recently shared his views on the matter when he saw that his son has failed to get decent marks in the exam because he was not writing his answers word for word from the text books. A particular question in the exam was - How can we save the environment from pollution? His son chose to answer the question in his own words, however the teacher was not impressed. His marks were cut and when he complained, the answer was simple - he had not written what was printed in the text books.
Are our teachers so incompetent that they fail to understand anything but what is printed in the text book? Or are they following a system where answers are supposed to match word by word with the books? What is more important - knowledge or words? Anurag Chaurasia argues that this is leading to unoriginal thinking and plagiarism in the students and future generations of the country.
Children and students are the future of a country and the future looks not so bright. In a time where economy has gone truly global and everyone is competing with everyone around the world, it is important that we increase our standards and accept original and innovative thinking rather than promote rattafication in the classrooms. It is high time that the government comes up with solid reforms and implement the same. It is necessary to initiate the process at the earliest because it will take some time before the changes are reflected at classroom levels.
No comments:
Post a Comment