Thursday, 8 February 2018

مولانا رابع صاحب پر ایک ضروری وضاحت

ایک ضروری وضاحت:
سماجی روابط کی ویب سائٹس پر ایک پوسٹ گردش کررہی ہے کہ:
"جب حضرت مولانا رابع صاحب روپڑے
موقع تھا رابطہ ادب اسلامی کے سیمینار منعقدہ بھٹکل  کی اختتامی نشست کا  مہمانان خصوصی کے تاثرات کاسلسلہ چل رہا تھا، آل انڈیامسلم پرسنل لا بورڈ کے سکریٹری اور خانقاہ رحمانیہ مالیگاٶں کے سجادہ نشین مولانا محمد عمرین محفوظ رحمانی خطاب کررہے تھے. بڑا جاندار اور شاندار خطاب تھا ان کا، دوران تقریر انھوں نے حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ کی بے نیازی اور زہد کا ایک واقعہ سنایا جسے سن کر حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب روپڑے اور ان کے بھائی اور مشہور عالم دین ومصنف حضرت مولانا واضع رشید ندوی صاحب تو آواز کے ساتھ رونے لگے سامعین میں سے متعدد حضرات کی آنکھیں نم ہوگئیں. واقعہ کیا تھا آپ بھی سن لیجئے. شاہ بانو تحریک کے زمانے میں حضرت مولانا ابوالحسن علی میاں ندوی رحمہ اللہ اس وقت کے وزیراعظم راجیو گاندھی سے ملاقات کرنے کیلئے جارہے تھے. بذریعہ ٹرین سفر ہورہا تھا. راۓ بریلی سے دہلی کا سفر تھا. مولانا علی میاں ندوی نے اپنے خاص رفیق مولانا منظور نعمانی صاحب ؒ کو ضروری مشورے کے لئے لکھنٶ اسٹیشن پر بلايا، وہ آۓ اور دونوں دوستوں کی ملاقات ہوئی مشورہ کیا گیا، جب ملاقات ختم ہونے لگی تو اچانک مولانا منظور نعمانی اپنے کرتے کی جیبیں ٹٹولنے لگے اور کچھ پریشان سے ہوگئے. مولانا منظور نعمانی صاحب کے ساتھ آۓ ہوۓ خادم دور کھڑے تھے. انھیں دیکھر یہ لگا کہ شاید اب مولانا کی کوئی چیز گم ہوگئی ہے. جب ٹرین آگے بڑھ گئی اور مولانا نعمانی واپس ہونے لگے تو خادم نے پوچھا کہ آپ جیب ٹٹول رہے تھے، کیا آپ کی کوئی چیز گم ہوگئی ھے تو مولانا نعمانی روپڑے اور فرمایا کہ نہیں کوئی چیز گم نہیں ہوئی بلکہ جب ملاقات ختم ہوئی تو مولانا علی میاں نے مجھ سے کہا کہ مولانا اگر آپ کے کچھ پیسے ہوں تو قرض دے دیجئے. اس لئے کہ دہلی سے واپسی کے کرایے کا پیسہ میرے پاس نہیں ہیں، دیکھو یہ مولانا علی میاں کروڑوں مسلمانوں کے نمائندے بنکر اتنے بڑے انسان سے ملنے جارہے ھیں اور ان کے پاس کرایہ کا پیسہ بھی نہیں ہیں.
اللہ اکبر کیسے پیارے تھے ہمارے اکابر
اللہ تعالی ھمارے سب بڑوں پر رحمت اتارے
آمین
شعیب احمد ندوی"
.............................
ضروری وضاحت:
حضرت مولانا رابع حسنی ندوی صاحب کی طرف منسوب رونے کی خبر
السلام علیکم۔۔
مولانا محفوظ عمرین صاحب نے جو واقعہ سنایا۔۔ اس طرح کے کئی واقعات مولانا علی میاں کی زندگی میں پیش ائے ۔۔ یہ واقعات اپنے اندر تاثیر رکھتے ہیں۔۔ اور خصوصا جب سنانے والا ایک صاحب علم و فضل شخص ہو اور نسبت اہل اللہ کا حامل ہو۔۔۔ لیکن یہ عنوان لگانا کہ مولانا رابع صاحب رو پڑے۔ اور ان کے بھائی کی اواز بلند ہوگئی یہ مبالغہ امیزی ہے۔ ایسا کچھ نہیں ہوا تھا ۔۔۔اور ہمارے حضرت مولانا رابع صاحب کا کبھی یہ معمول نہیں ہے کہ وہ کسی کے سامنے رونے کا اظہار کریں ۔۔۔ وہ تنہائی میں بھی جب اللہ کے سامنے دست دعا دراز کرتے ہیں ۔۔ اس وقت بھی ان کے رونے کی اواز  تک نہیں آتی۔۔۔ چہ جائیکہ ایسا عنوان لگاکر تحریر کو پھیلانا یہ اہل علم کو زیب نہیں دیتا۔۔ ہم نے خود حضرت سے اس کی وضاحت چاہی اور انھوں نے اس کی تردید کی۔۔ امید کہ لوگ احتیاط سے کام لیں گے۔۔۔
سید سحبان ثاقب ۔۔
خادم مولانا رابع صاحب

............
محمد عمرین محفوظ رحمانی کی وضاحت

بھٹکل میں کل ہند سیمینار میں کی گئی میری تقریر کے بارے میں مولانا شعیب احمد ندوی صاحب کی ایک تحریر
"جب حضرت مولانا محمد رابع صاحب رو پڑے"
کے عنوان سے گزری پھر مولانا سحبان ثاقب صاحب زید مجدہ کی وضاحت بھی نظر سے گزری اور ایک دو حضرات کی تحریریں بھی، اب اس پر تبصروں کا سلسلہ جاری ہے، اس بارے میں مجھے صرف دو باتیں عرض کرنی ہیں:
1. مولانا شعیب صاحب ندوی کو اپنی تحریر کا عنوان قائم کرنے کے سلسلے میں احتیاط برتنی چاہئے تھی، اور واقعے کی صحیح منظر کشی کرنی چاہئے تھی، مولانا سحبان صاحب کی وضاحت کے بعد اب اس پر کسی گفتگو کی ضرورت نہیں رہی۔
2. حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں جو واقعہ میں نے سنایا تھا اس کے غلط ہونے کی بات کہی جا رہی ہے جو درست نہیں ہے، یہ واقعہ بالکل سچا ہے، حضرت مولانا واضح رشید ندوی صاحب اور حضرت مولانا خلیل الرحمٰن سجاد نعمانی صاحب سے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے. البتہ یہ واقعہ شاہ بانو تحریک کے وقت کا نہیں ہے بلکہ ستر کی دہائی کا ہے جو کہ ایمرجنسی کا زمانہ تھا، اور حضرت مولانا راجیو گاندھی سے نہیں بلکہ اس وقت کی وزیراعظم مسز اندرا گاندھی سے ملنے جارہے تھے، اور یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ حضرت مولانا کی زندگی کا صرف یہ ایک واقعہ نہیں اس طرح کے دسیوں واقعات ہیں۔
آخر میں عرض ہے کہ مولانا شعیب ندوی نے جس واقعے کو عام کرنے کیلئے تحریر جاری کی تھی اس پر توجہ دینے اور اپنے اکابر واسلاف کا طرزاختیار کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ غیر ضروری چیزوں میں الجھنے اور دوسروں کو الجھانے کی:
غواص کو مطلب ہے گہر سےکہ صدف سے
عاجز وفقیر کے خیال میں اتنی وضاحت کافی ہے۔
محمد عمرین محفوظ رحمانی
مقیم حال حیدرآباد

No comments:

Post a Comment