خلافت راشدہ کیا ہے؟
اس کی مدت کتنی ہے؟
بعد والوں کو خلیفہ کیوں نہیں کہہ سکتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس کی مدت کتنی ہے؟
بعد والوں کو خلیفہ کیوں نہیں کہہ سکتے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو شخص کسی کا جانشیں ونائب بن کر اس کی جگہ پر کام کرے، اس کو لغوی اعتبار سے اس کا "خلیفہ" کہتے ہیں۔
شرعی اصطلاح میں بقول حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ:
’’خلافت (عامہ): بذریعۂ اشاعت علومِ دینیہ (یعنی قرآن و حدیث کی تعلیم، وعظ و نصیحت) کو زندہ رکھنا، ارکانِ اسلام (پنج وقتہ نماز، جمعہ و عیدین کی جماعت کا اہتمام اور امامت، زکوۃ وصول کرنا، مصرف میں خرچ کرنا، عامل کا تقرر، ہلال کی شہادت اور اس کے بعد رمضان اور عیدین کا حکم، حج کا نظم وغیرہ) کو قائم کرنا۔ جہاد اور اس کے متعلقات کو قائم کرنا، عہدۂ قضا کے فرائض انجام دینا، حدود قائم کرنا، مظالم کو دور کرنااور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو بجا لانا، یہ سارے کام بحیثیتِ نائبِ نبی بالفعل انجام دینے کو خلافت کہا جاتا ہے ۔ [إزالۃالخفاء ۱؍۱۹]
اور انہی نظام اور خوبیوں کے ساتھ اس منصب کی ذمہ داری بلاکم وکاست نبھانے والے کو "خلیفہ راشد" کہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد : تلاوت آیات ، تزکیہ نفوس ،کتاب وحکمت کی تعلیم تھی۔جسے آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں ایک جامع دین اور صالح معاشرہ کی شکل میں انسانیت کے سامنے پیش فرمادیا۔ پھر چونکہ آپ کے حوالے امامت کبری کی ذمہ داری بھی تھی۔اس لئے آپ نے مرضیات باری اور وحی الہی کے مطابق عدل وانصاف کے ساتھ مدینہ طیبہ میں ایک نظام حکومت کی بنیاد ڈالی۔جس کے ذمہ دار آپ خود تھے۔ اور آپ بنفس نفیس تعلیمات ربانی ووحی الہی کے مطابق احکام شریعت نافذ فرماتے رہے۔۔۔۔رحلت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نظام حکومت کے بارے میں یوں پیشین گوئی فرمائی:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ قَالَ حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ وَخِلَافَةَ عُمَرَ وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ ثُمَّ قَالَ لِي أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْخِلَافَةَ فِيهِمْ قَالَ كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ الْمُلُوكِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ قَالَا لَمْ يَعْهَدْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخِلَافَةِ شَيْئًا وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ
سنن الترمذي۔ رقم 2226 .ج 2۔ص 46۔
شرعی اصطلاح میں بقول حضرت شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ:
’’خلافت (عامہ): بذریعۂ اشاعت علومِ دینیہ (یعنی قرآن و حدیث کی تعلیم، وعظ و نصیحت) کو زندہ رکھنا، ارکانِ اسلام (پنج وقتہ نماز، جمعہ و عیدین کی جماعت کا اہتمام اور امامت، زکوۃ وصول کرنا، مصرف میں خرچ کرنا، عامل کا تقرر، ہلال کی شہادت اور اس کے بعد رمضان اور عیدین کا حکم، حج کا نظم وغیرہ) کو قائم کرنا۔ جہاد اور اس کے متعلقات کو قائم کرنا، عہدۂ قضا کے فرائض انجام دینا، حدود قائم کرنا، مظالم کو دور کرنااور امر بالمعروف و نہی عن المنکرکو بجا لانا، یہ سارے کام بحیثیتِ نائبِ نبی بالفعل انجام دینے کو خلافت کہا جاتا ہے ۔ [إزالۃالخفاء ۱؍۱۹]
اور انہی نظام اور خوبیوں کے ساتھ اس منصب کی ذمہ داری بلاکم وکاست نبھانے والے کو "خلیفہ راشد" کہتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد : تلاوت آیات ، تزکیہ نفوس ،کتاب وحکمت کی تعلیم تھی۔جسے آپ نے اپنی حیات مبارکہ میں ایک جامع دین اور صالح معاشرہ کی شکل میں انسانیت کے سامنے پیش فرمادیا۔ پھر چونکہ آپ کے حوالے امامت کبری کی ذمہ داری بھی تھی۔اس لئے آپ نے مرضیات باری اور وحی الہی کے مطابق عدل وانصاف کے ساتھ مدینہ طیبہ میں ایک نظام حکومت کی بنیاد ڈالی۔جس کے ذمہ دار آپ خود تھے۔ اور آپ بنفس نفیس تعلیمات ربانی ووحی الہی کے مطابق احکام شریعت نافذ فرماتے رہے۔۔۔۔رحلت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نظام حکومت کے بارے میں یوں پیشین گوئی فرمائی:
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ حَدَّثَنَا حَشْرَجُ بْنُ نُبَاتَةَ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ قَالَ حَدَّثَنِي سَفِينَةُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخِلَافَةُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ سَنَةً ثُمَّ مُلْكٌ بَعْدَ ذَلِكَ ثُمَّ قَالَ لِي سَفِينَةُ أَمْسِكْ خِلَافَةَ أَبِي بَكْرٍ ثُمَّ قَالَ وَخِلَافَةَ عُمَرَ وَخِلَافَةَ عُثْمَانَ ثُمَّ قَالَ لِي أَمْسِكْ خِلَافَةَ عَلِيٍّ قَالَ فَوَجَدْنَاهَا ثَلَاثِينَ سَنَةً قَالَ سَعِيدٌ فَقُلْتُ لَهُ إِنَّ بَنِي أُمَيَّةَ يَزْعُمُونَ أَنَّ الْخِلَافَةَ فِيهِمْ قَالَ كَذَبُوا بَنُو الزَّرْقَاءِ بَلْ هُمْ مُلُوكٌ مِنْ شَرِّ الْمُلُوكِ قَالَ أَبُو عِيسَى وَفِي الْبَاب عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ قَالَا لَمْ يَعْهَدْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْخِلَافَةِ شَيْئًا وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ قَدْ رَوَاهُ غَيْرُ وَاحِدٍ عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ وَلَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ
سنن الترمذي۔ رقم 2226 .ج 2۔ص 46۔
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم کے آزاد کردہ غلام حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نقل فرماتے ہیں:
میری امت میں خلافت تیس سال تک رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت و سلطنت آجائے گی۔
(حضرت سفینہ کے شاگرد سعید بن جمھان کہتے ہیں) پھر مجھ سے حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا اپنی انگلیوں پر گنو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت (کا دور) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت (کا دور) اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلاف (کا دور) پھر کہا انگلیوں پر گنو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت (کا دور)۔ کہتے ہیں کہ ہم نے (شمار کیا تو اس پوری مدت کو ہم نے ) تیس سال پایا۔‘‘
پھر میں نے سفینہ سے کہا کہ: بنی امیہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ (مذکورہ)خلافت اُن (کے خاندان) میں ہی ہے، تو سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بنی زُرقا جھوٹے ہیں، وہ توبدترین بادشاہوں میں سے ہیں۔
میری امت میں خلافت تیس سال تک رہے گی، پھر اس کے بعد ملوکیت و سلطنت آجائے گی۔
(حضرت سفینہ کے شاگرد سعید بن جمھان کہتے ہیں) پھر مجھ سے حضرت سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا اپنی انگلیوں پر گنو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت (کا دور) اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت (کا دور) اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلاف (کا دور) پھر کہا انگلیوں پر گنو حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت (کا دور)۔ کہتے ہیں کہ ہم نے (شمار کیا تو اس پوری مدت کو ہم نے ) تیس سال پایا۔‘‘
پھر میں نے سفینہ سے کہا کہ: بنی امیہ یہ دعوی کرتے ہیں کہ (مذکورہ)خلافت اُن (کے خاندان) میں ہی ہے، تو سفینہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بنی زُرقا جھوٹے ہیں، وہ توبدترین بادشاہوں میں سے ہیں۔
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلافت کاملہ کہ جس میں دین وشریعت اور عدل وانصاف کے ساتھ ذرا سی بھی کسی چیز کی آمیزش نہ ہوگی تیس 30 سال رہے گی۔اس کے بعد خلافت کی شکل وصورت میں تبدیلی آجائے گی۔ حکومت اگرچہ خلافت کے نام کے ساتھ ہی قائم ہوگی۔ اور کچھ دور میں (جیسےحضرت عمر بن عبد العزیز کے دور میں ) جزوی طور پر خلافت راشدہ جیسے احوال بھی آئیں گے! مگر وہ خلافت کاملہ نہ ہوگی۔ نام خلافت کا ہوگا۔ لیکن اصل میں بادشاہت ہوگی۔ اس خلافت کو "راشدہ" نہیں کہیں گے! اگرچہ اس تیس سال کے بعد چلنے والے دور حکومت میں حکمرانی کو کسی نہ کسی حد تک خلافت راشدہ کے نہج پر رکھنے کی کوشش کی گئی۔ لیکن قتل وغارتگری، دین وشریعت کی صریح خلاف ورزی اور ظلم وعدوان کی کثرت کی وجہ سے اہل سنت والجماعت کے نزدیک اسے "خلافت راشدہ " کا نام نہ مل سکا۔ہاں حکمرانی کو "خلافت" اور حکمرانوں کو "خلیفہ" کا لیبل ہی لگتا رہا۔ (جیسے خلافت بنو امیہ اور خلافت بنی عباسیہ وغیرہ وغیرہ)
حدیث مذکور کے راوی حضرت سفینہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے تیس سال کا جو حساب بیان کیا ہے وہ تخمینا ہے. انہوں نے کسور کو بیان نہیں کیا، چنانچہ صحیح روایات اور مستند تاریخی کتابوں میں خلافت راشدہ کی تیس سالہ مدت کو اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا زمانہ دو سال چار ماہ، حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا زمانہ دس سال چھ ماہ، حضرت عثمان غنی کی خلافت کا زمانہ چند روز کم بارہ سال اور حضرت علی مرتضی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی خلافت کا زمانہ چار سال نو ماہ رہا ہے۔ اس طرح چاروں خلفاء کی مجموع مدت خلافت انتیس سال سات ماہ ہوتی ہے۔ اور پانچ مہینے جو باقی رہے وہ حضرت امام حسن ؓ کی خلافت کا زمانہ ہے، حضرت علی کی شہادت کے بعد مسلمانوں کے سواد اعظم
نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ بیعت کی۔ پانچ یا چھ ماہ حکمرانی کرنے کے بعد جب تیس سال کی مدت پوری ہوگئی تو انہوں نے حکومت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سونپ کے خود کنارہ کش ہوگئے۔ اس طرح حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مدت بھی خلافت مشہود لہا بالخیر میں داخل ہوئی اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہوئے (شرح الفقہ الاکبر ص 68۔69۔شرح عقائد نسفی ص 151۔ شرح العقیدہ الطحاویہ ص 545 ۔الخلافہ والامارہ ۔)
نے حضرت حسن بن علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پہ بیعت کی۔ پانچ یا چھ ماہ حکمرانی کرنے کے بعد جب تیس سال کی مدت پوری ہوگئی تو انہوں نے حکومت حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو سونپ کے خود کنارہ کش ہوگئے۔ اس طرح حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالٰی عنہ کی مدت بھی خلافت مشہود لہا بالخیر میں داخل ہوئی اور حضرت امام حسن رضی اللہ تعالٰی عنہ بھی خلفاء راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے ہوئے (شرح الفقہ الاکبر ص 68۔69۔شرح عقائد نسفی ص 151۔ شرح العقیدہ الطحاویہ ص 545 ۔الخلافہ والامارہ ۔)
واللہ اعلم بالصواب
شکیل منصور القاسمی /بیگوسرائے
٥\٦\١٤٣٩ ہجری
شکیل منصور القاسمی /بیگوسرائے
٥\٦\١٤٣٩ ہجری
ماشاء اللہ الحمد للہ آپ کے مضامین بہت ہی عمدہ ہوا کرتے ہیں
ReplyDelete