Saturday, 17 February 2018

آر ایس ایس کا فوج کھڑی کرنے کا خواب

سخت گیر ہندو نظریاتی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کے سربراہ موہن بھاگوت نے گذشتہ ہفتے بہار میں تقریر کرتے ہوئے کہا کہ اگر کسی ہنگامی حالت میں بڑی تعداد میں فوج کھڑی کرنی ہو تو انڈین فوج کو اس میں کافی وقت لگے گا لیکن آر ایس ایس محض تین دن کے اندر لاکھوں کی فوج کھڑی کرسکتی ہے۔
یہ تو پتہ نہیں کہ وہ اپنے اس بیان سے یہ بتانا چاہتے تھے کہ انڈین آرمی، فوج کے موبلائزیشن میں ان سے کہیں پیچھے ہے یا پھر یہ کہ آر ایس ایس محض ایک آواز پر فوج کھڑی کرنے کی اہلیت رکھتی ہے۔
آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس میں نظم وضبط ہے اور یہ ہندو ثقافت اور مذہبی تصورات کو فروغ دینے کے علاوہ ملک میں ایک ہندو راشٹر کے قیام کے لیے سرگرم ہے۔ ہندو قوم پرستی اس کے نظریے کا محور ہے۔یہ تنظیم ابتدا سے ہی ہندوتوا کی جانب مائل جماعتوں اور تنظیموں سے وابستہ رہی ہے۔ بی جے پی اس کی سیاسی شاخ ہے۔ بجرنگ دل، وشو ہندو پریشد، بن واسی کلیان سمیتی، اور اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد جیسی متعدد تنظیمیں اس کی محاذی شاخیں ہیں جو الک الگ علاقوں میں الگ الگ طریقے سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ ان سبھی تنظیموں کا نصب العین ہندوتوا کا فروغ ہے۔ان میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں اب اپنے ارکان کو لڑائی اور مسلح ٹکراؤ کی تربیت بھی دیتی ہیں۔ بجرنگ دل جیسی تنظیموں کی نوعیت ملیشیا جیسی ہے جن کا کردار انتخابات میں سماجی ٹکراؤ اور سیاسی مفاد کے حصول کے لیے دنگے فساد میں اکثر نظر آتا ہے۔
ان میں سے بعض تنظیموں نے اب خود کو سینا یعنی فوج کہنا شروع کر دیا ہے۔ ان تنظیموں کے حکمراں جماعت بی جے پی سے گہرے تعلقات ہیں۔ گائے کے تحفظ کے لیے بنائی گئی ’گؤ رکشا‘ سمیتیوں اور 'اینٹی رومیو' سکواڈ جیسے پرتشدد گروپوں میں انھی ملیشیا کے نوجوان شامل ہوتے ہیں۔ہندو قوم پرستی کا ایک اہم پہلو فوج کے کردار کو غیر معمولی طور پر اجاگر اور مشتہر کرنا ہے۔ فوج سے وابستہ پہلوؤں کو مذہبی قوم پرستی سے جوڑنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آر ایس ایس اپنی ابتدا سے ہی فوجی طرز کے نظم و ضبط کی پابند رہی ہے۔ اس میں نظریاتی تبلیغ کے ساتھ ساتھ کیڈروں کو لاٹھی چلانے اور اپنے دفاع کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔
بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد آر ایس ایس کے ارکان کی تعداد میں زبردست اضافہ ہوا ہے۔ اس کے ارکان کی تعداد اب لاکھوں میں ہے جو تنظیم کے سربراہ کی ایک آواز پر منظم طریقے سے فوجی ڈسپلن کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ انڈیا میں جنگجو تنظیمیں ہتھیار حاصل نہیں کر سکی ہیں اور ان کا سب سے مؤثر ہتھیار ہجومی اور اجتماعی تشدد ہے اور یہی ان کا کامیاب حربہ ہے۔انڈیا میں بی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کا جو رخ رہا ہے اس میں خاطر خواہ نئی ملازمتوں کے مواقع نہیں پیدا ہو سکے۔ اس مدت میں لاکھوں تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریوں کے ساتھ بے کار بیٹھے ہیں۔ ملک میں بے چینی روکنے کے لیے ان لاکھوں نوجوانوں کو کہیں نہ کہیں مصروف رکھنا ضروری ہے۔ آر ایس ایس کی مختلف تنظیمیں ان بے روزگار نوجوانوں کو اپنی طرف راغب کر رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ نوجوانوں کی بڑھتی ہوئی تعداد، ملازمتوں کے وافر مواقع نہ بن پانے اور سوشل میڈیا کی نئی آزادی وہ تمام عوامل فراہم کر رہی ہے جو ملک میں تشدد میں اضافے کا سبب بن سکتی ہیں۔ حکمراں جماعتوں سے وابستگی کے ساتھ ملیشیا جیسی تنظیموں کے فروغ اور مستحکم ہونے سے ملک کی سلامتی کو سنگین خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔
برما، پاکستان، سری لنکا اور نیپال نظریاتی تنظیموں اور ملیشیا گروپوں کے سبب منظم تشدد کا سامنا کرچکے ہیں۔ انڈیا کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ ان ملکوں کے تجربوں سے سبق سیکھے اور جمہوریت کی بقا کے لیے ان جنگجو تنظیموں کو محدود کرنے کے راستے تلاش کرے۔

شکیل اختر بی بی سی 
اردو ڈاٹ کام، دلی
http://www.bbc.com/urdu/regional-43095172

RSS chief Mohan Bhagwat in Varanasi to recruit, speak ideology

WITH AN aim to draw more people into the RSS fold, its chief Mohan Bhagwat Thursday began a five-day tour of Prime Minister Narendra Modi’s constituency of Varanasi. According to reports, February 16, 2018, amid tight security, he was escorted to the Deen Dayal handicrafts trade facilitation centre in Badalalpur, where he met district’s sevaks for 30 minutes. “He discussed RSS ideology with the sevaks, many of who were new members. Bhagwatji is aiming to increase membership. He mainly discussed how we can take the RSS’ work forward in spheres of societal life,” Saurav, a swayamsevak who attended Bhagwat’s talk, said.

Bhagwat, who had just concluded a 10-day trip in Bihar reviewing various Sangh units, held the meet in the city’s massive Deen Dayal Handicrafts Complex, which the PM had inaugurated last year.

Bhagwat, who arrived by train in the afternoon, will address local Sangh representatives from eastern UP with Chief Minister Yogi Adityanath on February 18.

Sources said all local BJP leaders will attend Bhagwat’s talks. “The RSS chief holds district-level organisational meets every year across the region. But this year, all programmes are grand, especially with the CM joining him on February 18. It’s election season… while Varanasi is strategically important for the BJP, it is an important centre for the RSS,” said another RSS member.
http://indianexpress.com/article/india/rss-chief-mohan-bhagwat-in-varanasi-to-recruit-speak-ideology-5066067/
............
What is the Rashtriya Swayamsevak Sangh (RSS)? 
 
Let me start with describing a historical event that happened at Pune at the start of this year, to give a glimpse RSS. Around 1.5+ Lakh RSS cadre (Swayamsevaks) gathered in full uniform on the occasion of Shiv Shakti Sangam. It manifested discipline, organizational skills, zeal and passion for patriotism. Thousands of cadres worked day and night to make it success. None of them did it for any personal gain, name or fame. All of them worked in background without any showoff to satisfy inner hunger of achieving a very big purpose for which RSS came into existence.

All cadres attended the program by paying money from own pocket. There was Rs 100 fees for program, Rs 100 to be paid for travel and around Rs 600+ for uniform. 
https://www.quora.com/What-is-the-Rashtriya-Swayamsevak-Sangh-RSS

No comments:

Post a Comment