Friday 23 February 2018

صرف سچی اور مستند بات کہیں

ایس اے ساگر
........

ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ:
’’ﺁﺧﺮﯼ ﺯﻣﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ ‏(ﺍﯾﺴﮯ‏) ﺩﺟﺎﻝ ‏(ﻓﺮﯾﺐ ﮐﺎﺭ‏) ﮐﺬﺍﺏ ﮨﻮﮞ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﺍﯾﺴﯽ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻻﺋﯿﮟ ﮔﮯ ﺟﻮ ﺗﻢ ﻧﮯ ﺳﻨﯽ ﮨﻮﮞ ﮔﯽ ﻧﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﺁﺑﺎﺀ ﻧﮯ۔ ﺗﻢ ﺍﻥ ﺳﮯ ﺩﻭﺭ ﺭﮨﻨﺎ ‏(ﮐﮩﯿﮟ‏) ﻭﮦ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﮔﻤﺮﺍﮦ ﻧﮧ ﮐﺮﺩﯾﮟ ﺍﻭﺭ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻓﺘﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﮟ۔‘‘
‏(ﺻﺤﯿﺢ ﻣﺴﻠﻢ، ﻣﻘﺪﻣﮧ)
ﺁﺝ ﮐﮯ ﺩﻭﺭ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮫ ﮔﯿﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﮩﺖ ﺳﯽ ﺍﯾﺴﯽ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ﺟﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺟﻦ ﮐﮧ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﻧﮧ ﻗﺮﺁﻥ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺫﮐﺮ ﻧﮧ ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﻣﻠﺘﺎ ﮨﮯ .. ﺍﻭﺭ ﺍﺏ ﺗﻮ ﺍﮐﺜﺮ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ ﺑﺎﺕ ﮐﮯ ﻧﯿﭽﮯ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﺒﻮﯼ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﺣﺪﯾﺚ ﮐﯽ ﮐﺘﺎﺏ ﮐﺎ ﺣﻮﺍﻟﮧ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺟﮭﻮﭦ ﻣﻮﭦ ﮐﺎ ﺣﺪﯾﺚ ﻧﻤﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻟﮑﮫ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ ۔۔۔
.. ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﺍﯾﺴﯽ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ ﭼﯿﺰﯾﮟ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺍﺗﻨﮯ ﺑﮯﭘﺮﻭﺍﮦ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﮐﻮﺷﺶ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﻧﯽ ﺑﺲ ﮨﺮ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﺳﻦ ﮐﺮ ﺳﭻ ﻣﺎﻥ ﻟﯿﻨﺎ ﮨﮯ ۔۔۔
ﻭﮦ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮐﮯ ﻣﺴﻠﻤﺎﻥ ﺻﺮﻑ ﻧﺎﻡ ﮐﮯ ﮨﯽ ﻣﺤﺐ ﺭﺳﻮﻝ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮨﯿﮟ .. ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﺟﺘﻨﺎ ﻣﺮﺿﯽ ﺟﮭﻮﭦ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮐﺮﻭ .. ﯾﮧ ﮐﻮﻧﺴﮯ ﺣﺴﺎﺱ ﮨﯿﮟ ﺍﺱ ﻣﻌﺎﻣﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﻮ ﻧﺒﯽ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﺫﺍﺕ ﺳﮯ ﻣﻨﺴﻮﺏ ﮨﺮ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ۔۔۔
ﺍﻟﻠّٰﮧ ﺭﺏ ﺍﻟﻌﺰﺕ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ ﮐﮧ:
"ﺍﮮ ﻟﻮﮔﻮ ﺟﻮ ﺍﯾﻤﺎﻥ ﻻﺋﮯ ﮨﻮ ، ﺍﮔﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺎﺳﻖ ﺗﻤﮩﺎﺭﮮ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺒﺮ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﻮ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮ ﻟﯿﺎ ﮐﺮﻭ، ﮐﮩﯿﮟ ﺍﯾﺴﺎ ﻧﮧ ﮨﻮ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﺴﯽ ﮔﺮﻭﮦ ﮐﻮ ﻧﺎﺩﺍﻧﺴﺘﮧ ﻧﻘﺼﺎﻥ ﭘﮩﻨﭽﺎ ﺑﯿﭩﮭﻮ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﯿﮯ ﭘﺮ ﭘﺸﯿﻤﺎﻥ ﮨﻮ" ‏(ﺳﻮﺭۃ ﺍﻟﺤﺠﺮﺍﺕ 6)
ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﺑﮩﺖ ﺳﺨﺖ ﻭﻋﯿﺪ ﺁﺋﯽ ﮨﮯ .. ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﺎ ﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ:
"ﺟﻮ ﺷﺨﺺ ﻣﺠﮫ ﭘﺮ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﺎﻧﺪﮬﮯ ﮔﺎ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﺎ ﭨﮭﮑﺎﻧﺎ ﺟﮩﻨﻢ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﺎ ﻟﮯ۔"
‏(ﺻﺤﯿﺢ ﺍﻟﺒﺨﺎﺭﯼ: ﮐﺘﺎﺏ ﺍﻟﻌﻢ، ﺑﺎﺏ ﺍﺱ ﺷﺨﺺ ﭘﺮ ﮐﺘﻨﺎ ﮔﻨﺎﮦ ﮨﮯ ﺟﻮ ﻧﺒﯽ ‏(ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺁﻟﮧ ﻭﺳﻠﻢ‏) ﭘﺮ ﺟﮭﻮﭦ ﺑﻮﻟﮯ)


عن ثوبان رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ ﷺ : إنما ّخاف علی ّمتی الّائمۃ المضلین
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: مجھے اپنی امت پر خوف ہے گمراہ کرنے والے ائمہ(اماموں ، پیشواؤں، راہنماؤں، قائدین) کا (کہ وہ میرے امتیوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کریں گے) [ابو داؤد: ۴۲۵۴و سندہ صحیح]
عن أبی ھریرۃ یقول: قال رسول اللہ ﷺ یکون فی آخر الزمان دجالون کذابون، یأتونکم من الأحادیث بمالم تسمعو أنتم ولا آباؤ کم، فإیا کم وإیاھم، لا یضلونکم ولا یفتنونکم

رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: 
آخری زمانہ میں دجال (دھوکا دینے والے، جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ بنانے والے )کذاب(جھوٹ بولنے والے، جان بوجھ کر غلط خبر دینے والے، حق و صحیح بات کو جھٹلانے والے، خلاف حقیقت بات کرنے والے) لوگ پیدا ہوں گے، وہ تمہارے پاس ایسی احادیث(نئی نئی باتیں) لائیں گے کہ جو نہ تم نے سنی ہوں گی اور نہ تمہارے آباؤ اجداد نے۔ پس تم خود کو ان سے اور ان کو اپنے سے دور رکھنا، تاکہ نہ تو وہ تمہیں گمراہ کر سکیں اور نہ ہی کسی فتنے میں مبتلا کر سکیں۔ (صحیح مسلم: المقدمۃ باب۴، ح ۷ص۱؍۷۸)
یہ حدیث وضاحت کرتی ہے کہ جیسے جیسے قیامت قریب سے قریب تر ہوتی چلی جائے گی دنیا دجل و فریب کے ماہرین اور جھوٹے لوگوں سے بھرتی چلی جائے گی اور یہ لوگ اپنی فنکارانہ مہارتوں اور پر فریب اور خوش آئند باتوں سے لوگوں کو نہ صرف فتنے میں مبتلا کریں گے بلکہ گمراہ بھی کر دیں گے اور وہ لوگوں کو باور (ظاہر) کروائیں گے کہ اگر حق و صداقت کسی چیز کا نام ہے تو وہ انہیں کے پاس ہے اور وہی حقیقی مسلم ہیں اور ان کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی مسلم نہیں ہے۔
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ (المتوفی ۱۱۰ھ) نے اس ضمن میں بہت ہی عمدہ بات کہی ہے وہ فرماتے ہیں:

إن ھذا العلم دین فانظرو اعمن تأخذون دینکم
بے شک یہ (کتاب و سنت کا ) علم، دین ہے پس جب تم اس کو حاصل کرو تو دیکھ لو کہ کس سے اپنا دین حاصل کر رہے ہو؟ (صحیح مسلم، ترقیم دارالسلام: ۲۶و سند صحیح)
:سیدنا حذیفہ بن یمان ؓ کی ایک حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے شر(فتنہ) کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

دعاۃ علی أبواب جھنم من أجابھم إلیھا قذفوہ فیھا، قلت: یا رسول اللہ!صفھم لنا قال:ھم من جلد تنا و یتکلمون بألسنتنا
کچھ لوگ اس طرح گمراہی پھیلائیں گے کہ گویا وہ جہنم کے دروازوں پر کھڑے ہیں، اور جو ان کی دعوت کو قبول کرے گا اسے جہنم میں گرا دیں گے (حذیفہ ؓ کہتے ہیں) میں نے عرض کیا کہ اے اللہ کے رسول !ان لوگوں کی کچھ صفات بیان فرما دیجئے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: وہ ہماری قوم کے لوگ ہوں گے اور ہماری ہی زبان میں گفتگو کریں گے۔ (صحیح بخاری: ۷۰۸۴، صحیح مسلم: ۱۸۴۷)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ گمراہی کی طرف دعوت دینے والے اپنی ہی قوم کے لوگ ہوں گے لیکن تکفیری اور گمراہ فرقوں میں شامل ہونے کی وجہ سے جہنم کے داعی بن جائیں گے اور لوگوں کو قرآن و حدیث کی شاہراہ سے ہٹا کر انہیں نفس و شیطان کا بندہ بنا دیں گے۔
سید وقار علی شاہ صاحب جو ایک عرصہ تک جماعت المسلمین کی صف اول کے داعیوں میں سے تھے اور جب اللہ تعالیٰ نے انہیں دینی شعور عطا فرمایا تو پھر قرآن و حدیث کی روشنی میں اس جماعت کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
 یہ اور اس طرح کی بہت سی متعدد احادیث سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ ہر دور میں دین کے نام پر گمراہ کرنے والے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور امت مسلمہ کے لئے فتنہ بنتے رہیں گے۔ یہ لوگ بظاہر تو بہت اچھی اور خیر خواہی کی باتیں کریں گے، اپنے عقائد قرآن و حدیث سے ثابت کرنے کی کوشش کریں گے لیکن قرآن و حدیث کی غلط تاویلات کر کے لوگوں کو گمراہ کریں گے اور اس طرح سے امت مسلمہ میں فتنہ ، فساد، انتشار، تعصب، نفرت اور گمراہی پھیال دیں گے۔ بظاہر بہت دین دار، دین کو سمجھنے اور اس کا علم رکھنے والے نظر آئیں گے اور اسی بنیاد پر لوگوں کی کم علمی اور دین سے محبت و عقیدت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں مرعوب کر کے اپنے جال میں پھانس لیں گے، لیکن دین ان کے حلق سے نیچے بھی نہیں اترا ہو گا یعنی و صحیح طور پر نہ تو دین ہی پر عمل کر رہے ہوں گے اور نہ ہی انہیں دین کی صحیح سمجھ، شعور، فہم اور معرفت ہو گی۔ 

تنبیہ: سید وقار علی شاہ صاحب ایک فرقے سے نکل کر دوسرے فرقے میں شامل ہو گئے ہیں۔
موجودہ دور میں دو نوزائدہ فرقے تکفیری میدان میں بہت ہی سرگرم ہیں جن میں سے ایک فرقہ ڈاکٹر مسعود الدین عثمان کا ہے جسے برزخی عثمان فرقہ کہا جاتا ہے۔ یہ فرقہ عذاب قبر کا سخت منکر ہے لیکن لوگوں کو دھوکا دینے کے لئے اس بات کا بھی اقرار کرتا ہے کہ عذاب قبر حق ہے۔ اس فرقہ کے بانی نے جہنم میں روح کے عذاب والی اور جنت میں روح کی راحت و آرام والی احادیث کو پیش کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ جنت و جہنم ہی اصل قبریں ہوتی ہیں اور احادیث میں قبروں میں عذاب کی جو روایات آئی ہیں ان کی انتہائی بھونڈی تاویلات کرکے ان کا انکار کر دیا ہے کیونکہ ان کے مطابق قبروں میں عذاب و ثواب کو مان لینے سے قبر پرستی کے نظریئے کو تقویت ملتی ہے،
جیسے جیسے قیامت قریب آتی جا رہی ہے ویسے ویسے امت مسلمہ میں مختلف فتنوں اور فرقوں کی کثرت ہوتی جا رہی ہے اور ہر فرقہ اپنے خود ساختہ عقائد و نظریات کو درست ثابت کرنے کے درپے ہے۔ 

رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
أو صیکم بتقوی اللہ و السمع و الطاعۃ وإن کان عبداً حبشیاً فإنہ من یعش منکم بعدی فسیری اختلافاً کثیراً فعلیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکو ابھا وعضو ا علیھا بالنواجذ و إیاکم و محدثات الأمور فإن کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ [رواہ أحمد ](۴ ؍۱۲۶ ، ۱۲۷) و أبوداود (۴۶۰۷) و الترمذی (۲۶۷۶) و ابن ماجۃ (۴۳) بحوالہ مشکوٰۃ المصابیح کتاب الإیمان باب الاعتصام بالکتاب و السنۃ :۱۶۵ وقال الترمذٰ: حسن صحیح و صححہ ابن حبان: موارد ۱۰۲ و الحاکم ۱؍۹۵ ، ۹۶ ووافقہ الذھبی، وقال الألبانی و حافظ زبیر علی زئی: سندہ صحیح]

میں تم کو وصیت کرتا ہوں اللہ کے تقویٰ کی اور (امیر کی بات) سننے ارو اطاعت کرنے کی اگرچہ تمہیں حبشی غلام کی بھی اطاعت کرنی پڑے، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا تو وہ بہت زیادہ اختلاف دیکھے گا تو ایسی حالت میں تم پر لازم ہے کہ تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت کو اختیار کرنا۔ اسی کے ساتھ وابستہ ہو جانا اور اسے دانتوں کے ساتھ مضبوطی سے پکڑے رہنا ار تم (دین میں) نئی نئی باتوں اور کاموں سے بچتے رہنا اس لئے کہ ہر نئی بات بدعت ہے اور ہربدعت گمراہی ہے۔
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﻓﺴﻮﺱ ﮐﮧ ﺁﺟﮑﻞ ﻣﻦ ﮔﮭﮍﺕ ﺍﻭﺭ ﺟﮭﻮﭨﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﮐﻮ ﺣﺪﯾﺚ ﺑﻨﺎﮐﺮ ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﺯﻭﺭ ﭘﮑﮍﺗﺎ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﮨﮯ .. ﺍﯾﺴﮯ ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺫﻣﮧ ﺩﺍﺭﯼ ﮨﮯ ﮐﮧ ﮨﻢ ﮐﺴﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺁﮔﮯ ﭘﮭﯿﻼﻧﮯ ﯾﺎ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮﻧﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺤﻘﯿﻖ ﮐﺮﻟﯿﮟ. ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮨﻢ ﺳﺐ ﮐﻮ ﻓﺘﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺤﻔﻮﻅ ﺭﮐﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﮨﻤﯿﮟ ﮨﻤﯿﺸﮧ ﺣﻖ ﭘﮧ ﭼﻠﻨﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﺩﮮ ‏(ﺁﻣﯿﻦ‏)

No comments:

Post a Comment