مولانا ندیم الواجدی صاحب کی ایک پوسٹ پر مولانا ارشد کاندھلوی صاحب کا کمینٹ:
.........................
السلام علیکم ورحمة اللہ و بر كاتہ
امید ہے مزاج گرامی بعافیت تمام ہوں گے۔ آپ نے مضموں کی ابتداء کی بہت خوب مگر ادبا عرض ہے کہ پہلی قسط کے شروع میں ہی دو فروگزاشتیں نظر آئیں مناسب نہیں لگا کہ آپ کے قلم سے غیر تحقیقی بات نکلے اس لئے عرض ہے اولا مولانا الیاس نے کبھی دارالعلوم میں داخلہ نہیں لیا شیخ الہند سے ذاتی طور پر استفادہ کیا ہے جس کا دارالعلوم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے. انھوں نے ہی نہیں بلکہ تمام علمائے کاندھلہ نے مظاھر علوم سے سند فراغ حاصل کی ہے
ثانیا بانی تبلیغ سے وہ مشہور تو بے شک ہیں مگر اصلا یہ فکر مولانا مظفر حسین کاندھلوی کی ہے اور مولانا الیاس کے والد مولانا اسماعیل نے عملا اس کام کو شروع کردیا تھا ان کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد میاں اس کو لے کر چلتے رہے اور میوات میں ۲۰ سے زائد مساجد و مکاتب تعمیر و آباد کرچکے تھے تیسرے نمبر پر مولانا الیاس کو اھل دھلی باصرار لے گئے اور حضرت سہارنپوری کے حکم پر وہ جانے کو راضی ہوئے کہ یک سال کی چھٹی لے لو اگر کام میں طبیعت لگے تو استفعیٰ دیدنا نہیں تو واپس مظاہر علوم آجانا وگرنہ وہ نظام الدین جانے کو بھی راضی نہ تھے آج کل ان کو لوگ قاسمی بناکر پیش کر رہے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہے....
.........................
السلام علیکم ورحمة اللہ و بر كاتہ
امید ہے مزاج گرامی بعافیت تمام ہوں گے۔ آپ نے مضموں کی ابتداء کی بہت خوب مگر ادبا عرض ہے کہ پہلی قسط کے شروع میں ہی دو فروگزاشتیں نظر آئیں مناسب نہیں لگا کہ آپ کے قلم سے غیر تحقیقی بات نکلے اس لئے عرض ہے اولا مولانا الیاس نے کبھی دارالعلوم میں داخلہ نہیں لیا شیخ الہند سے ذاتی طور پر استفادہ کیا ہے جس کا دارالعلوم سے کوئی لینا دینا نہیں ہے. انھوں نے ہی نہیں بلکہ تمام علمائے کاندھلہ نے مظاھر علوم سے سند فراغ حاصل کی ہے
ثانیا بانی تبلیغ سے وہ مشہور تو بے شک ہیں مگر اصلا یہ فکر مولانا مظفر حسین کاندھلوی کی ہے اور مولانا الیاس کے والد مولانا اسماعیل نے عملا اس کام کو شروع کردیا تھا ان کے بعد ان کے بڑے صاحبزادے مولانا محمد میاں اس کو لے کر چلتے رہے اور میوات میں ۲۰ سے زائد مساجد و مکاتب تعمیر و آباد کرچکے تھے تیسرے نمبر پر مولانا الیاس کو اھل دھلی باصرار لے گئے اور حضرت سہارنپوری کے حکم پر وہ جانے کو راضی ہوئے کہ یک سال کی چھٹی لے لو اگر کام میں طبیعت لگے تو استفعیٰ دیدنا نہیں تو واپس مظاہر علوم آجانا وگرنہ وہ نظام الدین جانے کو بھی راضی نہ تھے آج کل ان کو لوگ قاسمی بناکر پیش کر رہے ہیں جو حقیقت کے خلاف ہے....
................
مجدد تبلیغ مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ
میانہ قد، نحیف و نزار جسم، مگر نہایت چاق و چوبند، رنگ گندمی، ڈاڑھی گھنی، صورت سے تفکر ، چہرہ سے ریاضت و مجاہدہ،پیشانی سے عالمی ہمتی اور بلند نظری نمایاں، زبان میں کچھ لکنت لیکن آواز میں قوت اور جوش، مسلمانوں کی دینی و ایمانی پسماندگی پر پریشان حال، اُن کی دین سے دوری پر بے چین و مضطرب، بسا اوقات اسی فکر میں ماہئ بے آب کی طرح تڑپنا، پھڑکنا، آہیں بھرتے رہنا زندگی کا وظیفہ، راتوں کو اُٹھ کر گھبراہٹ میں بار بار پستر پر کروٹیں بدلنا اور فکر سے ٹہلتے رہنا اور دن میں دین کی محنت کے لیے مارے مارے پھرنا۔ ان شمائل و خصائص اور عادات و صفات کو اپنے ذہن میں تربیت دیں اور خیالات کی دُنیا میں جو شخصیت اُبھرے، اُس پر لکھ دیں: مولانا محمد الیاس کاندھلوی۔۔۔
مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کی شخصیت، اُن کے صفات و کمالات، ان کی عزم و ہمت، دینی تڑپ و فکر اُمت اور زہد و تقوی کا صحیح معنی میں اندازہ تو اُنہیں لوگوں کو ہوگا جنہوں نے اس آفتاب علم و حکمت کو دیکھا ہوگا یا اُن کے انفاس قدسیہ کا بچشم خود ملاحظہ کیا ہوگا، تا ہم جن حضرات نے ان کی زبان سے جھڑنے والے علم و حکمت کے پھول جمع کرکے بعد والوں تک پہنچائے اور پھر مولانا رحمہ اللہ کے علم و عمل اور اصلاح امت کے جس جذبے نے آج پوری دنیا میں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اللہ، رسول، دین و مذہب اور قرآن و سنت سے وابستہ کیا اور جن کا اخلاص و لگن اور کڑھن و فکر دنیا بھر کے انسانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہونا چاہیے کو مولانا کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ’’مجدد‘‘ بنایا تھا۔
مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کا سبق کیا تھا؟ ان کا سبق معاشرے میں ’’برداشت‘‘ کے کلچر کا فروغ تھا، ان کی محنت کا مقصد ’’صبر و تحمل‘‘ کا احیاء تھا، ان کا کام زندگیوں میں ’’اخلاص و اخلاق‘‘ پیدا کرنا تھا، ان کا مطمح نظر زندگیوں کی ایسی تبدیلی اور ایسے صالح معاشرے کا وجود تھا، جہاں ہر شخص دل سے مسلمان ہو، اس کی مسلمانی اور اس کا اسلام عبادات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ معاملات میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو، وہ تنہائی میں بھی اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ بلاشبہ مولانا کے اندر اس درجے اخلاص تھا کہ آج ان کی بپا کردہ تحریک کے ذریعے مسلم و غیرمسلم ممالک میں وہ انقلاب آیا کہ دنیا ششدرہے، آج غیرمسلم ممالک میں جاکر دیکھیے کہ اس دعوتی محنت کے ذریعے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے وہ بلاشبہ پورے کے پورے داخل ہوگئے، ان کی عبادات کی طرح ان کے معاملات بھی کھرے ہیں، ان کی معاشرت بھی صاف و شفاف ہے، بلاشبہ ایسے لوگ مسلم ممالک میں بھی کم نہیں لیکن آج دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ مولانا کے سبق کو ایک بار پھر تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ ۱۳۰۳ھ میں مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی رحمہ اللہ کے گھر پیدا ہوئے، ۱۳۱۴ھ میں اپنے بڑے بھائی مولانا محمد یحیی (والد ماجد شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ) کے پاس گنگوہ آگئے، جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں گنگوہ میں مقیم تھے اور بڑے بھائی سے پڑھنا شروع کیا۔ اس طرح حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی محبت و مجالست کی دولت شب و روز حاصل رہی۔ ۱۳۲۳ھ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ دنیا سے رحلت کرگئے۔ اس طرح مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کا تقریبا آٹھ برس کا عرصہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی صحبت میں گزرا، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ بچوں اور طالب علموں کو بیعت نہیں کرتے تھے، لیکن آپ کو بیعت کرلیا تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے مولانا رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ حضرت! ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی تو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے جواب فرمایا تھا کہ ’’اللہ تعالی آپ سے کام لیں گے۔‘‘
۱۳۲۶ھ میں حدیث کی تکمیل کے لیے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کے درس میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے، بخاری شریف اور ترمذی شریف کی سماعت کی، چونکہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی وفات ہوچکی تھی، لہذا حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے مشورے اور اجازت پر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ سے تعلق قائم کیا اور ان کی نگرانی میں منازل سلوک طے کیے۔ یوں آپ نے ایک طرف شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمہ اللہ جیسے مجاہد عالم دین سے علوم قرآن و حدیث کی تکمیل کی، تو دوسری طرف اپنے وقت کے قطب مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔ یوں آپ جامع شریعت و طریقت ہوگئے۔
۱۳۲۸ھ میں آپ نے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں تدریس شروع کی، لیکن ۳۴ھ میں بڑے بھائی حضرت مولانا محمد یحیی کاندھلوی اور دو سال بعد دوسرے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد کاندھلی رحمہ اللہ (جو علاقہ نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد میں قائم مدرسہ کے ذمہ دار تھے) کے انتقال کے بعد اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب رحمہ اللہ کی اجازت او مشورہ سے نظام الدین بنگلہ والی مسجد میں قائم مدرسہ میں منتقل ہوگئے اور یہاں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی، اس مدرسہ میں زیادہ تر علاقہ میوات کے بچے پڑھتے تھے۔ نظام الدین منتقلی کے بعد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ دیوانہ وار میوات کے پر علاقے میں پھرے، ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازے پر دستک دی، کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پروا ہوکر تبلیغی گشت کیے اور جب لوگوں نے حسب خواہش آپ کی آواز پر ’’لبیک‘‘ نہ کہا تو آپ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کی خدا کے حضور روتے، گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے اور پھر اپنی ہمت و طاقت، مال و دولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعے اس تبلیغی کام پر لگا دیتے۔ آج جس کا ثمرہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ہے مولانا الیاس کے شب و روز کی ایک معمولی سی جھلک۔ گویا وہ اس شعر کے حقیقی مصداق تھے:
پھونک کر اپنے آشیانے کو
بخش دی روشنی زمانے کو
مولانا نے اسی درویشی اور دین کے لیے فداکاری و جانثاری کے ساتھ پوری زندگی بسر کی اور ۲۱ رجب ۱۳۶۳ھ (۱۲ جولائی ۱۹۴۴ء) کی صبح کو علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا یہ آفتاب غروب ہوگیا، مولانا رحمہ اللہ کی وفات کو ستر سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن مولانا رحمہ اللہ نے ایمان و ایقان کی جو صدا آج سے سو سال قبل لگائی تھی، اس کی گونج پورے عالم میں سنی جاسکتی ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے ’’فکر الیاس‘‘ کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے!
تحریر: مولانا محمد زین العابدین
اشاعت: روزنامہ اسلام ۱۲ جولائی ۲۰۱۶ء
میانہ قد، نحیف و نزار جسم، مگر نہایت چاق و چوبند، رنگ گندمی، ڈاڑھی گھنی، صورت سے تفکر ، چہرہ سے ریاضت و مجاہدہ،پیشانی سے عالمی ہمتی اور بلند نظری نمایاں، زبان میں کچھ لکنت لیکن آواز میں قوت اور جوش، مسلمانوں کی دینی و ایمانی پسماندگی پر پریشان حال، اُن کی دین سے دوری پر بے چین و مضطرب، بسا اوقات اسی فکر میں ماہئ بے آب کی طرح تڑپنا، پھڑکنا، آہیں بھرتے رہنا زندگی کا وظیفہ، راتوں کو اُٹھ کر گھبراہٹ میں بار بار پستر پر کروٹیں بدلنا اور فکر سے ٹہلتے رہنا اور دن میں دین کی محنت کے لیے مارے مارے پھرنا۔ ان شمائل و خصائص اور عادات و صفات کو اپنے ذہن میں تربیت دیں اور خیالات کی دُنیا میں جو شخصیت اُبھرے، اُس پر لکھ دیں: مولانا محمد الیاس کاندھلوی۔۔۔
مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کی شخصیت، اُن کے صفات و کمالات، ان کی عزم و ہمت، دینی تڑپ و فکر اُمت اور زہد و تقوی کا صحیح معنی میں اندازہ تو اُنہیں لوگوں کو ہوگا جنہوں نے اس آفتاب علم و حکمت کو دیکھا ہوگا یا اُن کے انفاس قدسیہ کا بچشم خود ملاحظہ کیا ہوگا، تا ہم جن حضرات نے ان کی زبان سے جھڑنے والے علم و حکمت کے پھول جمع کرکے بعد والوں تک پہنچائے اور پھر مولانا رحمہ اللہ کے علم و عمل اور اصلاح امت کے جس جذبے نے آج پوری دنیا میں لاکھوں اور کروڑوں انسانوں کو اللہ، رسول، دین و مذہب اور قرآن و سنت سے وابستہ کیا اور جن کا اخلاص و لگن اور کڑھن و فکر دنیا بھر کے انسانوں کو بے چین کیے ہوئے ہے، اس سے اتنا اندازہ تو ضرور ہونا چاہیے کو مولانا کو اللہ تعالی نے دین کی دعوت و تبلیغ کے لیے ’’مجدد‘‘ بنایا تھا۔
مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کا سبق کیا تھا؟ ان کا سبق معاشرے میں ’’برداشت‘‘ کے کلچر کا فروغ تھا، ان کی محنت کا مقصد ’’صبر و تحمل‘‘ کا احیاء تھا، ان کا کام زندگیوں میں ’’اخلاص و اخلاق‘‘ پیدا کرنا تھا، ان کا مطمح نظر زندگیوں کی ایسی تبدیلی اور ایسے صالح معاشرے کا وجود تھا، جہاں ہر شخص دل سے مسلمان ہو، اس کی مسلمانی اور اس کا اسلام عبادات تک محدود نہ ہو بلکہ وہ معاملات میں بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع ہو، وہ تنہائی میں بھی اللہ سے ڈرنے والا ہو۔ بلاشبہ مولانا کے اندر اس درجے اخلاص تھا کہ آج ان کی بپا کردہ تحریک کے ذریعے مسلم و غیرمسلم ممالک میں وہ انقلاب آیا کہ دنیا ششدرہے، آج غیرمسلم ممالک میں جاکر دیکھیے کہ اس دعوتی محنت کے ذریعے جو لوگ اسلام میں داخل ہوئے وہ بلاشبہ پورے کے پورے داخل ہوگئے، ان کی عبادات کی طرح ان کے معاملات بھی کھرے ہیں، ان کی معاشرت بھی صاف و شفاف ہے، بلاشبہ ایسے لوگ مسلم ممالک میں بھی کم نہیں لیکن آج دنیا ایک ایسے دوراہے پر کھڑی ہے کہ مولانا کے سبق کو ایک بار پھر تازہ کرنے کی ضرورت ہے۔
مولانا محمدالیاس کاندھلوی رحمہ اللہ ۱۳۰۳ھ میں مولانا محمد اسماعیل کاندھلوی رحمہ اللہ کے گھر پیدا ہوئے، ۱۳۱۴ھ میں اپنے بڑے بھائی مولانا محمد یحیی (والد ماجد شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا مہاجر مدنی رحمہ اللہ) کے پاس گنگوہ آگئے، جو حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کی خدمت میں گنگوہ میں مقیم تھے اور بڑے بھائی سے پڑھنا شروع کیا۔ اس طرح حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی محبت و مجالست کی دولت شب و روز حاصل رہی۔ ۱۳۲۳ھ میں حضرت گنگوہی رحمہ اللہ دنیا سے رحلت کرگئے۔ اس طرح مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ کا تقریبا آٹھ برس کا عرصہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی صحبت میں گزرا، حضرت گنگوہی رحمہ اللہ بچوں اور طالب علموں کو بیعت نہیں کرتے تھے، لیکن آپ کو بیعت کرلیا تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے مولانا رشیداحمد گنگوہی رحمہ اللہ سے عرض کیا کہ حضرت! ذکر کرتے ہوئے میرے دل پر بوجھ محسوس ہوتا ہے۔ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ یہ سن کر متفکر ہوئے اور فرمایا کہ ایک مرتبہ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے اپنے مرشد حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ سے اس قسم کی شکایت کی تھی تو حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی نے جواب فرمایا تھا کہ ’’اللہ تعالی آپ سے کام لیں گے۔‘‘
۱۳۲۶ھ میں حدیث کی تکمیل کے لیے شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ کے درس میں شرکت کے لیے دیوبند تشریف لے گئے، بخاری شریف اور ترمذی شریف کی سماعت کی، چونکہ حضرت گنگوہی رحمہ اللہ کی وفات ہوچکی تھی، لہذا حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ کے مشورے اور اجازت پر حضرت مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ سے تعلق قائم کیا اور ان کی نگرانی میں منازل سلوک طے کیے۔ یوں آپ نے ایک طرف شیخ الہند مولانا محمودحسن رحمہ اللہ جیسے مجاہد عالم دین سے علوم قرآن و حدیث کی تکمیل کی، تو دوسری طرف اپنے وقت کے قطب مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے تصوف و سلوک کی منازل تیزی سے طے کیں اور اجازت و خلافت سے سرفراز ہوئے۔ یوں آپ جامع شریعت و طریقت ہوگئے۔
۱۳۲۸ھ میں آپ نے جامعہ مظاہر علوم سہارنپور میں تدریس شروع کی، لیکن ۳۴ھ میں بڑے بھائی حضرت مولانا محمد یحیی کاندھلوی اور دو سال بعد دوسرے بڑے بھائی حضرت مولانا محمد کاندھلی رحمہ اللہ (جو علاقہ نظام الدین میں بنگلہ والی مسجد میں قائم مدرسہ کے ذمہ دار تھے) کے انتقال کے بعد اپنے شیخ و مرشد حضرت مولانا خلیل احمد صاحب رحمہ اللہ کی اجازت او مشورہ سے نظام الدین بنگلہ والی مسجد میں قائم مدرسہ میں منتقل ہوگئے اور یہاں تدریس کی ذمہ داری سنبھال لی، اس مدرسہ میں زیادہ تر علاقہ میوات کے بچے پڑھتے تھے۔ نظام الدین منتقلی کے بعد حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی رحمہ اللہ دیوانہ وار میوات کے پر علاقے میں پھرے، ہر ایک کے دامن کو تھاما، ایک ایک گھر کے دروازے پر دستک دی، کئی کئی وقت فاقے کیے، گرمی و سردی سے بے پروا ہوکر تبلیغی گشت کیے اور جب لوگوں نے حسب خواہش آپ کی آواز پر ’’لبیک‘‘ نہ کہا تو آپ بے چین و بے قرار ہو کر راتوں کی خدا کے حضور روتے، گڑگڑاتے اور پوری امت کی اصلاح کے لیے دعا کرتے اور پھر اپنی ہمت و طاقت، مال و دولت سب کچھ ان میواتیوں پر اور ان کے ذریعے اس تبلیغی کام پر لگا دیتے۔ آج جس کا ثمرہ سب کے سامنے ہے۔ یہ ہے مولانا الیاس کے شب و روز کی ایک معمولی سی جھلک۔ گویا وہ اس شعر کے حقیقی مصداق تھے:
پھونک کر اپنے آشیانے کو
بخش دی روشنی زمانے کو
مولانا نے اسی درویشی اور دین کے لیے فداکاری و جانثاری کے ساتھ پوری زندگی بسر کی اور ۲۱ رجب ۱۳۶۳ھ (۱۲ جولائی ۱۹۴۴ء) کی صبح کو علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا یہ آفتاب غروب ہوگیا، مولانا رحمہ اللہ کی وفات کو ستر سال سے زائد کا عرصہ ہونے کو ہے لیکن مولانا رحمہ اللہ نے ایمان و ایقان کی جو صدا آج سے سو سال قبل لگائی تھی، اس کی گونج پورے عالم میں سنی جاسکتی ہے اور جوں جوں وقت گزرتا جاتا ہے ’’فکر الیاس‘‘ کی اہمیت بڑھتی جاتی ہے!
تحریر: مولانا محمد زین العابدین
اشاعت: روزنامہ اسلام ۱۲ جولائی ۲۰۱۶ء
http://sunnionline.us/urdu/2016/08/7735/
No comments:
Post a Comment