Thursday 22 February 2018

حجر اسود کی واپسی : کیا یہ واقعہ صحیح ہے

حجر اسود کی واپسی: کیا یہ واقعہ صحیح ہے:
7 ذی الحجہ 317 ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کرلیا، خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال کو حج بیت اللہ نہ ہوسکا، کوئی بھی شخص عرفات نہ جاسکا-
اناللہ واناالیہ راجعون
یہ اسلام میں پہلا ایسا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہوگیا، اسی ابو طاہر قرمطی نے حجر اسود کو بیت اللہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا- پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر کے ساتھ معاہدہ کر فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دیے اور حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا-
یہ واپسی 339ھ کو ہوئی، گویا کہ بائیس سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا، جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلہ میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث عبداللہ کو حجر أسود کی وصولی کے لئے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا-
یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جہاں حجر اسود کو ان کے حوالہ کیا جائے گا- اب انہوں نے ایک پتھر جو خوشبودار ہیں، خوبصورت غلاف سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں-
محدث عبد اللہ نے فرمایا کہ:
نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر اس میں یہ نشانیاں پائی جائیں تو یہ حجر اسود ہوگا ورنہ نہیں!
ایک تو یہ کہ یہ ڈوبتا نہیں ہے، دوسری یہ کہ آگ سے بھی گرم نہیں ہوتا-
اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا گیا توسخت گرم ہوگیا یہاں تک کہ پھٹ گیا-
محدث عبداللہ نے فرمایا: یہ ہمارا حجر اسود نہیں
پھر دوسرا پتھر لایا گیا اس کے ساتھ بھی یہی عمل ہوا اور وہ پانی میں ڈوب گیا اور آگ پر گرم ہوگیا فرمایا کہ:
ہم اصل حجر اسود ہی لیں گے- پھر اصل حجر اسود لایاگیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا تو وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا:
”یہی ہمارا حجر اسود ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے-"
اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور پوچھا کہ: یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں...؟
تو محد ث عبداللہ نے فرمایا:
یہ باتیں ہمیں جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملی ہیں کہ حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہوگا-
ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے-
جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسےخانہ کعبہ پہنچایا، اس اونٹنی میں زبردست قوت آگئی اس لئے کہ حجراسود اپنے مرکز (بیت اللہ) کی طرف جارہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جارہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا حتی کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مرگئے-
(تاریخ مکہ للطبری) 

حجر اسود جب جنت سے اتارا گیا تو سفید تھا پھر کالا کیسے ہو گیا؟ ایسی تاریخ جو بہت کم لوگ جانتے ہوں گے
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے. حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے. حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے. اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پر  مشتمل ہے.
یہ ٹکڑے اندازاً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے. جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں. اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے. جس کو استلام کہتے ہیں. تاریخ وحوادث تاریخ میں کم ازکم چھ واقعات ملتے ہیں جب حجر اسود کو چوری کیا گیا یہ اس کو توڑنے کی کوشش کی گئی. ہوسکتا اس کے حوادث کی تعداد اس بھی زیادہ ہو.اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے. تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے یہ پتھر جنت سے لاکر دیا جسے حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا. 7 ذی الحجہ 317ھ کو بحرین کے حاکم ابو طاہر سلیمان قرامطی نے مکہ معظمہ پر قبضہ کر لیا خوف و ہراس کا یہ عالم تھا کہ اس سال 317ھ کو حج بیت اللہ شریف نہ ہو سکا کوئی بھی شخص عرفات نہ جا سکا. انا للہ و انا الیہ راجعون. یہ اسلام میں پہلا موقع تھا کہ حج بیت اللہ موقوف ہو گیا… اسی ابو طاہر قرامطی نے حجر اسودکو خانہ کعبہ سے نکالا اور اپنے ساتھ بحرین لے گیا. پھر بنو عباس کے خلیفہ مقتدر باللہ نے ابو طاہر قرامطی کے ساتھ فیصلہ کیا اور تیس ہزار دینار دے دیے.تب حجر اسود خانہ کعبہ کو واپس کیا گیا. یہ واپسی 339ھ کو ہوئی، گویا کہ 22 سال تک خانہ کعبہ حجر اسود سے خالی رہا. جب فیصلہ ہوا کہ حجر اسود کو واپس کیا جائے گا تو اس سلسلے میں خلیفہ وقت نے ایک بڑے عالم محدث شیخ عبداللہ کو حجر اسود کی وصولی کے لیے ایک وفد کے ساتھ بحرین بھجوایا.. یہ واقعہ علامہ سیوطی کی روایت سے اس طرح نقل کیا گیا ہے۔
کہ جب شیخ عبداللہ بحرین پہنچ گئے تو بحرین کے حاکم نے ایک تقریب کا اہتمام کیا جس میں حجر اسود کو ان کے حوالہ کیا گیا تو ان کے لیے ایک پتھر خوشبودار.. خوبصورت غلاف میں سے نکالا گیا کہ یہ حجر اسود ہے اسے لے جائیں. محدث عبداللہ نے فرمایا کہ نہیں بلکہ حجر اسود میں دو نشانیاں ہیں اگر یہ پتھر اس معیار پر پورا اترا تو یہ حجر اسود ہوگا اور ہم لے جائیں گے. پہلی نشانی یہ کہ پانی میں ڈوبتا نہیں ہے دوسری یہ کہ آگ سے گرم بھی نہیں ہوتا. اب اس پتھر کو جب پانی میں ڈالا گیا تو وہ ڈوب گیا پھر آگ میں اسے ڈالا تو سخت گرم ہو گیا.. فرمایا ہم اصل حجر اسود کو لیں گے پھر اصل حجر اسود لایا گیا اور آگ میں ڈالا گیا تو ٹھنڈا نکلا پھر پانی میں ڈالا گیا وہ پھول کی طرح پانی کے اوپر تیرنے لگا تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہی ہمارا حجر اسود ہے اور یہی خانہ کعبہ کی زینت ہے اور یہی جنت والا پتھر ہے. اس وقت ابو طاہر قرامطی نے تعجب کیا اور کہا: یہ باتیں آپ کو کہاں سے ملی ہیں۔
تو محدث عبداللہ نے فرمایا یہ باتیں، ہمیں جناب رسول اللہؐ سے ملی ہیں کہ: ’’حجر اسود پانی میں ڈوبے گا نہیں اور آگ سے گرم نہیں ہو گا‘‘ابو طاہر نے کہا کہ یہ دین روایات سے بڑا مضبوط ہے. جب حجر اسود مسلمانوں کو مل گیا تو اسے ایک کمزور اونٹنی کے اوپر لادا گیا جس نے تیز رفتاری کے ساتھ اسے خانہ کعبہ پہنچایا. اس اونٹنی میں زبردست قوت آ گئی اس لیے کہ حجر اسود اپنے مرکز بیت اللہ کی طرف جا رہا تھا لیکن جب اسے خانہ کعبہ سے نکالا گیا تھا اور بحرین لے جا رہے تھے تو جس اونٹ پر لادا جاتا وہ مرجاتا، حتیٰ کہ بحرین پہنچنے تک چالیس اونٹ اس کے نیچے مر گئے. 22 سال کے عرصے کے بعد حجرِ اسود کو واپس خانہ کعبہ میں نصب کر دیا گیا.ابو طاہر تو ایک اذیت ناک موت کا شکار ہو کر مر گیا مگر اس کا فرقہ زندہ رہا. قرامطیوں کی آخری حکومت ملتان میں بنی جہاں یہ بے حد طاقتور بن چُکے تھے.ملتان میں رقص و سرود کی محفلیں ہوا کرتی تھیں اور شراب و شباب کے دور چلا کرتے تھے، ملتان کی گلیاں برہنگی کی تصویر بنی رہتی تھیں، کیونکہ قرامطیوں کے عقائد میں جزا وسزا کا کوئی تصور نہیں تھا. سلطان محمود غزنوی نے مُلتان پر حملہ کیا اور خود ایک سپاہی کی طرح بے جگری سے لڑا. مورخین کہتے ہیں۔
سلطان نے اپنی تلوار سے اتنے قرامطی قتل کیے کہ اُس کے ہاتھ قرامطیوں کے خون کی وجہ سے تلوار کے دستے پر جم گئے تھے جسے گرم پانی میں رکھ کر علیحدہ کیا گیا.ملتان کی گلیوں کو قرامطیوں کے خون سے نہلا دیا گیا، اور ان کا ملتان میں بالکل صفایا کردیا گیا.
یہ واقعہ صحیح ہے،
قرامطیوں کا حجراسود چوری کرنا اوراسے ایک لمبی مدت تک اپنے پاس رکھنا صحیح ہے اورتاریخی طورپراس کا ثبوت ملتا ہے۔
تاریخ کی مستند کتب میں موجود ہے (دیکھئے۔ البدایہ والنہایہ۔۔ اور۔۔ المنتظم )
اور ۔۔الاسلام سوال و جواب سائیٹ ۔۔ پر ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
الحمد لله
أولاً:
الحجر الأسود هو : الحجر المنصوب في الركن الجنوبي الشرقي للكعبة المشرفة من الخارج في غطاء من الفضة وهو مبدأ الطواف ويرتفع عن الأرض الآن متراً ونصف المتر.
وما ذُكر في المقال الوارد ضمن السؤال فيه حق عليه أدلة صحيحة ، وفيه ما لا أصل له.
وقد ذكرنا في جواب السؤال رقم ( 1902 ) أكثر ما ورد في السنة الصحيحة عن " الحجر الأسود" ، ومنه : أن الحجر الأسود أنزله الله تعالى إلى الأرض من الجنة ، وكان أشد بياضا من اللبن فسودته خطايا بني آدم ، وأنه يأتي يوم القيامة له عينان يبصر بهما ولسان ينطق به يشهد لمن استلمه بحق، وأن استلامه أو تقبيله أو الإشارة إليه : هو أول ما يفعله من أراد الطواف سواء كان حاجا أو معتمراً أو متطوعاً ، وقد قبَّله النبي صلى الله عليه وسلم ، وتبعه على ذلك أمته ، فإن عجز عن تقبيله فيستلمه بيده أو بشيء ويقبل هذا الشيء ، فإن عجز : أشار إليه بيده وكبَّر ، ومسح الحجر مما يكفِّر الله تعالى به الخطايا.
ثانياً:
وأما بخصوص سرقة القرامطة للحجر الأسود له ومكثه عندهم فترة كبيرة : فصحيح .
قال ابن كثير – في حوادث 278 هـ - :
وفيها تحركت القرامطة ، وهم فرقة من الزنادقة الملاحدة أتباع الفلاسفة من الفرس الذين يعتقدون نبوة زرادشت ومزدك ، وكانا يبيحان المحرمات‏.‏
ثم هم بعد ذلك أتباع كل ناعق إلى باطل ، وأكثر ما يفسدون من جهة الرافضة ويدخلون إلى الباطل من جهتهم ؛ لأنهم أقل الناس عقولاً ، ويقال لهم ‏:‏ الإسماعيلية ؛ لانتسابهم إلى إسماعيل الأعرج بن جعفر الصادق ‏.‏
ويقال لهم‏:‏ القرامطة ، قيل‏ :‏ نسبة إلى قرمط بن الأشعث البقار ، وقيل‏ :‏ إن رئيسهم كان في أول دعوته يأمر من اتبعه بخمسين صلاة في كل يوم وليلة ليشغلهم بذلك عما يريد تدبيره من المكيدة‏ ...
والمقصود: أن هذه الطائفة تحركت في هذه السنة ، ثم استفحل أمرهم وتفاقم الحال بهم - كما سنذكره - حتى آل بهم الحال إلى أن دخلوا المسجد الحرام فسفكوا دم الحجيج في وسط المسجد حول الكعبة وكسروا الحجر الأسود واقتلعوه من موضعه ، وذهبوا به إلى بلادهم في سنة سبع عشرة وثلاثمائة ، ثم لم يزل عندهم إلى سنة تسع وثلاثين وثلاثمائة ، فمكث غائباً عن موضعه من البيت ثنتين وعشرين سنة ، فإنا لله وإنا إليه راجعون‏ .‏
" البداية والنهاية " ‏(‏‏ 11 / 72 ، 73‏ )‏ .
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ:
الحمد للہ
اول:
حجراسود: وہ ہے جوکعبہ کے جنوب مشرقی کنارے میں باہرکی جانب منصوب ہے اوراس کے ارد گرد چاندی سے گھیرا ہوا ہے، اورطواف کے ابتدا کرنے کی جگہ ہے اوریہ پتھر زمین سے ڈیڑھ میٹر بلند ہے۔
اورسوال میں جومقالہ ذکر کیا گيا ہے اس میں کچھ توحق ہے اوراس کے صحیح دلائل ملتے ہيں، اورکچھ ایسی روایات بھی ہیں جن کی کوئي اصل نہيں ملتی ۔
ہم نے سوال نمبر ( 1902 ) کےجواب میں حجراسود کے بارہ میں سنت صحیحہ میں وارد شدہ اکثر دلائل ذکر کیے ہیں جن میں یہ بھی شامل ہے کہ :
اللہ تعالی نے حجراسود جنت سے اتارا تویہ دودھ سے بھی سفید تھا اور اولاد آدم کی خطاؤں اورگناہوں نے اسے سیاہ کردیا ہے ، اورروزقیامت حجراسود آئے گاتواس کی دو آنکھیں ہونگی ان سے دیکھے گا اور زبان ہوگي جس سے بولے گا اورجس نے بھی اسے حق کے ساتھ استلام کیا اس کی گواہی دے گا ، اوراسے چھونا یا اس کا بوسہ لینا یا اس کی طرف اشارہ کرنے سے طواف کی ابتداء ہوتی ہے چاہے وہ طواف حج کا ہویا عمرہ کا یا نفلی۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی حجراسود کابوسہ لیا تھا اوران کی اتباع میں امت محمدیہ بھی اس کا بوسہ لیتی ہے ، اگربوسہ نہ لیا جاسکے تواسے ہاتھ یا کسی چيز سے چھوکراسے چوما جائے ، اوراگراس سے بھی عاجز ہوتواپنے ہاتھ سے اشارہ کرے اوراللہ اکبر کہے، اورحجر اسود کوچھونے سے غلطیاں ختم ہوتی ہیں
دوم:
اورقرامطیوں کاحجراسود چوری کرنا اوراسے ایک لمبی مدت تک اپنے پاس رکھنا صحیح ہے اورتاریخی طورپراس کا ثبوت ملتا ہے ۔
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ تعالی 278 ھجری کے واقعات میں لکھتے ہيں:
اوراس برس میں قرامطی حرکت میں آئے ، اوریہ فرقہ ملاحدہ اورزندیقوں میں سے ہے اورفرس میں سے فلسفیوں کا پیروکار ہے جوزردشت اورمزدک کی نبوت کا اعتقاد رکھتے ہيں، اوریہ دونوں حرام اشیاء کومباح قرار دیتے تھے۔
پھر وہ ہرباطل کی طرف بلانے والے کے پیروکارہيں ، اوران میں اکثر رافضیوں کی جانب سے اس طرف آتے ہیں اوروہی باطل میں داخل ہوتے ہیں کیونکہ لوگوں میں یہی لوگ سب سے کم عقل ہیں اورانہيں اسماعیلی بھی کہا جاتا ہے کیونکہ اسماعیل الاعرج بن جعفرالصادق کی طرف منسوب ہوتے ہيں ۔
اورانہيں قرامطہ کہا جاتا ہے : کہا جاتا ہے کہ قرمط بن اشعث البقار کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے قرامطہ کہا جاتا ہے ، اوریہ بھی کہا جاتا ہے کہ ان کا قائد اپنے پیروکاروں کوسب سے پہلے جس چيزکا حکم دیتا تھا وہ یہ تھا کہ وہ ایک دن اوررات میں پچاس نمازيں ادا کرے اوراس میں اس کا مقصد یہ تھا انہيں مشغول رکھے اورخود چالیں چلتا رہے ۔۔۔
مقصد یہ ہے کہ یہ فرقہ اورگروہ اس سال حرکت میں آیا ، اورپھر ان کا معاملہ بڑھتا ہی چلا گیا اورحالات بھی ان کے موافق ہوگئے – جیسا کہ ہم بیان بھی کریں گے – حتی کہ حالات ان کے موافق ہوگئے اوریہ مسجدحرام میں داخل ہوئے اورحجاج کرام کومسجد کے اندر کعبہ کے ارد گرد قتل کیا اورحجر اسود کوتوڑا اوراکھاڑ کے317 ھجری میں اپنے ساتھ اپنے ملک لے گئے ، اوریہ پتھر339 ھجری تک ان کے پاس ہی رہا اوربیت اللہ میں اپنی جگہ سے بائيس برس تک غائب رہا ، انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
دیکھیں : البدايۃ والنھايۃ ( 11 / 72 - 73 ) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور علامہ ابن جوزی ؒ ۔۔المنتظم ۔۔ میں لکھتے ہیں:
قال ابن الجوزي بسنده إلى أبي الحسين عبدالله بن أحمد بن عياش القاضي، قال:
أخبرني بعض أصحابنا: أنه كان بمكة في الوقت الذي دخلها أبو طاهر القرمطي ونهبها وسلب البيت وقلع الحجر الأسود والباب، وقتل المسلمين في الطواف، وفي المسجد، وعمل تلك الأعمال العظيمة، قال: فرأيت رجلاً قد صعد البيت؛ ليقلع الميزاب، فلما صار عليه سقط، فاندقت عنقه، فقال القرمطي: لا يصعد إليه أحد ودعوه، فترك الميزاب، ولم يقلع، ثم سكنت الثائرة بعد يوم أو يومين، قال: فكنت أطوف بالبيت فإذا بقرمطي سكران، وقد دخل المسجد بفرسه، فصفر له حتى بال في الطواف، وجرد سيفه ليضرب به من لحق وكنتُ قريبًا منه، فعدوت، فلحق رجلاً كان إلى جنبي فضربه فقتله، ثم وقف وصاح: يا حمير، أليس قلتم في هذا البيت من دخله كان آمنًا، وقد قتلته الساعة بحضرتكم؟
.........
http://www.alukah.net/web/fayad/0/23826/#ixzz3m4B4uFY9
..................
حجر اسود
حجر اسود عربی زبان کے دو الفاظ کا مجموعہ ہے۔ حجر عربی میں پتھر کو کہتے ہیں اور اسود سیاہ اور کالے رنگ کے لیے بولا جاتا ہے۔ حجر اسود وہ سیاہ پتھر ہے جو کعبہ کے جنوب مشرقی دیوار میں نصب ہے۔ اس وقت یہ تین بڑے اور مختلف شکلوں کے کئی چھوٹے ٹکڑوں پرمشتمل ہے۔ یہ ٹکڑے اندازہً ڈھائی فٹ قطر کے دائرے میں جڑے ہوئے ہیں جن کے گرد چاندی کا گول چکر بنا ہوا ہے۔ جو مسلمان حج یاعمرہ کرنےجاتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ طواف کرتے ہوئے ہر بار حجراسود کو بوسہ دیں۔ اگر ہجوم زیادہ ہو تو ہاتھ کے اشارے سے بھی بوسہ دیا جاسکتا ہے۔
تاریخ
اسلامی روایات کے مطابق جب حضرت ابراہیم اور ان کے بیٹے حضرت اسماعیل خانہ کعبہ کی تعمیر کر رہے تھے۔ تو حضرت جبرائیل نے یہ پتھر جنت سے لا کر دیا جسے حضرت ابراہیم نے اپنے ہاتھوں سے دیوار کعبہ میں نصب کیا۔ 606ء میں جب رسول اللہ کی عمر35 سال تھی ، سیلاب نے کعبے کی عمارت کو سخت نقصان پہنچایا اور قریش نے اس کی دوبارہ تعمیر کی لیکن جب حجر اسود رکھنے کا مسئلہ آیا تو قبائل میں جھگڑا ہو گیا۔ ہر قبیلے کی یہ خواہش تھی کہ یہ سعادت اسے ہی نصیب ہو۔ رسول اللہ نے اس جھگڑے کو طے کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا کہ حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور تمام سرداران قبائل سے کہا کہ وہ چادر کے کونے پکڑ کر اٹھائیں۔ چنانچہ سب نے مل کر چادر کو اٹھایا اور جب چادر اس مقام پر پہنچی جہاں اس کو رکھا جانا تھا تو آپ نے اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کو دیوار کعبہ میں نصب کر دیا۔ سب سے پہلے عبداللہ بن زبیر نے حجر اسود پر چاندی چڑھوائی ۔ 1268ء میں سلطان عبدالحمید نے حجراسود کو سونے میں مڑھ دیا۔ 1281ء میں سلطان عبدالعزیز نے اسے چاندی سے مڑھوایا۔
حادثات
696ء میں جب حضرت عبداللہ بن زیبر خانہ کعبہ میں پناہ گزین ہوئے تو حجاج بن یوسف کی فوج نے کعبے پر منجنیقوں سے پتھر برسائے اور پھر آگ لگا دی۔ جس سے حجر اسود کے تین ٹکڑے ہو گئے۔ عباسی خلیفہ مقتدر باللہ کے عہد میں ایک قرامطی سردار ابوطاہر حجر اسود اکھاڑ کر بحرین لے گیا اور23 سال بعد فاطمیوں کی مداخلت کی بدولت بھاری تاوان وصول کرکے واپس کیا۔

احادیث میں ذکر
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ فرماتے ہوئے سنا :
بلاشبہ حجر اسود اورمقام ابراھیم جنت کے یاقوتوں میں سے یاقوت ہيں اللہ تعالٰی نے ان کے نوراورروشنی کوختم کر دیا ہے اگراللہ تعالٰی اس روشنی کوختم نہ کرتا تو مشرق ومغرب کا درمیانی حصہ روشن ہوجاتا ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 804 ) ۔ 1 - حجراسود اللہ تعالٰی نے زمین پرجنت سے اتارا ہے ۔

ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

( حجراسود جنت سے نازل ہوا ) ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 2935 ) امام ترمذی رحمہ اللہ تعالٰی نے اسے حدیث کوصحیح قرار دیا ہے ۔
2 - حجراسود دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا جسے اولاد آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیا ہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( حجراسود جنت سے آیا تودودھ سے بھی زیادہ سفید تھا اوراسے بنو آدم کے گناہوں نے سیاہ کر دیاہے ) ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 877 ) مسنداحمد حدیث نمبر ( 2792 ) اورابن خزيمہ نے صحیح ابن خزيمہ ( 4 / 219 ) میں اسے صحیح قرار دیا ہے ، اورحافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی نے فتح الباری ( 3 / 462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے ۔
ا - شیخ مبارکپوری رحمہ اللہ تعالٰی کہتے ہیں :
مرقاۃ میں کہتے ہیں کہ : یعنی بنی آدم کے چھونےکی بنا پر ان کے گناہوں کے سبب سے سیاہ ہو گیا ، اورظاہرتویہی ہوتا ہے کہ اس حدیث کوحقیقت پرمحمول کیا جائے ، جبکہ اس میں نہ تو عقل اور نہ ہی نقل مانع ہے ۔ دیکھیں تحفۃ الاحوذی ( 3 / 525 ) ۔
ب - حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالٰی کا کہنا ہے :
اوپرگزری ہوئی حدیث پربعض ملحدین نے اعتراض کرتے ہوۓ کہا ہے کہ مشرکوں کے گناہوں نے اسے سیاہ کیسے کر دیا اورمؤحدین کی اطاعات نے اسے سفید کیوں نہیں کیا ؟
جواب میں وہ کہا جاتا ہے جوابن قتیبہ رحمہ اللہ تعالٰی نے کہا ہے :
اگراللہ تعالٰی چاہتا تواس طرح ہوجاتا ، اللہ تعالٰی نے یہ طریقہ اورعادت بنائ ہے کہ سیاہ رنگا ہوجاتا ہے اوراس کے عکس نہيں ہو سکتا ۔
ج - اورمحب الطبری کا کہنا ہے کہ :
سیاہ رنگ میں اہل بصیرت کے لیے عبرت ہے وہ اس طرح کہ اگر گناہ سخت قسم کے پتھر پر اثرانداز ہوکر اسے سیاہ کرسکتے ہیں تودل پران کی اثرہونا زيادہ سخت اورشدید ہوگا ۔ فتح الباری ( 3 / 463 ) ۔
3 - حجراسود روزقیامت ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حق کے ساتھ استلام کیا ۔
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کے بارے میں فرمایا :
اللہ کی قسم اللہ تعالٰی اسے قیامت کولاۓ گا تواس کی دوآنکھیں ہونگی جن سے یہ دیکھے اورزبان ہوگي جس سے بولے اور ہراس شخص کی گواہی دے گا جس نے اس کا حقیقی استلام کیا ۔
سنن ترمذي حدیث نمبر ( 961 ) سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ( 2944 ) امام ترمذی نے اس حدیث کوحسن کہا ہے اورحافظ ابن حجرنے فتح الباری ( 3 /462 ) میں اس کی تقویت بیان کی ہے ۔
4 - حجراسود کا استلام یا بوسہ یا اس کی طرف اشارہ کرنا :
یہ ایسا کام ہے جوطواف کے ابتدا میں ہی کیا جاتا ہے چاہے وہ طوا ف حج میں ہو یا عمرہ میں یا پھر نفلی طواف کیا جارہا ہو ۔
جابربن عبداللہ رضي اللہ تعالٰی عہہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب مکہ مکرمہ تشریف لاۓ توحجر اسود کا استلام کیا اورپھراس کے دائيں جانب چل پڑے اورتین چکروں میں رمل کیا اورباقی چار میں آرام سے چلے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1218 ) ۔
حجر اسود کا استلام یہ ہے کہ اسے ہاتھ سے چھوا جائے ۔
5 - نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حجراسود کا بوسہ لیا اورامت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں اسے چومتی ہے ۔
حضرت عمر رضي اللہ تعالٰی عنہ حجراسود کے پاس تشریف لاۓ اوراسے بوسہ دے کرکہنے لگے : مجھے یہ علم ہے کہ توایک پتھر ہے نہ تونفع دے سکتا اورنہ ہی نقصان پہنچا سکتا ہے ، اگرمیں نےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے چومتے ہوۓ نہ دیکھا ہوتا تومیں بھی تجھے نہ چومتا ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 1250 ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1720 ) ۔
6 - اگر اس کا بوسہ نہ لیا جا‎سکے تواپنے ہاتھ یا کسی اورچيز سے استلام کرکے اسے چوما جاسکتا ہے ۔
ا - نافع رحمہ اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما نے حجراسود کا استلام کیا اورپھر اپنے ہاتھ کوچوما ، اورفرمانے لگے میں نے جب سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کویہ کرتے ہوۓ دیکھا ہے میں نے اسے نہیں چھوڑا ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1268 ) ۔
ب - ابوطفیل رضي اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھا کہ آپ بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے اورحجر اسود کا چھڑی کے ساتھ استلام کرکے چھڑی کوچومتے تھے ۔ صحیح مسلم حدیث نمبر ( 1275 ) ۔
7 - اگر استلام سے بھی عاجز ہو تو اشارہ کرے اور اللہ اکبرکہے :
ابن عباس رضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہيں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اونٹ پرطواف کیا توجب بھی حجر اسود کے پاس آتے تواشارہ کرتے اوراللہ اکبر کہتے ۔ صحیح بخاری حدیث نمبر ( 4987 ) ۔
8 - حجراسود کوچھونا گناہوں کا کفارہ ہے :
ابن عمررضي اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ان کا چھونا گناہوں کا کفارہ ہے ۔ سنن ترمذی حدیث نمبر ( 959 ) امام ترمذی نے اسے حسن اورامام حاکم نے ( 1 / 664 ) صحیح قرار دیا اور امام ذھبی نے اس کی موافقت کی ہے۔
https://ur.wikipedia.org/wiki/%D8%AD%D8%AC%D8%B1_%D8%A7%D8%B3%D9%88%D8%AF
................
سوال # 15361
حضرت مفتی صاحب حجر اسود کا نام حجر اسود
کب پڑا اور کیوں پڑا ؟کیا جب یہ جنت سے اترا تبھی سے ہی اس کا نام حجر اسود تھا یا
بعد میں کسی نبی نے اس کا نام حجر اسود رکھا؟ اگر پہلے سے اس کا نام حجر اسود تھا
تو اس حدیث کا کیا مطلب ہوگا جس میں ذکر ہے کہ یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا؟ جب
یہ دودھ سے زیادہ سفید تھا تو اس کا نام حجر اسود کیسے پڑا جب کہ حجر اسود کا معنی
ہے کالا پتھر؟ وضاحت کے ساتھ بیان فرمائیں مہربانی ہوگی۔ اللہ آپ کو تندرستی نصیب
فرمائے اور صحت نصیب فرمائے۔

Published on: Aug 27, 2009 جواب # 15361
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1417=1349/1430/ب
حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب یہ پتھر جنت سے
اتارا گیا تو یہ دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا: وکان أبیض من اللبن ولکن سودتہ خطایا بني آدم یعنی
وہ پتھر پہلے دودھ سے بھی زیادہ سفید تھا، لیکن بنی آدم کی خطاوٴں نے اسے سیاہ
بنادیا۔ حدیث کے ان الفاظ سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد میں اس کا نام حجر اسود پڑگیا۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hajj--Umrah/15361

No comments:

Post a Comment