نعش جوتوں اور کپڑوں سے پہچانی گئی، سیاہ رنگ کے بوٹ کی آب و تاب ابھی تک باقی تھی، تلوے کے ایک کونے میں مگرمچھ کی تصویر بھی موجود تھی اور بکل کی سنہری نکل بھی قائم تھی،
کمپنی کا دعویٰ سچ نکلا کہ جوتوں کی شان و شوکت تیس برس بعد بھی قائم رہے گی۔
سوئٹزرلینڈ کی کمپنی دنیا کے صرف ایک ہزار خاندانوں کیلئے جوتے بناتی تھی، جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے، یہ سنہری چمڑے اور نیلے سینگوں والی گائے ہے جو باقی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں پائی جاتی۔
جوتے کی "ٹو" برازیل کے مگرمچھوں کی جلد سے بنائی جاتی ہے، جوتے کا ’’کوّا‘‘ افریقہ کے سیاہ ہاتھیوں کے کانوں کے چمڑے سے تیار کیا جاتا تھا اور جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہ چپکائی جاتی تھی اور پیچھے رہ گیا دھاگہ تو ان جوتوں کیلئے بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والے دھاگے استعمال کئے جاتے تھے۔
کمپنی کا دعویٰ تھا کہ پچاس برس تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ مٹی میں دفن ہونے کے ایک سو سال بعد تک جوتے کی آب وتاب برقرار رہتی ہے۔
افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ اس کمپنی کا ایک ممبر تھا اور اس کمپنی سے اپنے لئے تیار کرواتا تھا۔ ظاہر شاہ جلا وطن ہوا تو سردار داؤد اس کمپنی کا ممبر بن گیا اور اس کے بعد اس نے ہمیشہ اس کمپنی کا جوتا ہی استعمال کیا یہاں تک کہ جب 1978ء کے دوران اسے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قتل کردیا گیا اور قتل کے بعد اس کی نعش جیپ کے ساتھ باندھ کر کابل شہر میں گھسیٹی گئی تو اس وقت بھی اس نے یہی جوتا پہن رکھا تھا۔
وہ ایک بدقسمت حکمران تھا‘ اسے مرنے کے بعد غسل، کفن اور جنازہ نصیب نہیں ہوا تھا‘ لوگوں نے دو بڑی بڑی قبریں کھودی تھیں اور اسے اس کے خاندان کے دیگر 30 افراد کے ساتھ ان میں سے کسی ایک قبر میں دفن کردیا تھا۔
اس کے خاندان کے کسی فرد کا جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا‘ وہ تیس برس تک اس قبر میں پڑا رہا لیکن 26جون 2008ء کو ایک اتفاقی کھدائی کے دوران یہ دونوں قبریں دریافت ہوئیں اور یوں جوتوں کے باعث اس کی نعش شناخت کرلی گئی۔
یہ جوتوں کے ذریعے شناخت ہونے والی دنیا کی پہلی نعش تھی اور دنیا کو پہلی بارجوتوں نے بتایا کہ ان کا مالک جنرل سردار محمد داؤد خان تھا۔
سردار محمد داؤد خان افغانستان کے شاہی خاندان محمد زئی سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 18جولائی 1909ء کو پیدا ہوا‘ اس نے ابتدائی تعلیم جلیلی اسکول کابل‘ ثانوی تعلیم امینیہ کالج اور اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی۔ وہ سینٹ کرائی ملٹری اکیڈمی کا گریجوایٹ تھا۔
اس نے واپسی پر افغان فوج جوائن کی اور 24 برس کی عمر میں میجر جنرل بنادیا گیا۔
وہ 1932ء میں محض 25 سال کی عمر میں صوبہ ننگر ہار کا جی او سی بن گیا۔ 1935ء میں وہ قندھار کا جی او سی بنا اور اسی سال اسے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پروموٹ کردیا گیا۔
وہ دنیا کا کم عمر ترین جنرل تھا۔ 1946ء میں اسے یونیفارم کے ساتھ وزیر دفاع بنادیا گیا۔
وہ پیرس‘ برن اور برسلز کیلئے سفیر بھی بنایا گیا اور اسی دوران افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے اسے اپنی ہمشیرہ شہزادی زینب کا رشتہ بھی دے دیا۔
وہ 1952ء میں شاہ کے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل اسٹالن کی تدفین کیلئے ماسکو گیا اور یہاں سے اس کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔
وہ روسی حکمرانوں اور کے جی بی کا منظورنظر بنا اور اس نے اس کی پشت پناہی کا آغاز کردیا۔
ستمبر 1953ء کو شاہ نے اسے افغانستان کا وزیراعظم بنادیا۔ وہ دنیا کا یونیفارم میں پہلا وزیراعظم تھا۔ وہ وزیراعظم بھی تھا‘ وزیر دفاع بھی اور آرمی چیف بھی۔
اس نے وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی اپنے بھائی سردار محمد عظیم کو افغانستان کا وزیرخارجہ بنادیا اور آہستہ آہستہ پورے ملک کے اختیارات اپنے قبضے میں لے لئے۔
وہ سوویت یونین کا فکری حلیف تھا چنانچہ اس نے روس کے کہنے پر پاکستان میں پشتونستان کی تحریک شروع کروادی۔
ظاہر شاہ سردار داؤد کے عزائم اور طالع آزما فطرت کو پہچان گیا چنانچہ اس نے 3 مارچ 1963ء کو اس سے استعفیٰ لے لیا جس کے بعد سردار داؤد نے شاہ کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔
ظاہرشاہ کو اطلاع ملی تو اس نے یکم اکتوبر 1964ء کو افغانستان کا آئین بدل دیا جس کی رو سے اب افغانستان کے شاہی خاندان کا کوئی رکن سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔
شاہ نے سردار داؤد کا راستہ روکنے کا بندوبست تو کردیا لیکن وہ یہ بھول گیا دنیا کا مضبوط سے مضبوط ترین آئین بھی فوج کا راستہ نہیں روک سکتا چنانچہ 17 جولائی 1973ء کو ظاہر شاہ علاج کے سلسلے میں اٹلی گیا اور پیچھے سردار داؤد نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لگادیا۔ اس نے 1964ء کا آئین منسوخ کیا۔ افغانستان کو جمہوریہ افغانستان کا نام دیا
اور بیک وقت افغانستان کا صدر‘ وزیراعظم اور سنٹرل کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس نے 28 جولائی کو پارلیمنٹ بھی توڑ دی اور وہ ملک کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔
وہ ایک ماڈرن شخص تھا‘ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں پردے اور داڑھی پر پابندی لگا دی۔ اس نے زنانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسکرٹ لازمی قرار دے دی۔ مسجدوں پر تالے لگوا دئیے اور ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں شراب خانے اور ڈسکو کلب بنوائے۔ سردار داؤد کے دور میں کابل دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے عیاشی کا اڈہ بن گیا۔ اس دور میں ’’یوروپ‘‘ کابل سے شروع ہوتا تھا‘ کابل کے بعد تہران عیاشی کا دوسرا اڈہ تھا‘ استنبول تیسرا اور اس کے بعد پورا مشرقی یوروپ عیاشوں پر کھل جاتا تھا۔
سردار داؤد نے پورے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں عقوبت خانے بھی بنارکھے تھے۔ خفیہ اداروں کے اہلکار اس کے مخالفین کو دن دہاڑے اٹھالے جاتے تھے.
اور اس کے بعد کسی کو ان کا نام اور پتہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا۔ سردار داؤد کے زمانے میں تیس ہزار کے قریب ’’مسنگ پیپل‘‘ (گمشدہ لوگ) کہلائے اور ان لوگوں کے لواحقین کو بعدازاں ان کی قبروں کا نشان تک نہ ملا۔
جنوری 1974ء کو اس کےخلاف ایک چھوٹی سی بغاوت ہوئی لیکن اس نے تمام باغیوں کے سر قلم کروادئیے۔ ایک طرف اس کے مظالم جاری تھے اور دوسری طرف وہ عالمی میڈیا کو ایک جمہوریت پسند اور روشن خیال لیڈر کا چہرہ پیش کررہا تھا۔
اس نے روس کے ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ بھی تعلقات استوار رکھے۔ 27فروری 1977ء کو اس نے ملک کو نیا آئین دیا۔
ملک میں صدارتی طرز حکومت اور یک جماعتی نظام قائم کردیا اور یہ وہ وقت تھا جب اس کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا‘ اس نے مارچ 1977ء کو نئی کابینہ بنائی اور اس کابینہ کے سارے عہدے اپنے خاندان اور دوستوں میں تقسیم کردئیے۔ اس وقت تک ملک میں اس کے خلاف لاوا پک چکا تھا چنانچہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں خلق اور پرچم پارٹی اس کی مخالف ہوگئیں‘ ملک میں ہنگامے‘ سیاسی قتل وغارت گری اور مظاہرے شروع ہوگئے۔
وہ ظالم انسان تھا لہٰذا اس نے اپنی عادت کے مطابق مخالفین کو قتل کروانا شروع کردیا۔
اس نے 17اپریل 1978ء کو اپنے بڑے مخالف کیمونسٹ لیڈر میر اکبر خان کو قتل کروادیا اور یہ وہ قتل تھا جس نے سردار داؤد خان کے خلاف نفرت کو ایک نقطے پر جمع کردیا اور میر اکبر کے قتل کے محض دس دن بعد 27 اپریل کو سردار داؤد کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور فوج نے اسے، اس کے بھائیوں، بیویوں، بیٹیوں، پوتوں اور پوتیوں کو گولی مار دی۔ اس بغاوت میں اس سمیت اس کے خاندان کے 30 افراد ہلاک ہوگئے۔
داؤد کی نعش کو جیب کے ساتھ باندھا گیا اور کابل شہر میں گھسیٹا گیا۔ داؤد کی نعش جس جگہ سے گزرتی تھی لوگ اس پر تھوکتے تھے اور اسے ٹھڈے مارتے تھے۔
شام کو جب نعش کا سفر مکمل ہوا تو اسے جنارے‘ غسل اور کفن کے بغیر خاندان کی دوسری نعشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا۔ یوں سردار محمد داؤد خان کی نعش 30 برس تک ایک گمنام قبر میں پڑی رہی لیکن پھر 26 جون 2008ء کو کھدائی کے دوران کابل شہر میں دو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، دونوں قبروں میں سولہ‘ سولہ نعشیں تھیں، ان نعشوں میں سے ایک نعش کے پاؤں پر مگرمچھ کی کھال کا جوتا تھا‘
جوں ہی جوتے پر پڑی خاک جھاڑی گئی اس کی پالش چمکنے لگی اور یوں اس جوتے نے یہ راز فاش کردیا اور سردار داؤد کی نعش سامنے آگئی۔
میں نے یہ خبر پڑھی تو میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی۔
اللہ تعالیٰ کا نظام بھی کیسا عجیب ہے‘ وہ جب کسی ظالم سے نفرت کرتا ہے تو اس کی قبر کی بھی بخشش نہیں ہوتی
اور ظالم کے مرنے کے 30 برس بعد اس کی سزا ختم نہیں ہوتی۔ بے شک ظالم پورے ملک کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن یہ لوگ وقت کو شکست نہیں دے سکتے۔ یہ اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے اور جب اللہ کسی سے نفرت کرتا ہے وہ جوتوں کو اس کی نعش کا حوالہ اور قبر کا کتبہ بنا دیتا ہے۔ وہ اسے مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا۔۔۔۔
کمپنی کا دعویٰ سچ نکلا کہ جوتوں کی شان و شوکت تیس برس بعد بھی قائم رہے گی۔
سوئٹزرلینڈ کی کمپنی دنیا کے صرف ایک ہزار خاندانوں کیلئے جوتے بناتی تھی، جوتوں کے تلوے نیوزی لینڈ کی گائے کے چمڑے سے بنائے جاتے تھے، یہ سنہری چمڑے اور نیلے سینگوں والی گائے ہے جو باقی دنیا کے کسی دوسرے خطے میں نہیں پائی جاتی۔
جوتے کی "ٹو" برازیل کے مگرمچھوں کی جلد سے بنائی جاتی ہے، جوتے کا ’’کوّا‘‘ افریقہ کے سیاہ ہاتھیوں کے کانوں کے چمڑے سے تیار کیا جاتا تھا اور جوتے کے اندر ہرن کے نرم چمڑے کی تہ چپکائی جاتی تھی اور پیچھے رہ گیا دھاگہ تو ان جوتوں کیلئے بلٹ پروف جیکٹ میں استعمال ہونے والے دھاگے استعمال کئے جاتے تھے۔
کمپنی کا دعویٰ تھا کہ پچاس برس تک جوتے کی پالش خراب نہیں ہوتی جبکہ مٹی میں دفن ہونے کے ایک سو سال بعد تک جوتے کی آب وتاب برقرار رہتی ہے۔
افغانستان کا بادشاہ ظاہر شاہ اس کمپنی کا ایک ممبر تھا اور اس کمپنی سے اپنے لئے تیار کرواتا تھا۔ ظاہر شاہ جلا وطن ہوا تو سردار داؤد اس کمپنی کا ممبر بن گیا اور اس کے بعد اس نے ہمیشہ اس کمپنی کا جوتا ہی استعمال کیا یہاں تک کہ جب 1978ء کے دوران اسے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ قتل کردیا گیا اور قتل کے بعد اس کی نعش جیپ کے ساتھ باندھ کر کابل شہر میں گھسیٹی گئی تو اس وقت بھی اس نے یہی جوتا پہن رکھا تھا۔
وہ ایک بدقسمت حکمران تھا‘ اسے مرنے کے بعد غسل، کفن اور جنازہ نصیب نہیں ہوا تھا‘ لوگوں نے دو بڑی بڑی قبریں کھودی تھیں اور اسے اس کے خاندان کے دیگر 30 افراد کے ساتھ ان میں سے کسی ایک قبر میں دفن کردیا تھا۔
اس کے خاندان کے کسی فرد کا جنازہ نہیں پڑھا گیا تھا‘ وہ تیس برس تک اس قبر میں پڑا رہا لیکن 26جون 2008ء کو ایک اتفاقی کھدائی کے دوران یہ دونوں قبریں دریافت ہوئیں اور یوں جوتوں کے باعث اس کی نعش شناخت کرلی گئی۔
یہ جوتوں کے ذریعے شناخت ہونے والی دنیا کی پہلی نعش تھی اور دنیا کو پہلی بارجوتوں نے بتایا کہ ان کا مالک جنرل سردار محمد داؤد خان تھا۔
سردار محمد داؤد خان افغانستان کے شاہی خاندان محمد زئی سے تعلق رکھتا تھا۔ وہ 18جولائی 1909ء کو پیدا ہوا‘ اس نے ابتدائی تعلیم جلیلی اسکول کابل‘ ثانوی تعلیم امینیہ کالج اور اعلیٰ تعلیم فرانس سے حاصل کی۔ وہ سینٹ کرائی ملٹری اکیڈمی کا گریجوایٹ تھا۔
اس نے واپسی پر افغان فوج جوائن کی اور 24 برس کی عمر میں میجر جنرل بنادیا گیا۔
وہ 1932ء میں محض 25 سال کی عمر میں صوبہ ننگر ہار کا جی او سی بن گیا۔ 1935ء میں وہ قندھار کا جی او سی بنا اور اسی سال اسے لیفٹیننٹ جنرل کے عہدے پر پروموٹ کردیا گیا۔
وہ دنیا کا کم عمر ترین جنرل تھا۔ 1946ء میں اسے یونیفارم کے ساتھ وزیر دفاع بنادیا گیا۔
وہ پیرس‘ برن اور برسلز کیلئے سفیر بھی بنایا گیا اور اسی دوران افغانستان کے بادشاہ محمد ظاہر شاہ نے اسے اپنی ہمشیرہ شہزادی زینب کا رشتہ بھی دے دیا۔
وہ 1952ء میں شاہ کے ذاتی ایلچی کی حیثیت سے سوویت یونین کے صدر مارشل اسٹالن کی تدفین کیلئے ماسکو گیا اور یہاں سے اس کی زندگی کا دوسرا دور شروع ہوا۔
وہ روسی حکمرانوں اور کے جی بی کا منظورنظر بنا اور اس نے اس کی پشت پناہی کا آغاز کردیا۔
ستمبر 1953ء کو شاہ نے اسے افغانستان کا وزیراعظم بنادیا۔ وہ دنیا کا یونیفارم میں پہلا وزیراعظم تھا۔ وہ وزیراعظم بھی تھا‘ وزیر دفاع بھی اور آرمی چیف بھی۔
اس نے وزیراعظم کا حلف اٹھاتے ہی اپنے بھائی سردار محمد عظیم کو افغانستان کا وزیرخارجہ بنادیا اور آہستہ آہستہ پورے ملک کے اختیارات اپنے قبضے میں لے لئے۔
وہ سوویت یونین کا فکری حلیف تھا چنانچہ اس نے روس کے کہنے پر پاکستان میں پشتونستان کی تحریک شروع کروادی۔
ظاہر شاہ سردار داؤد کے عزائم اور طالع آزما فطرت کو پہچان گیا چنانچہ اس نے 3 مارچ 1963ء کو اس سے استعفیٰ لے لیا جس کے بعد سردار داؤد نے شاہ کے خلاف سازشیں شروع کردیں۔
ظاہرشاہ کو اطلاع ملی تو اس نے یکم اکتوبر 1964ء کو افغانستان کا آئین بدل دیا جس کی رو سے اب افغانستان کے شاہی خاندان کا کوئی رکن سیاست میں حصہ نہیں لے سکتا تھا۔
شاہ نے سردار داؤد کا راستہ روکنے کا بندوبست تو کردیا لیکن وہ یہ بھول گیا دنیا کا مضبوط سے مضبوط ترین آئین بھی فوج کا راستہ نہیں روک سکتا چنانچہ 17 جولائی 1973ء کو ظاہر شاہ علاج کے سلسلے میں اٹلی گیا اور پیچھے سردار داؤد نے ظاہر شاہ کا تختہ الٹ دیا اور ملک میں مارشل لگادیا۔ اس نے 1964ء کا آئین منسوخ کیا۔ افغانستان کو جمہوریہ افغانستان کا نام دیا
اور بیک وقت افغانستان کا صدر‘ وزیراعظم اور سنٹرل کمیٹی کے چیئرمین کا عہدہ سنبھال لیا۔ اس نے 28 جولائی کو پارلیمنٹ بھی توڑ دی اور وہ ملک کا مطلق العنان حکمران بن گیا۔
وہ ایک ماڈرن شخص تھا‘ اس نے اقتدار سنبھالتے ہی ملک میں پردے اور داڑھی پر پابندی لگا دی۔ اس نے زنانہ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اسکرٹ لازمی قرار دے دی۔ مسجدوں پر تالے لگوا دئیے اور ملک کے آٹھ بڑے شہروں میں شراب خانے اور ڈسکو کلب بنوائے۔ سردار داؤد کے دور میں کابل دنیا بھر کے سیاحوں کیلئے عیاشی کا اڈہ بن گیا۔ اس دور میں ’’یوروپ‘‘ کابل سے شروع ہوتا تھا‘ کابل کے بعد تہران عیاشی کا دوسرا اڈہ تھا‘ استنبول تیسرا اور اس کے بعد پورا مشرقی یوروپ عیاشوں پر کھل جاتا تھا۔
سردار داؤد نے پورے ملک میں سینکڑوں کی تعداد میں عقوبت خانے بھی بنارکھے تھے۔ خفیہ اداروں کے اہلکار اس کے مخالفین کو دن دہاڑے اٹھالے جاتے تھے.
اور اس کے بعد کسی کو ان کا نام اور پتہ تک معلوم نہیں ہوتا تھا۔ سردار داؤد کے زمانے میں تیس ہزار کے قریب ’’مسنگ پیپل‘‘ (گمشدہ لوگ) کہلائے اور ان لوگوں کے لواحقین کو بعدازاں ان کی قبروں کا نشان تک نہ ملا۔
جنوری 1974ء کو اس کےخلاف ایک چھوٹی سی بغاوت ہوئی لیکن اس نے تمام باغیوں کے سر قلم کروادئیے۔ ایک طرف اس کے مظالم جاری تھے اور دوسری طرف وہ عالمی میڈیا کو ایک جمہوریت پسند اور روشن خیال لیڈر کا چہرہ پیش کررہا تھا۔
اس نے روس کے ساتھ ساتھ مغرب کے ساتھ بھی تعلقات استوار رکھے۔ 27فروری 1977ء کو اس نے ملک کو نیا آئین دیا۔
ملک میں صدارتی طرز حکومت اور یک جماعتی نظام قائم کردیا اور یہ وہ وقت تھا جب اس کا اعتماد آسمان کو چھونے لگا‘ اس نے مارچ 1977ء کو نئی کابینہ بنائی اور اس کابینہ کے سارے عہدے اپنے خاندان اور دوستوں میں تقسیم کردئیے۔ اس وقت تک ملک میں اس کے خلاف لاوا پک چکا تھا چنانچہ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں خلق اور پرچم پارٹی اس کی مخالف ہوگئیں‘ ملک میں ہنگامے‘ سیاسی قتل وغارت گری اور مظاہرے شروع ہوگئے۔
وہ ظالم انسان تھا لہٰذا اس نے اپنی عادت کے مطابق مخالفین کو قتل کروانا شروع کردیا۔
اس نے 17اپریل 1978ء کو اپنے بڑے مخالف کیمونسٹ لیڈر میر اکبر خان کو قتل کروادیا اور یہ وہ قتل تھا جس نے سردار داؤد خان کے خلاف نفرت کو ایک نقطے پر جمع کردیا اور میر اکبر کے قتل کے محض دس دن بعد 27 اپریل کو سردار داؤد کے خلاف فوجی بغاوت ہوئی اور فوج نے اسے، اس کے بھائیوں، بیویوں، بیٹیوں، پوتوں اور پوتیوں کو گولی مار دی۔ اس بغاوت میں اس سمیت اس کے خاندان کے 30 افراد ہلاک ہوگئے۔
داؤد کی نعش کو جیب کے ساتھ باندھا گیا اور کابل شہر میں گھسیٹا گیا۔ داؤد کی نعش جس جگہ سے گزرتی تھی لوگ اس پر تھوکتے تھے اور اسے ٹھڈے مارتے تھے۔
شام کو جب نعش کا سفر مکمل ہوا تو اسے جنارے‘ غسل اور کفن کے بغیر خاندان کی دوسری نعشوں کے ساتھ اجتماعی قبر میں دفن کردیا گیا۔ یوں سردار محمد داؤد خان کی نعش 30 برس تک ایک گمنام قبر میں پڑی رہی لیکن پھر 26 جون 2008ء کو کھدائی کے دوران کابل شہر میں دو اجتماعی قبریں دریافت ہوئیں، دونوں قبروں میں سولہ‘ سولہ نعشیں تھیں، ان نعشوں میں سے ایک نعش کے پاؤں پر مگرمچھ کی کھال کا جوتا تھا‘
جوں ہی جوتے پر پڑی خاک جھاڑی گئی اس کی پالش چمکنے لگی اور یوں اس جوتے نے یہ راز فاش کردیا اور سردار داؤد کی نعش سامنے آگئی۔
میں نے یہ خبر پڑھی تو میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا اور اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کی۔
اللہ تعالیٰ کا نظام بھی کیسا عجیب ہے‘ وہ جب کسی ظالم سے نفرت کرتا ہے تو اس کی قبر کی بھی بخشش نہیں ہوتی
اور ظالم کے مرنے کے 30 برس بعد اس کی سزا ختم نہیں ہوتی۔ بے شک ظالم پورے ملک کو اپنے سامنے سرنگوں ہونے پر مجبور کرسکتے ہیں لیکن یہ لوگ وقت کو شکست نہیں دے سکتے۔ یہ اللہ کو دھوکہ نہیں دے سکتے اور جب اللہ کسی سے نفرت کرتا ہے وہ جوتوں کو اس کی نعش کا حوالہ اور قبر کا کتبہ بنا دیتا ہے۔ وہ اسے مرنے کے بعد بھی مرنے نہیں دیتا۔۔۔۔
نثار خان---------
Recognised by Their Shoes
Afghan authorities have discovered mass graves containing the bodies of ex-President Mohammad Daud Khan, family members and aides, who were killed in a Soviet-backed coup three decades ago, his grandson said. “Two mass graves, one containing 16 bodies and the other 12, were found. We recognised by their shoes and clothes that the graves belonged to the deceased Daud Khan, his family and cabinet members,” his grandson Mahmoud Ghazi Daud told reporters on Saturday. According to reports, he did not give further details on the identification process or provide more details on the discovery. The graves were recently discovered by a commission appointed in April by President Hamid Karzai at the request of Daud Khan’s family.
Daud Khan, Afghanistan’s first president, was shot dead in the presidential palace in a military coup in April 1978.
Many Afghans see it as one of their country’s darkest days, because it was followed by a decade of Soviet occupation, civil war, and the rise of the Taliban, who were toppled by U.S.-led troops in 2001.
Some two million people are believed to have been killed since the 1978 coup and more than six million have fled the country.
Daud Khan came to power in a coup himself when he overthrew his cousin Zahir Shah, the last king of Afghanistan, in 1973.
No comments:
Post a Comment