Monday, 12 February 2018

عربوں کی ذہانت اور معاملہ فہمی

ایس اے ساگر
اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا ہے کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔اسلام نے قوم و قبیلہ کی جاہلانہ حیثیت کو ختم کیا ہے۔ جس کی روح سے بعض قومیں اعلی اور بعض ادنی سمجھی جاتی ہیں۔ اور اب جاہلیت جدیدہ میں بھی سمجھی جاتی ہیں۔ قرآن نے واضح کیا کہ قوم قبیلہ، ذات برادری، محض جان پہچان کا ذریعہ ہیں۔ اسلام کی نظر میں عزت و ذلت، بڑا اور چھوٹا ہونے کا مدار ایمان و کردار پر ہے۔ حسب و نسب پر نہیں۔ تاہم آدمی اپنی صحبت اور حسب و نسب سے پہچانا جاتا ہے. نسب آدمی کی اصل اور نزاد کو کہتے ہیں اور حسب کا مطلب ہے کسی شخص کی ذاتی قابلیت اور لیاقت یعنی ذاتی اوصاف جو اس کے باپ دادا میں تھے جو اس کے لئے فضیلت اور بزرگی کا باعث ہوں۔ 
فخر کی عادت عربوں میں ہمیشہ سے تھی بلکہ آج بھی ہے. انہیں اپنے عربی ہونے پر اور باقی دنیا کے عجمی ہونے پر تعصب کی آخری حد تک فخر تھا. ان کے فخر کا باعث ان کی کئی خصوصیات میں سے ایک خصوصیت ذہانت بھی تھی. اور یہ بات تاریخ میں مسلم الثبوت ہے کہ حافظے اور ذہانت میں عرب کا ہر باشندہ بے مثال تھا اور یہ سارے ذہین ترین عرب قبائل مکہ کے قبیلہ قریش کی سیادت کے قائل تھے. اور قبیلہ قریش کے سبھی خاندان عمر بن ہشام کی ذہانت کا لوہا مانتے تھے
عمر بن ہشام کو اس کی بے مثال ذہانت اور معاملہ فہمی کے اعتراف میں اب الحکم کہہ کر پکارا جاتا تھا. مکہ کی مقامی پالیمنٹ یا مجلس شوریٰ ابوالحکم کے بغیر ادھوری سمجھی جاتی تھی؛ مکہ کی مجلس شوریٰ یعنی دارالندوہ. اس مجلس شوریٰ میں شریک ہونے کی ایک شرط عمر میں بڑا ہونا اور جہاندیدگی بھی تھی، یہ انسانوں کا معیار تھا. پھر اسی مکہ میں ایک صادق اور امین کا ظہور ہوا. صرف مسلم مؤرخ ہی نہیں غیر مسلم مؤرخین بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ دارالندوہ کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ کسی چند سال کے بچے نے دارالندوہ کے اجلاس میں شرکت کی ہو. یہ محمد بن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تھے. آپ صلی اللہ علیہ و سلم اپنے داد حضرت عبدالمطلب کے ساتھ دارالندوہ کے اجلاسوں میں شریک ہوتے تھے. دارالندوہ کا ہمیشہ سے چلا آرہا اصول ایک بچے کیلئے بدل گیا..... کیوں؟؟ محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم غارِ حرا سے اترکر آئے تو انھوں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے مجھ پر ظاہر ہوا اور مجھے اللہ تعالیٰ کی طرف سے مخلوق خدا کی ہدایت کیلئے نبی بنایا گیا ہے. کچھ نے یہ سنا اور مان لیا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم صادق ہیں. آپ صلی اللہ علیہ و سلم جو فرما رہے ہیں وہی سچ ہے. چاہے ہم نے خدا کو نہیں دیکھا مگر چونکہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خبر دے رہے ہیں کہ خدا ہے تو ہم مانتے ہیں کہ خدا ہے. بھلے ہی ہمارے اجداد بتوں کئی سو سال سے بت پرست تھے مگر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمادیا کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں.... پس ہم مانتے ہیں کہ ہر بت جھوٹا ہے .... سچا صرف وہ رب ہے جس کا کوئی شریک ہے نہ ہمسر ہے
اور وہ صدیق کہلائے. عمر بن ہشام کو یہ خبر ہوئی تو اس نے ماننے سے انکار کردیا. کیونکہ ایک وجہ تو یہ تھی کہ اسے اپنے عمر میں بڑا ہونے کا زعم تھا. اسے اپنی ذہانت کا زعم تھا. اسے اپنے اجداد کی بیان کی گئی تاریخ کا زعم تھا، پس اس نے انکار کردیا اور وہ ابوالحکم قیامت تک کیلئے ابوجہل کے نام سے موسوم کردیا گیا. اللہ کے نزدیک اور اللہ کے اس سب سے عاجز بندے کے نزدیک حق اور سچ کا معیار حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں. آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد ان کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین ہیں اور جو بھی اس راستے پر ہے. اس کے علاوہ جو اس راستے پر نہیں، پھر چاہے وہ کتنا ہی بڑا ڈاکٹر اور اسکالر ہی کیوں نہ ہو اس کی ساری علمیت سارا تقابل ادیان ابوجہل کے برابر ہے.
تین بھائیوں کی حکایت: 
کہتے ہیں کسی جگہ ایک شخص رہتا تھا جس کے تین بیٹے تھے۔ اس شخص نے اپنے ان تینوں بیٹوں کا نام عبداللہ رکھا تھا۔ دن گزرتے رہے حتیٰ کہ اسے مرض الموت نے آن لیا۔ اس نے اپنے تینوں بیٹوں کو بلا کر وصیت کی کہ عبداللہ کو وراثت ملے گی، عبداللہ کو وراثت نہیں ملے گی اور عبداللہ کو وراثت ملے گی۔ اس کے ساتھ ہی اس کی روح قبض ہوگئی۔ یہ خود تو فوت ہوگیا مگر اپنے بیٹوں کو حیرت میں ڈال گیا کہ کیسے فیصلہ کریں؟ کن دو عبداللہ کو وراثت ملے اور کس ایک کو نہیں ملے گی۔ تینوں نے فیصلہ کیا کہ شہر جاکر قاضی سے اپنا مسئلہ بیان کریں اور اس سے کوئی حل طلب کریں۔
تینوں اپنے زاد راہ کے ساتھ شہر کیلئے عازم سفر ہوئے۔ راستے میں انھوں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جو اپنی کسی گم شدہ چیز کو تلاش کرتا پھرتا تھا۔ ان بھائیوں کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس کی اونٹنی گم ہوگئی ہے جسے وہ تلاش کرتا پھر رہا ہے۔
پہلے عبداللہ نے پوچھا: کیا تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی تھی؟ 
اس آدمی نے کہا: ہاں ہاں، ایسا ہی تھا۔
دوسرے حجر نے پوچھا: کیا تیری اونٹنی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی؟
تو اس آدمی نے جلدی سے کہا: بالکل صحیح، میری اونٹنی واقعی ایک ٹانگ سے لنگڑی تھی۔
تیسرے عبداللہ نے اونٹنی کے مالک سے پوچھا: کیا تیری اونٹنی کی دم کٹی ہوئی تھی؟
تو اس نے خوشی سے کہا: بالکل ٹھیک، میری اونٹنی کی دُم بھی کٹی ہوئی تھی۔ بس اب جلدی سے بتادو کہ میری اونٹنی کہاں ہے؟
تینوں عبداللہ نے مل کر جواب دیا: بخدا ہمیں آپ کی اونٹنی کے بارے میں کوئی علم نہیں، ہم نے اسے ہرگز نہیں دیکھا۔
اونٹنی کا مالک ان کی یہ بات سن کر غصے سے پاگل ہو گیا، اس نے فیصلہ کیا کہ اس تینوں کو کھینچ کر قاضی کے پاس لے جائیگا۔ اسے پورا یقین تھا کہ اس کی اونٹنی کو یہ تینوں ذبح کر کے کھا چکے ہیں اور اب اپنے جرم کو چھپانے کیلئے جھوٹ بول رہے ہیں۔۔ اونٹنی والے نے جب تینوں کو اپنا ارادہ بتایا تو انہوں نے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں کیونکہ ہم خود بھی قاضی کے پاس ہی جا رہے ہیں.
جب یہ چاروں قاضی کے پاس پہنچے تو اونٹنی والے نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا۔ قاضی نے ان تینوں سے کہا جس طرح تم تینوں نے اونٹنی کی نشانیاں بتائی ہیں اس کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ اونٹنی تم تینوں کے پاس ہے، بہتر ہے کہ تم اپنے جرم کا اعتراف کرلو۔
پہلے نے کہا: جناب عالی، ہم نے اونٹنی تو نہیں دیکھی تھی، ہاں البتہ اونٹنی کے آثار ضرور دیکھے تھے۔ جب میں نے اسے کہا تھا کہ تیری اونٹنی ایک آنکھ سے کانی ہے تو میں نے دیکھا تھا کہ راستے کے ایک طرف کا گھاس تو خوب چرا ہوا تھا مگر دوسری طرف کا ویسے ہی بآمان موجود تھا۔ اس کا ایک ہی مطلب تھا کہ اس شخص کی اونٹنی ایک آنکھ سے کانی رہی ہوگی۔
دوسرے عبداللہ نے کہا: میں نے دیکھا تھا کہ راستے میں تین قدم تو گہرے پیوست ہوئے ہیں جبکہ چوتھا قدم زمین پر معمولی پڑا ہوا تھا جس کا مطلب بس اتنا ہی بنتا تھا کہ یہ جانور لنگڑا بھی تھا۔
تیسرے عبداللہ نے کہا: اونٹ جب راہ چلتے ہوئے اپنا گوبر گراتے ہیں تو دم سے ادھر اُدھر بکھیرتے ہیں۔ جبکہ ہم جس راہ سے آئے تھے وہاں پر گوبر ایک ہی سمت میں سیدھا گرا ہوا تھا جس کا ایک مطلب ہوسکتا تھا کہ اونٹنی کی دُم کٹی ہوئی ہے جو اپنا گوبر دائیں بائیں نہیں پھیلا پائی۔
قاضی نے بغیر کسی تاخیر کے اس آدمی کی طرف دیکھا اور کہا: تم جاسکتے ہو۔ تمہاری اونٹنی ان لوگوں کے پاس نہیں ہے اور نا ہی انھوں نے اُسے دیکھا ہے۔
اونٹنی والے شخص کے جانے کے بعد ان تینوں بھائیوں نے قاضی سے اپنا قصہ بیان کیا جسے سُن کر قاضی بہت حیران ہوا۔ ان تینوں سے کہا: تم آج کی رات مہمان خانے میں ٹھہرو، میں کل تمہیں سوچ کر کوئی حل بتاؤنگا۔
یہ تینوں مہمان خانے میں جاکر ٹھہرے تو انھوں نے محسوس کیا کہ ان کی نگرانی کی جا رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد ان کے لئے کھانا لایا گیا جو گوشت کے پکے ہوئے سالن اور روٹیوں پر مشتمل تھا۔
پہلے نے کھانے کو دیکھتے ہی کہا: یہ سالن کتے کے گوشت کا بنا ہوا ہے۔
دوسرے نے کہا: روٹیاں جس عورت نے پکائی ہیں وہ حاملہ ہے اور پورے دنوں سے ہے۔
تیسرے نے کہا: یہ قاضی حرام کی اولاد ہے۔
بات قاضی تک پہنچ گئی، اُس نے تینوں کو دوسرے دن اپنی عدالت میں طلب کرلیا اور تینوں سے مخاطب ہوکر کہا: تم میں سے کس نے کہا تھا یہ کتے کا گوشت پکا ہوا ہے؟ 
پہلا بولا: میں نے کہا تھا۔
قاضی نے باورچی کو بلواکر پوچھا تو اس نے اعتراف کیا کہ پکانے کیلئے کچھ نہیں تھا تو اس کو شرارت سوجھی اور اس نے کتا مارکر اس کا گوشت پکایا اور ان کو کھانے کیلئے بھجوادیا۔
قاضی نے پہلے سے پوچھا: تمہیں کیسے پتہ چلا یہ گوشت کتے کا ہے؟ 
تو اس نے بتایا: گائے، بکری یا اونٹ کے گوشت کے نیچے چربی لگی ہوتی ہے جبکہ یہ سارا چربی نما تھا جس کے نیچے کہیں کہیں گوشت لگا ہوا تھا۔ 
قاضی نے کہا: تم وہ عبداللہ ہو جس کو اپنے باپ کے مال سے وراثت ملے گی۔
قاضی نے دوبارہ ان سے مخاطب ہوکر پوچھا کس نے کہا یہ روٹیاں ایسی عورت نے بنائی ہیں جو نو ماہ کے حمل کے ساتھ اور اپنے پورے دنوں سے ہے؟ 
جواب میں دوسرے نے کہا: میں ہوں جس نے یہ کہا تھا۔ 
قاضی نے پوچھا: تمہیں کیونکر یہ لگا؟ 
تو اس نے کہا: میں نے دیکھا روٹیاں ایک طرف سے پھولی ہوئی اور خوب پکی ہوئی ہیں تو دوسری سے کچی اور موٹی رہ گئی ہیں۔ میں نے اس سے یہی اخذ کیا کہ روٹیاں بنانے والی ایسی خاتون ہے جس سے تکلیف کے مارے زیادہ جھکا نہیں جا رہا اور وہ سامنے کی چیز بھی نہیں دیکھ پارہی جس کا مطلب یہی بنتا تھا کہ عورت حاملہ ہے اور روٹیاں بنانے میں تکلیف محسوس کرتی رہی ہے۔ 
قاضی نے اس دوسرے سے بھی کہا کہ: تم وہ عبداللہ ہو جسے اس کے باپ کے ترکہ سے وراثت میں حصہ ملے گا۔
پھر قاضی نے تینوں سے مخاطب ہوکر پوچھا: یہ کس نے کہا تھا میں ولد الحرام ہوں؟ 
تیسرے نے جواب دیا کہ: یہ میں نے کہا تھا۔ قاضی اُٹھ کر اندر گیا اور اپنی ماں سے پوچھا: کیا یہ سچ ہے کہ میں ولدالحرام ہوں؟ 
تو اُس کی ماں نے کہا: یہ سچ ہے کہ تم حرام کے ہو۔
قاضی نے واپس آکر اس تیسرے حجر سے پوچھا: تمھیں کیونکر معلوم ہوا میں ولدالحرام ہوں؟ 
تو اُس نے جواب دیا: اگر تم حلالی ہوتے تو مہمان خانے میں ہم پر نگران مقرر نہ کرتے، نا ہی کتے کا گوشت پکواکر ہمیں کھانے کیلئے بھجواتے اور نا ہی کچی روٹیاں کسی مظلوم عورت سے بنوا کر ہمیں کھلواتے۔
قاضی نے اُسے مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ: تم وہ عبداللہ ہو جسے اُس کے باپ کے مال سے ورثہ نہیں ملے گا۔
تیسرے نے حیرت کے ساتھ قاضی کو دیکھا اور پوچھا: مگر ایسا کیوں ہے؟
قاضی نے کہا: کیونکہ ایک حرامی ہی دوسرے ولد الحرام کو ٹھیک ٹھیک پہچان سکتا ہے اور تم بھی میری طرح حرام کی اولاد ہو۔
وراثت پانے والے دونوں عبداللہ اپنی ماں کی طرف لوٹے اور دریافت کیا کہ: ہمارے تیسرے بھائی کا کیا ماجرا ہے؟ 
تو اُن کی ماں نے کہا: تمھارا باپ ایک بار صبح کی نماز پڑھنے مسجد گیا تو اسے دراوزے پر رکھا ہوا پایا تھا، اسے گھر لایا، اس کا نام بھی تم دونوں جیسا عبداللہ رکھا اور اس کی پرورش کی۔ تو ایسی ہوتی ہیں عربوں کی حکایتیں جن میں حکمت کے درس ہوتا پے!  
قصة ..{عبد الله يرث وعبد الله لا يرث وعبد الله يرث}
...
يحكى أن هناك رجلا كان لديه ثلاثة أولاد اسماهم الثلاثة ب "عبد الله "
ومضت الأيام وعندما كان الرجل على فراش الموت قال : عبد الله يرث وعبد الله لايرث وعبد الله يرث !
ثم قبضت روحه ومات .. تعجب الأخوة من العبارة كيف سيحلون هذه المعضلة ؟؟ فاتفقوا على الذهاب الى قاض المدينة .
وفعلا مضى الثلاثة في الطريق واذا بهم يرون رجلا حائرا يبحث عن شيئ ما ..
فأوقفهم وسألهم "لي ناقة تاهت مني ولا أعلم أين هي ؟ هل رأيتموها في طريقكم ؟
قال عبد الله الأول: هل بعيرك أعور ؟
قال الرجل: نعم نعم
قال عبد الله الثاني : هل بعيرك أعرج ؟
قال الرجل: نعم نعم
قال عبد الله الثالث : هل بعيرك مقطوع الذنب ؟
قال الرجل وقد استبشر خيرا : نعم اذا لقد رأيتموها أين هي ؟؟
قال الثلاثة : لا والله ما رأيناها !
جن جنون الرجل وقرر أن يصطحب الثلاثة إلى القاضي ..لأنه اعتقد بأنهم أكلوها ويريدون اخفاء الأمر عنه
لم يعترض الأخوة على الأمر بل قالو نعم ونحن ذاهبون لقضاء أمر عند ذاك القاضي
وصل الأربعة إلى القاضي فقص الرجل صاحب الناقة القصة على القاضي
قال القاضي : ان ماوصفتم به الناقة انما يدل على أنكم رأيتموها ..هلا اعترفتم؟؟
قال الأول : والله ياسيدي مارأينها ولكننا رأينا أثارها ..فعندما قلت أنها عوراء ذلك لأنني لاحظت أن العشب في المكان
الذي مرت به قد أكل من ناحية واحدة ..وهذا دليل على أنها لاترى إلا بعين واحدة
قال الثاني: ولما قلت أنها عرجاء ..فذلك لأن أحد أثار أقدامها أعمق من الأخر وهذا دليل عجز في احدى رجليها
قال الثالث: ولما قلت أنها مقطوعة الذيل .. فلأنني وجدت بعرها قد تكتل بشكل كتل والعادة أن تحرك الناقة ذيلها لتنثر بعرها يمينا ويسارا .. وهذا يعني أن ذيل هذه الناقة مقطوع
نظر القاضي إلى الرجل وقال : اذهب يارجل فوالله ماوجدوا ناقتك قط !
وبعد أن رحل ذلك الرجل قص الأخوة الثلاثة القصة على القاضي فتعجب منها أشد العجب .. وقرر أن يبقي القضية إلى غد ريثما يفكر بحل لها ..
توجه الأخوة إلى دار المضافة لقضاء اليوم هناك .. وأحسوا بأن أحد ما يراقبهم
وبعد قليل وصلهم الطعام وهو لحم والخبز
فقال الأول: هذا اللحم لحم كلب ! !
وقال الثاني: هذا الخبز خبزته امرأة في الشهر التاسع من حملها !
وقال الثالث: وهذا القاضي ابن حرام !!!!
وصل الخبر إلى القاضي .. فجمعهم في اليوم التالي ..
القاضي: من قال منكم أن اللحم لحم كلب ؟ فقال الأول : أنا ..
سأل القاضي الطباخ هل فعلا هذا اللحم لحم كلب : فقال الطباخ لم يبقى لدينا لحم فقدمنا هذا اللحم وهو فعلا لحم كلب
سأل القاضي عبد الله الأول : قلي يارجل كيف عرفت أنه لحم كلب ؟
قال الأول: لحم الابل والغنم وغيرها يكون الشحم فوق اللحم أما هذه فكام اللحم فوق الشحم
فصرخ القاضي: أن ترث من مال أبيك
القاضي: من قال منكم أن الخبز قد خبزته امرأة في شهر حملها التاسع ؟ فقال الثاني : أنا ..
سأل القاضي عن الأمر فتبين فعلا أن من خبز الخبز امرأة حامل في شهرها التاسع
سأل القاضي عبد الله الثاني : قل كيف عرفت عن هذا الخبز ومن خبزه ؟
قال الثاني: رأيت الخبز منفوخا من جهة ومستويا في أخرى فتأكدت من علو النفخة أن صاحبته لم تكن تستطيع تحريكه
عندما كان في بيت النار لأن هناك شيئا يعيقها وهو بطنها الكبير من الحمل !
فصرخ القاضي: أن ترث من مال أبيك
القاضي: من قال منكم انني ابن حرام ؟ فقال الثالث قال : أنا ...
سأل القاضي أمه عن المسألة وأقرت بأنه ابن حرام !
سأل القاضي عبد الله الثالث: وكيف عرفت أنني ابن حرام ؟؟ فقال الثالث : لو كنت ابن حلال ما أرسلت لنا
عينا لتراقبنا ولا لحم كلب نأكله ولا خبزا غير ناضج
فصرخ القاضي: أنت لاترث شيئا
قال الثالث: ولماذا ؟؟؟؟؟
قال القاضي: لأنه لايعرف ابن الحرام إلا ابن حرام مثله !
وفعلا ذهب الأول والثاني إلى أمهما وأقرت بأن الثالث اتى به والده من أمام باب المسجد ورباه وأسماه عبد الله
فانظر أخي إلى دهاء وحكمة اجدادنا العرب !
الأن يمكنك متابعة ثقف نفسك في جوجل بلاس على: 
http://goo.gl/3gmNKA

No comments:

Post a Comment