مولانا سلمان ندوی ان لوگوں کی سازش کا شکار ہوگئے ہیں جنہیں مندر مسجد
سے کوئی مطلب نہیں ہے
سے کوئی مطلب نہیں ہے
امرناتھ مشرا کے ذریعے لگائے گئے الزاما ت کو علمائے دیوبند نے خارج کردیا
کہا وہ الزام ثابت کریں یا معافی مانگیں
دیوبند: 16فروری 2018
ایودھیا میں بابری مسجد کو لے کر تنازعات میں گھرے مولانا سلمان ندوی کو اب شری شری روی شنکر کے قریبی نے رشوت مانگنے کا الزام عائد کیا ہے، حالانکہ دیوبند کے علماء نے مولانا سلمان ندوی پر لگائے گئے الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا سلمان ندوی کے بیانوں سے انہیں سخت تکلیف تو ہے لیکن کسی بھی صورت میں یہ یقین نہیں ہے کہ ان پر عائد کئے گئے الزامات صحیح ہیں ، یہاں کے علماء نے الزام عائد کرنے والے شخص کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے الزامات ثا بت کریں نہیں تو وہ ملک کے سامنے معافی مانگیں۔ اس سلسلہ میں تنظیم علمائے ہند کے قومی صدر مولانا احمد خضر شاہ مسعودی نے ڈاکٹر امرناتھ مشرا کے الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ندوی ان لوگوں کی سازش کا شکار ہوگئے ہیں جنہیں مندر مسجد سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔ انہوں نے مولانا سلمان ندوی کو سازش کے تحت بدنام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جن کے ہاتھوں کا کھلونا بن رہے تھے انہوں نے بہت جلد ہی اپنا رنگ دکھادیا ۔ انہو ںنے کہا کہ مولانا ایماندار ہیں اس لئے ان پر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ جو لوگ مولانا پر الزام تراشی کررہے ہیں وہ ثبوت پیش کریں ، انہوں نے کہا کہ مولانا کا استعمال کرکے اب انہیں بدنام کرکے الگ کیا جارہا ہے، یہ بات مولانا کی بھی سمجھ میں آگئی ہے ۔ مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ الزامات عائد کرنے والے نہیں چاہتے ہیں کہ مندر مسجد کاحل ثبوتوں کی بنیاد پر ہو تو ا سلئے وہ لوگ مسئلہ کو صرف الجھاکر سیاست کرنا چاہتے ہیں ۔ ماہنامہ ترجمان کے مدیر اعلیٰ مولانا ندیم الواجدی نے کہا کہ بابری مسجد کے مسئلہ پر مولانا کے بیانوں سے وہ اتفاق نہیں رکھتے لیکن جس طریقے سے مولانا سلمان ندوی پر الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ بے بنیا دہیں، مولانا واجدی نے کہاکہ مولانا سلمان پر لگائے گئے الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے ، یہ بلکہ ہر کسی کی سمجھ سے پرے ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے سابق اسمبلی رکن معاویہ علی نے مولانا سلمان ندوی پر عائد کئے گئے الزامات کو سنگھ کی دین بتایا ، انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا مسلمان مسجد کا سودا نہیں کرسکتا اگر مندر مسجد تنازعہ کا حل روپے سے ہی ہوسکتا ہے تو جتنے روپے مانگنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے تو ملک کا مسلمان اس سے زیادہ رقم دینے کو تیار ہے جس کے بعد مندر کے فریق رقم لے کر کسی دوسری جگہ رام مندر تعمیر کرلیں، سابق اسمبلی رکن نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ مولانا سلمان ندوی سے غلطی ہوئی ہے اور اب انہیں مولانا ارشد مدنی کی صلاح تسلیم کرکے اپنی غلطی کا احساس کرلینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بابری مسجد اور مندر کا فیصلہ عدالت کا باہر ہونا ہے تو وہ امرناتھ مشر کو ان کا ہی یہ آفر دوگنا کرکے ملک کا مسلمان دے رہا ہے جس کے بعد وہ رام مندر ملک میں کہیں بھی بنوالیں، معاویہ علی نے کہا کہ مولانا سلمان ندوی سنگھ کی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کا کوئی بھی مسلمان مسجد کا سودا نہیں کرسکتا کیو ںکہ مسجد اللہ کا گھر ہوتی ہے، جسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ امرناتھ مشر کی جانب سے مسجد کی جگہ چھوڑنے کے لئے 5 ہزار کروڑ اور 200 ایکڑ زمین کے بدلے مسلمان انہیں 5لاکھ کروڑ روپے اور ملک میں 2 ہزار ایکڑ زمین دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے علماء کے لئے راجیہ سبھا کی رکنیت بہت چھوٹی چیز ہے اس لئے مولانا ندوی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ مجلس اتحاد ملت کے قومی جنرل سکریٹری حافظ اطہر عثمانی نے مولانا سلمان ندوی پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ علماء کو بدنام کریں جب کہ مولانا سلمان ندوی ایک سچے ، محبت وطن اور ایماندار شخص ہیں وہ ان جیسے افراد کی سازشوں کو سمجھ نہیں پائے ۔ انہوں نے جذبات میں بہہ کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران کو اعتماد میں نہ لے کر مسجد کو شفٹ کرنے کا مسئلہ اٹھایا تھا، آج مولانا کو وہی لوگ بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کو مسلم سماج برداشت نہیں کرے گا۔ اطہر عثمانی نے الزام عائد کرنے والے شری شری روی شنکر کے قریبی مانے جانے والے امرناتھ مشرا کو مولانا پر جھوٹے الزام کے لئے معافی مانگنی چاہئے۔
ایودھیا میں بابری مسجد کو لے کر تنازعات میں گھرے مولانا سلمان ندوی کو اب شری شری روی شنکر کے قریبی نے رشوت مانگنے کا الزام عائد کیا ہے، حالانکہ دیوبند کے علماء نے مولانا سلمان ندوی پر لگائے گئے الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا ہے کہ مولانا سلمان ندوی کے بیانوں سے انہیں سخت تکلیف تو ہے لیکن کسی بھی صورت میں یہ یقین نہیں ہے کہ ان پر عائد کئے گئے الزامات صحیح ہیں ، یہاں کے علماء نے الزام عائد کرنے والے شخص کو اپنے الزامات ثابت کرنے کا انتباہ دیتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے الزامات ثا بت کریں نہیں تو وہ ملک کے سامنے معافی مانگیں۔ اس سلسلہ میں تنظیم علمائے ہند کے قومی صدر مولانا احمد خضر شاہ مسعودی نے ڈاکٹر امرناتھ مشرا کے الزامات کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ مولانا ندوی ان لوگوں کی سازش کا شکار ہوگئے ہیں جنہیں مندر مسجد سے کوئی مطلب نہیں ہے ۔ انہوں نے مولانا سلمان ندوی کو سازش کے تحت بدنام کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ مولانا جن کے ہاتھوں کا کھلونا بن رہے تھے انہوں نے بہت جلد ہی اپنا رنگ دکھادیا ۔ انہو ںنے کہا کہ مولانا ایماندار ہیں اس لئے ان پر شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جمعیۃ علماء ہند کے خازن مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ جو لوگ مولانا پر الزام تراشی کررہے ہیں وہ ثبوت پیش کریں ، انہوں نے کہا کہ مولانا کا استعمال کرکے اب انہیں بدنام کرکے الگ کیا جارہا ہے، یہ بات مولانا کی بھی سمجھ میں آگئی ہے ۔ مولانا حسیب صدیقی نے کہا کہ الزامات عائد کرنے والے نہیں چاہتے ہیں کہ مندر مسجد کاحل ثبوتوں کی بنیاد پر ہو تو ا سلئے وہ لوگ مسئلہ کو صرف الجھاکر سیاست کرنا چاہتے ہیں ۔ ماہنامہ ترجمان کے مدیر اعلیٰ مولانا ندیم الواجدی نے کہا کہ بابری مسجد کے مسئلہ پر مولانا کے بیانوں سے وہ اتفاق نہیں رکھتے لیکن جس طریقے سے مولانا سلمان ندوی پر الزامات عائد کئے گئے ہیں وہ بے بنیا دہیں، مولانا واجدی نے کہاکہ مولانا سلمان پر لگائے گئے الزامات میں کوئی سچائی نہیں ہے ، یہ بلکہ ہر کسی کی سمجھ سے پرے ہے ۔ سماج وادی پارٹی کے سابق اسمبلی رکن معاویہ علی نے مولانا سلمان ندوی پر عائد کئے گئے الزامات کو سنگھ کی دین بتایا ، انہوں نے کہا کہ ہندوستان کا مسلمان مسجد کا سودا نہیں کرسکتا اگر مندر مسجد تنازعہ کا حل روپے سے ہی ہوسکتا ہے تو جتنے روپے مانگنے کا الزام عائد کیا جارہا ہے تو ملک کا مسلمان اس سے زیادہ رقم دینے کو تیار ہے جس کے بعد مندر کے فریق رقم لے کر کسی دوسری جگہ رام مندر تعمیر کرلیں، سابق اسمبلی رکن نے کہا کہ ان کا ماننا ہے کہ مولانا سلمان ندوی سے غلطی ہوئی ہے اور اب انہیں مولانا ارشد مدنی کی صلاح تسلیم کرکے اپنی غلطی کا احساس کرلینا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بابری مسجد اور مندر کا فیصلہ عدالت کا باہر ہونا ہے تو وہ امرناتھ مشر کو ان کا ہی یہ آفر دوگنا کرکے ملک کا مسلمان دے رہا ہے جس کے بعد وہ رام مندر ملک میں کہیں بھی بنوالیں، معاویہ علی نے کہا کہ مولانا سلمان ندوی سنگھ کی سازش کا شکار ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ملک کا کوئی بھی مسلمان مسجد کا سودا نہیں کرسکتا کیو ںکہ مسجد اللہ کا گھر ہوتی ہے، جسے فروخت نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ امرناتھ مشر کی جانب سے مسجد کی جگہ چھوڑنے کے لئے 5 ہزار کروڑ اور 200 ایکڑ زمین کے بدلے مسلمان انہیں 5لاکھ کروڑ روپے اور ملک میں 2 ہزار ایکڑ زمین دینے کو تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے علماء کے لئے راجیہ سبھا کی رکنیت بہت چھوٹی چیز ہے اس لئے مولانا ندوی پر لگائے گئے الزامات بے بنیاد ہیں۔ مجلس اتحاد ملت کے قومی جنرل سکریٹری حافظ اطہر عثمانی نے مولانا سلمان ندوی پر لگائے گئے الزامات کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسے لوگوں کا شیوہ رہا ہے کہ وہ علماء کو بدنام کریں جب کہ مولانا سلمان ندوی ایک سچے ، محبت وطن اور ایماندار شخص ہیں وہ ان جیسے افراد کی سازشوں کو سمجھ نہیں پائے ۔ انہوں نے جذبات میں بہہ کر مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ممبران کو اعتماد میں نہ لے کر مسجد کو شفٹ کرنے کا مسئلہ اٹھایا تھا، آج مولانا کو وہی لوگ بدنام کرنے کی کوشش کررہے ہیں جس کو مسلم سماج برداشت نہیں کرے گا۔ اطہر عثمانی نے الزام عائد کرنے والے شری شری روی شنکر کے قریبی مانے جانے والے امرناتھ مشرا کو مولانا پر جھوٹے الزام کے لئے معافی مانگنی چاہئے۔
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1636656916391895&id=120477478009854
.........
.........
تحریک رام مندر: ایک سیاسی چال
سوامی اگنی ویش
میں ایک مذہبی آدمی ہوں۔ رام جنم بھومی کی تحریک ایک مفاد پرستانہ سیاسی چال ہے جو میرے لئے ناقابل قبول اور نا قابل برداشت ہے۔میرے لئے زندگی سے زیادہ موت بہتر ہے اگر میں ایک ایسی سچائی کا اظہار نہ کروں جسے میں اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ میں نے پرماتما یا خدا کو سچائی کی روشنی میں دیکھا ہے۔ سچائی چھپانا ظلم ہے اور بزدلوں کی حوصلہ افزا ئی کے مترادف ہے۔
رام جنم بھومی کی تحریک خالص سیاسی چال ہے جو خود غرضانہ اور مفاد پرستی پر مبنی ہے، محض انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے عوام کو بیوقوف اور بدھو بنانے کیلئے اسے مذہب کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوتی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اِس جگہ یا اُس جگہ ہزاروں سال پہلے بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔ رام للّا کو قانونی یا غیر قانونی طور پر استھاپت کرنے کی بات اس وقت پیش آسکتی ہے جبکہ ان کی جنم بھومی کی نشاندہی پورے طور پر سامنے آئے یا کسی کو معلوم ہو۔ اجودھیا میں 16 ایسے حریف یا دعویدار ہیں جو اپنے اپنے طور پر راالزام بھومی کا تعین کرتے ہیں۔
میں راجیو گاندھی کے وقت ایسی بہت سی کوششوں میں شامل تھا جس میں تنازعے کو ختم کرنے کی بات ہورہی تھی۔ راجیو گاندھی پر بہت بڑا الزام ہے کہ انھوں نے ایک سرد خانے میں دبے ہوئے مسئلہ کو زندہ کیا، در اصل کانگریس کی چاپلوسی اور خوشامدانہ سیاست کا یہ ایک حصہ تھا۔ پارٹی نے ڈبل گیم کھیلا۔ کون نہیں جانتا ہے کہ نرسمہا راؤ نے تخت نشینی کیلئے مسجد کو مسمار کرنے میں حصہ لیا۔
مسٹر وی پی سنگھ نے مسئلہ کو سلجھانے کی جو کوششیں کیں میں نے اس میں بھی حصہ لیا۔ مسٹر ایل کے ایڈوانی کو 2.7 ایکڑ اراضی کے بدلے مسجد کے قریب 60ایکڑ زمین دینے کی بات کی گئی لیکن مسٹر ایڈوانی کی سازشی چال بس یہ تھی کہ مندر وہیں بنائیں گے جہاں بابری مسجد ہے۔ جسٹس کرشنا ایئر، بی جی ورگیز اور میں (سوامی اگنی ویش) چندر شیکھر کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ جب مسئلہ حل کے قریب پہنچا تو راجیو گاندھی اور ان کے رفقاء کو احساس ہوا کہ سارا کریڈٹ وزیر اعظم چندر شیکھر کو مل جائیگا جس کی وجہ سے راجیو گاندھی نے چندر شیکھر حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا اور ان کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو وہ اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے تھے تھے میں نے ا س معاملہ میں عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے اور شواہد بھی جمع کئے۔ اس کی روشنی میں اچھی طرح سے کہہ سکتا ہوںکہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کا دعویٰ کسی طرح بھی صحیح (Justified) نہیں ہے۔ میں نے صاف ذہنیت کے ساتھ اس کی چھان بین کی ہے۔ تلسی داس اس وقت کے سب سے بڑے رام بھکت تھے جس کے زمانے (1528ئ) میں میر باقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رام مندر کو گراکر بابری مسجد کی تعمیر کی۔ تلسی داس نے بھی اپنی کسی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیںکیا ہے۔ نہ ہی گرو گوبند سنگھ، سوامی ویویکا نند، شیوا جی نے اس کا کہیں ذکر کیا ہے کہ سرجو ندی کے کنارے رام پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے نام پر مندر بنا ہوا تھا۔ کسی بھی کتاب یا اسکرپٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ جارحیت کی تحریک کا کوئی ثبوت ہو، یہ کہنا کہ ایک عقیدہ (Faith) کی بات ہے کسی طرح بھی حق پسندی نہیں ہے نہ کوئی دلیل اور انصاف کی بات ہے۔
جو چیز میرے لئے بیحد تکلیف دہ ہے وہ اس کا فرقہ وارانہ ایجنڈا ہے جو نہایت غلط اور نقصان دہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رام بھگوان تھے اور بھگوان نِرادھار یعنی جس کی کوئی شکل (formless) نہیں ہوتی تو آخر جو نرادھار ہو اس کی جائے پیدائش یا جنم بھومی کی نشاندہی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ انسان کی عقل و دانش کی سراسر توہین ہے کہ خدا کی شکل و صورت کو کوئی اپنےنام انداز سے تعین کرے۔میرے لئے یہ انتہائی دکھ اور تکلیف کا سبب ہے کہ بہتوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر گھولا جارہا ہے۔ رام کے پر یہ سب غلط کام کا پرچار ہورہا ہے۔ گاندھی جی ایک راسخ العقیدہ ہندو تھے۔ جب وہ قتل کئے گئے تو ان کی زبان پر رام کا نام تھا ’’ہئے رام‘‘۔ ان کی عقیدتمندی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ انھوں نے کبھی رام مندر کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ خدا صرف مندرمیں نہیں رہتا بلکہ ہر جگہ رہتا ہے۔ وہ ایک سچے مذہبی انسان کی حیثیت سے کہتے تھے کہ خدا کسی مسجد، مندر یا چرچ میں مقید نہیں ہوتا۔ گاندھی جی نے شاید ہی کبھی کسی مندر میں وقت گزارا ہو۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مندروں میں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی ہے۔
اسلام اور عیسائیت سے بالکل الگ ہندو مت ایک خاندانی روحانیت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ میں جانتا ہوں کہ خدا پروہتوںوقت اور پنڈتوں کا جانبدار نہیں ہوتا، اس لئے کہ ہمارا گھر بھی مندر ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب بڑی ذات کے لوگوں نے دھرم کو اُچک لیا اور اپنے مفاد اور سوارتھ (آرام) کیلئے اس کا استعمال جائز کرلیا۔ اس سے سناتن دھرم پنڈتوں اور پروہتوں کے قبضے میں آگیا۔ حقیقت خرافات میں کھوگئی۔ توہم پرستی، استحصال اور فریب اور دھوکہ دہی کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج ہماری یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ اس پر ہم منہ نہیں کھولتے۔ زبان بند رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم سرحد پار کے لوگوں سے مغلوب ہوئے۔ مغل بادشاہوں اور پھر انگریز تاجروں نے ہمیں اپنے بازو میں کرلیا۔
سناتن دھرم کے لوگ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ توہم پرستی اور بے عقلی کے خول سے باہر نہیں آتے۔ رام جنم بھومی میں رجعت پسندی سے بے عقلی اور فرقہ پرستی کی طرف ایک بڑھتا ہوا قدم اور مارچ ہے۔ یہ ایک جنگ ہے جو سستی شہرت اور اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کیلئے کی جارہی ہے۔ وہ لوگ جو عقیدۂ وید سے ناواقف ہیں وہی اسے ہندو مت کی ترقی کہہ سکتے ہیں اور اس کیلئے لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ میں اس عقیدہ کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ اس سے میری محبت ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس گمراہی اور ضلالت کو کسی طرح بھی قبول نہیں کرسکتا.
رام جنم بھومی کی تحریک خالص سیاسی چال ہے جو خود غرضانہ اور مفاد پرستی پر مبنی ہے، محض انتخاب میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے عوام کو بیوقوف اور بدھو بنانے کیلئے اسے مذہب کا جامہ پہنایا گیا ہے۔
مجھے اس بات پر سخت حیرت ہوتی ہے کہ کوئی یہ کہے کہ اِس جگہ یا اُس جگہ ہزاروں سال پہلے بھگوان رام کا جنم ہوا تھا۔ رام للّا کو قانونی یا غیر قانونی طور پر استھاپت کرنے کی بات اس وقت پیش آسکتی ہے جبکہ ان کی جنم بھومی کی نشاندہی پورے طور پر سامنے آئے یا کسی کو معلوم ہو۔ اجودھیا میں 16 ایسے حریف یا دعویدار ہیں جو اپنے اپنے طور پر راالزام بھومی کا تعین کرتے ہیں۔
میں راجیو گاندھی کے وقت ایسی بہت سی کوششوں میں شامل تھا جس میں تنازعے کو ختم کرنے کی بات ہورہی تھی۔ راجیو گاندھی پر بہت بڑا الزام ہے کہ انھوں نے ایک سرد خانے میں دبے ہوئے مسئلہ کو زندہ کیا، در اصل کانگریس کی چاپلوسی اور خوشامدانہ سیاست کا یہ ایک حصہ تھا۔ پارٹی نے ڈبل گیم کھیلا۔ کون نہیں جانتا ہے کہ نرسمہا راؤ نے تخت نشینی کیلئے مسجد کو مسمار کرنے میں حصہ لیا۔
مسٹر وی پی سنگھ نے مسئلہ کو سلجھانے کی جو کوششیں کیں میں نے اس میں بھی حصہ لیا۔ مسٹر ایل کے ایڈوانی کو 2.7 ایکڑ اراضی کے بدلے مسجد کے قریب 60ایکڑ زمین دینے کی بات کی گئی لیکن مسٹر ایڈوانی کی سازشی چال بس یہ تھی کہ مندر وہیں بنائیں گے جہاں بابری مسجد ہے۔ جسٹس کرشنا ایئر، بی جی ورگیز اور میں (سوامی اگنی ویش) چندر شیکھر کے ذریعہ مسئلہ کو حل کرنے کی کوشش کی۔ جب مسئلہ حل کے قریب پہنچا تو راجیو گاندھی اور ان کے رفقاء کو احساس ہوا کہ سارا کریڈٹ وزیر اعظم چندر شیکھر کو مل جائیگا جس کی وجہ سے راجیو گاندھی نے چندر شیکھر حکومت کو گرانے کا فیصلہ کیا اور ان کی حکومت سے حمایت واپس لے لی۔
جہاں تک مسلمانوں کا معاملہ ہے تو وہ اس مسئلہ کو حل کرنا چاہتے تھے تھے میں نے ا س معاملہ میں عرق ریزی کے ساتھ تحقیق کی ہے اور شواہد بھی جمع کئے۔ اس کی روشنی میں اچھی طرح سے کہہ سکتا ہوںکہ آر ایس ایس اور وی ایچ پی کا دعویٰ کسی طرح بھی صحیح (Justified) نہیں ہے۔ میں نے صاف ذہنیت کے ساتھ اس کی چھان بین کی ہے۔ تلسی داس اس وقت کے سب سے بڑے رام بھکت تھے جس کے زمانے (1528ئ) میں میر باقی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ رام مندر کو گراکر بابری مسجد کی تعمیر کی۔ تلسی داس نے بھی اپنی کسی کتاب میں اس کا تذکرہ نہیںکیا ہے۔ نہ ہی گرو گوبند سنگھ، سوامی ویویکا نند، شیوا جی نے اس کا کہیں ذکر کیا ہے کہ سرجو ندی کے کنارے رام پیدا ہوئے تھے جہاں ان کے نام پر مندر بنا ہوا تھا۔ کسی بھی کتاب یا اسکرپٹ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے جس کی وجہ سے یہ جارحیت کی تحریک کا کوئی ثبوت ہو، یہ کہنا کہ ایک عقیدہ (Faith) کی بات ہے کسی طرح بھی حق پسندی نہیں ہے نہ کوئی دلیل اور انصاف کی بات ہے۔
جو چیز میرے لئے بیحد تکلیف دہ ہے وہ اس کا فرقہ وارانہ ایجنڈا ہے جو نہایت غلط اور نقصان دہ ہے۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ رام بھگوان تھے اور بھگوان نِرادھار یعنی جس کی کوئی شکل (formless) نہیں ہوتی تو آخر جو نرادھار ہو اس کی جائے پیدائش یا جنم بھومی کی نشاندہی کیسے کی جاسکتی ہے۔ یہ انسان کی عقل و دانش کی سراسر توہین ہے کہ خدا کی شکل و صورت کو کوئی اپنےنام انداز سے تعین کرے۔میرے لئے یہ انتہائی دکھ اور تکلیف کا سبب ہے کہ بہتوں کا استحصال کیا جارہا ہے۔ نفرت اور فرقہ پرستی کا زہر گھولا جارہا ہے۔ رام کے پر یہ سب غلط کام کا پرچار ہورہا ہے۔ گاندھی جی ایک راسخ العقیدہ ہندو تھے۔ جب وہ قتل کئے گئے تو ان کی زبان پر رام کا نام تھا ’’ہئے رام‘‘۔ ان کی عقیدتمندی شک و شبہ سے بالاتر ہے۔ انھوں نے کبھی رام مندر کا مسئلہ نہیں اٹھایا۔ وہ یہ بھی کہتے تھے کہ خدا صرف مندرمیں نہیں رہتا بلکہ ہر جگہ رہتا ہے۔ وہ ایک سچے مذہبی انسان کی حیثیت سے کہتے تھے کہ خدا کسی مسجد، مندر یا چرچ میں مقید نہیں ہوتا۔ گاندھی جی نے شاید ہی کبھی کسی مندر میں وقت گزارا ہو۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ مندروں میں صفائی ستھرائی نہیں ہوتی ہے۔
اسلام اور عیسائیت سے بالکل الگ ہندو مت ایک خاندانی روحانیت پر مبنی ہوتا ہے۔ یہ میں جانتا ہوں کہ خدا پروہتوںوقت اور پنڈتوں کا جانبدار نہیں ہوتا، اس لئے کہ ہمارا گھر بھی مندر ہے۔ یہ سب اس وقت ہوا جب بڑی ذات کے لوگوں نے دھرم کو اُچک لیا اور اپنے مفاد اور سوارتھ (آرام) کیلئے اس کا استعمال جائز کرلیا۔ اس سے سناتن دھرم پنڈتوں اور پروہتوں کے قبضے میں آگیا۔ حقیقت خرافات میں کھوگئی۔ توہم پرستی، استحصال اور فریب اور دھوکہ دہی کا سلسلہ شروع ہوا۔ آج ہماری یہی سب سے بڑی کمزوری ہے کہ اس پر ہم منہ نہیں کھولتے۔ زبان بند رکھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم سرحد پار کے لوگوں سے مغلوب ہوئے۔ مغل بادشاہوں اور پھر انگریز تاجروں نے ہمیں اپنے بازو میں کرلیا۔
سناتن دھرم کے لوگ کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ توہم پرستی اور بے عقلی کے خول سے باہر نہیں آتے۔ رام جنم بھومی میں رجعت پسندی سے بے عقلی اور فرقہ پرستی کی طرف ایک بڑھتا ہوا قدم اور مارچ ہے۔ یہ ایک جنگ ہے جو سستی شہرت اور اقتدار کی کرسی حاصل کرنے کیلئے کی جارہی ہے۔ وہ لوگ جو عقیدۂ وید سے ناواقف ہیں وہی اسے ہندو مت کی ترقی کہہ سکتے ہیں اور اس کیلئے لڑائی لڑ سکتے ہیں۔ میں اس عقیدہ کو اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ اس سے میری محبت ہے۔ یہی وہ وجہ ہے کہ اس گمراہی اور ضلالت کو کسی طرح بھی قبول نہیں کرسکتا.
A perverse ploy
I shall die a miserable wretch if I don’t utter the truth I know. I follow Maharshi Dayanand. He saw paramatma (or God) as the light of truth. And truth cannot be stretched to suit convenience nor shrunk to fit cowardice.
The Ram Janmabhoomi movement is a political ploy, conceived in cynical electoral calculations, in which the faith of the masses is deployed only as firepower and fraudulently projected as religious fervour. I am surprised that anyone can determine the exact place of Lord Ram’s birth, born thousands of years ago. The question of someone usurping Ram Lalla’s real estate comes only if the exact spot of his birth is determined. There are 16 rival claimants to this distinction in Ayodhya itself.
I have participated in various efforts to settle this dispute from the time of Rajiv Gandhi. Rajiv must bear a large share of the blame for reviving this imbroglio. If ever there was a monument to the appeasement politics of the Congress, it is this issue. The party played both sides of the game. And who does not know that P V Narasimha Rao, as prime minister in 1992, connived in the demolition of the masjid, if only to get a thorn out of his path?
I participated in Prime Minister V P Singh’s effort to settle the dispute. L K Advani was offered a vast stretch of land, adjoining the site of the mosque — nearly 60 acres, in lieu of 2.7 acres. It was his shrewd unwillingness to settle the dispute that made him invent the obstinate slogan, “mandir wahin banayenge”. Justice Krishna Iyer, B G Verghese and I pursued the issue with Prime Minister Chandra Shekhar and, when matters seemed poised for a settlement, Rajiv Gandhi became worried that the credit would go to the then PM, and he brought down the four-month-old Union government on a flimsy pretext.
All along, the Muslim side of the dispute was eager to have the matter settled. I was in regular touch with Syed Shahabuddin, who was then convener of the Babri Masjid Action Committee. Then, as now, all they wanted was an assurance that other mosques would not be targeted once this ground was conceded. They also wanted an honourable exit from this issue. When they say, “let the court decide”, that is precisely what they mean. It is regrettable that the courts in this country haven’t addressed the matter head on.
My main concern is that people are being perversely misled, and their credulity exploited for political gains by those who do not care a pin for the spiritual greatness of the Vedic faith. As an ardent devotee of this incomparable spiritual heritage, I feel cheated and violated.
I have examined this matter, looking for some evidence with which to persuade myself that the RSS-VHP claim to this “disputed site” could be justified. I have drawn a blank. Tulsidas, the greatest Ram bhakt of all time, who lived at the time when the temple is alleged to have been destroyed by Mir Baqi in 1528, by the river Sarayu, does not mention it. Nor do Guru Gobind Singh, or Shivaji, or Vivekananda, or Dayanand. There is not a shred of credible evidence to legitimise this dance of aggression, which mocks God. This should be obvious to all from the assertion that “matters of faith are not justiciable”. I am a man of faith. So, I need to say: This is an unthinkably dangerous stand to take. Every atrocity, every crime, every injustice can be justified by dressing it up as faith. Faith must be rational. Blind faith is dangerous.
What hurts me most is the utter irrationality of this communal agenda. If we say that Ram is God, and God is omnipresent — and God cannot be omnipresent unless he is formless — how can we fix him to a tiny spot in a geographic location? It is an outright insult to human intelligence; what to say of the majesty of God? And it exasperates me that millions are being misled and their souls corrupted with communal hatred, using this palpable falsehood mouthed in the name of Lord Ram.
Gandhi too was a Hindu. He died with the name of Ram on his lips. His devotion cannot be doubted. Not only did the Ram Mandir issue not matter to him, he was clear that temples — indeed all places of worship — do not possess the godliness they claim. He could not accept, being a rational human being, that God sat in the form of an idol in any temple, church or mosque. Gandhi rarely wasted his time in temples; because he was in communion with God everywhere. Whenever he visited temples, he complained of their uncleanness. Sacred cities were also the dirtiest.
Hinduism, unlike Christianity or Islam, is about family-oriented spirituality. We know that God is not partial to priests. So, our home is also our temple. Only when the Vedic vision declined and caste interests gained the upper hand did priests become middle men for us. Since then, the Sanatan faith has languished under the tyranny of the priestly class, who dimmed its light with superstition, exploitative ritualism and crippling obscurantism. This has been the main reason for our weakness as a people. So, we fell easy prey to forces from beyond our borders. A bunch of Mughal conquerors and later, a rag-tag group of English merchants conquered one of the largest human collectives in history.
India will never progress unless we rid the Sanatan community of its accretion of superstition and irrationality. The Ram Janmabhoomi movement is a regression to irrationality and communal perversity. It is cast as a religious war against a community to pander to cheap popular sentiments. Only those who do not know the Vedic faith can think of this as a windfall for Hinduism. I know and love this faith, and I cannot swallow its perversion for that very reason.
The Ram Janmabhoomi movement is a political ploy, conceived in cynical electoral calculations, in which the faith of the masses is deployed only as firepower and fraudulently projected as religious fervour. I am surprised that anyone can determine the exact place of Lord Ram’s birth, born thousands of years ago. The question of someone usurping Ram Lalla’s real estate comes only if the exact spot of his birth is determined. There are 16 rival claimants to this distinction in Ayodhya itself.
I have participated in various efforts to settle this dispute from the time of Rajiv Gandhi. Rajiv must bear a large share of the blame for reviving this imbroglio. If ever there was a monument to the appeasement politics of the Congress, it is this issue. The party played both sides of the game. And who does not know that P V Narasimha Rao, as prime minister in 1992, connived in the demolition of the masjid, if only to get a thorn out of his path?
I participated in Prime Minister V P Singh’s effort to settle the dispute. L K Advani was offered a vast stretch of land, adjoining the site of the mosque — nearly 60 acres, in lieu of 2.7 acres. It was his shrewd unwillingness to settle the dispute that made him invent the obstinate slogan, “mandir wahin banayenge”. Justice Krishna Iyer, B G Verghese and I pursued the issue with Prime Minister Chandra Shekhar and, when matters seemed poised for a settlement, Rajiv Gandhi became worried that the credit would go to the then PM, and he brought down the four-month-old Union government on a flimsy pretext.
All along, the Muslim side of the dispute was eager to have the matter settled. I was in regular touch with Syed Shahabuddin, who was then convener of the Babri Masjid Action Committee. Then, as now, all they wanted was an assurance that other mosques would not be targeted once this ground was conceded. They also wanted an honourable exit from this issue. When they say, “let the court decide”, that is precisely what they mean. It is regrettable that the courts in this country haven’t addressed the matter head on.
My main concern is that people are being perversely misled, and their credulity exploited for political gains by those who do not care a pin for the spiritual greatness of the Vedic faith. As an ardent devotee of this incomparable spiritual heritage, I feel cheated and violated.
I have examined this matter, looking for some evidence with which to persuade myself that the RSS-VHP claim to this “disputed site” could be justified. I have drawn a blank. Tulsidas, the greatest Ram bhakt of all time, who lived at the time when the temple is alleged to have been destroyed by Mir Baqi in 1528, by the river Sarayu, does not mention it. Nor do Guru Gobind Singh, or Shivaji, or Vivekananda, or Dayanand. There is not a shred of credible evidence to legitimise this dance of aggression, which mocks God. This should be obvious to all from the assertion that “matters of faith are not justiciable”. I am a man of faith. So, I need to say: This is an unthinkably dangerous stand to take. Every atrocity, every crime, every injustice can be justified by dressing it up as faith. Faith must be rational. Blind faith is dangerous.
What hurts me most is the utter irrationality of this communal agenda. If we say that Ram is God, and God is omnipresent — and God cannot be omnipresent unless he is formless — how can we fix him to a tiny spot in a geographic location? It is an outright insult to human intelligence; what to say of the majesty of God? And it exasperates me that millions are being misled and their souls corrupted with communal hatred, using this palpable falsehood mouthed in the name of Lord Ram.
Gandhi too was a Hindu. He died with the name of Ram on his lips. His devotion cannot be doubted. Not only did the Ram Mandir issue not matter to him, he was clear that temples — indeed all places of worship — do not possess the godliness they claim. He could not accept, being a rational human being, that God sat in the form of an idol in any temple, church or mosque. Gandhi rarely wasted his time in temples; because he was in communion with God everywhere. Whenever he visited temples, he complained of their uncleanness. Sacred cities were also the dirtiest.
Hinduism, unlike Christianity or Islam, is about family-oriented spirituality. We know that God is not partial to priests. So, our home is also our temple. Only when the Vedic vision declined and caste interests gained the upper hand did priests become middle men for us. Since then, the Sanatan faith has languished under the tyranny of the priestly class, who dimmed its light with superstition, exploitative ritualism and crippling obscurantism. This has been the main reason for our weakness as a people. So, we fell easy prey to forces from beyond our borders. A bunch of Mughal conquerors and later, a rag-tag group of English merchants conquered one of the largest human collectives in history.
India will never progress unless we rid the Sanatan community of its accretion of superstition and irrationality. The Ram Janmabhoomi movement is a regression to irrationality and communal perversity. It is cast as a religious war against a community to pander to cheap popular sentiments. Only those who do not know the Vedic faith can think of this as a windfall for Hinduism. I know and love this faith, and I cannot swallow its perversion for that very reason.
http://indianexpress.com/article/opinion/columns/babri-masjid-demolition-ram-janmbhoomi-ayodhya-controversy-supreme-court-hindutva-a-perverse-ploy-5060052/
No comments:
Post a Comment