ایس اے ساگر
بات ’بس دویا تین بچے، ہوتے ہیں گھر میں اچھے‘ سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ’ہم دو، ہمارے دو‘ پر نوبت آئی لیکن اب ’ہم دونوں ایک، ہمارا ایک‘ کا نعرہ بلند ہوچکا ہے۔ اس رجحان نے نہ صرف شرح پیدائش پر شکنجہ کسا ہے بلکہ خواتین کو بھی ناقدری کا شکار بنادیا ہے۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں کہ دیہات اور شہروں میں معمولی امراض میں مبتلا خواتین کے رحم پر مفاد پرست اطبا اس طرح ڈاکہ ڈال رہے ہیں جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ انکشاف اگر کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا کرتا تو افوہ سمجھ کر اڑادیا جاتا لیکن خود حکومت ہند نے ایک سروے کے ذریعے بھانڈا پھوڑٹا ہے۔ جب یہ معلوم کیا گیا کہ کتنی بھارتی خواتین کو اپنے رحم آپریشن کے ذریعے نکلوانے پڑتے ہیں تو پتہ چلا کہ2013 کے دوران یہ ’ڈاکہ زنی‘ ہزاروں میں تھی۔ سروے کے مطابق ایسے آپریشن کروانے والی خواتین عموما غیر تعلیم یافتہ اور دیہاتوں کی رہنے والی ہوتی ہیں۔ تھومسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ تین فیصد بھارتی خواتین بچہ دانی نکلوانے کی سرجری کرواچکی ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں کم عمر لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ سرکاری سروے کے اعداد وشمار کے مطابق پندرہ سے انچاس برس کی سات لاکھ کے قریب خواتین میں سے بائیس ہزار قطع رحم کے عمل سے گزرچکی ہیں۔ اس تعداد نے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ایسے خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ بعض اوقات یہ آپریشن محض پیسے کمانے کے لیے غیر ضروری طور پر بھی کیے جاتے ہیں۔ سروے کے مطابق ان بائیس ہزار میں سے نصف تعداد ایسی خواتین پر مشتمل ہے جس نے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور نجی ڈاکٹروں کے ہاتھوں ان کی سرجری ہوئی۔حکومت کی جانب سے اس سروے کے لیے نامزد ماہر صحت نریندرا گپتا نے تھومس روئٹرز فاو ¿نڈیشن سے اعتراف کیا ہے کہ: ”مغرب کے برعکس جہاں زیادہ تر خواتین کے ایسے آپریشن سنِ یاس کے بعد کیے جاتے ہیں، بھارت میں چھوٹی عمر کی خواتین اس عمل سے گزر رہی ہیں۔“
عدالت کا کھٹکھٹایا دروازہ:
یہی وجہ ہے کہ گپتا نے سن 2013 سے انڈیا کی اعلیٰ ترین عدالت میں ان خواتین کو معاوضہ دلانے کے لیے مقدمہ دائر کر رکھا ہے جن کی بچے دانیاں نجی اسپتالوں میں غیر ضروری طور پر صرف سرکاری انشورنس اسکیم سے پیسہ کمانے کے لیے نکال دی گئیں۔ مقدمہ ابھی تک عدالت میں ہے۔لیکن نریندرا گپتا کے بقول: ”یہ مسئلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ بعض خواتین صرف چھوٹی سی تکلیف کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں لیکن ان کا رحم نکال دیا گیا۔“معاملہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیے کہ بچہ دانی نکال دیے جانے کے بعد ایک خاتون اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اکثر اوقات اس سرجری کے ساتھ ہی بیضہ دانیوں کو بھی نکالنا پڑ جاتا ہے جس کے بعد متاثرہ خاتون کے لئے سنجیدہ نوعیت کے متعدد طبی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔اگرچہ کئی مغربی مالک کے برعکس بھارت میں رحم مادر کی سرجری کی شرح بہت کم ہے اس کے باوجود ایک دہائی سے غیر ضروری اور منافع کمانے کی غرض سے کیے جانے والے ایسے آپریشن اس جنوبی ایشیائی ملک کی خواتین کے لیے تکلیف کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
صورت حال یہ ہے کہ بھارت میں بہت سی غیر تعلیم یافتہ اور غریب خواتین بظاہر ڈاکٹروں کا چولہ پہنے ہوئے عطائیوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں یا پھر ایسے پرائیویٹ ڈاکٹروں کے جو غریبوں کے لیے مختص سرکاری فنڈز سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے بلا ضرورت آپریشن کر دیتے ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ رہی سہی خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ خود حکومت ہند کے اندازوں کے مطابق ملک میں اسقاط حمل کے تقریباً 7 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ سرکاری تخمینے عموماً سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز سے حاصل شدہ رپورٹس پر مبنی ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی ادارے کے 193 رکن ملکوں میں سے 58 ممالک میں اسقاط حمل کی قانونی طور پر اجازت ہے۔ جبکہ 7 کے سوا تمام ممالک ماں کی جان بچانے کے لیے اسقاط کی اجازت ہے۔ ان 7 ممالک میں جنوبی سوڈان، مالٹا، ایل سلواڈور، جمہوریہ ڈومینکن، نکاراگوا اور چلی شامل ہیں۔حال ہی میں جاری ہونے والے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر عورتیں کسی طبی ماہر سے مشورہ کیے بغیر حمل گرانے کے لیے خود ہی گولیاں کھا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں بعض دفعہ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہری جھنڈی:
بھارت کا قانون اس صورت میں 20 ہفتوں سے کم کا حمل گرانے کی اجازت دیتا ہے، اگر ماں کی جان کو خطرہ ہو یا ڈاکٹر یہ محسوس کریں کہ پیدا ہونے والا بچہ شدید نوعیت کی ذہنی یا جسمانی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کی سپریم کورٹ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک 13 سالہ لڑکی کو 31 ماہ کا حمل گرانے کی اجازت تھی، جس کی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بچے کی پیدائش سے زچہ اور بچہ دونوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔خبررساں ادارے روئیٹرز کی رپورٹ کے مطابق مطالعاتی جائزے کے مصنفین نے مشورہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتالوں میں زیادہ تجربہ کار ڈاکٹر اور طبی عملہ تعینات کیا جائے تاکہ خواتین کو اس دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے۔ معروف خبر رساں ایجنسی روئیٹرز نے اپنی رپورٹ کے ذریعہ نیویارک میں قائم ایک مطالعاتی گروپ ’گاٹ ماکر کے مطالعاتی جائزے کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اسقاط حمل کے واقعات کی تعداد سرکاری اندازوں سے 22 گنا زیادہ ہے۔
قانون سمجھنے میں غلطی:
حکومت ہند کے تخمینہ کے مطابق ملک میں اسقاط حمل کے تقریباً 7 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ حکومتی تخمینے عموماً سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز سے حاصل شدہ رپورٹس پر مبنی ہوتے ہیں۔ مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حمل گرانے کے لیے سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز میں جانے والے خواتین کی تعداد 20 فی صد سے بھی کم ہوتی ہے جبکہ 80 فی صد سے زیادہ عورتیں اس مقصد کے لیے یا تو کھلے عام ملنے والی گولیوں پر انحصار کرتی ہیں، یا پھر پرائیویٹ کلینکس کا رخ کرتی ہیں تاکہ وہ نظروں میں آنے سے محفوظ رہ سکیں۔چنڈی گڑھ میں قائم پوسٹ گریجوایٹ انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کے 2016 کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اسقاط حمل کے لیے سرکاری شفاخانوں میں اس لیے جانے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ان کی 90 فی تعداد اسے غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اسی رپورٹ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ 45 فی صد نوجوان خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ اسقاط حمل کرانا غیر شادی شدہ عورتوں کا قانونی حق ہے۔
قانونی اسقاط حمل:
بات ’بس دویا تین بچے، ہوتے ہیں گھر میں اچھے‘ سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ’ہم دو، ہمارے دو‘ پر نوبت آئی لیکن اب ’ہم دونوں ایک، ہمارا ایک‘ کا نعرہ بلند ہوچکا ہے۔ اس رجحان نے نہ صرف شرح پیدائش پر شکنجہ کسا ہے بلکہ خواتین کو بھی ناقدری کا شکار بنادیا ہے۔ حالات اتنے سنگین ہوگئے ہیں کہ دیہات اور شہروں میں معمولی امراض میں مبتلا خواتین کے رحم پر مفاد پرست اطبا اس طرح ڈاکہ ڈال رہے ہیں جس کی ماضی میں نظیر نہیں ملتی۔ یہ انکشاف اگر کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا کرتا تو افوہ سمجھ کر اڑادیا جاتا لیکن خود حکومت ہند نے ایک سروے کے ذریعے بھانڈا پھوڑٹا ہے۔ جب یہ معلوم کیا گیا کہ کتنی بھارتی خواتین کو اپنے رحم آپریشن کے ذریعے نکلوانے پڑتے ہیں تو پتہ چلا کہ2013 کے دوران یہ ’ڈاکہ زنی‘ ہزاروں میں تھی۔ سروے کے مطابق ایسے آپریشن کروانے والی خواتین عموما غیر تعلیم یافتہ اور دیہاتوں کی رہنے والی ہوتی ہیں۔ تھومسن روئٹرز فاؤنڈیشن کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق سروے کے نتائج سے پتہ چلا ہے کہ تین فیصد بھارتی خواتین بچہ دانی نکلوانے کی سرجری کرواچکی ہیں۔ مزید یہ کہ ان میں کم عمر لڑکیاں بھی شامل ہیں۔ سرکاری سروے کے اعداد وشمار کے مطابق پندرہ سے انچاس برس کی سات لاکھ کے قریب خواتین میں سے بائیس ہزار قطع رحم کے عمل سے گزرچکی ہیں۔ اس تعداد نے ذہنوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے اور ایسے خدشات میں اضافہ ہوا ہے کہ بعض اوقات یہ آپریشن محض پیسے کمانے کے لیے غیر ضروری طور پر بھی کیے جاتے ہیں۔ سروے کے مطابق ان بائیس ہزار میں سے نصف تعداد ایسی خواتین پر مشتمل ہے جس نے کبھی اسکول کی شکل تک نہیں دیکھی تھی اور نجی ڈاکٹروں کے ہاتھوں ان کی سرجری ہوئی۔حکومت کی جانب سے اس سروے کے لیے نامزد ماہر صحت نریندرا گپتا نے تھومس روئٹرز فاو ¿نڈیشن سے اعتراف کیا ہے کہ: ”مغرب کے برعکس جہاں زیادہ تر خواتین کے ایسے آپریشن سنِ یاس کے بعد کیے جاتے ہیں، بھارت میں چھوٹی عمر کی خواتین اس عمل سے گزر رہی ہیں۔“
عدالت کا کھٹکھٹایا دروازہ:
یہی وجہ ہے کہ گپتا نے سن 2013 سے انڈیا کی اعلیٰ ترین عدالت میں ان خواتین کو معاوضہ دلانے کے لیے مقدمہ دائر کر رکھا ہے جن کی بچے دانیاں نجی اسپتالوں میں غیر ضروری طور پر صرف سرکاری انشورنس اسکیم سے پیسہ کمانے کے لیے نکال دی گئیں۔ مقدمہ ابھی تک عدالت میں ہے۔لیکن نریندرا گپتا کے بقول: ”یہ مسئلہ بہت بڑھ گیا ہے۔ بعض خواتین صرف چھوٹی سی تکلیف کے لیے ڈاکٹر کے پاس گئی تھیں لیکن ان کا رحم نکال دیا گیا۔“معاملہ کی سنگینی کا اندازہ لگائیے کہ بچہ دانی نکال دیے جانے کے بعد ایک خاتون اولاد پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتی۔ اکثر اوقات اس سرجری کے ساتھ ہی بیضہ دانیوں کو بھی نکالنا پڑ جاتا ہے جس کے بعد متاثرہ خاتون کے لئے سنجیدہ نوعیت کے متعدد طبی مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔اگرچہ کئی مغربی مالک کے برعکس بھارت میں رحم مادر کی سرجری کی شرح بہت کم ہے اس کے باوجود ایک دہائی سے غیر ضروری اور منافع کمانے کی غرض سے کیے جانے والے ایسے آپریشن اس جنوبی ایشیائی ملک کی خواتین کے لیے تکلیف کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
ایسا کیوں ہوتا ہے؟
صورت حال یہ ہے کہ بھارت میں بہت سی غیر تعلیم یافتہ اور غریب خواتین بظاہر ڈاکٹروں کا چولہ پہنے ہوئے عطائیوں کے چنگل میں پھنس جاتی ہیں یا پھر ایسے پرائیویٹ ڈاکٹروں کے جو غریبوں کے لیے مختص سرکاری فنڈز سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے بلا ضرورت آپریشن کر دیتے ہیں۔ عجیب بات تو یہ ہے کہ رہی سہی خواتین بھی محفوظ نہیں ہیں۔ خود حکومت ہند کے اندازوں کے مطابق ملک میں اسقاط حمل کے تقریباً 7 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ سرکاری تخمینے عموماً سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز سے حاصل شدہ رپورٹس پر مبنی ہوتے ہیں۔اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ عالمی ادارے کے 193 رکن ملکوں میں سے 58 ممالک میں اسقاط حمل کی قانونی طور پر اجازت ہے۔ جبکہ 7 کے سوا تمام ممالک ماں کی جان بچانے کے لیے اسقاط کی اجازت ہے۔ ان 7 ممالک میں جنوبی سوڈان، مالٹا، ایل سلواڈور، جمہوریہ ڈومینکن، نکاراگوا اور چلی شامل ہیں۔حال ہی میں جاری ہونے والے ایک مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر عورتیں کسی طبی ماہر سے مشورہ کیے بغیر حمل گرانے کے لیے خود ہی گولیاں کھا لیتی ہیں جس کے نتیجے میں بعض دفعہ پیچیدگیاں بھی پیدا ہو جاتی ہیں۔
سپریم کورٹ کی ہری جھنڈی:
بھارت کا قانون اس صورت میں 20 ہفتوں سے کم کا حمل گرانے کی اجازت دیتا ہے، اگر ماں کی جان کو خطرہ ہو یا ڈاکٹر یہ محسوس کریں کہ پیدا ہونے والا بچہ شدید نوعیت کی ذہنی یا جسمانی معذوری میں مبتلا ہو سکتا ہے۔ حال ہی میں بھارت کی سپریم کورٹ نے جنسی زیادتی کا نشانہ بننے والی ایک 13 سالہ لڑکی کو 31 ماہ کا حمل گرانے کی اجازت تھی، جس کی میڈیکل رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بچے کی پیدائش سے زچہ اور بچہ دونوں کی جان خطرے میں پڑ سکتی ہے۔خبررساں ادارے روئیٹرز کی رپورٹ کے مطابق مطالعاتی جائزے کے مصنفین نے مشورہ دیا ہے کہ اس سلسلے میں سرکاری اسپتالوں میں زیادہ تجربہ کار ڈاکٹر اور طبی عملہ تعینات کیا جائے تاکہ خواتین کو اس دوران پیدا ہونے والی پیچیدگیوں سے بچایا جا سکے۔ معروف خبر رساں ایجنسی روئیٹرز نے اپنی رپورٹ کے ذریعہ نیویارک میں قائم ایک مطالعاتی گروپ ’گاٹ ماکر کے مطالعاتی جائزے کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ بھارت میں اسقاط حمل کے واقعات کی تعداد سرکاری اندازوں سے 22 گنا زیادہ ہے۔
قانون سمجھنے میں غلطی:
حکومت ہند کے تخمینہ کے مطابق ملک میں اسقاط حمل کے تقریباً 7 لاکھ واقعات ہوتے ہیں۔ حکومتی تخمینے عموماً سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز سے حاصل شدہ رپورٹس پر مبنی ہوتے ہیں۔ مطالعاتی جائزے میں بتایا گیا ہے کہ حمل گرانے کے لیے سرکاری اسپتالوں اور طبی مراکز میں جانے والے خواتین کی تعداد 20 فی صد سے بھی کم ہوتی ہے جبکہ 80 فی صد سے زیادہ عورتیں اس مقصد کے لیے یا تو کھلے عام ملنے والی گولیوں پر انحصار کرتی ہیں، یا پھر پرائیویٹ کلینکس کا رخ کرتی ہیں تاکہ وہ نظروں میں آنے سے محفوظ رہ سکیں۔چنڈی گڑھ میں قائم پوسٹ گریجوایٹ انسٹی ٹیوٹ فار ریسرچ اینڈ سوشل ڈیولپمنٹ کے 2016 کے ایک سروے میں بتایا گیا ہے کہ خواتین اسقاط حمل کے لیے سرکاری شفاخانوں میں اس لیے جانے سے گریز کرتی ہیں کیونکہ ان کی 90 فی تعداد اسے غیر قانونی سمجھتی ہے۔ اسی رپورٹ کا ایک دلچسپ پہلو یہ بھی تھا کہ 45 فی صد نوجوان خواتین یہ سمجھتی ہیں کہ اسقاط حمل کرانا غیر شادی شدہ عورتوں کا قانونی حق ہے۔
قانونی اسقاط حمل:
تاہم گاٹ ماکر کی رپورٹ میں اسقاط حمل کے قانونی واقعات پر مبنی ہے۔ رپورٹ کے مطابق 5 فی صد خواتین اناڑیوں اور عطائیوں کے ہتھے چڑھ جاتی ہیں جس سے بعض صورتوں میں انہیں اپنی جان سے بھی ہاتھ دھونے پڑتے ہیں۔گاٹ ماکر کی ایک ریسرچر سوشیلا سنگھ کے بقول: بھارت میں اسقاط حمل کے سلسلے میں خواتین کو بہت سے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے کیونکہ سرکاری اسپتالوں میں اس کے لیے سہولتیں بہت کم ہیں۔ ان سہولتوں میں اضافہ کرنا اور انہیں معیاری بنانا وقت کا تقاضا ہے۔طبی جریدے لینسٹ گلوبل ہیلتھ میں شائع ہونے والی یہ رپورٹ ایک ایسی پہلی ملک گیر تحقیق ہے جس میں غیرارادی یا حادثاتی طور پر حمل ٹہر جانے کے بعد کی صورت حال کو موضوع بنایا گیا ہے۔ اس رپورٹ کی تیاری میں ریسرچرز نے بھارت کی چھ گنجان آباد ریاستوں کا سروے کیا اور 2015 میں ملک بھر میں اسقاط حمل کی گولیوں کی فروخت کے اعداد وشمار اکھٹے کیے۔
ماں بننے سے بے رغبتی:
رپورٹ کے مطابق 4 کروڑ 80 لاکھ عورتوں کو اس لیے اسقاط حمل کروانا پڑا احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کے باوجود امید سے ہوگئیں تھیں اور بچہ پیدا کرنے کا ان کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ یہ تعداد 2015 میں اسقاط حمل کروانے والی خواتین کی کل تعداد کے نصف سے زیادہ ہے۔ ایک سنسی خیز رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسقاط حمل کے ہر چار میں سے تین واقعات میں خواتین نے کسی ڈاکٹر کے پاس جانے، یا کسی طبی ماہر سے مشاورت کیے بغیر خود میڈیکل اسٹور سے گولیاں خرید کر استعمال کیں۔رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں اسقاط کے تین چوتھائی واقعات شہری علاقوں میں ہوئے جبکہ دیہی علاقوں میں یہ تعداد محض ایک چوتھائی تھی جس کی وجہ وہاں طبی سہولتوں کی کمی اور اسقاط سے متعلق ادویات کے بارے میں معلومات کا نہ ہونا تھا۔ بھارت میں ملک گیر سطح پر اس حوالے سے کبھی کوئی سروے نہیں کیا گیا۔ ممبئی میں قائم انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ فار پاپولیشن سائنسز کے ایک عہدے دارے چندر شیکھر کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے پالیسی سازوں کو تولیدی صحت کی دیکھ بھال کے اپنے پروگراموں کو بہتر بنانے اور ان کے موثر نفاذ میں مدد مل سکتی ہے۔
No comments:
Post a Comment