قرآن کریم کی سورتوں کا آغاز
امام بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ نے اپنی بے مثل کتاب ”البرھان فی علوم القرآن“ میں قرآن کریم کی سورتوں کے آغاز کے متعلق دس انواع کا ذکر کیا ہے :
1۔ حروفِ مقطعات: ان سے 29 سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران کے سوا باقی سب مکی سورتیں ہیں۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی ثنا: زرکشی نے اس کی تین ذیلی قسمیں ذکر کی ہیں:
الف: تعریف (الحمد للہ) سے 5 سورتوں کا آغاز ہوتا ہے (الفاتحۃ، الانعام، الکھف، سبا اور فاطر)
ب: برکت (تبارک اللہ) سے 2 سورتیں شروع ہوتی ہیں (الفرقان اور الملک)
ج۔ تنزیہ سے 7 سورتیں شروع ہوتی ہیں جن میں ایک سورت (بنی اسرائیل) کا آغاز مصدر (سبحان) سے ، ایک سورت (الاعلی) کا آغاز فعل امر (سبِح) سے ، تین سورتوں (الحدید ، الحشر اور الصف) کا آغاز فعل ماضی (سبَحَ) سے اور دو سورتوں ( الجمعۃ اور التغابن) کا آغاز فعل مضارع (یسبِح) سے ہوتا ہے ۔
گویا اللہ تعالیٰ کی ثنا سے شروع ہونے والی سورتوں کی کل تعداد 14 ہے ۔
3۔ ندا (جیسے یا ایھاالنبی ، یا ایھا الذین آمنوا) سے دس سورتیں شروع ہوتی ہیں ( النسآء ، المآئدۃ ، الحج ، الاحزاب ، الحجرات، الممتحنۃ، الطلاق ، التحریم ، المزمل اور المدثر) ۔
4۔ جملۂ خبریہ سے 23 سورتوں کا آغاز ہوتا ہے (الانفال، التوبۃ، النحل، الانبیآء، المؤمنون، النور، الزمر، محمد، الفتح، القمر، الرحمٰن، المجادلۃ، الحآقۃ، المعارج، نوح، القیٰمۃ، عبس، البلد، القدر، البینۃ، القارعۃ، التکاثر اور الکوثر) ۔
5۔ قسم سے 15 سورتیں (الصٰفٰت، الذٰریٰت، الطور، النجم، المرسلٰت، النٰزعٰت ، البروج، الطارق، الفجر، الشمس، اللیل، الضحیٰ، التین، العٰدیٰت اور العصر) شروع ہوتی ہیں ۔ (القیٰمۃ اور البلد کے آغاز میں بھی قسم ہے لیکن وہاں قسم فعل مضارع کی صورت میں ہے اور اس سے قبل حرف ”لا“ بھی ہے جس کی بنا پر زرکشی نے اسے جملۂ خبریہ کی نوع میں شمار کیا ہے۔)
6 ۔ شرط سے 7 سورتیں شروع ہوتی ہیں (الواقعۃ، المنٰفقون، التکویر، الانفطار، الانشقاق، الزلزال اور النصر) ۔
7۔ فعل امر سے 6 سورتیں شروع ہوتی ہیں (الجن، العلق، الکٰفرون، الاخلاص، الفلق اور الناس)، جن میں العلق کے سوا باقی پانچ “قل“ سے شروع ہوتی ہیں۔ (اوپر ذکر ہوا کہ الاعلی کا آغاز بھی فعل امر سے ہوتا ہے (سبِح) لیکن زرکشی نے اسے ثنا کی نوع میں ذکر کیا ہے۔)
8 ۔ استفہام سے 6 سورتوں (الدھر، النبا، الغٰشیۃ، الم نشرح، الفیل اور الماعون) کا آغاز ہوتا ہے۔
9 ۔ بد دعا سے تین سورتوں کا آغاز ہوتا ہے (المطففین، الھمزۃ اور لہب)۔ ان میں پہلی دو کا آغاز ”ویل“ سے ہوتا ہے ۔ مولانا اصلاحی سورۃ لہب میں “تبت یدا ابی لھب و تب“ کو بددعا کے بجاے خبر مانتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس کا نزول غزوۂ بدر کے بعد ہوا ۔ غامدی صاحب کے نزدیک یہ مکی سورت ہے اور وہ اسے پیشین گوئی مانتے ہیں جو بددعا ہی بن جاتی ہے۔
10 ۔ تعلیل سے صرف ایک سورۃ (قریش) کا آغاز ہوتا ہے۔
پروفیسر محمد مشتاق
امام بدر الدین الزرکشی رحمہ اللہ نے اپنی بے مثل کتاب ”البرھان فی علوم القرآن“ میں قرآن کریم کی سورتوں کے آغاز کے متعلق دس انواع کا ذکر کیا ہے :
1۔ حروفِ مقطعات: ان سے 29 سورتوں کا آغاز ہوتا ہے جن میں سورۃ البقرۃ اور سورۃ آل عمران کے سوا باقی سب مکی سورتیں ہیں۔
2۔ اللہ تعالیٰ کی ثنا: زرکشی نے اس کی تین ذیلی قسمیں ذکر کی ہیں:
الف: تعریف (الحمد للہ) سے 5 سورتوں کا آغاز ہوتا ہے (الفاتحۃ، الانعام، الکھف، سبا اور فاطر)
ب: برکت (تبارک اللہ) سے 2 سورتیں شروع ہوتی ہیں (الفرقان اور الملک)
ج۔ تنزیہ سے 7 سورتیں شروع ہوتی ہیں جن میں ایک سورت (بنی اسرائیل) کا آغاز مصدر (سبحان) سے ، ایک سورت (الاعلی) کا آغاز فعل امر (سبِح) سے ، تین سورتوں (الحدید ، الحشر اور الصف) کا آغاز فعل ماضی (سبَحَ) سے اور دو سورتوں ( الجمعۃ اور التغابن) کا آغاز فعل مضارع (یسبِح) سے ہوتا ہے ۔
گویا اللہ تعالیٰ کی ثنا سے شروع ہونے والی سورتوں کی کل تعداد 14 ہے ۔
3۔ ندا (جیسے یا ایھاالنبی ، یا ایھا الذین آمنوا) سے دس سورتیں شروع ہوتی ہیں ( النسآء ، المآئدۃ ، الحج ، الاحزاب ، الحجرات، الممتحنۃ، الطلاق ، التحریم ، المزمل اور المدثر) ۔
4۔ جملۂ خبریہ سے 23 سورتوں کا آغاز ہوتا ہے (الانفال، التوبۃ، النحل، الانبیآء، المؤمنون، النور، الزمر، محمد، الفتح، القمر، الرحمٰن، المجادلۃ، الحآقۃ، المعارج، نوح، القیٰمۃ، عبس، البلد، القدر، البینۃ، القارعۃ، التکاثر اور الکوثر) ۔
5۔ قسم سے 15 سورتیں (الصٰفٰت، الذٰریٰت، الطور، النجم، المرسلٰت، النٰزعٰت ، البروج، الطارق، الفجر، الشمس، اللیل، الضحیٰ، التین، العٰدیٰت اور العصر) شروع ہوتی ہیں ۔ (القیٰمۃ اور البلد کے آغاز میں بھی قسم ہے لیکن وہاں قسم فعل مضارع کی صورت میں ہے اور اس سے قبل حرف ”لا“ بھی ہے جس کی بنا پر زرکشی نے اسے جملۂ خبریہ کی نوع میں شمار کیا ہے۔)
6 ۔ شرط سے 7 سورتیں شروع ہوتی ہیں (الواقعۃ، المنٰفقون، التکویر، الانفطار، الانشقاق، الزلزال اور النصر) ۔
7۔ فعل امر سے 6 سورتیں شروع ہوتی ہیں (الجن، العلق، الکٰفرون، الاخلاص، الفلق اور الناس)، جن میں العلق کے سوا باقی پانچ “قل“ سے شروع ہوتی ہیں۔ (اوپر ذکر ہوا کہ الاعلی کا آغاز بھی فعل امر سے ہوتا ہے (سبِح) لیکن زرکشی نے اسے ثنا کی نوع میں ذکر کیا ہے۔)
8 ۔ استفہام سے 6 سورتوں (الدھر، النبا، الغٰشیۃ، الم نشرح، الفیل اور الماعون) کا آغاز ہوتا ہے۔
9 ۔ بد دعا سے تین سورتوں کا آغاز ہوتا ہے (المطففین، الھمزۃ اور لہب)۔ ان میں پہلی دو کا آغاز ”ویل“ سے ہوتا ہے ۔ مولانا اصلاحی سورۃ لہب میں “تبت یدا ابی لھب و تب“ کو بددعا کے بجاے خبر مانتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں اس کا نزول غزوۂ بدر کے بعد ہوا ۔ غامدی صاحب کے نزدیک یہ مکی سورت ہے اور وہ اسے پیشین گوئی مانتے ہیں جو بددعا ہی بن جاتی ہے۔
10 ۔ تعلیل سے صرف ایک سورۃ (قریش) کا آغاز ہوتا ہے۔
پروفیسر محمد مشتاق
http://www.suffahpk.com/quran-karem-ki-surtou-ka-aaghaz/
.............
قرآن کی تعریف
کلام اللہ المعجز المنزل علی خاتم الانبیاء والمرسلین بواسطۃ الامین جبرئیل علیہ السلام المکتوب فی المصاحف المنقول الینا بالتواتر المتعبد بتلاوتہ المبدوء بسورۃ الفاتحۃا لمختم بسورہ الناس
قرآن اللہ کا کلام ہے جو معجزہ ہے خاتم الانبیاء الرسل حضرت محمد ﷺ پر جبرئیل امین کے واسطے نازل ہوا ہے مصاحف میں اس کے حروف لکھے ہوئے ہیں ہم تک حد تواتر سے نقل چلا آیا ہے اس کی تلاوت عبادت ہے اور باعث ثواب ہے اس کی ابتداء سورۃ فاتحہ سے اوراختتام سورہ ناس پر ہوتا ہے.
قرآن کی یہ تعریف علماء اور اصولیین کے درمیان متفقہ تعریف ہے۔
طالب علوم قرآن کی کیا شان ہونی چاہیے؟
طالب علوم قرآن کی یہ شان ہونی چاہیے کہ وہ خود کو قرآنی آداب سے وابستہ اور قرآنی اخلاق سے آراستہ کرے علم سے مقصد اللہ کی رضا اور دارآخرت ہو،نہ کہ دنیا اورا س کا مال اسباب ،ا سے قرآن پر عامل ہونا چاہیے تاکہ قرآن قیامت کےدن اس کے خلاف نہیں بلکہ اس کے حق میں حجت اور سفارشی بن سکے۔ا رشاد نبوی ﷺ ہے: ”القرآن حجۃ لک او علیک“۔
”قرآ ن یا تو آپ کے حق میں سفارشی ہے یا آپ کے خلاف حجت ہے“۔ (قرطبی)
شیخ الاسلام حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں
جو قرآن کی تلاوت نہ کرے اس نے قرآن کو نظر انداز کیا جو قرآن کی تلاوت تو کرے لیکن اس کے معانی پرغوروتدبر نہ کرے اس نے بھی قرآن کو نظرانداز کیا۔ اور جو قرآن کی تلاوت بھی کرے اس کے معانی میں غور وتدبر بھی کرے لیکن اس پر عمل نہ کیا توا س نے بھی قرآن کو نظر انداز کیا۔”
ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس آیت کی طرف اشارہ کررہے ہیں کہ: ”وَقَالَ الرَّسُولُ يَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوا هَـٰذَا الْقُرْآنَ مَهْجُورًا ﴿٣٠﴾ ۔“
اورا س د ن رسول کہیں گے اے میرے پروردگا ر میری قوم نے اس قرآن کو بالکل نظر انداز کر رکھاتھا۔ (فرقان 30 قرطبی)
http://www.suffahpk.com/quran-ki-taref/
No comments:
Post a Comment