Tuesday, 27 February 2018

مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگا

مدینہ میں طاعون اور دجال داخل نہیں ہوگا
راوی: وعن أنس قال: قال رسول الله صلى الله عليه و سلم: " ليس من بلد إلا سيطؤه الدجال إلا مكة والمدينة ليس نقب من أنقابها إلا عليه الملائكة صافين يحرسونها فينزل السبخة فترجف المدينة بأهلها ثلاث رجفات فيخرج إليه كل كافر ومنافق"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مکہ اور مدینہ کے علاوہ ایسا کوئی شہر نہیں ہے جسے دجال نہ روندے گا اور مدینہ، یا مکہ اور مدینہ میں سے ہر ایک کے راستوں میں ایسا کوئی راستہ نہیں ہے جس پر صف باندھے ہوئے فرشتے نہ کھڑے ہوں جو اس شہر کی نگہبانی کرتے ہیں چنانچہ جب دجال مدینہ سے باہر زمین شور میں نمودار ہوگا تو مدینہ اپنے باشندوں کے ساتھ زلزلہ کی صورت میں تین مرتبہ ہلے گا جس کے نتیجہ میں ہی کافر و منافق مدینہ سے نکل پڑے گا اور دجال کے پاس چلا جائے گا۔ (بخاری ومسلم)
مشکوۃ شریف ۔ جلد دوم ۔ حرم مدینہ کا بیان ۔ حدیث 1292

http://www.hadithurdu.com/09/9-2-1292/
مدینہ منورہ فضائل کے آئینہ میں
اللہ تعالیٰ نے اس کائناتِ رنگ وبو میں بعض انسان کو دوسرے بعض سے افضل وبرتر بنایا ہے؛ چناں چہ انبیاء علیہم السلام کو دوسرے تمام انسانوں پر فضیلت بخشی اور پھر انسانوں میں سے علماء، صلحاء، اتقیاء، عابدین اورزاہدین کو بقیہ تمام لوگوں پر پھر بقیہ لوگوں میں سے عام مومنین کو کفار ومشرکین پر ؛لیکن فضیلت وبرتری ایک ایسی چیز ہے جس کا دائرہ صرف انسان تک محدود نہیں ہے؛ بلکہ نوع انسان سے متجاوز ہوکر حیوانات، نباتات امکنہ ومقامات تک پہنچتا ہے؛ چناں چہ حق سبحانہ وتعالیٰ نے مقامات وامکنہ میں سے بھی بعض مخصوص ومقدس مقامات کو دوسرے بعض پر فوقیت بخشی ہے، ان ہی مخصوص ومقدس مقامات میں سے دار ہجرتِ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  بھی ہے؛ کیوں کہ اس مقدس سرزمین کے ساتھ بہت سے امتیازات جڑے ہوئے ہیں اور یہ مبارک زمین بہت سے فضائل ومناقب کی حامل ہے، یہ وہ سرزمین ہے جس کی طرف (کفار مکہ اور اہل طائف کے ایمان سے مایوس ہوکر) خاتم الرسل آقائے دو جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ہجرت فرمائی اور اپنی زندگی کے آخری دس سال یہیں گذارے، یہی وہ سرزمین ہے جس کی طرف اپنی جان اور اسلام کی حفاظت کی خاطر کفارمکہ کے ظلم وستم سے پریشان وتنگ آکر صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے ہجرت کی اور ا من واطمینان کے ساتھ زندگی گذاری یہی وہ سر زمین ہے، جہاں سے اسلام دنیا میں پھیلا اور قوت وشوکت حاصل ہوئی، یہی وہ سرزمین ہے جہاں کے باشندوں نے قدم قدم پر ا للہ کے حبیب محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیا حتی کہ اپنی جانوں کو نبی  صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان کرنے سے گریز نہیں کیا، اسی وجہ سے اللہ کی طرف سے ان کو انصار کا لقب ملا اوراللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں جا بجا ان کی تعریف کی؛ چناں چہ قرآن کریم میں ہے:  
وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُوا الدَّارَ وَالْإِیْمَانَ مِن قَبْلِہِمْ یُحِبُّونَ مَنْ ہَاجَرَ إِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُونَ فِیْ صُدُورِہِمْ حَاجَةً مِّمَّا أُوتُوا، وَیُؤْثِرُونَ عَلَی أَنفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَةٌ وَمَن یُوقَ شُحَّ نَفْسِہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُون․(الحشر:۹) ترجمہ: اور یہ مال فئ ان لوگوں کے لیے ہے جنہوں نے ان سے پہلے (مدینہ کے)گھر وں میں ٹھکانہ بنایا اور ایمان لائے، وہ محبت کرتے ہیں ان لوگوں سے جنہوں نے ان کی طرف ہجرت کی اور اپنے دلوں میں کوئی تنگی نہیں پاتے ہیں، اس مال غنیمت سے جوان کو دیا جائے اور وہ(ان کو) خود پر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ ان کو فاقہ کرنا پڑے اور جو شخص اپنے نفس کے بخل سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ کامیاب ہیں۔
قرآن کریم نے اس آیت میں انصار کے چند اوصاف حمیدہ بیان کیے ہیں:
(۱) ان کے دلوں میں مہاجرین کی محبت ہے۔
 (۲) اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم مہاجرین کو ان کے فقر و غربت کی وجہ سے مالِ غنیمت میں سے کچھ زیادہ دے دیں تو وہ تنگ دل اور پریشان نہیں ہوتے۔
(۳) کھانے پینے، رہنے سہنے کی چیزوں میں یہ لوگ مہاجرین کو خود پر ترجیح دیتے ہیں اگر چہ ان کو فاقہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
آگے اللہ تعالیٰ نے ایک قاعدہ کلیہ بیان فرمایا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں بخل اور مال ودولت کی حرص نہیں ہوتی تو وہ لوگ کامیاب وکامران ہوتے ہیں، اس سے صحابہٴ کرا
م رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے کامیاب وبامراد ہونے کی طرف اشارہ کرنا مقصود ہے؛ اس لیے کہ صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دل بھی بخل اور مال ودولت کی حرص سے محفوظ ہیں، اسی طرح غزوہٴ بدر کے موقع پر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے أشیروا عليّ أیہا الناس کہہ کر انصار کی رائے معلوم کی تو انصار کے سردار سعد بن معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جواب دیا تھا کہ اے اللہ کے رسول ہم آپ پر ایمان لائے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کی تصدیق کی ہے، اگر آپ ہم کو دریا میں کودنے کا حکم دیں گے تو ہم دریا میں کودنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔
الغرض قرآن واحادیث اور کتب تواریخ میں انصار کے بے شمار فضائل ومناقب بیان کیے گئے ہیں، جو خود ایک مستقل موضوع ہے، جس کے لیے سیکڑوں صفحات کی ضرورت ہے، یہاں احقر نے ضمناً ان کے چند فضائل کا اس لیے تذکرہ کردیا ہے کہ مکان ومکین کی فضیلت ایک دوسرے کو مستلزم ہے، اب احادیث کی روشنی میں مدینہ منورہ کے فضائل ملاحظہ فرمائیں۔
مدینہ منورہ کے لیے برکت کی دعاء
مدینہ منورہ کی سرزمین، اس کے پھل، پیمانے اور مُد کے لیے برکت کی دعاء فرمائی ہے؛ چناں چہ مسلم شریف کی حدیث ہے: ابوہریر
ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ باغ کا سب سے پہلا پھل دیکھتے تو اس کو لے کر نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضر ہوتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اس کو لیتے اور یہ دعاء فرماتے کہ اے اللہ ہمارے پھل میں برکت عطا فرما، ہمارے شہر میں برکت فرما، ہمارے صاع میں برکت فرما اور ہمارے مد میں برکت فرما، اے اللہ بیشک ابراہیم  تیرے بندے، تیرے خلیل اور تیرے نبی ہیں اور بیشک انھوں نے تجھ سے مکہ کے لیے دعا ء کی اور میں بھی مدینہ کے لیے اس طرح کی دعاء کرتا ہوں، جیسا کہ ابراہیم  نے مکہ کے لیے دعاء کی اور ایک گنا زیادہ وہ حدیث درج ذیل ہے:
وعنہ (أبي ہریرة رضی اللہ عنہ) قال کان الناس إذا رأوا أول الثمرة جاء وابہ إلی النبي صلی اللہ علیہ وسلم فإذا أخذہ قال اللہم بارک لنا في ثمرنا وبارک لنا في مدینتنا وبارک لنا في صاعنا وبارک لنا في مدنا، اللہم إن إبراہیم عبدک وخلیلک ونبیک وإني عبدک ونبیک وإنہ دعاک لمکة وأنا أدعوک للمدینة بمثل ما دعاک لمکة ومثلہ معہ․(مسلم ۱/۴۴۲باب فضل المدینة،مؤطأمالک کتاب جامع الدعأ باب فضل المدینة ۳۵۸)
آب وہوا کی درستگی اور وبائی مرض کے لیے دعاء
جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام 
رضی اللہ تعالیٰ عنہم مدینہ منورہ تشریف لائے تو مدینہ کے قیام کے زمانہ میں حضرت ابو بکر اور بلال رضی اللہ عنہما بخار میں مبتلا ہوگئے یہ ایک سخت قسم کا بخار تھا جو وباء کی شکل میں اہل مدینہ کو آتاتھا اور جس کو آتاتھا کمزور کردیا کرتاتھا، جس سے صحابہٴ کرام  رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مدینہ منورہ سے بددل ہونے کا بھی اندیشہ تھا، اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے دعاء فرمائی: اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا فرمادیجیے جیسا کہ ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے یا اس سے بھی زیادہ،مدینہ کی آب وہوا کو درست کردیجیے اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کردیجیے۔(جحفہ مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک بستی تھی جہاں کے باشندے یہودی تھی) اللہ تعالیٰ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی یہ دعاء قبول فرمائی اور بخار کو ان لوگوں کی طرف منتقل کردیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اس کے متعلق ایک خواب بھی نقل کیا گیا ہے وہ فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ میں نے خواب میں ایک کالی عورت دیکھی جس کے سرکے بال پراگندہ تھے، مدینہ سے نکلی اورمہیعہ میں جاکر اتر گئی تو میں نے اس کی تعبیر لی کہ مدینہ کی وباء مہیعہ کی طرف منتقل کردی گئی (مہیعہ جحفہ کا ہی نام تھا) جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث سے معلوم ہوتا ہے۔
(الف) عن عائشة رضی اللہ تعالی عنہا قالت لما قدم المدینة وعک أبو بکر وبلال فجئت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فأخبرتہ فقال: اللہم حبب إلینا المدینة کحبنا مکة أو أشد وصححہا وبارک لنا في صاعہا ومدہا وانقل حمّاہا فاجعلہا بالجحفة․(بخاری ۲۵۳ باب بلا عنوان اختصارا، مؤطأمالک ہ۳۶باب ماجا ء فی وباء المدینة مختصر من حدیث طویل)
ترجمہ: حضرت عائشہ
رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  مدینہ تشریف لائے تو ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ بخارمیں مبتلا ہوگئے تو میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے پاس آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کو خبردی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ دعاء فرمائی: اے اللہ ہمارے دلوں میں مدینہ کی محبت پیدا فرما جیسا کہ ہمارے دلوں میں مکہ کی محبت ہے یا اس سے بھی زیادہ، اس کی آب وہوا کو درست کردیجیے اور ہمارے لیے برکت پیدا فرما اس کے صاع میں اور اس کے مد میں اور اس کے بخار کو جحفہ کی طرف منتقل کردیجیے۔
(ب) عن عبد اللہ بن عمرو في روٴیا النبي صلی اللہ علیہ وسلم فيالمدینة رأیت امرأة سوداء ثائرة الرأس خرجت من المدینة حتی نزلت مہیعة فتأولتہا أن وباء المدینة نقل إلی مہیعة وہي الجحفة (مختصرصحیح البخاری باب من کذب فی حلمہ۴/۲۶۲)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے خواب کے بارے میں مدینہ کے قیام کے زمانہ میں: میں نے ایک کالی عورت کو خواب میں دیکھا جس کے سر کے بال بکھرے ہوئے تھے جو مدینہ سے نکلی اور مہیعہ میں اتر گئی میں نے اس کی تعبیر لی کہ مدینہ کی وباء مہیعہ یعنی جحفہ کی طرف منتقل کردی گئی۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدینہ منورہ سے محبت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کو مدینہ بہت عزیز اور محبوب تھا؛ چناں چہ حضرت انس
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب سفرسے آتے اور مدینہ کی دیواروں پر نظر پڑتی تو اپنی اونٹنی تیز کردیتے اور اگر اونٹنی کے علاوہ کوئی دوسری سواری ہوتی تو اس کو تیز کردیتے، انھیں سے ایک دوسری حدیث میں منقول ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ کے اُحدپہاڑ کے بارے میں فرمایا کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں ، جیسا کہ احادیث ذیل میں اس کی تصریح ہے:
عن أنس رضی اللہ عنہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم کان إذا قدم من سفر فنظر إلی جدرات المدینة أوضع راحلتہ وإن کان علی دابة حرکہا من حبہا(بخاری۱/۲۵۳باب بلاعنوان)
ترجمہ: حضرت انس
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  جب کسی سفر سے واپس آتے اور مدینہ کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی اونٹنی کو تیز کردیتے اور اگر دوسری سواری پرہوتے اس کو تیز کردیتے اور یہ سب مدینہ سے محبت کی وجہ سے تھا۔
وعنہ أن النبي صلی اللہ علیہ وسلم أن ا لنبي صلی اللہ علیہ وسلم طلع لہ أحد فقال ہذا جبل یحبنا ونحبہ (مؤطأ مالک ،کتاب الجامع، باب ما جاء فی أمر المدینة۳۶۱)
ترجمہ: حضرت انس
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو جب احد پہاڑ دکھائی دیتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے کہ یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔
فائدہ: اس حدیث میں ”ہذا جبل یحبنا ونحبہ“ کی شرح میں محدثین کی دو رائیں ہیں:
(۱) یہ حدیث مجاز پر محمول ہے اورپہاڑ کے محبت کرنے کا مطلب ہے کہ اس پہاڑ کے قریب رہنے والے لوگ یعنی اہل مدینہ جو صاحب ایمان وتوحید ہیں ہم سے محبت کرتے ہیں اور ہم ان سے محبت کرتے ہیں۔
(۲) یہ حدیث اپنے ظاہر پر محمول ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ بعض دفعہ جمادات میں بھی علم ودانائی، محبت وعداوت پیدا فرمادیتے ہیں، جیسا کہ وہ ستون جس پر ٹیک لگا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  خطبہ دیا کرتے تھے جب منبر تیار ہوگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  منبر پر خطبہ دینے لگے اور ستون پر ٹیک لگا کر خطبہ دینا ترک فرمادیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے جدائی کے غم میں رونے لگا۔
الغرض خواہ یہ حدیث ظاہر پر محمول ہو یا مجاز پر دونوں صورتوں میں مدینہ کی حرمت وعظمت کی طرف مشیر ہے،اگر ظاہر پر محمول ہو تو اس لیے کہ اس حدیث سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور صحابہٴ کرام
رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا مدینہ کے پہاڑ احد سے محبت کرنا اور پہاڑ کا آپ اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے محبت کرنا ثابت ہوتا ہے اور مجاز پر محمول ہو تو؛ اس لیے کہ اس حدیث سے اہلِ مدینہ کا آپ اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے محبت کرنا ثابت ہوتا ہے اور آپ اور آپ کے صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا اہل مدینہ سے، گویا اہل مدینہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کے صحابہٴ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے نزدیک محبوب ہیں تواہلِ مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی اور مکین کی فضیلت مکان کی فضیلت کومستلزم ہوتی ہے، لہٰذا مدینہ کی فضیلت ثابت ہوئی۔
مدینہ منورہ کی حرمت وعظمت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ کو مکرم ومحترم قرار دیا ہے؛ حتی کہ بعض احادیث میں اس کے خاردار درختوں کے کاٹنے اور شکار کرنے سے منع کیا ہے، اور بعض احادیث میں فرمایا ہے کہ اگر تم میں سے کوئی کسی کو حرمِ نبوی میں شکار کرتا ہوا دیکھے تو اس کا سامان چھین لے؛ چناں چہ اسی حدیث کے پیش نظر ایک صحابی سعد بن ابی وقاص
رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک غلام کو حرمِ نبوی میں شکار کرتے ہوئے دیکھا تو اس کے کپڑے چھین لیے اس غلام کے مالکان آئے اور کپڑے مانگے تو سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کپڑے نہیں دیے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان سنایا من أخذ أحدا یصید فیہ فلیسلبہ،وہ احادیث مندرجہ ذیل ہیں:
(الف) عن علي رضی اللہ عنہ قال ما کتبنا عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلا القرآن ومافي ہذہ الصحیفة قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم المدینة حرام ما بین عیر إلی ثور فمن أحدث فیہا حدثا أو آوی محدثا فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین لا یقبل منہ صرف ولا عدل( بخاری۱/۲۵۱،۲۵۲باب حرم المدینة۔ ابو داؤد۱/۲۷۸باب تحریم المدینة
ترجمہ: حضرت علی
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سوائے قرآن اور جو کچھ اس صحیفے میں کچھ نہیں لکھا، انھوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے، مدینہ محترم ومکرم ہے عیر اور ثور(مدینہ کی دو پہاڑیاں) کے درمیان سو جو شخص اس میں کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو ٹھکانہ دے تو اس پر اللہ، فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے، اس کی کوئی فرض اور نفل نماز قبول نہیں ہوگی۔
(ب) عن سعد قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إني أحرم ما بین لابتي المدینة أن یقطع عضاہا أو یقتل صیدہا(مصنف ابن ابی شیبہ باب مساحة حرم المدینة۷/۲۹۵)
ترجمہ: حضرت سعد
رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے : میں حرام قرار دیتا ہوں اس علاقے کو جو مدینہ کی دو پہاڑیوں کے درمیان ہے، یعنی اس بات کو کہ اس کے خاردار درختوں کو کاٹا جائے یا اس کے شکار کو قتل کیا جائے۔
(ج) عن سلیمان بن أبي عبد اللہ قال رأیت سعد بن أبي وقاص أخذ رجلا یصید في حرم المدینة الذي حرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فسلبہ ثیابہ فجاء موالیہ فکلموہ فیہ فقال إن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حرم ہذا الحرم وقال من أخذ أحدا یصید فیہ فلیسلبہ فلا أرد علیکم طعمة أطعمنیہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ولکن إن شئتم دفعتُ إلیکم ثمنہ) أبوداؤدباب تحریم المدینة۱/۲۷۸ )
ترجمہ: حضرت سلیمان بن ابو عبد اللہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا : میں نے سعد بن ابی وقاص کو دیکھا کہ انھوں نے ایک آدمی کو پکڑا جو حرم مدینہ میں جس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرارم قرار دیا ہے شکار کررہا تھا تو انھوں نے اس کے کپڑے چھین لیے تو اس کے مالکان آئے اور اس کو چھوڑنے کے بارے میں گفتکو کی تو سعد نے جواب دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرم مدینہ کو محترم قرار دیا ہے اور فرمایا کہ جو کسی کو حرم مدینہ میں شکار کرتا ہوا پکڑے تو چاہیے کہ وہ اس کا سامان چھین لے؛ لہٰذا میں تمہیں وہ رزق نہیں لوٹاوٴں گا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے عنایت کیا ہے؛ البتہ اگر تم چاہو تو میں اس کی قیمت لوٹا دوں۔
نوٹ: احادیث مذکورہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے حرم نبوی کو حرام قرار دیا ہے جس طرح کہ حرم مکی کو حرام قرار دیاہے؛ لیکن ان احادیث میں حرام سے حرام شرعی مراد نہیں ہے؛ بلکہ حرام بمعنی معظم ومحترم ہے؛ اس لیے فقہاء احناف کے یہاں حرم نبوی کی خاردار گھاس اور اس کے شکار کو قتل کرنا شرعی اعتبار سے حرام نہیں ہے؛ البتہ مکروہ ہے، جب کہ حرم مکی کو اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے، اس سے حرام شرعی مراد ہے؛ لہٰذا حرم مکی کی گھاس کو کاٹنا اور اس میں شکار کرنا شرعا حرام ہوگا؛ لیکن خواہ احادیث مذکورہ میں حرام بمعنی معظم ومحترم ہو یا حرام بمعنی شرعی ہو دونوں صورتوں میں حرم نبوی کی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔
کما في حاشیة المشکاة: قال التوربشتي قولہ صلی اللہ عیلہ وسلم حرمت المدینة أراد بذلک التحریم التعظیم دون ما عداہ من الأحکام المتعلقة بالحرم․․․․․․․ قال الطیبي: المشہور من مذہب مالک والشافعي أنہ لا ضمان في صید المدینة وقطع شجرہا بل ذلک حرام بلا ضمان فقال بعض العلماء یجب الجزاء کحرم مکة وقال بعضہم لا یحرم أیضا وہو مذہبنا أنہ یکرہ․
ترجمہ: حاشیہ مشکوٰة میں ہے: علامہ تورپشتی نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا یہ فرمان ”حرمت المدینة“ اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی مراد تعظیم ہے نہ کہ وہ دوسرے احکام جو حرم مکی سے متعلق ہیں صلی اللہ علیہ وسلم علامہ طیبی نے کہا ہے کہ امام مالک اور امام شافعی رحمہما اللہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ مدینہ کے شکار اور اس کے درختوں کو کاٹنے میں کوئی ضمان نہیں ہے؛ بلکہ وہ حرام ہے بغیر ضمان کے لازم ہوئے، بعض علماء نے کہا کہ جزاء(بدلہ) واجب ہے، حرم مکی کی طرح اور بعض نے کہا کہ حرام نہیں ہے اور یہ ہی ہمارا مذاہب ہے کہ (درختوں کو کاٹنا اور شکارکرنا) حرام نہیں بلکہ مکروہ ہے۔
مدینہ منورہ کی طرف ہجرت کا حکم
نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس مقدس بستی کی طرف ہجرت کرنے کا حکم دیا گیا؛ چناں چہ حدیث شریف میں ہے:
عن أبي ہریرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم أمرت بقریة تأکل القری یقولون یثرب وہي المدینة(بخاری باب فضل المدینةوإنہاتنفی الناس ۱/۲۵۲۔مسلم باب المدینة تنفی خبثہاویسمی طایة وطیبة۱/۴۴۴)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ مجھے ایسی بستی کی طرف (ہجرت کا) حکم دیا گیا جو دوسری بستیوں کو کھا جائے گی اور وہ مدینہ ہے۔
مدینہ منورہ اور مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب
مدینہ منورہ میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک حج اور عمرہ کے برابر ہے، جیسا کہ حضرت عمر سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں : میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم  سے سنا دراں حالیکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  وادی عقیق میں تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم  فرماتے تھے کہ میرے پاس ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ اس مبارک وادی (مدینہ منورہ میں نماز پڑھو اس میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک حج اور عمرہ کے برابر ہے، وہ حدیث مندرجہ ذیل ہے:
عن ابن عباس رضی اللہ عنہ قال قال عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وہو بوادي العقیق یقول أتاني اللیلة آت من ربي فقال صل في ہذا الوادي المبارک وقل عمرة في حجة وفي روایة قل عمرة وحجة( بخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم العقیق۲/۱۳۵)
علاوہ ازیں اسی مقدس زمین میں مسجد نبوی واقع ہے، جس میں نماز پڑھنے کا ثواب ایک ہزار نمازوں کے برابر ہے اور بعض روایات میں ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے، وہ حدیث درج ذیل ہے:
”صلاة في مسجدي ہذا تعدل ألف صلاة فیما سواہ إلا المسجد الحرام“ مسلم۱/۴۴۷، (صحیح ابن خزیمہ ط۳باب اختیار صلاة المرء ة فی مخدعہا ۲/۸۱۵)
ترجمہ: میری اس مسجد میں ایک نماز کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر ہے جو اس کے علاوہ دوسری جگہوں میں پڑھی جائیں سوائے مسجد حرام کے۔(شامی۲/۴۲۲)
علامہ شامی نے یہ حدیث افضل المساجد (سب سے افضل مسجد ) کی بحث میں ذکر کی ہے؛ چنانچہ کہا ہے کہ سب سے افضل مسجد مسجد حرام ہے اس کے بعد مسجد نبوی ہے جیسا کہ اس حدیث سے پتہ چلتا ہے اس لیے کہ اس میں مسجد نبوی میں نماز پڑھنے کا ثواب ہزار نمازوں کے برابر بتایا گیا ہے؛ مگر مسجد حرام مستثنیٰ ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب اس سے زیاد ہ ہے۔
روضہٴ مبارک کی زیارت کا ثواب
اس مبارک سرزمین میں روضہٴ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  ہے جس کے متعلق آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس شخص نے میری زیارت کے لیے سفر کیا اور سفر سے اس کا مقصد میری زیارت ہی تھا تو وہ قیامت کے دن میرا پڑوسی ہوگا، اورایک دوسری حدیث میں ہے جس شخص نے حج کیا اور میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے جیسا کہ زندگی میں اس نے میری زیارت کی؛ چنانچہ مشکوٰة شریف میں ہے:
عن رجل من آل الخطاب عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال من زارني متعمدا کان في جواري یوم القیامة (شعب الایمان باب فضل الحج والعمرة۶/۴۸،المعجم الأوسط باب من اسمہ جعفر۳/۳۵۱)
ترجمہ: خطاب کی اولاد میں سے ایک شخص سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : جس شخص نے بقصد وارادہ میری زیارت کی تو وہ قیامت کے دن میرا پڑوسی ہوگا۔
عن ابن عمر مرفوعا من حج فزار قبري بعد موتي کمن زارني في حیاتي (شعب الایمان باب فضل الحج والعمرة۶/۴۸)
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے مرفوعاً روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا جس شخص نے حج کیا اور مرنے کے بعد میری قبر کی زیارت کی تو وہ ایسا ہے جیسا کہ میری زندگی میں اس نے میری زیارت کی۔
مدینہ کی پریشانیوں پر صبر کی فضیلت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مدینہ منورہ کے بارے میں فرمایا ہے جس شخص نے مدینہ کی مشکلوں، اس کی پریشانیوں اور مشقتوں (گرمی، بخار وغیرہ) کو برداشت کیا تو میں اس کے لیے گواہ ہوں گا اور قیامت کے دن اس کا سفارشی ہوں گا، جیسا کہ مشکوٰة شریف میں ہے:
عن رجل من آل الخطاب عن النبي صلی اللہ علیہ وسلم قال ․․․․․․․ من سکن المدینة وصبر علی بلائہا کنت لہ شہیدا ومشفعا یوم القیامة(مسلم شریف باب الترغیب فی سکن المدینة والصبر۲/۴ہ۱)
ترجمہ: آل خطاب میں سے ایک شخص سے روایت ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا: جو شخص مدینہ میں رہائش اختیار کرے اور اس کی مشقتوں پر صبر کرے تو میں اس کے لیے گواہ ہوں گا اور قیامت کے دن اس کا سفارشی ہوں گا۔
ایک دوسری حدیث میں حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا :میری امت کا کوئی فرد مدینہ کی سختی اور پریشانی پر صبر نہیں کرے گا مگر یہ کہ قیامت کے دن میں اس کے لیے سفارشی ہوں گا۔( مسلم شریف۱/۴۴۴)
اسی طرح ایک اور حدیث میں یہ مضمون مذکور ہے: جو شخص مدینہ کی پریشانیوں اور اس کی مشقتوں کو برداشت کرے گا میں قیامت کے دن اس کے لیے سفارشی یا گواہ ہوں گا (نسائی ۴/۲۵۹) یعنی اگر وہ شخص گنہگار ہے تو سفارشی ہوں گا اور اگر گناہوں سے محفوظ ہوگا تو میں گواہ ہوں گاکہ اس نے مدینہ کی مشقتوں کو برداشت کیا ، اس کی پریشانیوں کو جھیلا ہے؛ لہٰذا اس کے اجر و ثواب میں اضافہ کیا جائے گا۔
بد کرداروں سے مدینہ منورہ کا تحفظ
مدینہ کے فضائل ومناقب میں یہ بھی ایک قابل تذکرہ فضیلت ہے کہ مدینہ میں فاسق، فاجر اور حدود اللہ سے تجاوز کرنے والوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے؛ چنانچہ مدینہ منورہ وقتا فوقتا اس طرح کے لوگوں کو باہر پھینکتا رہتا ہے، اس طرح کا ایک واقعہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے دور میں بھی رونما ہوا، اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک دیہاتی نے مدینہ میں آکر نبی صلی اللہ علیہ وسلم  سے بیعت کی اتفاق سے اس دیہاتی کو بخار آگیا تو وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کی خدمت میں حاضرہوا اور کہا کہ اے محمد میری بیعت توڑ دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انکار کیا پھر دوبارہ آیا اور کہا کہ اے محمد میری بیعت توڑ دو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے انکار کیا پھر سہ بارہ آیا اور یہی جملہ دہرایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے پھر انکار کیا اس کے بعد وہ دیہاتی مدینہ سے چلا گیا تو اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا: مدینہ کی مثال بھٹی کی طرح ہے کہ جس طرح بھٹی میں لوہا رکھا جائے تو میل کچیل دور ہوجاتا ہے اور آئینہ کی طرح صاف وشفاف ہوجاتا ہے، اسی طرح مدینہ بھی بدکار، بد عقیدہ، فاسق، فاجر، کافر، منافق لوگوں کو وقتا فوقتا باہر پھینکتا رہتا ہے اور صالح، متقی، عابد،زاہد اور خدا سے لو لگانے والوں کو پناہ دیتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک چلتا رہے گا، یہاں تک کہ قرب قیامت میں مسیح دجال کا ظہور ہوگا جو دنیا کے چپے چپے کو چھان مارے گا، کوئی ایسی جگہ نہیں ہوگی جہاں اس کے منحوس اور ناپاک قدم نہ پہنچے ہوں گے؛ لیکن یہ ملعون مدینہ کی سرزمین میں قدم نہیں رکھ سکے گا؛ کیوں کہ مدینہ کے ہر راستے پر اللہ کی طرف سے فرشتے مقرر ہوں گے جو حفاظت کے لیے صف بستہ کھڑے ہوں گے؛ اس لیے مدینہ کے قریب سنگلاخ زمین میں اترے گا اس وقت مدینہ منورہ تین مرتبہ لرزے گا اور مدینہ میں جتنے کفار ومشرکین، فساق وفجار ہوں گے سب کو باہر پھینک دے گا جو سب دجال کے پاس آکر جمع ہوجائیں گے جیسا کہ احادیث ذیل سے معلوم ہوتا ہے۔
(الف) عن أبي ہریرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: لا تقوم الساعة حتی تنفي المدینة شرارہا کما ینفي الکیر خبث الحدید( مسلم ۱/۴۴۴باب صیانة المدینة من دخول الطاعون والدجال الیہا )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ ا نہوں نے فرمایا: نبی  صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے قیامت قائم نہیں ہوگی تاآنکہ مدینہ بدکار لوگوں کو دور کردے جس طرح بھٹی فولاد(لوہے) کے میل کچیل کو دور کردیتی ہے۔
(ب) وعنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی أنقاب المدینة ملائکة لا یدخلہا الطاعون ولا الدجال(بخاری ۱/۲۵۲ باب لا یدخل الدجال المدینة، مسلم ۱/۴۴۴ باب صیانة المدینة من دخول الطاعون والدجال )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے ہی روایت ہے انھوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: مدینہ کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں؛ اس لیے طاعون او ردجال اس میں داخل نہیں ہوسکتے۔
وعن أنس رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لیس من بلد إلا سیطأہ الدجال إلا مکة والمدینة لیس نقب من أنقابہا إلا علیہ الملائکة صافیین یحرسونہا فینزل السبخة فترتجف المدینة بأہلہا ثلث رجفات فیخرج إلیہ کل کافر ومنافق (بخاری ۱/۲۵۳ باب لا یدخل الدجال المدینة)
ترجمہ: حضرت انس سے روایت ہے انھوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: کوئی شہر نہیں ہوگا جہاں دجال کے قدم نہ پہنچے ہوں گے سوائے مکہ اور مدینہ کے؛ اس لیے کہ مدینہ کے ہر راستے پر فرشتے صف بستہ کھڑے ہوں گے جو اس کی حفاظت کریں گے تو وہ مدینہ کے قریب سنگلاخ زمین میں اترے گا اور مدینہ اپنے باشندوں کے ساتھ تین مرتبہ لرزے گا تو سب کافر ومنافق نکل کر اس کی طرف چلے جائیں گے۔
مدینہ منورہ میں انتقال کی فضیلت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے مومنین کو مدینہ منورہ میں انتقال کرنے کی ترغیب دی ہے؛ چنانچہ عبد اللہ بن عمر سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ جس شخص کے بس میں ہو کہ وہ مدینہ میں انتقال کرے اس کو چاہیے کہ مدینہ ہی میں انتقال کرے اس لیے کہ جو شخص مدینہ میں انتقال کرے تو میں اس کے لیے سفارشی ہوں گا۔
یحییٰ بن سعید کی حدیث میں ایک واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ مدینہ منورہ میں ایک شخص کا انتقال ہوگیاتھا، اس کی قبر کھودی جارہی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  قبر کے پاس تشریف فرماتھے کہ اچانک ایک آدمی نے قبر میں جھانک کر دیکھا اور اس کی زبان سے یہ الفاظ نکلے” مومن کی خوابگاہ کیا ہی بری ہے“ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ سن کر فرمایا کہ تونے کیا ہی بری بات کہی اس شخص نے کہا کہ میرا مقصد مدینہ کی برائی کرنا نہیں ہے؛ بلکہ میرا مقصد ہے کہ اللہ کے راستے میں شہید ہونا اس سے زیادہ بہتر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ ایسا نہیں ہے بلکہ مدینہ میں انتقال کرجانا اس سے زیادہ بہتر ہے اور ارشاد فرمایا کہ روئے زمین پر کوئی مقام نہیں ہے جہاں پر مرنا مجھے مدینہ کے مقابلے زیادہ محبوب ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث کا مضمون ہے۔
عن ابن عمر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم من استطاع أن یموت بالمدینة فلیمت بہا فإني أشفع لمن یموت بہا․ (سنن ابن ماجة الأرنؤوط باب فضل المدینة ۴/۲۹۲، مواردالظمآن الی زوایٴد ابن حبان ت حسین اسد․ باب فضل مدینة سیدنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۳/۳۵۸)
ترجمہ: حضرت ابن عمر سے مروی ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے کہ جس شخص کے بس میں ہو کہ مدینہ میں انتقال کرے تو چاہیے کہ وہ مدینہ ہی میں انتقال کرے؛ اس لیے کہ میں اس شخص کا سفارشی ہوں گا جو مدینہ میں انتقال کرے۔
عن یحي بن سعید أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کان جالسا وقبر یحفر بالمدینة فاطلع رجل في القبر فقال: بئس مضجع الموٴمن، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بئسما ما قلت، قال الرجل لم أرد ہذا وإنما أردت القتل في سبیل اللہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لا مثل القتل في سبیل اللہ ما علی الأرض بقعة أحب إليَّ أن یکون قبري بہا منہا ثلث مرات (مؤطأ مالک، الأعظمی باب الشہداء فی سبیل اللہ، ترمذی شاکر۵/۷۱۹باب فضل المدینة)
ترجمہ: یحییٰ بن سعید سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم  بیٹھے ہوئے تھے اور مدینہ میں ایک قبر کھودی جارہی تھی اچانک ایک آدمی نے جھانک کردیکھا تو اس کی زبان سے نکلا”مومن کی خوابگاہ کیا ہی بری ہے“ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا کہ تونے بری بات کہی تو اس نے کہا کہ میرا یہ مقصد نہیں ہے بلکہ میرا مقصد ہے جہاد میں شہید ہونا اس سے بڑھ کر ہے تو آپ نے فرمایا کہ (مدینہ میں انتقال کرجانا) جہاد فی سبیل اللہ کی طرح نہیں ہے(بلکہ اس سے بڑھ کر ہے) روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں مرنا مدینہ کے مقابلے مجھے زیادہ محبوب ہو، یہ بات آپ نے تین مرتبہ فرمائی۔
قرب قیامت مدینہ کی تا دیر بقاء
اس مقدس سرزمین کی ایک اہم خصوصیت وفضیلت یہ ہے کہ جب قیامت کا وقوع ہوگا تو مدینہ کی بستی سب سے آخر میں فناء ہوگی، جیسا کہ حدیث پاک میں ہے۔
عن أبي ہریرة رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ عیلہ وسلم آخر قریة من قری الإسلام خرابًا المدینة ہذا حدیث حسن غریب (سنن ترمذی ت شاکرباب ما جاء فی فضل المدینة ۵/ہ۸۲)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا ارشاد ہے: اسلام کی بستیوں میں سب سے آخر میں فناء ہونے والی بستی مدینہ ہے۔
قرب قیامت اہل ایمان کا مدینہ میں اجتماع
قیامت کے قریب تمام اہل ایمان دنیا کے گوشے گوشے سے سمٹ کر مدینہ آجائیں گے، جیسا کہ بخاری کی یہ حدیث شاہد وعادل ہے۔
عن أبي ہریرة رضی اللہ عنہ قال رسول ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم إن الإیمان لیأزر إلی المدینة کما تأزر الحیة إلی جحرہا (بخاری، باب الإیمان یأرز إلی المدینة۱/۲۵۲)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کا فرمان ہے : (اہل) ایمان سمٹ کر اس طرح مدینہ آجائیں گے جس طرح سے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں چلا جاتا ہے۔

از: مولانا مفتی محمد زاہد‏، استاذ دارالعلوم حیدرآباد

http://www.darululoom-deoband.com/urdu/magazine/new/tmp/02-Madina%20Munawwarah%20Fazail_MDU_12_Dec_15.htm 

No comments:

Post a Comment