Sunday, 25 February 2018

ہر رکعت میں سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے؟

ما حکم قرائت بسم اللہ قبل فا تحفہ فی کل رکعات فی صلات
في اول ركعة الصلاة سنة لا بقية الركعة الثالثة.
جامعه فاروقيه كراشي باكستان
http://www.farooqia.com/ur/lib/1433/01/p10.php
..........
کیا فرض نماز اور سنتوں یا نفل نماز کی ہر رکعت میں سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا ضروری ہے؟ میرا معمول ہر نماز کی بر رکعت میں سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنے کا ہے، ابھی کچھ دن پہلے ایک دوست نے کہا کہ چار رکعت کی فرض نماز میں پہلی دو رکعت میں سورة فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھی جاتی ہے آخری دو میں نہیں۔ لیکن سنتوں اور نوافل میں ہرچار رکعت کی نماز میں ہر رکعت میں بسم اللہ پڑھی جائی ہے۔ براہ مہربانی صحیح صورت حال بتا دیں۔ شکریہ۔
Published on: May 19, 2012
جواب # 39137
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 1143/957/B=6/1433
آپ کے دوست نے جو مسئلہ بتایا ہے وہ صحیح نہیں ہے، بلکہ صحیح یہ ہے کہ چار رکعت والی نماز ہو یا دو رکعت والی ہو ہررکعت میں سورہٴ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مستحب ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء،
دارالعلوم دیوبند
...............
الله کے نام سے
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرنیہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
تعوذ
اعوذ بالله من الشیطان الرجیم
ترجمہ: میں پناہ مانگتا ہوں الله کی شیطان مردود سے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فإذا قرأت القرآن فاستعذ بالله من الشیطان الرجیم﴾․(سورة النحل، الایة:98)
یعنی جب تو قرآن پڑھے تو شیطان مردو سے الله کی پناہ مانگ۔
کیوں کہ قرآن الله کا کلام ہے، جو کہ سراسر نور ہی نور ہے ، لہٰذا دل کو ایسے نور سے منور کرنے کے لیے شرورو وساوس شیطانیہ وغیرہ سے پاک کرنا ضروری ہے۔
اسی لیے تلاوت کلام الله سے قبل اس کے پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے، کیوں کہ دفع مضرت جلب منفعت پر مقدم ہے۔
احکام تعوذ
جمہور علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ تلاوت قرآن سے پہلے ”اعوذبالله من الشیطان الرجیم“ پڑھنا مسنون ہے، خواہ نماز میں ہو یا غیر نماز میں، البتہ نماز کی پہلی رکعت کے علاوہ دیگر رکعات میں اس کا پڑھنا مسنون نہیں۔ (البحر الرائق: کتاب الصلاة، صفة الصلاة، 542/1، رشیدیہ کذا فی فتح القدیر: کتاب الصلاة، صفة الصلاة:428/1، رشیدیہ)۔
تسمیہ
بسم الله الرحمن الرحیم
ترجمہ: شروع الله کے نام سے، جو بے حد مہربان، نہایت رحم والا ہے۔
بسم الله میں ”باء“ استعانت کے لیے ہے،جو” أقرأ“ یا ”أشرع“ سے متعلق ہے ۔ تقدیر کلام یوں ہے بسم الله أشرع یا بسم الله أقرأ۔ (الدر المصون فی علوم الکتاب المکنون: الفاتحہ)
الله: اس ذات کا عَلَم ( مخصوص نام) ہے جو تمام کی تمام صفات کمالیہ سے متصف ہے۔ ( معجم مفردات الفاظ القرآن: حرف الألف)
الرحمن الرحیم:
یہ دونوں لفظ”رحمة“ سے مشتق ہیں اور ”رحمة“ کا معنی”رقة القلب“ ہے ۔( معجم مفردات الفاظ القرآن: حرف الراء)
یہ دونوں الله کی صفات ہیں او رالله کی تمام صفات کا اطلاق اس کی ذات پر حقیقی ہے ۔ لہٰذا جس طرح ذات باری تعالیٰ سماعت کے لیے کان، بصارت کے لیے آنکھ او رعلم کے لیے حافظہ کی محتاج نہیں، اسی طرح وہ ذات رحمت کے لیے رقت قلبی کی بھی محتاج نہیں، بلکہ اس کی تمام صفات اس کے ساتھ اسی طرح قائم ہیں جیسا کہ اس کے شایان شان ہے گو اس کی کیفیت ہمیں معلوم نہ ہو۔
الرحمن میں مبالغہ زیادہ ہے، کیوں کہ اس کے معنی عام الرحمة کے ہیں او رعموم رحمت بلاتفریق مومن وکافردنیا ہی میں ہے اور ”الرحیم“ تام الرحمة کے معنی میں ہے او راتمام رحمت صرف مؤمنین کے ساتھ آخرت میں خاص ہے ، اسی بنا پر کہا گیا ہے ”یا رحمن الدنیا ورحیم الاٰخرة“ (عمدة الحفاظ: حرف الراء، 80/2، دارالکتب العلمیہ)
رحمن الله کا مخصوص نام ہے، غیر الله پر اس کا اطلاق جائز نہیں، جب کہ ”رحیم“ کا اطلاق غیر الله کے لیے جائز ہے ، قرآن مجید میں رسول کی صفت بیان کرتے ہوئے﴿بالمؤمنین رؤوف رحیم﴾ (سورة التوبة، الایة:128) فرمایا گیا ہے ۔ ( عمدة الحفاظ: حرف الراء،80/2)
بسم الله الرحمن الرحیم
سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟
اس پر تمام علماء کا اتفاق ہے کہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ قرآن میں داخل ہے اور سورہٴ نمل میں آیت (30) ﴿إنہ من سلیمان وانہ بسم الله الرحمن الرحیم﴾ کا جز ہے۔
البتہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ہوئی ”بسم الله“ ان سورتوں میں داخل ہے یا نہیں، اس میں اختلاف ہے۔
امام شافعی، عبدالله بن المبارک رحمہم الله اورعبدالله بن عباس کے ہاں ”بسم الله“ سورہٴ برأت کے علاوہ تمام سورتوں کا جز ہے۔
امام احمد بن حنبل کے نزدیک یہ صرف سورہٴ فاتحہ کا جز ہے، اس کے علاوہ کسی دوسری سورة کا جز نہیں۔
امام مالک رحمہ الله  کے نزدیک یہ نہ کسی سورة کا جز ہے اور نہ کامل ومستقل آیت ہے، بلکہ صرف سورہٴ نمل کی آیت کا جز ہے، جو یہاں بطور تبرک ذکر کی گئی ہے۔ (الجامع لأحکام القرآن لأبی عبدالله القرطبی:93/1، دارالفکر)
جب کہ احناف کے ہاں ”بسم الله“ کسی سورة کا جز نہیں، بلکہ یہ ایک مستقل آیت ہے، جو سورتوں کے درمیان فصل کے لیے نازل کی گئی۔
امام ابوبکر الجصاص رحمہ الله نے اس قول کو تفصیلی دلائل سے مزین کیا ہے ، ملاحظہ فرمائیں: (أحکام القرآن لأبی بکر الجصاص الرازی:9/1، دارالکتاب العربی)
ایک اشکال اور اس کا جواب
اس مقام پر یہ اشکال ہوتا ہے کہ جب ”بسم الله الرحمن الرحیم“ قرآن کی مستقل آیت ہے تو لازم آئے گا کہ اس کا انکار کرنے والا کافر ہو۔
کیوں کہ قرآن کا ثبوت قطعی ہے لہٰذا اس کا انکار کرنے والا قطعیت کا منکر ہو گا ، جب کہ امام مالک رحمہ الله جیسے جلیل القدر امام اس کے آیت ہونے کا انکار کرتے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ”بسم الله الرحمن الرحیم“ کے قرآن ہونے میں کوئی اختلاف نہیں کیوں کہ تمام علماء کا اتفاق ہے کہ یہ قرآن میں داخل ہے اور آیت نمل انہ من الی آخرہ کا جزو ہے۔ جیسا کہ ہم ذکر کرچکے۔
پس تسمیہ قرآن میں جہاں بھی تواتر کے ساتھ لکھا ہوا ہے امام مالک بھی اس کی قرآنیت (قرآن میں سے ہونے) کے معترف ہیں۔
ہاں البتہ ان کی کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ سورہٴ نمل کے علاوہ تمام سورتوں کی ابتدا میں لکھی بسم الله کو خارج ازقرآن مانتے ہیں۔
لیکن یہ محض غلط فہمی ہے، اس غلط فہمی کی بناء یہ ہے کہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ”بسم الله“ کے بارے میں دو طرح کا اختلاف ہے۔
ایک اختلاف تو یہ ہے کہ یہ ان سورتوں کا جز ہے یا نہیں؟
اور دوسرا اختلاف یہ ہے کہ ”بسم الله“ کامل ومستقل آیت ہے یا نہیں؟
امام مالک رحمہ الله کا مسلک یہ ہے کہ ”بسم الله“ نہ سورتوں کا جز ہے او رنہ ہی کامل ومستقل آیت ہے، بلکہ اسے جز آیت کی حیثیت سے بطور تبرک ذکر کیا گیا ہے ۔
اس سے بعض لوگوں نے یہ سمجھ لیا کہ سورتوں کی ابتدا میں لکھی ”بسم الله“ امام مالک رحمہ الله کے نزدیک قرآن میں داخل نہیں۔
حالاں کہ امام مالک رحمہ الله سے ایسی کوئی بھی روایت ثابت نہیں۔
دیکھیے قاضی ابن رشد القرطبی (جو کبار ومحققین علمائے مالکیہ میں سے ہیں) ”بسم الله “ کے بارے میں صرف دو قسم کے اختلاف ( جو ہم نے ذکر کیے) نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: 
”لیکن اس (بسم الله) کے مسئلہ میں باعث تعجب بات یہ واقع ہوئی کہ لوگ کہتے ہیں بسم الله میں یہ اختلاف بھی ہے کہ یہ سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن میں داخل ہے یا صرف سورہٴ نمل میں ہی داخل قرآن ہے؟
اور امام شافعی رحمہ الله پر رد کرتے ہوئے یہ نقل کرتے ہیں کہ اگر بسم الله سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن کا جز ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم اسے ضرور بیان فرماتے، اس لیے کہ قرآن تواتر کے ساتھ منقول ہے ۔
اور ان کا خیال ہے کہ یہ قطعی دلیل ہے ۔
اور ابو حامد نے اپنے مسلک کی تائید یہ کہہ کر حاصل کی ہے کہ اگر سورہٴ نمل کے علاوہ یہ قرآن کا جز نہ ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم پر واجب تھا کہ اس کو بیان کرتے ۔ ( جب بیان نہیں کیا تو معلوم ہوا کہ بسم الله سورہٴ نمل کے علاوہ بھی قرآن کا جز ہے)۔
یہ سب غیر معقول اور نہ سمجھ میں آنے والی بات ہے۔
اس لیے کہ بعینہ ایک ہی آیت کے بارے میں یہ کہنا کیسے جائز ہے کہ یہ ایک جگہ داخل قرآن اور دوسری جگہ خارج از قرآن ہے؟
بلکہ یوں کہا جائے کہ” بسم الله“ کا قرآن میں ہونا ثابت ہے جہاں بھی ذکر کی گئی ہے اور یہ سورہٴ نمل کی آیت ہے۔
اورکیا یہ ( بسم الله ) سورہٴ فاتحہ اور ان تمام سورتوں، جن کا یہ افتتاح کرتی ہے، کا جز ہے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے اور مسئلہ میں دونوں احتمال ہیں۔ وہ اس لیے کہ یہ قرآن میں داخل ہونے کے ساتھ ساتھ تمام سورتوں کا افتتاح بھی کرتی ہے۔
اس پر غور کرو، کیوں کہ یہ بالکل ظاہر ہے ، والله أعلم۔“( بدایة المجتھد ونھایة المقتصد لابن رشد:219/2،ط: عباس احمد باز)
دیکھیں امام مالک رحمہ الله کی طرف منسوب قول کو ” خبط“ اور ” غیر مفہوم“ کہہ کر رد کر دیا۔
معلوم ہوا کہ ام مالک رحمہ الله کی طرف سورہٴ نمل کے علاوہ لکھی گئی ” بسم الله“ کو خارج از قرآن بتلانے کی نسبت صحیح نہیں۔
اسی وجہ سے کبار مفسرین یعنی حافظ ابن کثیر، قاضی بیضاوی، علامہ آلوسی، فقیہ ابو اللیث سمرقندی، علامہ زمخشری، ابن جوزی اور قاضی ابوبکر الجصاص رحمہم الله وغیرہم اپنی تفاسیر میں بسم الله کے بار ے میں اختلافات کا تذکرہ کرنے کے باوجود ایسے کسی اختلاف کا ذکر نہیں کرتے کہ سورتوں کے اوائل میں لکھی بسم الله داخل قرآن ہے یا خارج از قرآن۔ اگر ایسا کوئی اختلاف ہوتا تو یہ مفسرین اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے ضرور ذکر کرتے۔
بلکہ ان میں سے اکثر مفسرین( دیکھیے: تفسیر ابن کثیر، سورہٴ فاتحہ:17/1، تفسیر کشاف، سورہٴ فاتحہ، روح المعانی، تفسیر بسم الله، تفسیر البیضاوی، سورہٴ فاتحہ) سورتوں کے اوائل میں لکھی بسم الله کے بارے میں امام ابوحنیفہ ومالک کا ایک ہی مسلک نقل کرتے ہیں کہ ان کے نزدیک بسم الله سورتوں کا جز نہیں۔
بس فرق صرف اتنا ہے کہ احناف کے ہاں ”بسم الله“ کامل آیت ہے، جب کہ امام مالک کے ہاں کامل آیت نہیں، بلکہ یہاں جز قرآن کی حیثیت سے مذکور ہے۔ والله أعلم
احکام تسمیہ
تلاوت قرآن پاک اور تمام سورتوں سے قبل ”بسم الله الرحمن الرحیم“ پڑھنا مسنون ہے، مگر سورہٴ برأت سے قبل اس کا پڑھنا مسنون نہیں۔
اور احناف کے نزدیک نماز کی تمام رکعات میں سورہٴ فاتحہ سے قبل آہستہ آواز سے تسمیہ پڑھنا سنت ہے ۔ ( البحرالرائق: کتاب الصلاة، 546/1، دارالکتب العلمیة)
اس کے علاوہ ہر کام مثلاً: کھانے پینے، لکھنے یا ذبح وغیرہ کرنے سے پہلے تسمیہ پڑھنا مسنون ہے۔
حدیث میں ہے:
”کل أمر ذی بال لایبدأ لہ فیہ ببسم الله فھو أقطع“․(روح المعانی، احکام تسمیہ،39/1، امدادیہ)
ترجمہ: ہر وہ ذی شان معاملہ جس میں بسم الله سے ابتدا نہ کی جائے بے برکت ہے۔ (جاری)
http://webcache.googleusercontent.com/search?q=cache:http://www.farooqia.com/ur/lib/1433/01/p10.php&gws_rd=cr&dcr=0&ei=yNuSWqXyIYGMvQTmi7qoDg
............



No comments:

Post a Comment