Sunday, 25 February 2018

بھارت کی دلہن اور یوروپ کی گرل فرینڈ Al-Faida (beneficiary) of Mumbai Bombings: Indian Army or BJP?

ممبئی؛ بھارت کی دلہن اور یوروپ کی گرل فرینڈ ہے۔ یہاں سیاست کی تجارت اور تجارت کی سیاست کے علاوہ بھی بہت کچھ ہوتا ہے، یہاں تجارت کا دن ثقافت کی رات سے شفٹ بدلتا ہے مگر اس کی تجارت بھی تجارت ہے اور ثقافت بھی تجارت۔ یہاں دن میں اسٹاک تُلتا ہے اور رات میں گھونگرو تَلتا ہے۔ شام ڈھلتی ہے تو دیسی ٹھرا اور ولایتی پھرا ایک ساتھ اٹھتا ہے۔ ہونٹوں کی لالی اور ہاتوں کی تالی ممبئی کی رات کا جوبن ہے، یہ رات اتنی کالی ہے کہ یہاں جوگن یوبن بھی دھوبن کا دھولن ہے۔ یہاں بالی ووڈ کی چمک ناریوں کی دمک کو بھارت بھر سے بے گھر کردیتی ہے، چمک اور دمک کا یہ ملاپ دنیا بھر سے سیاحوں کو کھینچ لاتا ہے، پھر یہاں ہوٹلوں میں بوتلوں اور بوتلوں میں توتلوں کا رقص ہوتا ہے۔ رات جوان ہوتی ہے تو مرینہ میں کرینہ اور کرینہ پہ نرینہ گرتا ہے۔ یہاں اداؤں اور صداؤں کے ہی نہیں رداؤں کے بھی بازار سجتے ہیں۔ یہاں خوش فہمی اور کج فہمی ساتھ ساتھ جیتی ہیں یہی وجہ ہے کہ یہاں مادھوری بھی ادھوری ہے اور ادھوری بھی مادھوری۔ اس شہر میں جو پہنتا ہے وہ بادل ہے جو اتارتا ہے وہ ماڈل ہے، یہاں بکنے کو فن اور ٹکنے کو تن کہتے ہیں، پھر بھی یہاں پیمان کے جام ارمان کے نام رہ جاتے ہیں، یہاں آنکھوں میں اشارے اور اشاروں میں غبارے ہوتے ہیں، یہاں جب شام ہے تو رام نہیں اور رام ہے تو شام نہیں، یہاں سبو ہے تو جام نہیں اور جام ہے تو کام نہیں، یہاں تو ساز کی اواز پر ناز کے انداز ہیں اور راز کی تاز پر غاز ہی شاذ ہے، یہاں فریفتہ اور ریختہ میں دشمنی ہے اور گرفتہ و فریفتہ میں دوستی، یہاں وہ بندرگاہ ہے جہاں مال چڑھتا اور مالا مال اترتا ہے، جہاز آتے اور جواز جاتے ہیں، سونا تلتا اور جاندنی بکتی ہے، یہاں کسٹم میں کرپشن کی ارپشن ہے، روکڑا پھینکئے پھر ٹوکرے میں کچھ بھی لے جائیے، لے جانا بھی دشوار ہوتو کچھ مزید روکڑے کے عوض کسٹم کے رستم یہ کام بھی خود ہی کر دیں گے، اس شہر میں وہ ریلوے لائن ہے جو ایک منٹ میں بائیس ٹرینوں اور ایک دن میں بائس لاکھ مسافروں کی لاینیں لاگا دیتی ہے۔ ۔ ۔
اسی ممبئی میں آج بھارت کو غارت کا سامنا ہے۔ اس کی جس اقتصادی شہ رگ کے اطراف سر شام مادھوری کے گھونگرو بجا کرتے تھے وہاں اے کے 47 کے گٹار بج رہے ہیں، کاجول کا کاجل بکھر گیا ہے اور امرتا کا امرت کوئی چھونے والا نہیں۔ ممبئی میں خمار اور قمار کی جگہ اس قدر غبار نے لے لی ہے کہ سنی دیول کے ڈھائی کلو کے ہاتھ کو بھی ڈھائی کنوؤں کا باتھ چاہئے۔ بالی ووڈ کے وہ آئینے بلیک آؤٹ سے گزررہے ہیں جن کے روبرو زلفوں کی تراوٹ اور چہروں کی سجاوٹ کا پیشہ بناوٹ دم بھرا کرتا ہے۔ تھیٹروں میں ہیروز کی بڑھکیں دم توڑ گئی ہیں اور زیروز کی سڑکیں کرفیو میں صرفیوں کی راہ تک رہی ہیں۔ تجارت میں بھارت کی مہارت کا ناپ تول رکھنے والی ممبئی اسٹاک ایکسچینج خاموش ایکسچینج کر رہا ہے، زبانوں نے ہلنا اور جوابوں نے ملنا موقوف کردیا ہے۔ کارخانوں کی چمنیاں سانس روکے اس دھویں کا نظارہ کر رہی ہیں جو مشہور عالم تاج ہوٹل کے تاج سے بلند ہو رہا ہے۔ جس ہوٹل اوبرائے میں ایشوریہ رائے آیا کرتی تھی اب اس پر بھانت بھانت کی رائے آرہی ہے، ممبئی کی جوان نائٹیں جو جیسے بوڑھی نائیکیں بن گئی ہیں، اس کے نائٹ کلب میں کَلب بھونک رہے ہیں، بندگاہ پر جھینگے کی جگہ جھینگر نے لے لی ہے۔ آنکھوں میں سوال ہیں ٹانگوں میں جواب نہیں، شہر محصور ہے گویا منظر میسور ہے، مخبر کو خبر نہ تھی اور خبر کے لئے مخبر نہ تھا، ریلوے کی ٹھک ٹھک پر کانٹے کی ٹک ٹک غالب ہے زبانوں کی بک بک اور دوکانوں کی کھٹ کھٹ پر سکوت کا ڈیرہ ہے، گیٹ وے آف انڈیا پر کرفیو کا تالا اور سکولوں کی راہوں پر وحشت کا نالہ ہے۔ اس شہر کی راتوں میں ودیشی کاک ٹیل بولا کرتی تھی اب یہاں شیوراج پاٹل (بھارتی وزیر داخلہ) بول رہا ہے، ولاس راؤ کی آنکھ میں گلاس لاؤ کی فریاد ہے اور دیش مکھ تو جیسے کبھی ہنس مکھ ہی نہ رہا (ولاس راؤ دیش مکھ، وزیر اعلی مہرا شٹر) سرکار کی زبان سے غرور کا مرور ہے مگر پھر بھی الزام ہے اور الزام کا التزام ہے۔ فنکارنامی وہ ننگ جو ممبئی کا رنگ ہیں، غائب ہیں اور اجڑا ہوا ریمپ خشبوؤں کے انتظار میں 72 گھنٹے کے فاقے سے ہے، ساز ہیں سازندے نہیں، سرتال ہیں مگر سرتاج نہیں، جہاں اوباشوں کی پھرتیاں تھیں وہاں لاشیں اور ارتھیاں ہیں، تاج کے انگاروں میں چتاؤں کی آگ ہے اور چتاؤں کی آگ میں پتاؤں کے بھاگ ہیں۔ غرضیکہ ممبئی کی رات تو ہے مگر ممبئی کی بات نہیں۔
جو ہوا وہ ان ہونا ہوکر بھی ان ہونا نہیں، تحقیق کا دفتر ابھی تفتیش کے نشتر کا منتظر ہے اور سوالات بھی حوالات کی راہ دیکھ رہے ہیں مگر جو بادی النظر میں ہے وہ باور کرا رہا ہے کہ مادھوری کی اٹک، کاجول کی مٹک، شسمیتا کی جھٹک اور ایشوریہ کی لٹک نے بھارت کو جو سافٹ گالوں والا چہرہ عطا کررکھا ہے وہ صرف ایک ماسک ہے، اس ماسک کے پیچھے ایک بے خطا درندہ ہے۔ اس درندے کے ہاتھوں میں گیتا اور قدموں میں سیتا ہے، کہنے کو نیتا ہے مگر خون ہی یہ پیتا ہے، اس کی درندگی کے سبب اقلیت یہاں نقلیت میں ہے، شاہ رخ نماز بھی پڑھتا ہے، پوجا بھی کرتا ہے اور عید اور ہولی دونوں ہی مناتا ہے۔ منافقت کی اس دکان کو فلسفے کی زبان تو دیتا ہے لیکن اگر پوچھئے کہ گوردوارے بھی کیوں نہیں جاتا ؟ تو صداقت رفاقت چھوڑ دے گی۔ ہندو اکثریت کی وحشتناکیاں گولڈن ٹیمپل میں المناکیاں دکھا چکی، سکھوں کے لاشے سُکھوں کی تلاشوں میں گرگر کر دم توڑ گئے، اڑیسہ میں عیسائیت جلی ہوئی صلیبوں کی راکھ جمع کر رہی ہے، پادریوں کی ارتھیوں میں کھبی ہوئی برچھیوں کا منظر ابھی دھندلایا نہیں۔ بابری مسجد کے زخم بھی بھلا دیوانے کے وہم ہیں؟ اس کا وہ پھٹا ہوا سر اور کٹا ہو دھڑ کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے؟ گجرات میں حجرات کی پامالیاں بھی یاد تو تب دلائی جائیں جب بھولیں۔ کیسے بھول سکتا ہے وہ منظر جب مسلمانوں کی مردانہ لاشیں چتا کی طرح جلاکر راکھ کر دی گئیں اور یہ راکھ فضا میں اڑادی گئی، خواتین کی بے حرمت کٹی پھٹی لاشیں گلیوں میں یوں پھینک دی گئیں کہ ان کی کیفیت بیان کرنے کے لئے اگر شورش سے تین جملے مستعار لوں تو "منجمد چہروں کی پھٹی ہوئی آنکھیں، کٹے ہوئے کانوں میں ٹھہری ہوئی بالیاں اور ٹوٹے ہوئے ہاتھوں میں پٹی ہوئی تالیاں" اور وہ کشمیر تو ابھی رس ہی رہا ہے جہاں اس درندے کی سرکشی نے بیٹیوں کو خودکشی پر مجبور کیا اور ترکش نے برگشتگی کی بلائیں لیں۔ ایک لاکھ سے زائد نامزد قبروں کا خون اسی وحشی کی ترشول سے ٹپک رہا ہے، ایسے میں بالی ووڈ کے قلموں نے ان فلموں کو وجود بخشا جن میں کھل نائیک ہمیشہ ہی کوئی اقبال ہوا کرتا ہے اور نائیک کوئی اجے تو جلتی پر تیل کی کسر تمام ہوئی۔ ممبئی پر بار بار حملے کرنے والے اسی دوہرے کرب کا اظہار کرتے ہیں جو بندوق اور ثقافت کی مشترکہ یلغار کا نتیجہ ہے، اگر بھارت اپنی ریت نہیں بدلے گا تو اس کے مظلوم شہری ممبئی کو نشانہ بناتے رہیں گے۔ ایسے میں جب ان کی لاشیں بھی خون اگلیں گی تو گویا فرمائش کریں گی۔
رنگ ہر رنگ میں ہے داد طلب
خون تھوکوں تو واہ ! واہ ! کہئے
(یہ کالم 9 برس قبل ممبئی حملے کے دو روز بعد لکھا گیا اور روزنامہ امت میں شائع ہوا، اسے پہلی بار پوسٹ کی صورت پیش کیا گیا)
تحریر: رعایت اللہ فاروقی
https://thelondonpost.net/al-faida-beneficiary-of-mumbai-bombings-indian-army-or-bjp/

..........
Digvijay Singh &  Book -  "26/11 : RSS ki Sazish"  !!!!
When entire nation was mourning for murder of its innocent citizens of Mumbai on 26/11, Digvijay Singh was busy planning the  Book  ""26/11 : RSS ki Sazish" (An RSS conspracy)"
"26/11 : RSS ki Sazish" written by Aziz Burney (Editor-in-Chief of Urdu Sahara newspaper) was released by Congress General Secreatary Digvijay Singh on Dec 6, 2010 in Delhi, the book talks about the hand of RSS and Hindutva element behind 26/11 Mumbai Attacks
At that launch event, he (Digvijay Singh) had said that Karkare had called him two hours before the 26/11 attack in Mumbai to say that his life "was blighted by constant threats" from those opposed to the ATS probe into the 2008 Malegaon blast in which Hindu extremists were accused.
Days later, Singh repeated the comments to The Indian Express, which sparked national outrage, with Karkare's wife Kavita saying that he seemed to be playing politics with the death of her husband. Singh had subsequently sought to dilute his comments, saying that he had called Karkare and not the other way round and also that he never doubted Karkare was killed by LeT terrorists. He had even offered to produce records of his phone calls but said BSNL did not store records older than 12 months.
Highlights of the book :-
1. The BJP and the RSS are responsible for 26/11 attack in Mumbai. The BJP did not raise its voice against the delay in probe (p. ll)
2. ATS chief Hemant Karkare was about to disclose many facts regarding Malegaon blast in which he was expected to expose many sadhus and saints including the BJP and the RSS (p. 28) (off course to Digvijay Singh )
3. Mossad and CIA had assisted the Sangh Parivar in the attack carried out in Mumbai. With the tacit understanding of the USA, Saudi Arabia's Maulana Bedi had collected fundamentalists. Even Gujarat chief minister Narendra Modi had helped in attackers' arrival and stay (p. 41) :rofl: (How an Islamist writer can forget Israel when creating conspiracy theories ? How can he forget to add Narendra Modi?)
4. Post 1993, all attacks in the country is the result of the nexus between the RSS and Mossad. Karkare was about to make all these disclosures to the media and was going to leave the country to settle abroad. Karkare was not killed by AK-47 but by the service revolver of the police. RAW and Home Ministry are investigating the role played by the Gujarat ATS in Karkare’s murder case. Karkare was killed by Hindutva-minded police officials and people from the Chota Rajan gang (p. 61)
5. The Congress is suspecting the involvement of the BJP in the Malegaon blast other than the RSS and Bajrang Dal. The BJP decided to give legal assistance to Sadhvi Pragya, the day Purohit told the CBI that the VHP leaders had given special contribution in formation of Abhinav Bharat. RSS leader Indresh Kumar has taken Rs 3 crore from the Pakistan intelligence agency ISI. The same day Karkare received the threat call and the very next day he was killed (p. 99)
6. The RSS and Israel are trying to make India unstable (p. 190) (again Israel)
7. In order to make India a Hindu nation, such blasts are being carried out (p. 219)
8. Abhinav Bharat was getting financial aid from the Vishwa Hindu Parishad. Weapons were bought from the money provided by Praveen Togadia to kill Indresh Kumar (p. 232)
9. While the RSS is distributing ‘Trishul’ to youths and women, the Bajrang Dal is providing training to people for making bombs and causing blasts. The VHP had planted bombs in several mosques in Maharashtra to explode them (p. 584)
10. The RSS and VHP are trying to defame Muslims by forming terrorist organizations like Indian Mujahideen and Islamic Security Force. :O Indian Mujahideen was not involved in the bomb blasts in Assam. Bajrang Dal is a dubious organization and Indian Mujahideen is the code name of it. Editor of Communalism Combat Teesta Setalvad mentioned in a report that the CBI is trying cover up Hindu Terrorism and Batla encounter was fake (p. 597)
11. Election Commission of India must consider banning the BJP to contest elections. From Nathuram Godse to Sadhvi Pragya, violence is part of the RSS culture. About 100 Hindutva Organisations associated with the RSS are involved in the violent activities. Mentality of the police and the army in the country is anti-Muslim (p. 606)

No comments:

Post a Comment