انسانی اعضا کی پیوند کاری کے معاملے میں فقہ اکیڈمی دھلی کے اہلِ علم کی آرا اور مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا نقطۂ نظر
ایدھی صاحب کی طرف سے آنکھیں عطیہ کرنے کے بعد انسانی اعضا کی پیوند کاری کے مسئلے پر بحث جاری ہے اور مختلف پوسٹیں کالم وغیرہ اس سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ ہندوستان کے نام ور فقیہ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں اس مسئلے پر 1989ء میں دو سیمینار منعقد کیے گئے جن میں اہل علم کی کثیر تعداد نے اس کے جواز عدمِ جواز اور مشروط جواز پر اپنے علمی مقالات پیش کیے جو اکیڈمی کی طرف سے شائع کردہ “جدید فقہی مباحث” کی پہلی جلد میں شائع کیے گئے ان مقالات کے علاوہ اکیڈمی نے اس موضوع پر گروہی مباحثوں (Group Discussions) کا انعقاد بھی کیا جس کی تفصیل اسی کتاب میں موجود ہے۔ ان مباحث کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پہل مسئلے پر جب اہلِ علم نے گفت گو کی تو کئی ایک نے اس کو سرے سے ناجائز قرار دیا لیکن بحث ومباحثہ کے نتیجے میں علما کی آرا میں ایک واضح تنوع اور ارتقا نظر آتا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے اس طرح کے مسائل پر عام طور پر توقع ہوتی ہے کہ وہ مقاصدِ شریعت ،حالات وزمانہ اور ضرورت وحاجت کو سامنے رکھ کر کوئی راے پیش کریں گے۔ انھوں نے اس سیمینار میں جو علمی مقالہ پیش کیا اس کے سات مرکزی نکات حسبِ ذیل ہیں:
1- اعضائے انسانی کی پیوند کاری کا جو طبی طریقہ ایجاد ہوا ہے اس میں توہینِ انسانیت نہیں ہے۔
2- اس لیے یہ جائز ہے بہ شرط کہ اس سے مقصود کسی مریض کی جان بچانی ہو یا جسم کی کسی منفعت (جیسے بینائی وغیرہ) کو لوٹانا مقصود ہو۔
3- طبیبِ حاذق نے بتایا ہو کہ اس کی وجہ سے صحت کا غالب گمان ہے۔
4- غیر مسلم کے اعضا بھی مسلمان کے جسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔
5- مردہ شخص کے جسم سے عضو لیا جارہا ہو تو ضروری ہے کہ اس نے زندگی میں اجازت دی ہو کیوں کہ وہ جسم کا مالک ہے اور ورثہ کا بھی راضی ہونا ضروری ہے۔
6- زندہ شخص کا عضو لیا جائے تو اس کی اجازت ہونی چاہیے نیز اس کو شدید ضرور لاحق نہ ہو۔
7- اعضا کی بینکگ بھی درست ہے، شوافع اور حنابلہ کے ہاں اعضا کی خرید وفروخت دونوں کی گنجائش ہے اور احناف کے نزدیک بہ درجۂ مجبوری خرید کر سکتے ہیں فروخت نہیں کر سکتے۔
(1: 216 217)
عام طور پر ابتلا حاجات وضرورت اور عمومِ بلوی مسائل کی تبدیلی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور فقہِ اسلامی کی یہی مرونت ویسر کا پہلو ہے جس کی وجہ سے اس میں ابدی طورپر رہ نمائی کی صلاحیت موجود ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر علما کی آرا مختلف ہیں لیکن الضرورات تبيح المحذورات (ضرورتیں ممنوع کاموں کو جائز کر دیتی ہیں) کے اصول کے تحت موجود ہ دور میں انسان جن نت نئی بیماریوں کے مسائل سے دوچار ہو رہا ہے جو ماضی میں نہ تھیں تو ایسے مسائل میں سختی کے پہلو کو زمانہ خود یسر اور آسانی کے طرف لے جانے میں اپنے ابدی جبر کے اصول کو آزما کر رہے گا۔
واللہ اعلم
http://www.suffahpk.com/insani-ayza-ki-pewand-kari-mai-fiqah-accedmy-dehli-k-ehly-ilim-ki-aara/
ایدھی صاحب کی طرف سے آنکھیں عطیہ کرنے کے بعد انسانی اعضا کی پیوند کاری کے مسئلے پر بحث جاری ہے اور مختلف پوسٹیں کالم وغیرہ اس سلسلے میں لکھے گئے ہیں۔ ہندوستان کے نام ور فقیہ مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃ اللہ علیہ کی قائم کردہ فقہ اکیڈمی میں اس مسئلے پر 1989ء میں دو سیمینار منعقد کیے گئے جن میں اہل علم کی کثیر تعداد نے اس کے جواز عدمِ جواز اور مشروط جواز پر اپنے علمی مقالات پیش کیے جو اکیڈمی کی طرف سے شائع کردہ “جدید فقہی مباحث” کی پہلی جلد میں شائع کیے گئے ان مقالات کے علاوہ اکیڈمی نے اس موضوع پر گروہی مباحثوں (Group Discussions) کا انعقاد بھی کیا جس کی تفصیل اسی کتاب میں موجود ہے۔ ان مباحث کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے پہل مسئلے پر جب اہلِ علم نے گفت گو کی تو کئی ایک نے اس کو سرے سے ناجائز قرار دیا لیکن بحث ومباحثہ کے نتیجے میں علما کی آرا میں ایک واضح تنوع اور ارتقا نظر آتا ہے۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی سے اس طرح کے مسائل پر عام طور پر توقع ہوتی ہے کہ وہ مقاصدِ شریعت ،حالات وزمانہ اور ضرورت وحاجت کو سامنے رکھ کر کوئی راے پیش کریں گے۔ انھوں نے اس سیمینار میں جو علمی مقالہ پیش کیا اس کے سات مرکزی نکات حسبِ ذیل ہیں:
1- اعضائے انسانی کی پیوند کاری کا جو طبی طریقہ ایجاد ہوا ہے اس میں توہینِ انسانیت نہیں ہے۔
2- اس لیے یہ جائز ہے بہ شرط کہ اس سے مقصود کسی مریض کی جان بچانی ہو یا جسم کی کسی منفعت (جیسے بینائی وغیرہ) کو لوٹانا مقصود ہو۔
3- طبیبِ حاذق نے بتایا ہو کہ اس کی وجہ سے صحت کا غالب گمان ہے۔
4- غیر مسلم کے اعضا بھی مسلمان کے جسم میں لگائے جا سکتے ہیں۔
5- مردہ شخص کے جسم سے عضو لیا جارہا ہو تو ضروری ہے کہ اس نے زندگی میں اجازت دی ہو کیوں کہ وہ جسم کا مالک ہے اور ورثہ کا بھی راضی ہونا ضروری ہے۔
6- زندہ شخص کا عضو لیا جائے تو اس کی اجازت ہونی چاہیے نیز اس کو شدید ضرور لاحق نہ ہو۔
7- اعضا کی بینکگ بھی درست ہے، شوافع اور حنابلہ کے ہاں اعضا کی خرید وفروخت دونوں کی گنجائش ہے اور احناف کے نزدیک بہ درجۂ مجبوری خرید کر سکتے ہیں فروخت نہیں کر سکتے۔
(1: 216 217)
عام طور پر ابتلا حاجات وضرورت اور عمومِ بلوی مسائل کی تبدیلی پر اثر انداز ہوتے ہیں اور فقہِ اسلامی کی یہی مرونت ویسر کا پہلو ہے جس کی وجہ سے اس میں ابدی طورپر رہ نمائی کی صلاحیت موجود ہے۔ اگرچہ اس موضوع پر علما کی آرا مختلف ہیں لیکن الضرورات تبيح المحذورات (ضرورتیں ممنوع کاموں کو جائز کر دیتی ہیں) کے اصول کے تحت موجود ہ دور میں انسان جن نت نئی بیماریوں کے مسائل سے دوچار ہو رہا ہے جو ماضی میں نہ تھیں تو ایسے مسائل میں سختی کے پہلو کو زمانہ خود یسر اور آسانی کے طرف لے جانے میں اپنے ابدی جبر کے اصول کو آزما کر رہے گا۔
واللہ اعلم
http://www.suffahpk.com/insani-ayza-ki-pewand-kari-mai-fiqah-accedmy-dehli-k-ehly-ilim-ki-aara/
انسانی اعضاء کی پیوندکاری کا شرعی حکم
سوال…آج کل انسانی اجزاء واعضاء کا استعمال، ان کی چیر پھاڑ اور ان کی پیوندکاری علاج معالجے میں بکثرت ہورہی ہے، اس لئے اس سلسلے میں درج ذیل سوالات کے جوابات درکار ہیں، مدلل ومفصل جوابات دے کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں :
1...کسی مریض کو خون دینا اور اس کی خریدوفروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
2... انسانی بالوں کو اپنے بالوں میں لگانا اور انسانی وگ کا استعمال کرنااور ان کی خرید و فروخت کرنا جائز ہے یا نہیں؟
3... جسم کے کسی حصے مثلاً رگ، جھلی، گوشت وغیرہ کے کٹنے کی صورت میں اسے دوبارہ آپریشن کے ذریعے اپنی جگہ پر لگانا یا ناکارہ یا خراب ہونے کی صورت میں اسی شخص کے جسم کے دوسرے حصے سے یہ چیزیں نکال کر اس کی جگہ لگانا جائز ہے یا نہیں؟
4... انسان کے ناکارہ ومقطوع اعضاء واجزاء کی جگہ (حیوانی یا غیر حیوانی) مصنوعی اعضاء واجزاء لگانا جائز ہے یا نہیں؟
5... زندگی میں جسم کا کوئی حصہ یا عضو کسی دوسرے انسان کو دینا اور اس کے جسم میں لگانا جائز ہے یا نہیں؟ نیز خرید وفروخت کا کیا حکم ہے؟
6...موت کے بعد کسی میت کے اعضاء کو زندہ کے جسم میں لگانا جائز ہے یا نہیں؟ اور اپنے جسم کے کسی حصے کی وصیت کرنا جائزہے یا نہیں؟
7... ڈاکٹری تعلیم یا قتل کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے مردہ انسانی جسم کی چیر پھاڑ کرنا اور پھر اسے دوبارہ پرانی حالت پر جوڑ دینے کا کیا حکم ہے؟
الجواب حامداً ومصلیاً
جواب سے پہلے چند اُصولی باتیں سمجھ لینا ضروری ہیں، تاکہ آنے والے مسائل کے سمجھنے میں آسانی اور سہولت ہو:
اول … اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کو بندوں کے لئے حرام قرار دیا ہے، ان میں بظاہر جس قدر بھی فائدہ نظر آئے، لیکن درحقیقت وہ انسان اور انسانیت کے لیے نقصان دہ ہیں اور فائدہ کے بجائے نقصان کا پہلو اُن میں غالب ہے، یہ نقصان کبھی جسمانی ہوتا ہے اور کبھی روحانی، پھر کبھی تو اس قدر واضح ہوتا ہے کہ ہر خاص وعام اسے جانتا ہے، اور کبھی ذرا مخفی ہوتا ہے جسے ماہر ڈاکٹر ہی جان سکتا ہے، اور کبھی اس قدر پوشیدہ ہوتا ہے کہ اسے صرف فراست ِ نبوت اور نور ِ شریعت سے ہی دیکھا اور پہچانا جاسکتا ہے۔
دوم … اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے انسان کو ظاہری ومعنوی اعتبار سے ایک خاص شرف وامتیاز بخشا ہے، شکل وصورت میں بھی سب سے حسین اور علم وادراک میں بھی سب سے فائق ہے، اور اسے کائنات کا مخدوم ومکرم بنایا گیا ہے، اس شرف وعظمت کا ایک پہلو تو یہ ہے کہ تمام کائنات اسی کی خدمت پر مامور ہے، بہت سی چیزوں کو اس کی غذا یا دوا کے لیے حلال کردیا گیا ہے ، اور اضطراری حالت میں حرام چیزوں کے استعمال کی بھی اجازت دی گئی ہے، اور دوسرا پہلو یہ ہے کہ انسانی اعضاء واجزاء کو دوا کے لیے ممنوع اور ان کی خرید وفروخت کو ناجائز قرار دیا گیا ہے۔
سوم… اسلام کی نظر میں انسانی جان درحقیقت امانت ِالٰہیہ ہے، جسے ضائع کرنا سنگین جرم ہے، اس کی حفاظت کے لیے بڑے سامان تیار کئے گئے ہیں جن کے استعمال کا حکم ہے، اور ایسی ممکنہ تدابیر وعلاج کو ضروری قرار دیا ہے جس سے انسانی جان بچ سکے، اسی لئے اضطرار کی حالت میں کلمہٴ کفر تک کہنے کی اجازت دے دی گئی جو اسلام کی نظر میں بدترین جرم ہے، اسی طرح جو شخص بھوک سے مررہا ہو اس کے لئے اپنا آخری سانس بحال رکھنے کے لیے بقدر ضرورت خنزیر اور مردار کھانے کو جائز بلکہ ضروری قرار دیا گیا۔ البتہ اس حالت میں بھی جان بچانے کے لئے احترام ِ انسانیت کے پیش ِ نظر کسی دوسرے انسان کی جان یا عضو کو ضائع کرنے کی اجازت نہیں دی گئی ہے۔
نوٹ : اضطراری حالت سے مراد یہ ہے کہ حرام چیز کو استعمال کیے بغیر جان بچانے کی کوئی صورت ممکن ہی نہ ہو، اور اس حرام چیز سے جان کا بچ جانا یقینی ہو۔
چہارم… اگر اضطرار کی حالت نہ ہو کہ جس میں جان کا خطرہ ہوتا ہے، مگر بیماری اور تکلیف کی شدت ایسی ہو جو مریض کو بے چین کردے تو اس صورت میں حرام اور نجس دوا کو استعمال کرنا جائز ہے یا نہیں؟ قرآن کریم نے جو اجازت دی ہے یہ صورت اس میں داخل نہیں، اور روایاتِ حدیث سے اس معاملہ میں کوئی قطعی فیصلہ نہیں ہوتا، اس لیے فقہائے امت کا اس میں اختلاف ہے، بعض حضرات کے نزدیک جائز نہیں، لیکن جمہور فقہاء اس کی اجازت دیتے ہیں، بشرطیکہ کسی معتمد ڈاکٹر کی رائے میں اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو اور اس حرام چیز سے بیماری اور تکلیف دور ہوجانے کا پورا یقین ہو۔ کیونکہ آپ علیہ السلام نے عرینہ کے لوگوں کو بیماری کی وجہ سے اونٹ کا دودھ اور پیشاب استعمال کرنے کی اجازت دی، حالانکہ پیشاب نجس چیز ہے، اسی طرح ایک صحابی کی جنگ میں ناک کٹ گئی تو انہوں نے چاندی کی مصنوعی ناک بنوا کر لگالی، مگر اس میں بدبو پیدا ہورہی تھی، اس لیے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں سونے کی ناک بنوا کر لگانے کا حکم دیا، کیونکہ سونا سڑتا نہیں ہے، حالانکہ مردوں کے لیے سونے کے استعمال کو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے خود حرام فرمایا ہے ، اور چاندی کا استعمال بھی انگوٹھی کے علاوہ مردوں کے لئے درست نہیں ہے۔ اور ان دونوں واقعات میں اضطرار کی حالت پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے، بلکہ ان کا ظاہر غیر اضطرار کی طرف اشارہ کررہا ہے۔
پنجم … اگر جان کا خطرہ نہ ہو اور مرض کی شدت بھی نہ ہو ، مگر مرض کی مدت بہت زیادہ طویل ہونے کا معاملہ ہو تو اس صورت میں بھی بعض فقہاء نے حرام کے استعمال کی اجازت دی ہے ، لیکن اجتناب بہتر ہے ۔ اور اگرطوالت کا اندیشہ بھی نہ ہو، صرف بدن کی تقویت یا حسن میں اضافہ اور تفریح ِ طبع یا محض ہوس رانی مقصود ہو تو حرام اور نجس شے کے استعمال کرنے کی گنجائش نہیں ہوگی۔ نیز اگر حلال متبادل موجود ہو یا حرام شے سے بیماری دور ہوجانے یا جان وعضو بچ جانے کا پورا یقین نہ ہو تب بھی حرام چیز کے استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
ششم … انسان کا جسم وجان خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، ایک حدیث شریف میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اعضاء وجوارح میں سے کسی چیز کا ہمیں مالک نہیں بنایا، یہی وجہ ہے کہ دیت (خون بہا) کا تعین شریعت کرتی ہے، انسان خود نہیں کرتا، لہٰذا انسان اپنی جان میں کوئی ایسا تصرف نہیں کرسکتا جس کی شریعت نے اسے اجازت نہ دی ہو، اسی لیے خودکشی کرنے یا اپنے اعضاء کو کاٹنے کا اختیار نہ تو خود آدمی کو ہے اور نہ دوسرا کوئی شخص اس کی اجازت سے ایسا کرسکتا ہے، کیونکہ یہ ملک ِ خداوندی میں بے جا تصرّف، صنعت ِالٰہی کے عظیم شاہکار کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی کے ساتھ ساتھ تقدیرِ ربّانی میں دخل اندازی کی لاحاصل کوشش بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر کام کا ایک وقت مقرر کیا ہوا ہے، اور یہ شخص اس طرح مالکانہ تصرف کرکے بزعم خویش اس وقت سے سبقت کرنے کی ناجائز کوشش کرتا ہے۔
ہفتم … انسان کے مرنے کے بعد بھی اس کے جسم اور روح کا تعلق ختم نہیں ہوجاتا بلکہ باقی رہتا ہے، اور یہ بات بے شمار احادیث سے ثابت ہے، یہی وجہ ہے کہ انسانی حرمت میں زندہ اور مردہ دونوں برابر ہیں، جس طرح زندہ کو کسی قسم کی تکلیف دینا ناجائز ہے اسی طرح مرنے کے بعد بھی اس کو تکلیف دینا جائز نہیں، اسی واسطے حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ مُردے کی ہڈیوں کو توڑنا زندے کی ہڈیوں کو توڑنے کی طرح ہے۔ نیز حدیث شریف میں قبروں پر بیٹھنے یا پیشاب پاخانہ کرنے سے منع فرمانا بھی مُردوں کو تکلیف سے بچانے اور اُن کی حرمت و کرامت کی غرض سے ہے۔ اور جیسے زندہ کے مستور اعضاء کو شدید ضرورت کے بغیر دیکھنا جائز نہیں اسی طرح مردوں کے مستور اعضاء کا بھی یہی حکم ہے ۔
ہشتم … آزاد انسان اور اس کے اجزاء و اعضاء شریعت کی نظر میں نہ تو مال ہیں اور نہ ہی کسی کی ملک میں داخل، اسی لیے نہ تو ان کی خرید وفروخت جائز ہے اور نہ بطور عطیہ کسی کو دینا اور نہ وصیت کرناجائز ہے ،اگر ان پر عمل کیا گیا تو وصیت و ہدیہ اورخریدو فروخت کرنے والا اور اس کو عملی جامہ پہنانے والے اور معاونین سب گنہگار ہوں گے، کیونکہ ان سب کے جواز کے لیے ضروری ہے کہ وہ مال بھی ہوں اور مملوک بھی، یہی وجہ ہے کہ حدیث شریف میں آزاد آدمی کی خریدوفروخت سے منع کیا گیا ہے اور اس کی خرید وفروخت کے بارے میں شدید وعید سنائی گئی ہے، اور اس میں مسلمان وکافریا زندہ و مردہ کا کوئی فرق نہیں۔اگر کسی نے ایسا کیا تو عطیہ یا وصیت کرنے والے کا حشر عطیہ یا وصیت کردہ اعضاء کے بغیر ہوگا ، اور اگر اللہ نے معاف نہیں فرمایا تو عذاب بھی ہوگا۔
نہم … حلال جانوروں کے جملہ اعضاء جب کہ وہ مذبوحہ ہوں پاک ہیں ۔ اور خنزیر کے جملہ اعضاء بہر صورت ناپاک وحرام ہیں، اسی طرح حرام یا حلال جانوروں میں سے مردہ جانوروں کے وہ اعضاء جن میں حیات نہیں ہوتی، مثلاً بال، ناخن، کھر، دانت، سینگ اور صاف وخشک ہڈیاں بھی پاک ہیں، اسی طرح ان کی کھال بھی دباغت کے بعد پاک ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے حیوانی بوسیدہ ہڈی سے اپنا علاج کرنا مروی ہے۔اور دباغت کے بعد مردار یا حرام کی کھال کو(خارجی)استعمال میں لانے کی اجازت بھی منقول ہے۔ اور سونا اور چاندی کا استعمال عام حالات میں بدن کی منفعت کی خاطر ( مثلاً : سونے چاندی کے برتنوں میں کھانا پینا وغیرہ ) نہ تو مرد وں کے لئے جائز ہے اور نہ ہی عورتوں کے لئے۔
دہم… اگر کوئی شخص بھوک سے مررہا ہو اور اس کے سامنے صرف حرام غذا موجود ہو اور اسے اس کے کھانے کی گنجائش کا علم بھی ہو اور وہ نہ کھائے یہاں تک کہ مرجائے تو وہ اپنی جان کو اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں ڈالنے کی بنا پر گنہگار ہوگا۔ لیکن اگر ایک شخص بیماری میں اپنا علاج نہ کروائے اور اس کی بیماری بڑھ جائے یہاں تک کہ وہ مر جائے تو وہ گنہگار نہیں ہوگا، کیونکہ پہلی صورت میں سدّ رمق کے لیے کھانے سے زندگی کا بحال ہونا یقینی بات ہے، اس لیے کھانے کو چھوڑ دینا خودکشی کے مترادف ہوگا، جب کہ دوسری صورت میں علاج معالجے سے صحت وشفایابی یقینی نہیں، اس لیے گناہ نہ ہوگا۔
مذکورہ بالا اُصولی باتوں کی تفصیل کے بعد اب آپ کے سوالات کے جوابات درج ذیل ہیں:
1... خون بدن ِانسانی کا جز ہے، اور بدن سے نکل کر بہہ جائے تو نجس اور ناپاک ہے۔ جز ہونے کے اعتبار سے اس کی مثال انسانی دودھ جیسی ہے جو بغیر کسی کاٹ چھانٹ کے نکلتا ہے اور دوسرے انسان کے بدن کاجز بنتا ہے، لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ جس طرح شریعت نے عورت کے دودھ کو جزوِ انسانی ہونے کے باوجود ضرورت کی بنا پر شیر خوار بچوں کے لیے جائز کردیا ہے اسی طرح ضرورت کی بنا پر خون دینا بھی جائز ہوگا۔ البتہ اس کی نجاست کے پیش نظر یہ حرام اور نجس شے سے علاج کی قبیل سے ہوگا، لہٰذا اگر ماہر ڈاکٹر کی نظر میں خون دئیے بغیر مریض کی جان بچانے یا صحت یاب ہونے کی کوئی دوسری صورت ممکن نہ ہو تو بقدر ِ ضرورت خون دینا جائز ہے، اور اگر خون نہ دینے کی صورت میں ماہر ڈاکٹر کے نزدیک مرض کی طوالت کا اندیشہ ہو تو خون دینے کی گنجائش تو ہے ، مگر اجتناب بہتر ہے۔ لیکن اگر مقصد بدن کی تقویت یا حسن میں اضافہ یا شہوت پرستی وغیرہ ہو تو خون دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔
اور جہاں تک خون کی خریدوفروخت کا معاملہ ہے تو جن صورت میں خون دینا جائز ہے ان میں اگر بلاقیمت خون نہ ملے تو قیمت دے کر خون حاصل کرنا جائزہے، مگر خون دینے والے کے لیے اس کی قیمت لینا جائز نہیں، کیونکہ شریعت کی نظر میں یہ مال بھی نہیں اور پاک بھی نہیں۔ البتہ فاسق اور کافر کے خون سے حتی المقدور اجتناب بہتر ہے، تاکہ خبیث اثرات اس کی طرف منتقل نہ ہوں۔ اور شوہر بیوی کے باہم خون کے تبادلہ سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑے گا، کیونکہ خون دینے سے محرمیت ثابت نہیں ہوتی۔
2... کسی انسان کے بال کاٹ کر دوسرے کے لیے استعمال کرنا جائز نہیں، اس میں مردوعورت زندہ یا مردہ کا کوئی فرق نہیں، حدیث شریف میں ایساکرنے والوں پر اللہ کی لعنت وارد ہوئی ہے، کیونکہ اس میں ملک ِ ربانی میں ناجائز تصرّف، خلق ِ خداوندی کی تخریب کاری اور حرمت ِ انسانی کی پامالی پائی جاتی ہے۔ نیز کٹنے والے بال اگر عورت کے ہیں تو وہ عورت کے مستور حصے کا جز ہیں، انہیں دیکھنا یا چھونا نامحرم مرد کے لیے ناجائز اور گناہ کبیرہ ہے۔ جب ان کا استعمال کرناجائز نہیں تو ان کی خرید وفروخت، عطیہ کرنا اور وصیت کرنا بھی ناجائز ہوگا۔ البتہ خنزیر کے علاوہ کسی دوسرے حلال یا حرام جانور کے بال زینت یا علاج کے لیے لگانا جائز ہے ،کیونکہ بال پاک وطاہر ہیں، تاہم حلال جانور کے ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ اسی طرح ضرورت و مجبوری میں اپنے ہی بالوں کی پیوند کاری کی بھی گنجائش ہے ، اگرچہ اجتناب بہتر ہے۔
3... انسان کے اپنے جسم اور اس کے اعضاء کی اصلاح وحفاظت یا دوسرے صحیح اعضاء کو ضرر سے بچانے کے لیے کسی عضو یا جزکو کاٹ کر علیحدہ کردینا یا جسم کے کسی حصہ کو چیر کر اس کی پیوندکاری کرنا یا کٹے ہوئے حصے کو اس کی جگہ پر لگا کر جوڑ دینا چونکہ اصلاح واحیاء کی قبیل سے ہے، اور اس میں خلق ِ خداوندی میں بے جا تغییر وتبدیلی یا اہانت بھی نہیں اور روایات ِ فقہ وحدیث میں اس کی اجازت بھی موجود ہے، لہٰذا ایسا کرنا جائز ہے، البتہ جسم کے کسی حصہ رگ، کھال، جھلی، گوشت وغیرہ کے ناکارہ یا خراب ہونے کی صورت میں ا سی مریض کے جسم کے دوسرے حصے سے یہ چیزیں نکال کر لگانا کیسا ہے؟ اگر اس بات کو دیکھا جائے کہ کسی حصے کو اس کی اصل جگہ سے کاٹ کر دوسری جگہ لگانے میں تغییر واہانت ہے اس لیے ناجائز ہونا چاہیے، یہی وجہ ہے کہ فقہائے کرام نے اضطرار کی حالت میں بھی جان بچانے کے لیے اپنا گوشت کھانے کی اجازت نہیں دی، لیکن اگر یہ دیکھا جائے کہ کسی عضو کو کاٹ کر علیحدہ کردینا تاکہ دیگر اعضاء اس سے متأثر نہ ہوں اس کی فقہاء نے اجازت دی ہے توکسی عضو کو بچانے یا کارآمد بنانے کے لئے ایک حصہ کو کاٹ کر دوسری جگہ لگادینے کی بھی اجازت ہونی چاہیے، جب کہ اس میں دوسری جگہ کی اصلاح بھی ہو اور پہلے حصہ کا نقصان بھی معتد بہ نہ ہو۔ اس لیے احتیاط تو نہ کرنے میں ہے، حتی المقدور حیوانی جز کو استعمال کرنے کی کوشش کی جائے، البتہ بوقت ِ ضرورت ومجبوری اپنے ہی اعضاء میں اس طرح کی ترمیم وتبدیلی کی بھی گنجائش ہے۔ تاہم اس کتر بیونت اور پیوندکاری کی اس وقت اجازت ہوگی جب کسی ماہر ڈاکٹر کے نزدیک اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ نہ ہو اور غالب گمان یہ ہو کہ یہ مریض اس سے صحیح ہوجائے گا، اور ڈاکٹر ضرورت سے زائد قطع وبرید نہ کرے، نیز اگر مریض عاقل وبالغ ہے تو اس کی رضامندی بھی ہو ، ورنہ اس کے ولی کی اجازت حاصل کی جائے۔
نوٹ : آج کل ولادت کے موقع پر بلاضرورت بڑا آپریشن کروانابہت غلط اور ناجائز بات ہے ،کیونکہ ماں کے پیٹ کے اندر بچہ کو پیدا کرنے والی ذات اللہ ربُّ العالمین نے اس کو باہر نکالنے کا فطری نظام بنا رکھا ہے ، بعض دفعہ نو یا دس ماہ کے دوران بچہ پیدا نہیں ہوتا توآپریشن کو ضروری سمجھا جاتا ہے ، حالانکہ شرعی طور پر ایک بچہ دو سال تک ماں کے پیٹ میں رہ سکتا ہے ،لہذا بغیر مجبوری کے آپریشن کروانا یا اس کا مشورہ دینا درست نہیں ہے ۔ البتہ مریضہ کی جان یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو یاتکلیف زیادہ ہو تو آپریشن کرواسکتے ہیں، لیکن آپریشن لیڈی ڈاکٹر کرے ، اگر نہ ہو تومرد ڈاکٹر بھی کرسکتا ہے ، اور مستور اعضاء کو صرف بقدر ِ ضرورت کھولنا ، دیکھنا اور چھونا جائز ہے ، ضرورت سے زائد ناجائز و حرام ہے۔
4... ناکارہ یا معدوم ومقطوع حصوں یا اعضاء کی جگہ پر (حیوانی یا غیر حیوانی )مصنوعی اعضاء و اجزاء لگانا بھی جائز ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ وہ مصنوعی اجزاء واعضاء پاک اشیاء سے بنے ہوں، نجس یاحرام سے بنے ہوئے نہ ہوں اور نہ ان میں نجس وحرام کی ملاوٹ ہو۔ لیکن اگر حلال متبادل موجود نہیں اور مریض اگر حرام مصنوعی اجزاء یا اعضاء کی پیوندکاری نہیں کراتا تو جان یا کسی عضو کے جانے کا اندیشہ ہو یا مرض کی شدت ہو تو ایسی حالت میں حرام یانجس اشیاء سے بنے ہوئے اعضاء واجزاء کا استعمال بھی جائز ہوگا، لیکن شرط یہ ہے کہ معتمد ڈاکٹر کے نزدیک اس کے علاوہ کوئی علاج نہ ہو اور اس سے بیماری اور تکلیف دور ہوجانے کا پورا یقین ہو۔
لہٰذا عام حالات میں حلال مذبوح جانور ہو تو اس کے جملہ اعضاء اور حرام جانور اور مردار حلال جانور کے جو اعضاء پاک ہیں یا عمل ِتطہیر سے پاک ہوجائیں پاکی کے بعد پیوندکاری میں ان کا استعمال جائز ہے، البتہ حلال جانوروں کے اعضاء کا استعمال کرنا بنسبت حرام جانوروں کے زیادہ بہتر ہے۔ لیکن عام حالات میں حرام یا مردار جانوروں کے ناپاک اعضاء جیسے گوشت، خون، چربی اور چربی والی ہڈی وغیرہ اور سونا و چاندی کا استعمال پیوندکاری میں ناجائز ہوگا۔
یہ تو ان اجزاء و اعضاء کی بات ہوئی جنہیں جسم میں پیوست کرکے پیوندکاری کردی جاتی ہے، البتہ وہ نقلی اعضاء جنہیں سہولت وراحت کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور ضرورت کے وقت لگایا اور نکالا جاسکتا ہے، جیسے مصنوعی دانت یا ہاتھ پاؤں وغیرہ ، تو ان کا پاک اشیاء سے بنا ہوا ہونا ضروری ہے، ناپاک یا حرام اشیاء سے مرکب نہ ہوں۔
5... اللہ تعالیٰ نے انسان کو چونکہ مخدوم کائنات بنایا ہے، یہ تمام مخلوقات کا استعمال کرنے والا ہے، نیز یہ اپنے جسم وجان کا مالک بھی نہیں، اس لیے اس کے اجزاء واعضاء کا استعمال کسی دوسرے کے لیے اگرچہ اس کی رضامندی سے کیوں نہ ہو اس کی اہانت، تخلیق ِ کائنات کے منشأ کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ ملک ِ خداوندی میں ناجائز تصرف اور تخریب کاری کی وجہ سے قطعی حرام ہے ، لہٰذا اپنے کسی عضو کو رضاکارانہ طور پر یا قیمت لے کر دوسرے کسی کو دینے کی اجازت نہ تو شریعت دیتی ہے اور نہ ادنی عقل وشعور کا مالک ادارہ، نظام یا حکومت اپنے قوانین میں اس کی گنجائش کا تصور کرسکتا ہے۔اور اگر اللہ نہ کرے اس طرح کی اجازت دے دی گئی تو غریب و لاچار لوگوں کے اعضاء ”بکاوٴ مال“ بن جائیں گے ۔اور سفاک و درندہ صفت انسان نما جانوروں کے لئے بہترین کاروبار قرار پائیں گے۔
6... مرنے کے بعد اپنے اعضاء کی کسی زندہ انسان کے لیے وصیت یا اپنے عزیز وغیرہ کی میت کے کسی عضو کو دوسرے کو دینے کی فیاضی اور سخاوت دراصل مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہ رکھنے والوں کے ذہن کی پیداوار ہے۔ اور اب مسلمان بھی رفتہ رفتہ اس دامِ تزویر میں دانستہ یا نادانستہ طور پر پھنس چکے ہیں، حالانکہ مسلمانوں کا یہ اجماعی اور متفقہ عقیدہ ہے کہ دنیا کی آنکھیں بند ہونے کے بعد زندگی یہیں ختم نہیں ہوتی، بلکہ زندگی کا ایک مرحلہ طے ہونے کے بعد دوسرا مرحلہ شروع ہوجاتا ہے، مرنے کے بعد بھی آدمی زندہ ہوتا ہے مگر اس کی زندگی کے آثار اس جہاں والوں کو نظر نہیں آتے، لہٰذا اعضاء اگرچہ گل سڑ جائیں، منتشر ومتفرق ہوجائیں تب بھی روح اور جسم کے ان اعضاء کے درمیان تعلق باقی رہتا ہے اور عذاب وراحت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس لیے زندہ انسان کی طرح مردہ آدمی بھی لائق ِ احترام ہے، خواہ مسلمان ہو یا کافر، نہ وہ خود اپنے جسم کا مالک ہے اور نہ کوئی دوسرا، لہٰذا میت کے کسی عضو کوپیوندکاری وغیرہ میں استعمال کرنا یا اس کی وصیت کرنا، مرنے کے بعد کی زندگی پر ایمان نہ رکھنے کی وجہ سے ہو یا انسانی ہمدردی کے جذبہ کے تحت ہو، نہ تو شرعاً درست ہے اور نہ ہی اخلاقاً وقانوناً، کیونکہ اس میں انسانی میت کی اہانت وایذاء بھی ہے، ملک ِ خداوندی میں ناجائز تصرف بھی ہے اور صنعت ِ الٰہی کے شاہکار کی تخریب بھی، اور اس پر مستزاد یہ کہ ایک کفریہ اور باطل عقیدے کی (دانستہ یا نادانستہ ) تائید وتوثیق بھی ہے۔
7... مُردہ انسانی جسم کے ذریعے ڈاکٹری تعلیم اس حد تک جائز ہے جس حد تک شریعت اس کی اجازت دیتی ہے وہ طریقہٴ تعلیم یا تجربہ کسی صورت میں جائز نہیں ہوگاجو قرآن وسنت اور فقہ اسلامی کی نصوص سے متصادم اور مخالف ہوگا، چونکہ کسی زندہ انسان کے لیے کسی مردہ انسان کی قطع وبرید اسلام میں جائز نہیں ہے، اس لیے اس ناجائز علاج کا طریقہٴ تعلیم بھی ناجائز ہوگا، پھر تعلیم کے لیے کئی دوسری صورتیں بھی اختیار کی جاسکتی ہیں، مثلاً حیوانی ڈھانچوں سے کام لیا جاسکتا ہے، پلاسٹک کے انسانی ڈھانچے استعمال کیے جاسکتے ہیں، مجسمہ کے گناہ سے بچنے کی تدبیر یہ ہے کہ اس کے اعضاء علیحدہ علیحدہ کرکے رکھے جائیں، بوقت ِ ضرورت ان کو ملایا جائے، اور آج کل تو ایسے جدید آلات بھی آچکے ہیں جن کے ذریعے انسان کے اندرونی اعضاء کا تفصیلی معائنہ کیا جاسکتا ہے ، اس لیے تعلیم کے نام پر انسانی لاشوں کی بے حرمتی کرنا اور انہیں ِ تختہٴ مشق بنانا کسی بھی صورت جائز نہیں۔اور اس میں اس کے ساتھ ساتھ مستورحصوں کو بلاضرورت دیکھنے کا گناہ بھی ہوگا۔
اور قتل کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے شریعت نے جو اصول متعین کیے ہیں ان پر عمل کیا جائے، قتل کا دعویٰ کرنے والے سے گواہ طلب کیے جائیں، گواہ نہ ہونے کی صورت میں قسم لی جائے، اگر نامعلوم قاتل قتل کرکے فرار ہوگیا تو اس کی تفتیش کی جائے، مقتول جہاں پڑا ہوا ملے اس علاقے کے لوگوں سے معلوم کیا جائے، اگر قاتل معلوم ہوجائے تو بہتر، ورنہ اس علاقے کے پچاس مَردوں سے قسم لی جائے اور قسم اٹھانے کے بعد ان پر دیت لازم کردی جائے، ان شرعی اصولوں کو چھوڑ کر بلادلیل وبلافائدہ غیر شرعی تفتیش کے تحت مردہ انسان کی چیر پھاڑ کرنا بھی ناجائز وحرام ہے۔
البتہ اگرکسی مردہ انسان کی قطع وبرید پر دوسرے زندہ شخص کی جان بچانا یا کسی کا مالی حق وصول کرنا موقوف ہو تو ایسی صورت میں فقہاء نے مردہ انسان کے جسم کی کاٹ چھانٹ کی اجازت دی ہے، مثلاً مردہ ماں کے پیٹ میں زندہ بچہ ہو اور اسے ماں کا پیٹ چیرے بغیر نکالنے کی کوئی صورت نہ ہو، اسی طرح کوئی شخص کسی کا قیمتی مال بلاوجہ جان بوجھ کر نگل لے اور پھر مر جائے اور اس کا ترکہ بھی اتنا نہ ہو جس سے اس مال کی قیمت ادا کی جاسکے اور کوئی دوسرا بھی اس مال کی قیمت ادا کرنے کی ذمہ داری نہ لے اور صاحب ِ حق بھی اپنا حق لینے پر بضد و تو ایسی صورت میں میت کو چیر کر اس کا مال نکالا جائے گا۔
خلاصہٴ کلام
انسان خواہ مسلمان ہو یا کافر، زندہ ہو یا مردہ خالص اللہ تعالیٰ کی ملک ہے، اور مکرم ومحترم ہونے کی وجہ سے غیر مستعمل ہے، اس لیے زندہ ہو تو اپنی جان یا کسی عضو کو ضائع کرنے یا شدید مجبوری کے بغیر کاٹنے کی اجازت نہیں ہے، البتہ اپنی جان یا دیگر اعضاء کی اصلاح یا حفاظت کی خاطر جسم کے کسی حصہ کو کاٹنا یا چیر کر پیوند کاری کرنا جائز ہے، اسی طرح جسم کے کسی ایک حصہ رگ، جھلی، کھال اور گوشت وغیرہ کے ناکارہ یا کٹنے کی صورت میں دوسرے حصے سے یہ چیزیں نکالنے کے بعد وہاں لگا کرعلاج کرنے کی بھی بعض علماء کے نزدیک گنجائش ہے۔ لیکن دوسرے کی جان یا عضو بچانے کے لیے اپنے جسم کا کوئی حصہ گردہ، پتہ، پھیپھڑا، بال ، دل اور آنکھوں کا قرنیہ وغیرہ دینا اور اس کی پیوندکاری کرنا خوا ہ رضاکارانہ طور پر ہو یا قیمت لے کر بالکل جائز نہیں ہے، اسی طرح مرنے کے بعد ان کی وصیت کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ مردہ انسان کی قطع وبرید پر دوسرے زندہ شخص کی جان بچانا یا کسی کا مالی حق وصول کرنا موقوف ہو تو بقدر ضرورت اس کی اجازت ہے، اس کے علاوہ مُردہ انسانی جسم کے ذریعے ڈاکٹری تعلیم، قتل کی وجوہات معلوم کرنے کے لیے یا اس کے اعضاء کی زندہ شخص میں پیوندکاری کے لیے قطع وبرید قطعاً ناجائز وحرام ہے۔
پیوندکاری کی ضرورت کے وقت انسان کے عضو کا بدل جمادات، نباتات اور حیوانات کے حلال اجزاء میں تلاش کیا جائے۔ اور فنی مہارت کے ذریعے اس کو کارآمد ومفید بنایا جائے۔ خنزیر اپنے تمام اجزاء کے ساتھ نجس ہے، اس لیے اس کا استعمال اضطراری حالت کے سوا نہ کیا جائے، دیگر حرام اشیاء کا استعمال مرض کی شدت و طوالت کے اندیشہ کی وجہ سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ خون کا بھی یہی حکم ہے۔ اور اگر کوئی شخص حرام اشیاء سے علاج نہیں کرتا اگرچہ اضطراری حالت کیوں نہ ہو تو اس کی بھی گنجائش ہے، وہ گنہگار نہ ہوگا۔
اگرمزید تفصیل مطلوب ہو تو مفتی اعظم پاکستان، مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ کے رسالہ: ”تنشیط الأذہان في الترقیع بأعضاء الإنسان“ (اعضاء انسانی کی پیوند کاری) اور مفتی رشید احمد صاحب رحمہ اللہ کے رسالہ: ”توقیع الأعیان علی حرمة ترقیع الإنسان “ (انسانی اعضاء کی پیوند کاری) اور رسالہ : ”ڈاکٹری تعلیم کے لئے انسانی ڈھانچے“ اور مفتی عبدالسلام چاٹگامی صاحب مدّظلّہ العالی کے رسالہ: ”انسانی اعضاء کا احترام اور طبِّ جدید “کا مطالعہ فرمائیں ۔
No comments:
Post a Comment