Sunday 18 February 2018

وہ شخص لہجہ بڑا دلنشین رکھتا تھا

ایس اے ساگر
بعض لو گ سمجھتے ہیں کہ اچھی گفتگو کرنا کسی فن سے کم نہیں اور یہ فن اُن لوگوں کو آتا ہے جن کا مطالعہ اور سوچ وسیع ہو ۔۔ زندگی کے ہر شعبے سے تھوڑی بہت واقفیت ضرور ہو تاکہ کسی بھی موضوع پر بات کی جا سکے ۔۔ گفتگو کے ماہر وہ لوگ بھی ہوتے ہیں جو بات کرتے ہوئے مخاطب کے موڈ کا خیال رکھیں ۔۔
"آج گھر میں کھانا پکا ہے".
اس فقرے کے مختلف الفاظ پر زور دینے سے فقرے کے مطلب بدل جاتے ہیں، جیسے:
1. اگر بولنے میں لفظ "آج" پر زور دیں کہ
"آج" گھر میں کھانا پکا ہے...
تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ بہت دن سے گھر میں کھانا نہیں بن رہا تھا
، آج بنا ہے.
2. اگر لفظ "گھر" پر زور دیں کہ
آج "گھر" میں کھانا پکا ہے.. تو اس کا مطلب ہوگا کہ پہلے کہیں اور کھانا بنتا تھا, آج گھر میں بنا ہے.
3. اگر لفظ "کھانا" پر زور دیں... کہ آج گھر میں "کھانا" پکا ہے.. تو اس کا مطلب ہو گا کہ پہلے گھر میں کچھ اور بنتا تھا, آج کھانا بنا ہے.
4. اگر لفظ "پکا" پر زور دیں کہ آج گھر میں کھانا "پکا" ہے.. تو مطلب ہوگا کہ پہلے کھانا کچا رہ جاتا تھا، آج پکا ہے.
اس کے بعد آپ کی خیر نہیں...  
 خوبصورت اور دلنشین لہجے ہیں ماحول اور موقع کی مناسبت سے بات کرنا کہ سننے کے بعد دل چاہتا ہے گفتگو ختم نہ ہو بات سے بات چلتی رہے ۔۔۔
 اسی طرح اگر کوئی شخص میٹھے اور نرم لہجے میں بات کرنے کا عادی ہو اور ساتھ ہی اُس کی 'میں' ختم نہ ہو یعنی خود کو ہر بات میں دوسروں سے برتر ظاہر کرنا ہر بات میں دوسرے کی نفی کرنا ۔۔۔۔ ایسے لوگوں کی میٹھی باتیں زہر اور لہجہ خار سے کم محسوس نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔ چھوٹے بچّوں کے توتلے تلّفظ اور ادائیگی کا جو دلکش اور حسین لہجہ ہوتا ہے اُس پر تو قربان ہونے کا دل چاہتا ہے ۔۔ اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ میں ہمیں بہترین معاشرتی زندگی بسر کرنے اور معاشرے میں دل پسند شخصیت بننے کی مکمل تعلیم و تربیت دی گئی ہے، 
...............................
دِل جیتنے کے دس نبوی طریقے
نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ میں بہترین معاشرتی زندگی بسر کرنے اور معاشرے میں دل پسند شخصیت بننے کی مکمل تعلیم و تربیت دی گئی ہے، اُسی تعلیم و تربیت میں سے، لوگوں کے دِلوں میں اپنی اچھی جگہ بنانے اور اُن کے دِل جیتنے کے دس طریقے آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں ،توجہ اور تدبر سے مطالعہ فرمایے، اور انہیں اپنانے کی بھر پور کوشش کیجیے،
اللہ جلّ جلالہُ ہم سب کو اِن طریقوں پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے،
پہلا طریقہ 
لوگوں کی ضروریات پوری کرنا اور ان کی خدمت کرنا
اِنسان تو اِنسان جانوروں کی فطرت میں بھی یہ شامل ہے کہ جو کوئی اُن کی خدمت کرے یا اُن کی ضروریات پوری کرنے کا سبب ہو ، اُس کے لیے اُن کے دِلوں میں محبت اور احترام پیدا ہو جاتا ہے ، اِس فطری خصلت کو اپنی ذات کے لیے استعمال کرنے کا طریقہ ہمیں ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قولی اور عملی طور پر سکھایا،
ہمارے دین کی تعلیمات کے مطابق، اپنے گھر والے اور اپنی قریبی رشتہ داروں کا حق دوسروں سے مقدم ہوتا ہے، اِس  کی قولی تعلیم دیتے ہوئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا: 
﴿خَيرُكُم خَيرُكُم لأَهلِهِ وَأَنَا خَيرُكُم لأَهلِى:::تُم لوگوں میں سب سے زیادہ اچھائی والا وہ ہے جو اس کے گھر والوں کے ساتھ اچھائی کرتاہے اور میں تُم لوگوں میں سے سب سے زیادہ اپنے گھر والوں سے اچھائی کرنے والا ہوں﴾ سنن ابن ماجہ /حدیث/1977کتاب النکاح/باب50، سنن الترمذی  /حدیث/3895 کتاب النکاح/باب 64، إِمام الالبانی رحمہُ اللہ نے فرمایا: حدیث صحیح ہے،
ہم میں سے کتنے ایسے ہیں جنہیں اپنے قریبی ترین رشتہ داروں  حتیٰ  کہ والدین کی خدمت اور اُن کے حقوق کی ادائیگی کی بھی پروا نہیں ہوتی ، پس ایسے لوگ رشتہ دار تو رہتے ہی ہیں لیکن ان کے لیے دِلوں میں محبت و احترام نہیں ہوتا ، 
رشتہ داروں کے بعد  کچھ اورلوگ بھی ایسے ہیں جن کے ہم پر بہت حق ہوتے ہیں اور ہمیں چاہیے کہ اُن کے حقوق ادا کرتے ہوئے اور اُس سے زیادہ اُن کی خدمت کرتے ہوئے اُن کے دِل جیتیں،
وہ لوگ ہیں ہمارے پڑوسی، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا 
مَنْ كَانَ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ فَلْيُكْرِمْ جَارَهُ 
(جو کوئی اللہ اور آخرت کے دِن پر اِیمان رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو عِزت دے﴾صحیح بخاری /حدیث/6019 کتاب الادب/باب31، سنن الترمذی  /حدیث/182 کتاب الاِیمان/باب21،
رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اپنے اِن مذکورہ بالا فرامین مُبارکہ میں اور اپنے اعمال مُبارک سے اِن سب لوگوں کے دل جیتنے کے گُر  سکھائے ہیں کہ ہم اِن کے ساتھ اچھائی والا معاملہ رکھیں، اپنے رشتہ داروں، پڑوسیوں اور آس پاس والے سب ہی لوگوں کے حقوق کی ادائیگی کی جائے اور اللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے اِن کی اضافی خدمت و مدد کریں، مُسلمانوں سے ملاقات کی ابتداء سلام سے کی جائے، غیر مسلمانوں کو بھی مہذب انداز میں ملا جائے،
بیماروں کی تیمار داری کی جائے،
 مصیبت زدہ کی مدد کی جائے،
اُن کے اندرونی معاملات کی سُن گُن میں نہ رہا جائے،
 اُن کی ذاتی غلطی یا کوتاہی کی تشہیر نہ کی جائے،
اُنہیں دُرستگی اور حق کی دعوت دی جائے، اللہ کے دِین کی دعوت دی جاتی رہے، اللہ اور اس کے رسول کریم محمدصلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اطاعت و فرمان برداری کی دعوت دی جاتی رہے،
یا درکھیے کہ، رشتہ داراور، پڑوسی (جن میں صرف رہائشی پڑوسی ہی نہیں بلکہ اپنے کام و کاروبار کے ساتھی بھی شامل ہیں )اُن کا حق کسی اور سے زیادہ ہوتا ہے ،شرعی طور پر بھی، اور چونکہ اُن کے ساتھ معاشرتی تعلقات بھی دوسروں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں اس لیے معاشرتی طور پر بھی اُن کے حقوق دوسروں سے زیادہ ہوتے ہیں ، لہذا اُن کے حقوق کی ادائیگی اور اُن حقوق سے زیادہ، لیکن اللہ اور رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی مقرر کردہ حُدود میں رہتے ہوئے اُن کی  اِضافی خدمت اور مدد کی جانی چاہیے۔  
:::::  دوسرا طریقہ  ::::::: 
حِلم و عفو ، طاقت ور ہونے کے باوجودغصے پر قابو رکھنا ، اور  درگُذر سے کام لینا :::::
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کوئی آپ کی حق تلفی کرتا ہے، آپ کے ساتھ بد تمیزی والا رویہ رکھتا ہے ، وعدہ خلافی کرتا ہے، آپ کے کام مکمل کرنے میں تاخیر کرتا ہے ، آپ کے ساتھ بد کلامی کرتا ہے ،اِس کا فطری سا نتیجہ غصہ آنا ہے ، اور ایسے شخص کو اُس کی زیادتی کا بدلہ دینے کی خواہش کا ظاہر ہونا بھی ایک فطری سا عمل ہے،
اپنی ایسی کسی خواہش کی تکمیل کی طاقت رکھنے کے باوجود اپنے غصے کو قابو میں رکھنا 'حِلم' ہے اور یہ ایسا عمل ہے جو لوگوں کے دِل جیتنے کے کامیاب نسخوں میں سے ہے،
اللہ تبارک و تعالیٰ نےایسا کرنے والوں کی تعریف فرمائی ہے ﴿الَّذِينَ يُنفِقُونَ فِي السَّرَّاءِ وَالضَّرَّاءِ وَالْكَاظِمِينَ الْغَيْظَ وَالْعَافِينَ عَنِ النَّاسِ وَاللَّهُ يُحِبُّ الْمُحْسِنِينَ::: جو لوگ خوشی اور غمی(دونوں ہی حال )میں اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اور غصے پر قابو رکھتے ہیں اور لوگوں کو معاف کرتے ہیں ، اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے﴾سورت آل عمران (3)/آیت 134،
اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِس رویے کو ہمیشہ ہی اپنائے رکھا ہے ، جس کی بہت سی مثالیں سیرت مُبارکہ میں میسر ہیں ،
 بر سبیل تذکرہ ایک کا ذکر کرتا چلوں کہ ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم ایک جگہ سے گُذر رہے تھے ، اُن کے جسم مُبارک پر نجران کی بنی ہوئی ایک چادر تھی جس کے کنارے کافی سخت اور بھاری تھے ، اچانک ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو اُن کی چادر سے پکڑا لیا اور اتنی قوت سے اپنی طرف کھنچا کہ اُن کی گردن مُبارک کے قریب اُس چادر کے کناروں کا نشان بن گیا، اسی حالت میں اُس دیہاتی نے کہا: جو مال اللہ نے تمہیں دیا ہے اُس میں سے مجھے دینے کا حکم بھی کرو،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس کی طرف رُخ مُبارک پھیرا اور مُسکرا دیے اور اُسے کچھ عطاء کرنے کا حکم فرمایا ۔ 
صحیح بخاری /حدیث/6088 کتاب الادب/باب 68، صحیح مُسلم/حدیث/2476کتاب الزکاۃ /باب45، غور کیجیے کہ یہ اُس کا رویہ تھا جس کا مُقام  اللہ کے بعد سب سے بلند تھا، ہے اور ہمیشہ رہے گا، جس کے صحابی رضی اللہ عنہم اجمعین اُس کے پسینے کو بھی زمین تک نہ پہنچنے دیتے تھے ، اگر وہ حکم فرماتا تو اُس دیہاتی کی تکہ بوٹی کر دی جاتی ، لیکن دیکھیے کہ زمینی اور آسمانی قوت و مدد رکھنے کے باوجود اُس صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کس عظیم و بے مثال حِلم کا مظاہرہ فرمایا، اس خُلق عظیم کی گواہی تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے بھی دی 
﴿وَإِنَّكَ لَعَلى خُلُقٍ عَظِيمٍ:::اور بے شک آپ عظیم اخلاق کے حامل ہیں﴾ سورت القلم (68)/آیت 4،
اور  یہ بھی بتایا کہ 
﴿فَبِمَا رَحْمَةٍ مِّنَ اللَّهِ لِنتَ لَهُمْ وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِينَ  ::: پس اللہ کی طرف سے جو رحمت ہے اُس کے سبب آپ اُن کے لیے نرم دل ہیں اور اگر آپ سخت کلام اور سخت دل ہوتے تو یہ سب آپ کے گرد سے بھاگ جاتے ہیں پس آپ معاف کیا کیجیے اور اُن کے لیے بخشش طلب کیا کیجیے ، اور اُن سے اپنے کاموں میں مشورہ بھی کیا کیجیے اور جب آپ (کسی کام کا) ارداہ فرما لیں تو پھر اللہ پر توکل کیجیے ، بے شک اللہ توکل کرنے والوں سے محبت فرماتا ہے﴾سورت آل عمران(3)/آیت 159،
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا فرمان مبارک ہے ﴿مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ :::صدقہ کرنے سے مال میں کچھ کمی نہیں ہوتی ، اور اللہ کسی بندے کو اُس  بندے کے درگذر والے رویے کی وجہ سے عِزت میں بڑھاوا ہی دیتا ہے ، اور جب بھی کوئی بندہ تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ اُسے (درجات میں ) بلند ہی کرتا ہے﴾ صحیح مُسلم /حدیث4689/کتاب البر و الصلۃ و الآداب/باب19 ،
پس اس حلم اور در گذر پر عمل پیرا ہونے سے آپ لوگوں کو اپنی محبت اور احترام کے ساتھ اپنے ارد گرد جمع رکھ سکتے ہیں۔
::::::: تیسرا طریقہ ::::::: 
معاملات میں سخاوت اور آسانی کا مظاہرہ کرنا:::::::
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا ﴿رَحِمَ اللَّهُ رَجُلًا سَمْحًا إِذَا بَاعَ، وَإِذَا اشْتَرَى، وَإِذَا اقْتَضَى:::اللہ اُس شخص پر رحم کرے جو فروخت کرنے میں سخاوت و نرمی کرتا ہے ، اور جب خریداری کرتا ہے تو سخاوت و نرمی کرتا ہے ، اور جب اپنا کوئی حق طلب کرتا ہے تو سخاوت و نرمی کرتا ہے﴾ صحیح البخاری/حدیث2076 /کتاب  البیوع/باب16،
 فروخت کرنے میں سخاوت اور نرمی یہ ہے کہ خریداروں کی ضرورت کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے مال کو اُس کی بازاری مالیت سے بڑھا کر نہ بیچا جائے اور اِس کے علاوہ بھی کسی اور ذریعے سے  خریداروں کے لیے خریداری مشکل نہ بنائی جائے، لالچ اور خود غرضی والا معاملہ نہ کیا جائے ، خا ص طور پر جب خریدار کمزور اور غریب ہو تو مزید سخاوت اور نرمی کی جانی چاہیے،  
خریداری میں سخاوت اور نرمی یہ ہے کہ فروخت کرنے والے کے ساتھ سختی نہ کی جائے اور مُناسب رویے کے ساتھ اُس کے مال کی مالیت کے مطابق خریدا جائے ، خاص طور پر جب فروخت کرنے والا غریب اور ضرورت مند ہوتو اُس کے ساتھ زیادہ سے زیادہ سخاوت اور نرمی والا معاملہ کیا جانا چاہیے،
اپنا حق طلب کرنے میں سخاوت اور نرمی یہ ہے کہ جب کسی سے اپنا حق طلب کیا جائے تو اُس کی مالی، مادی اور معاشرتی حیثیت کو مد نظر رکھا جائے اور اُس کے اِسلامی اَدب، اِنسانی اَدب کو ملحوظء خاطر رکھتے ہوئے اُس سے اپنا حق طلب کیا جائے ، اور اگر ممکن ہو تو غریب اور کمزور لوگوں کو اپنا حق معاف کردیا جائے، اور جب کسی کا حق ادا کرنا ہو تو اگر ممکن ہو تو اُس کے حق سے زیادہ ادا کر دیا جائے،
دیکھیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے یہی کچھ کیا اور اِس سخاوت کے ذریعے ایک دِل جیت لیا،
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ُ سے روایت ہے کہ ایک شخص کے کچھ اونٹ، ایک خاص عمر کے اونٹ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی طرف واجب الادا تھے، وہ شخص آیا اور اپنے حق کا مطالبہ کیا، اور سختی کا مظاہرہ کیا، صحابہ رضی اللہ عنہم نے اُسے کچھ سبق دینے کا ارادہ کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اِرشادفرمایا: 
﴿إِنَّ لِصَاحِبِ الْحَقِّ مَقَالًا، وَاشْتَرُوا لَهُ بَعِيرًا فَأَعْطُوهُ إِيَّاهُ :::بے شک صاحب حق بات کر سکتا ہے، اِس کے لیے  اونٹ خریدو اور اِسے دے دو﴾ اور(ایک روایت میں ہے کہ)صحابہ رضی اللہ عنہم کو حکم فرمایا ﴿أَعْطُوهُ سِنًّا مِثْلَ سِنِّهِ  :::اِسے اِس کے اونٹوں کے ہم عمر اونٹ دے دو﴾
صحابہ رضی اللہ عنہم نے تلاش کیا تو اُسی عمر کے اونٹ نہ ملے، بلکہ اُن سے اچھے اونٹ ہی تھے ، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کو خبر کی ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اِرشاد فرمایا:
﴿فَاشْتَرُوهَا، فَأَعْطُوهَا إِيَّاهُ، فَإِنَّ مِنْ خَيْرِكُمْ أَحْسَنَكُمْ قَضَاءً :::وہ اونٹ خرید کر اِسے دے دو، بے شک تُم لوگوں کے سب سے زیادہ خیر والوں میں سے وہ (بھی)ہیں جو تُم لوگوں میں سے سب سے اچھے طریقے پر (دوسروں کے ) حق ادا کرتے ہیں﴾
وہ شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی اِس عطاء پر حیران کن خوشی سے بول اٹھا:
أَوْفَيْتَنِي أَوْفَى اللَّهُ بِكَ:::آپ نے بہترین طور پر میرا حق ادا کیا ہے اللہ تعالیٰ آپ کو بہترین اجر سے نوازے """،صحیح بخاری /حدیث/2306 کتاب الوکالۃ/باب6، صحیح مُسلم/حدیث/4194کتاب المساقاۃ /باب22،
غور فرمایے کہ جو اپنا حق طلب کرنے میں سختی اور شدت کا مظاہرہ کررہا تھا، سخاوت اور نرمی والا معاملہ پا کر گرویدہ ہوگیا،
پس اگر ہم اپنے حبیب  محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے سکھائے ہوئے اس طریقے کے مطابق اپنے معاملات مکمل کیا کریں تو ان شاء اللہ لوگوں کے دل جیت سکتے ہیں ۔
::: چوتھا طریقہ ::: مدارت والا رویہ اپنانا ، یعنی دینی فوائد کےحصول کے لیے کسی بد اخلاق شخص سے بھی نرم لب و لہجہ میں گفتگو کرنا :::
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم شاذ و نادر ہی کسی کے ساتھ غصے اور ناراضگی والا چہرہ لیے بات فرماتے تھے ، حتیٰ کہ اگر کسی کے بارے میں اُس کی بد اخلاقی کا اُنہیں پتہ بھی ہوتا تو بھی اُس کے ساتھ نرمی والی گفتگو فرماتے کہ اِس طرح وہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کا گرویدہ ہو جاتا اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی بات کا اُس پر مزید اثر ہوتا،
إِیمان والوں کی والدہ محترمہ امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے کہ، ایک دفعہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس حاضری کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا: 
﴿بِئْسَ أَخُو العَشِيرَةِ، وَبِئْسَ ابْنُ العَشِيرَةِ::: یہ اپنے خاندان میں ایک برا بھائی ہے اور اپنے خاندان میں ایک برا بیٹا ہے﴾، 
جب و ہ شخص حاضر ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُس کی طرف پوری طرح متوجہ ہوئے اور مُسکرا کر نرمی سے بات فرمائی ، جب وہ چلا گیا تو میں نے عرض کی ، یا رسول اللہ ، آپ نے اُس کے (اِخلاق کے)بارے میں کچھ سختی والی بات فرمائی تھی اور جب اُس کے ساتھ گفتگو فرمائی تو اُس کی طرف  اچھی طرح متوجہ ہو کر  اور نرمی کے ساتھ فرمائی،
تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمایا ﴿أَيْ عَائِشَةُ[مَتَى عَهِدْتِنِي فَحَّاشًا]، إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ مَنْ تَرَكَهُ - أَوْ وَدَعَهُ النَّاسُ - اتِّقَاءَ فُحْشِهِ ::: اے عائشہ[تم نے مجھے کب بد کلامی کرنے والا پایا ؟ ]قیامت والے دن اللہ کے ہاں سب سے بری جگہ پر وہ شخص ہو گا جسے لوگ اُس کی بد کلامی کے خوف سے چھوڑ دیتے ہیں﴾صحیح البخاری/کتاب الادب/باب38،48،82، صحیح مسلم /کتاب البر و الصلۃ و الآداب/باب 22،
اِس حدیث شریف میں ہمارے زیر مطالعہ موضوع کے علاوہ اور بھی کئی سبق اور احکام ہیں،
ہمیں اِس حدیث مُبارک میں اپنے موضوع کے متعلق یہ سبق ملتا ہے کہ اگر ہم کسی مُسلمان کی بد اخلاقی کے بارے میں جانتے بھی ہوں تو بھی ہمیں اُس کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا چاہیے کہ شاید ہماری خوش اخلاقی کو اللہ اُس میں کسی مثبت تبدیلی کا سبب بنا دے ، اور اُس کے دل میں ہمارے لیے احترام مہیا کر دے تو وہ ہماری نصیحت ماننے لگے ، اس رویے کو مدارت کہا جاتا ہے،
خیال رہے کہ مدارت اور مداھنت یعنی خوشامد اور جھوٹی تعریف وغیرہ میں بہت فرق ہوتا ہے ، اِس کے بارے میں بات کسی اور وقت اِن شاء اللہ ۔
::::::: پانچواں طریقہ :::::::
دُوسروں کی زندگیوں میں خوشی و سکون مہیا کرنا :::::::
یہ ایسا کام ہے جو نہ صرف دوسروں کے دِل آپ کا مُحب بننے کا سبب بنتا ہے بلکہ اِس محبت  کو پائیداری بھی مہیا کرتا ہے ، اور کسی مُسلمان کی زندگی میں کوئی خوشی اور سکون مہیا کرنا اگر اللہ کی رضا کے لیے ہو تو بہت أجر و ثواب والا کام ہوتا ہے ، ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے  کسی مُسلمان کی زندگی میں خوشی داخل کرنے کے بہت سے طریقے بتائے ہیں ، مثلاً،
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس  ایک شخص  آیا اور سوال کیا کہ "اے رسول اللہ، اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب لوگ کون ہیں؟ اور اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبوب کام کون سے ہیں؟"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم  نےجواب اِرشاد فرمایا: 
﴿أَحَبُّ النَّاسِ إِلَى اللَّهِ أَنْفَعَهُمْ لِلنَّاسِ، وَأَحَبُّ الْأَعْمَالِ إِلَى اللَّهِ سُرُورٍ تُدْخِلُهُ عَلَى مُسْلِمٍ، أَوْ تَكْشِفُ عَنْهُ كُرْبَةً، أَوْ تَقْضِي عَنْهُ دِينًا، أَوْ تُطْرَدُ عَنْهُ جُوعًا، وَلِأَنْ أَمْشِيَ  مَعَ أَخٍ لِي فِي حَاجَةٍ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتَكِفَ فِي هَذَا الْمَسْجِدِ، يَعْنِي مَسْجِدَ الْمَدِينَةِ، شَهْرًا، وَمَنْ كَفَّ غَضَبَهُ سَتَرَ اللَّهُ عَوْرَتَهُ، وَمَنْ كَظَمَ غَيْظَهُ، وَلَوْ شَاءَ أَنْ يُمْضِيَهُ أَمْضَاهُ، مَلَأَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَلْبَهُ أَمْنًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ مَشَى مَعَ أَخِيهِ فِي حَاجَةٍ حَتَّى أَثْبَتَهَا لَهُ أَثْبَتَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدَمَهُ عَلَى الصِّرَاطِ يَوْمَ تَزِلُّ فِيهِ الْأَقْدَامُ :::
اللہ کے ہاں سب سے زیادہ  محبُوب(لوگوں میں سے) وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچانے والے ہوتے ہیں ،  اور اللہ کے ہاں سب سے زیادہ محبُوب (کاموں میں سے )یہ کام ہے کہ تُم کسی مُسلمان کو خوشی اورسکون مہیا کرو، یا اُس کی کوئی تکلیف دُور کر دو ، یا اُس کا قرض ادا کر دو ، یا اُس کی بھوک دُور کر دو ، اور مجھے اِس مسجد (نبوی)میں ایک مہینہ اعتکاف میں بیٹھنے سے زیادہ یہ بات پسند ہے کہ میں اپنے کسی (مُسلمان)بھائی کی مدد کے لیے اُس کے ساتھ (خواہ کچھ قدم ہی) چلوں، اور جو کوئی اپنے غصے کو روکے رکھتا  ہے اللہ اُس کی پردہ داری فرماتا ہے، اور جو کوئی اپنے جوش کو قابو میں رکھتا ہے باوجود اِس کے کہ وہ اُس کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہو ، تو قیامت والے دِن اللہ اُس کے دِل کو اَمن سے بھر دے گا ، اور جو کوئی اپنے (مُسلمان)بھائی کی کوئی ضرورت پوری کرنے کے لیے اُس کے ساتھ چلا یہاں تک کہ اُس کی ضرورت پوری کر دی تو اللہ تعالیٰ اُس دِن اُس کے قدم (پُل) صِراط پر مضبوط کر دے گاجِس دِن صِراط پر (سب ہی کے قدم) پھسل رہے ہوں گے﴾ المعجم الکبیر، و الاوسط، و الصغیر، سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 906،
ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے کسی کو خوشی مہیا کرنے کا سب سے ہلکا اور آسان طریقہ جو ہر کسی کے بس میں ہوتا ہے  بھی بتایا ہے اور یہ بھی سمجھایا ہے کہ اگر یہ کام اللہ کی رضا کے لیے کیا جائے تو نیکی بن جاتا ہے ،  اور وہ طریقہ یہ ہے کہ﴿لاَ تَحْقِرَنَّ مِنَ الْمَعْرُوفِ شَيْئًا وَلَوْ أَنْ تَلْقَى أَخَاكَ بِوَجْهٍ طَلْقٍ :::نیکیوں میں سے کسی کام کو بھی کمتر نہ سمجھو ، خواہ تُم اپنے (مُسلمان)بھائی کو مُسکرا ہی کر ملتے ہو(تو اسے بھی کمتر عمل نہ جانو) ﴾ صحیح مسلم /حدیث6857 /کتاب البر و الصلۃ و الآداب/باب43۔
تو کم از کم مُسکراتا ہوا ہشاش بشاش چہرہ لے کر دُوسروں سے ملا تو جا سکتا ہے، خاص طور پر اپنے مُسلمان بھائی بہنوں سے ، صِرف اِس ایک بظاہر معمولی سے عمل کے ذریعے اِن شاء اللہ آپ دُوسرں کے دِل جیت سکتے ہیں ، اور نیکی بھی کما سکتے ہیں۔
::: چَھٹا طریقہ:::
مُسلمانوں کے ساتھ أدب و احترام والا رویہ رکھنا اور غیر مُسلموں کے ساتھ بھی اچھا رویہ رکھنا  :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم اُن کے پاس آنے والوں ، اُن سے ملنے والوں کی خوب قدر فرمایا کرتے تھے ، جس سے اُن لوگوں کو اپنے لیے  احترام کا احساس ہوتا، مثلاً آنے والے کے لیے کپڑا بچھا کر اُس پر بٹھانا ، اپنے بیٹھنے والی چادر یا بچھونے پر اپنے ساتھ بٹھا لینا ، عملی تعلیم کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نےاپنے مُسلمانوں کی قدر و منزلت میں کمی کرنے والوں کو بڑے خوفناک انجام کی خبر بھی دی ، فرمایا ﴿لَيْسَ مِنَّا مَنْ لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَيَعْرِفْ شَرَفَ كَبِيرِنَا ::: وہ ہم میں سے نہیں جِس نے ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور ہمارے بڑوں کی عِزت نہ سمجھی﴾سنن الترمذی /ابواب البر الصلۃ/باب16، الفاظ کے تھوڑے بہت فرق کے ساتھ یہ صحیح حدیث دیگر بھی بہت سے کتب میں مروی ہے، [1]
مذکورہ بالا حدیث شریف سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ کسی مُسلمان کی کا واجب الاداء احترام ادا کیا ہی جانا چاہیے ،اور بحیثیت مُسلمان اُس کی قدر و منزلت اُسے دِی ہی جانی چاہیے،
جس میں سے بنیادی سا ادب کسی کے ساتھ مکمل توجہ کے ساتھ بات کرنا ہے ، اور کسی کی بات نہ کاٹنا ہے، کیونکہ کسی کی بات کاٹنا کافی بد تہذیبی والا کام سمجھا جاتا ہے اور جس کی بات کاٹی جائے اس کے حق میں بے ادبی جانا جاتا ہے،
رہا معاملہ غیر مُسلموں کا تو جب تک کہ وہ کسی طور اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کام کرتے ہوئے دکھائی نہ دیں تو اُن کے ساتھ بھی بحیثت انسان اچھا سلوک کیا جانا چاہیے ، اس کی تعلیم بھی ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مبارکہ سے ملتی ہے۔
:::::::ساتواں طریقہ ::::::: اچھی پاکیزہ بات کرنا :::::::
یعنی ایسی بات کرنا جو مخاطب پر اور سُننے والے پرکوئی منفی اثر مرتب نہ کرے، اُسے اُس کے رب اور اُس رب کے سچے دین کی طرف راغب کرنے والی ہو ،  اُسےنیکی اور بھلائی کی طرف مائل کرنے والی ہو ، ایسی ہو کہ مخاطب  اور سُننے والے کو اُس کی خامیوں سےآگاہی بھی ہو جائے اور برا بھی نہ لگے ،
ایسی بات کو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے جہنم کی آگ سے نجات کے اسباب میں قرار فرمایا ﴿اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ تَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ:::آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے(کے ذریعے) سے بچو ، اور اگر تمہیں وہ بھی میسر نہ ہو تو پاکیزہ (جائز ،اچھی ، مُثبت)بات(کے ذریعے)سے(بچو) ﴾صحیح البخاری/کتاب الادب/باب 34، ٍٍصحیح مُسلم /حدیث1016،
اور ایسی بات کو صدقہ قرار دیا ہے﴿الكَلِمَةُ الطَّيِّبَةُ صَدَقَةٌ :::پاکیزہ(جائز ،اچھی ، مُثبت)بات صدقہ ہے﴾ سابقہ حوالہ۔
پس ایسی بات نہ صرف ہماری آخرت کے فوائد کا سبب ہوتی ہے بلکہ دُنیا میں بھی دوسروں کے دِلوں میں اپنے لیے محبت اور احترام حاصل کرنے کا سبب ہوتی ہے، ان شاء اللہ،
خاص طور پر جب کسی کو نصیحت کی جائے اور اُس کے ساتھ دِین کے کسی معاملے پر بات کی جائے تو اپنی بات کو زیادہ سے زیادہ اچھے اور پاکیزہ انداز میں پیش کرنا چاہیے کہ کتنے ہی دِل اچھی، پاکیزہ انداز میں کی گئی  بات سن کر اُس کی طرف مائل ہو جاتے ہیں اور کتنے ہی دِل اچھی لیکن ، برے انداز میں پیش کی گئی بات سن کر اُس سے بد ظن ہو جاتے ہیں ، و لا حول ولا قوۃ الا باللہ ۔
::::::: آٹھواں طریقہ :::::::  
تواضع ، یعنی  اِنکساری والا رویہ رکھنا :::::::
عجز و انکساری والا رویہ مُسلمان کے لیے اس کی دُنیا اور آخرت میں بلندیوں کا اہم سبب ہے ، بس اُسے اللہ کی رضا کے لیے اختیار کیا جائے ،
 اِس کی خبر بھی ہمیں ہمارے محبوب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے فرمائی کہ ﴿مَا نَقَصَتْ صَدَقَةٌ مِنْ مَالٍ وَمَا زَادَ اللَّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلَّا عِزًّا وَمَا تَوَاضَعَ أَحَدٌ لِلَّهِ إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ :::صدقہ کرنے سے مال میں کچھ کمی نہیں ہوتی ، اور اللہ کسی بندے کو اُس  بندے کے درگُذر والے رویے کی وجہ سے عِزت میں ہی بڑھاوا دیتا ہے ، اور جب بھی کوئی بندہ تواضع اختیار کرتا ہے تو اللہ اسے(درجات میں ) بلند ہی کرتا ہے﴾ صحیح مُسلم /حدیث4689/کتاب البر و الصلۃ و الآداب/باب19 ،
﴿مَنْ تَوَاضَعَ لِلَّهِ رَفَعَهُ اللَّهُ :::جس نے اللہ کے لیے اِنکساری اختیار کی اللہ اس (کے درجات)کو بلند فرماتا ہے﴾ سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ /حدیث 2328،
درجات کی یہ بلندی دُنیا اور آخرت کے لیے ہے ، اور یہ معاملہ بڑی ہی وضاحت کے ساتھ ہر کسی کے مشاہدے میں ہے کہ اِنکساری کرنے والا شخص ہر ایک کے لیے محترم ہوتا ہے ، اور ہر دل اُس کے ساتھ ہوتا ہے ، 
ایک دفعہ ایک عورت جس کی عقل میں کچھ خلل تھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے پاس حاضر ہوئی اور کہا: اے محمد مجھے آپ سے کچھ کام ہے.
رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا: 
﴿يَا أُمَّ فُلَانٍ انْظُرِي أَيَّ السِّكَكِ شِئْتِ، حَتَّى أَقْضِيَ لَكِ حَاجَتَكِ:::اے فلاں کی ماں ، دیکھو تم کو ن سی راہ(پر چلتے ہوئے مجھ سے  علیحدگی میں بات کرنا چاہتی) ہو(اُسی طرف ہو کر تمہاری بات سنتا ہوں) یہاں تک کہ تُمہاری ضرورت پوری ہو جائے﴾
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم اُس عورت کے ساتھ (مدینہ المنورہ) کی گلیوں میں سے کچھ میں (اُس کی بات سننے کے لیے) علیحدہ ہوگئے یہاں تک کہ اُس کی ضرورت پوری ہو گئی، صحیح مسلم/ کتاب الفضائل /باب 19، 
اور أنس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ کا ہی کہنا ہے کہ: 
(إِنْ كَانَتِ الأَمَةُ مِنْ إِمَاءِ أَهْلِ المَدِينَةِ، لَتَأْخُذُ بِيَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَنْطَلِقُ بِهِ حَيْثُ شَاءَتْ ::: مدینہ المنورۃ (میں رہنے) والی باندیوں میں سے کوئی باندی بھی جب چاہتی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کواپنی مدد گاری  کے لیے (گویا) اُن کا ہاتھ تھام کر کسی بھی طرف لے جاتی) صحیح البخاری/کتاب الادب/باب 61 الکبر،
نبی اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے قولی اور عملی طور پر اِنکساری والے رویے کے فوائد سمجھائے، اور اُس کے نتائج اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی زندگی مُبارک میں بھی با کثرت نظر آتے ہیں اور اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے  دُنیا سے رُخصت ہو جانے کے بعد بھی ، کہ اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم پر ایمان نہ رکھنے والے بھی جب اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی اِنکساری کے بارے میں جانتے ہیں تو اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی عِزت کرنے لگتے ہیں،
اگر ہم بھی اپنی نبی صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کے بتائے اور سکھائے ہوئے اِس طریقے پر اللہ کی رضا کے لیے عمل کرنے لگیں تو دُنیا میں لوگوں کے دِل اور آخرت میں اپنے رب کی رضا سے بلند رتبے حاصل کر سکتے ہیں ۔
:::::::نواں (9) طریقہ :::::: فراخ دِلی سے دُنیاوی مال و اسباب عطاء کرنا:::::::
یہ عمل بھی لوگوں کے دِلوں میں خوشی پیدا کرنے کے اہم اسباب میں سے ہے ، آپ کی بات قبول کرنے پر ، آپ سے محبت کرنے پر اور آپ کا احترام کرنے پر دوسروں کو مائل کرنے کے بڑے اسباب میں سے ہے، لیکن یہ عمل کسی دُنیاوی  مقصد کے لیے یا غیر ثابت شدہ  دینی مقصد کے لیے نہیں کیا جانا چاہیے ،
انس ابن مالک رضی اللہ عنہ ُ سے کا کہنا ہے کہ: ﴿رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے جب بھی اِسلام کے لیے کوئی چیز مانگی گئی  تو انہوں نے ضرور عطاء فرمائی ، ایک دفعہ ایک شخص نے اُن صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم سے بکریاں مانگِیں، تو اُنہوں نے اُسے دو پہاڑوں کے درمیان (کے برابر) بکریاں عطاء فرمائیں ﴾ اُس شخص نے اپنی قوم میں واپس جا کر کہا: اے لوگو اسلام قبول کر لو ، محمد اتنا کچھ دیتا ہے کہ فاقے کا ڈر نہیں رہتا. صحیح مسلم /کتاب الفضائل /باب 14، دیکھیے، رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی فراخ دِلی سے عطاء کے سبب سے اللہ نے اُس شخص کا دِل مسخر کر دیا ، اور وہ مُسلمان ہو کر اپنے قبیلے کے لیے بھی اِسلام کا مبلغ بن کر گیا۔
::: دسواں طریقہ  ::: لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر اُنہیں شفقت ونرمی والےانداز میں سمجھانا  :::
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے ہماری امی جان عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ عظیم خبر سنائی: 
﴿يَا عَائِشَةُ إِنَّ اللهَ رَفِيقٌ يُحِبُّ الرِّفْقَ، وَيُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ، وَمَا لَا يُعْطِي عَلَى مَا سِوَاهُ :::اے عائشہ بے شک اللہ شفقت کرنے والا ہے اور نرمی کرنا پسند کرتا ہے، اور شفقت کرنے کے ذریعے وہ کچھ عطاء کرتا ہے جو کچھ سختی کرنے سے عطاء نہیں کرتا اور وہ کچھ عطاء کرتا ہے جو نرمی کرنے  کے علاوہ کسی اور ذریعے سے عطاء نہیں کرتا ﴾ صحیح مسلم /کتاب البرو الصلۃ و الآداب/باب23،
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے اللہ کی حُدود کے نفاذ کے علاوہ، لوگوں کی غلطیوں اور کوتاہیوں کے بارے میں ہمیشہ  شفقت، نرمی اور آسانی والا معاملہ ہی رکھا، مثال کے طور پر  اُس دیہاتی کا واقعہ دیکھیے جس نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُسے کچھ نہیں کہا ، اگر ہم میں سے کوئی ہوتا تو شاید اُس پر کفر کا فتویٰ لگانے کے ساتھ ساتھ اُس کی خوب پٹائی بھی کرتا،
اُس نوجوان کا واقعہ دیکھیے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو دِین دُنیا اور آخرت کی کسی خیر کا سوال کرنے کی بجائے زنا کرنے کی اجازت طلب کرنے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم نے اُس کے ساتھ کس قدر شفقت اور نرمی والا رویہ اپنایا ، یہاں تک کہ وہ مُطیع و فرمان بردار ہو کر بارگاہ نبوی سے نکلا،
اگر ہم جیسوں کی محفل ہوتی اور ہمارےکسی عالم صاحب کی سربراہی میں ہوتی تو ایسی بات کرنے والے پر اللہ ہی جانے کتنی لعنتیں اور کتنے ہی فتوے وارد ہو چکے ہوتے، اور شاید گستاخ بے ہودہ بے ادب وغیرہ کہہ کر اُس کی دُھنائی بھی کی جاتی۔
اللہ کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی سُنّت مُبارکہ میں سے لوگوں کے دِل جیتنے کے یہ چند طریقے ہی اگر ہم سمجھ لیں اور اِن پر عمل کرنے لگیں تو اللہ کی منظوری کے بعد ہم یہ ہدف حاصل کر سکتے ہیں ، اور لوگوں کے دِلوں کو مُسخر کر کے انہیں اللہ کے دِین کی طرف بہترین اور بھر پور طور پر مائل کر سکتے ہیں ، اور اپنے لیے آخرت سے پہلے دُنیا میں بھی عَزت واحترام پا سکتے ہیں۔
اللہ سُبحانہ و تعالیٰ ہمیں اُن میں سے بننے کی توفیق عطاء فرمائے جو اُس کے رسول کریم محمد صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم کی  صحیح ثابت شُدہ سُنّت شریفہ کو کسی چُوں و چراں اور منطق و فلسفے کے بغیر قُبُول کرتے ہیں اور اُس پر عمل کرتے ہیں۔
طلب گارء دُعاء،
آپ کا بھائی، عادِل سُہیل ظفر،
تاریخ کتابت : 18/04/1432 ہجری ، بمُطابق23/03/2011عیسوئی،
تاریخ تجدید و تحدیث :25/07/1436 ہجری، بمُطابق،14/05/2015عیسوی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

No comments:

Post a Comment