Monday, 12 February 2018

موت کی نیند سلا دینے کا لائسنس Licence to kill

 ایس اے ساگر
ہر معاشرہ ایک خاص وقت پہ پرانے عہد کو بدل کر نئے عہد میں داخل ہوتا ہے اور انسانوں کی اجتماعی فطرت، نئے عہد کے شروع ہونے سے کچھ عرصہ قبل اس نیے عہد کے تقاضوں سے معاشروں کو آگاہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ان اشاروں کو سمجھنے کے لئے نہ تو کسی ارسطو کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی گہرے ادراک کے حامل مفکرین کی۔ تقسیم وطنکے بعدسست رو نیم دیہاتی ماحول تیز ترین تجارتی، صنعتی سماج میں تبدیل ہورہا ہے۔کیا تمام انتظامی مشینری، پولیس، عدلیہ اور نظام انصاف کو اس دور سے ہم آہنگ ہونے کی تیاری کرنے کی اشد ضرورت نہیں ہے۔ ہمارا پولیس کا نظام فرسودہ ہی نہیں بلکہ یہ بہت عرصہ قبل ہی مر چکا ہے۔ اور اب صرف یہ پروٹوکول سروسز دینے اور قابل خرید انصاف حاصل کرنے کی ایک مارکیٹ کی شکل میں بدل چکا ہے۔ بات دس برس پہلے کی ہے جب 2008 کے دوران انگریزی روزنامہ کے ایڈیٹر ویرسانگھوی نے بارہ کھمبا روڈ انکاو نٹر کے خلاف آواز بلند کی تھی۔ اس تصادم میں ’ملزامان‘ کے شبہ میں تاجر پیشہ افراد کو دارالحکومت کے عین وسط میں گولیوں سے نہ صرف بھون دیا گیا تھا بلکہ ان کے قبضہ سے ’اسلحہ‘ بھی برآمد کرکے دکھلایا گیا تھا۔ منے والوں کا قصور صرف اتنا تھا کہ ان کی کار جرائم پیشہ افراد کی مطلوبہ کار سے مماثلت رکھتی تھی۔ یی الگ بات ہے کہ حقوق انسانی کے احتجاج کی بدولت دہلی کے پولیس کمشنر کا تبادلہ کرکے مسئلہ کو سردخانہ کی نذر کردیا گیا۔ ذرائع ابلاغ کے ایک معتبر اور بڑے ادارہ نے اسی انداز کی لرزہ خیز رپورٹ شائع کی ہے۔ اس میں انکشاف کیا گیاہے کہ ملک کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ایک برس قبل بی جے پی کی حکومت آنے کے بعد وہاں پولیس نے جرائم پیشہ افراد کے خلاف ایک مہم شروع کی۔ پچھلے نو مہینے کے اندر ریاست میں ایک ہزار سے زیادہ انکاو نٹر ہوئے ہیں۔موصولہ اطلاعات کے مطابق ان پولیس تصادموں میں ہنوز 38 جرائم پیشہ افراد مارے جا چکے ہیں۔ تقریباً تین سو زخمی ہوئے نیزدو ہزار سے زیادہ مجرموں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ وہ پولیس انکاو ¿نٹر کا سلسلہ بند کرے کیونکہ بقول ان کے ان میں بہت سے بے قصور افراد بلا وجہ مارے جا رہے ہیں۔ان کا یہ بھی الزام ہے ان میں سے بہت سے انکاو ¿نٹر فرضی تھے۔پچھلے دنوں دہلی کے نواح میں اتر پردیش پولیس نے شادی کی تقریب سے لوٹنے والی ایک فیملی کی کار پر گولی چلا دی۔ پولیس نے انہیں جرائم پیشہ بتایا۔کار میں دو افراد کو گولی لگی ہے۔ ابتدائی تفتیش کے بعد کئی پولیس والوں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پولیس انہیں ڈاکو سمجھ رہی تھی۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امن و قانون کا نظام قائم کرنے کے لئے انتظامی سختی ضروری ہے لیکن اس کے لئے ضروری نہیں کہ ہر چھوٹے بڑے جرائم پیشہ شخص کو گولی مار کر ہلاک کر دیا جائے۔
انتشار اور بدنظمی کی گرفت:
اس طرح کے طریقہ کار پر ہمیشہ نکتہ چینی ہوئی ہے اور مستقبل میں بھی ہوتی رہے گی۔ انکاونٹر صرف مخصوص حالات میں کسی کیس کا آخری حل ہو سکتا ہے۔اس کے لیے جو ضابطے طے کیے گئے ہیں ان کے مطابق انکاو نٹر میں ہر ہلاکت کو قتل کے طور پر درج کیا جاتا ہے اور اس کی تفتیش مجسٹریٹ کی سطح پر ہوتی ہے تاکہ کوئی نا انصافی نہ ہوسکے۔ اتر پردیش میں محض نو مہینے کے اندر پولیس کے ہاتھوں 38 ہلاکتیں تشویش کا باعث ہیں۔ جمہوری ممالک میں تشدد کا اختیار صرف ریاست کو دیا گیا ہے اور ریاست سے کوئی زیادتی نہ سرزد ہونے پائے، اس لئے ان اختیارات کو بھی کئی طرح کے ضابطوں کے تحت رکھا گیا ہے۔ کسی کی زندگی لینے کا اختیار ریاست کو انتہائی شاذ ونادر حالات میں دیا گیا ہے۔ اتر پردیش میں جرائم پیشہ افراد کے خلاف مہم قابل ستائش ہے لیکن پوری ریاست میں موت اور انکاونٹر کی دہشت پیدا کرنا بہترین انتظامی اصولوں سے مطابقت نہیں رکھتا۔ حقوق انسانی کے قومی کمیشن نے ریاستی حکومت کو کم ازکم 20 انکاونٹر معاملوں میں نوٹس بھیجا ہے اور وضاحت طلب کی ہے۔جرائم پر قابو پانے کے لیے ایک برس کی مدت میں 38 افراد کو ہلاک کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست میں پولیس کا نظام انتشار اور بدنظمی کی گرفت میں ہے۔ ریاستی حکومت کو یہ بات بھی ذہن نشیں کرلینی چاہئے کہ ریاست میں جرائم پر قابو پانا اس لیے بھی مشکل رہا ہے کیونکہ جرائم پیشہ عناصر کو ہر دور میں سیاسی پشت پناہی حاصل رہی ہے۔
پولیس ’انکاو نٹرز‘ کا سچ:
اسی طرح 2010 کے دوران بھی پولیس مقابلوں کے ماہر پولیس انسپکٹر پردیپ شرما کی گرفتاری نے ممبئی پولیس کے انکاو نٹرزنے میڈیا کو متوجہ ہونے پر مجبور کردیا تھا۔ کیا پولیس واقعی ملزمان کے ساتھ دوبدو مقابلہ کرتی ہے؟ اور اگر ہاں تو پھر کیوں نہیں کوئی پولیس افسر ملزم کی گولیوں سے شدید زخمی ہوتا ہے یا ان میں سے کسی کی آج تک ہلاکت کیوں نہیں ہوئی؟ یہ سوال جسٹس اگیار نے ایک کیس کی سماعت کے دوران پولیس اہلکاروں سے کئے تھے۔ سابق مافیا سرغنہ ارون گاولی گینگ کے شارپ شوٹر سدا ماما پاولے اور ان کے ایک ساتھی کو انسپکٹر وجے سالسکر اور ان کی ٹیم نے پولیس مقابلے میں ہلاک کر دیا تھا۔ اس پولیس مقابلے کو پاولے کے گھر والوں نے عدالت میں چیلنج کیا تھا۔ کیس کی سماعت کے دوران پتہ چلا کہ پاو لے کے پاس اے کے 47 رائفل تھی جبکہ سالسکر کے پاس محض نائن ایم ایم کا سروس ریوالور۔جسٹس اگیار نے سوال کیا تھا کہ کیسے پاو ¿لے کی اے کے 47 جیسی جدید رائفل سے کوئی پولیس والا زخمی تک نہیں ہوا اور پولیس کی ریوالور سے دو افراد ہلاک ہو گئے۔ انہوں نے اس مقابلے کو فرضی قرار دیا جسے سالسکر نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا تھا۔ سالسکر سنہ دو ہزار آٹھ میں ممبئی پر ہوئے حملوں میں ہلاک کر دیے گئے ہیں۔ممبئی پولیس فورس میں پردیپ شرما کی طرح کئی اور انسپکٹر ہیں جنہیں انکاونٹر کا ماہر کہا جاتا ہے۔ جن میں وجے سالسکر، دیا نائیک، پرفل بھوسلے اور رویندر آنگرے کے نام سر فہرست ہیں۔ ان سب افسران پر بھی مجرمان کو فرضی انکاونٹر میں مارنے کے الزامات عائد ہو چکے ہیں لیکن پردیپ شرما ایسے پہلے پولیس افسر ہیں جنہیں باقاعدہ گرفتار کیا گیا ۔
عدلیہ کا سہارا:
جمہوری حقوق کے تحفظ کی کمیٹی کے رکن ایڈووکیٹ پی اے سباستین نے پولیس کے ذریعے کیے جانے والے انکاونٹر کی صداقت پر سوالیہ نشان قائم کرتے ہوئے عدالت میں مفاد عامہ کی عرضداشت داخل کی تھی۔ سباستین کے مطابق پولیس انہیں دیے گئے حقوق کی پامالی کی مرتکب ہورہی تھی۔ اور اس کا اندازہ انہوں نے ان کے ذریعہ کیےجانے والے انکاونٹر کے مشاہدے کے بعد کیا تھا۔ سباستین کے بقول: ’’ہر انکاو نٹر کے بعد پولیس جو کہانی گھڑتی ہے وہ بس ایک طرح کی ہی ہوتی ہے کہ پولیس کو پتہ چلا کہ مجرم کہیں آنے والا ہے۔ پولیس نے اسے روکا تو اس نے پولیس پر فائر کیا۔ پولیس نے اپنے دفاع میں جوابی فائر کیا جس میں مجرم زخمی ہو گیا۔ اور سرکاری ہسپتال پہنچنے پر داخلے سے قبل اسے ڈاکٹروں نے مردہ قرار دے دیا۔“ ممبئی پولیس فورس میں انکاو نٹر کی کہانی انیس سو اکاسی سے شروع ہوتی ہے جب اس وقت کے سب انسپکٹر اسحق باگوان نے اس دور کے خطرناک گینگسٹر مانیا سروے کو بیچ بازار میں ہلاک کر دیا تھا۔ پولیس مڈبھیڑ کو اس کے بعد اس وقت کے پولیس کمشنر جولیو ایف ریبیرو نے خطرناک مجرمان کو پولیس مقابلے میں ہلاک کرنے کے لیے پولیس اہلکاروں کو چھوٹ دی اور اسے سماج سے غنڈہ عناصر کو پاک کرنے کا ایک اچھا قدم قرار دیا۔ لیکن بعد میں پولیس نے انہیں دیے گئے حقوق کو غلط طریقہ سے استعمال کرنا شروع کر دیا۔
سابق آئی پی ایس افسر کا اعتراف:
سابق آئی پی ایس افسر نے ایک طویل گفتگو کے دوران اس کا اقرار کیا تھا کہ چونکہ ہمارے قانون میں بہت سی خامیاں ہیں اور یہ عادی مجرمان گرفتاری کے بعد ضمانت پر رہا ہو کر دوبارہ اس طرح کے جرائم کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں یا پھر جیل کے اندر سلاخوں کے پیچھے رہ کر بھی اپنا نیٹ ورک چلاتے ہیں اس لیے سماج سے ایسے غنڈوں کو کم کرنے کے لیے انکاو نٹر ایک صحیح راستہ ہے۔پولیس مقابلے ہمیشہ ممبئی کے کسی سنسان علاقے میں رات کے دو یا تین بجے کے قریب ہوتے ہیں۔ جہاں کوئی بھی اس انکاونٹر کا عینی شاہد نہیں ہوتا۔پولیس پر یہ بھی الزام عائد ہوتا رہا ہے کہ صرف اپنے انکاو نٹر نمبر میں اضافہ کرنے کے لیے اکثر پولیس والوں نے ایسے مجرمان کو بھی انکاونٹر کیا ہے جو غلط راہ چھوڑ کر سدھر گئے تھے۔ گپتا عرف لکھن بھیا جن کے مبینہ فرضی انکاو نٹر پر پولیس انسپکٹر شرما گرفتار ہوئے ہیں، ان کے وکیل بھائی کا دعویٰ ہے کہ ان کے بھائی نے مجرمانہ زندگی چھوڑ کر شادی کر لی تھی اور خوشحال زندگی گزار رہے تھے۔ پولیس نے انہیں ان کے گھر سے اٹھا کر قتل کیا تھا۔انیس سو اسی سے انیس سو ستانوے کا دور ممبئی میں گینگ وار کا دور تھا۔ جب سڑکوں پر کھلے عام دن دہاڑے قتل ہوا کرتے تھے۔ داود گینگ اور چھوٹا راجن گینگ کے ساتھ ہی ارون گاو ¿لی گینگ کے ذریعے بلڈروں اور بڑے تاجروں سے ہفتہ وصولی کی وارداتوں میں اضافہ شروع ہوا اور اسی دوران اعلیٰ پولیس افسران نے پولیس کو انکاو ¿نٹر کی چھوٹ دے دی۔
کب ختم ہوگا یہ سلسلہ؟
لیکن پولیس پر تب یہ الزام بھی عائد ہوا کہ وہ ایک گینگ سے پیسہ لے کر دوسرے گینگ کے غنڈوں کو ہلاک کیا کرتے تھے اور گینگ ممبران ہی دوسرے ممبران کی خبریں بھی ان انکاونٹر کے ماہرہر پولیس افسران کو دیا کرتے تھے۔سبکدوش آئی پی ایس افسر اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ چند انکاونٹر کے ماہر پولیس افسران انڈر ورلڈ کے ہاتھوں کا کھلونا بن گئے تھے اور انہوں نے انڈر ورلڈ سے اپنے حریفوں کو ختم کرنے کے لیے ’سپاری‘ (معاہدہ) لے کر قتل کیا تھا لیکن ساتھ ہی وہ یہ کہنا نہیں بھولے کہ اس طرح کم سے کم سماج سے ایسے غنڈوں کی دہشت ختم ہوئی۔ممبئی پولیس کے تمام انکاونٹر کے ماہر پولیس افسران کسی نہ کسی تنازع میں گِھر چکے ہیں۔ پولیس سب انسپکٹر دیا نائیک جو اس وقت اپنی ملازمت سے معطل کئے گئے، ان کے کھاتے میں بیاسی انکاونٹر ہیں، پولیس انسپکٹر پرفل بھوسلے نے ستتر، اسسٹنٹ پولیس انسپکٹر رویندر آنگرے کے ریکارڈ میں اکہتر مجرمان کو انکاونٹر کرنے، سچن وزے کے تریسٹھ اور وجے سالسکر کے کھاتے میں پچھتر انکاونٹر درج ہیں۔ ان میں سے پرفل بھوسلے اور سچن وزے کو خواجہ یونس کی پولیس حراست میں موت کے سلسلے میں معطل کیا جا چکا ہے۔ پتہ نہیں تحقیقات کے بعد اور کتنے معاملے سامنے آئے ہوں گے۔ غنیمت ہے کہ انسانی حقوق کی تنظیمیں شروع سے ہی پولیس کے ذریعے کئے جانے والے انکاو نٹر کو بند کرنے کے لیے احتجاج کرتی رہی ہیں لیکن اس کا کیا کیجئے کہ تازہ ترین رپورٹیں شاہد ہیں کہ پولیس کے اعلیٰ اہلکار اور خود حکومت کی جانب سے پولیس مقابلوں کو ہری جھنڈی دینے کی وجہ سے یہ سلسلہ تادم تحریر جاری ہے!تقسیم وطن سے قبل پولیس نظام کو جب انگریزوں نے قائم کیا تھا تو اس کی بنیاد نظام اطلاعات پہ رکھی گئی تھی جسے مخبروں کا نظام کہا جاتا ہے۔
پولیس کا فرسودہ نظام:
پوشیدہ مخبروں کے علاوہ تقریبا تمام نمبردار، چوکیدا، نہری پٹواری اور نایب قاصد بھی مخبر ہی ہوا کرتے تھے جو ہر وقت معاشرے کی ہر تبدیلی پہ نظر رکھتے اور اہم تبدیلیوں کی اطلاعات کشید کرتے، پھر اطلاعات کی چھان پھٹک اور تصدیق کے لئے باقاعدہ عملہ متعین ہوتا تھا اور ہر ماہ پولیس گزٹ شایع ہوا کرتا تھا جس میں پورے معاشرے کی ایک واضح تصویر سامنے آجاتی تھی۔ یہ گزٹ امن و امان قایم رکھنے والے تمام اداروں کے افسران کو بھیجا جاتا۔ اگر آپ پرانے پولیس گزٹ مطالعہ کریں تو حیرت و استعجاب کا اک جہان کھل جاتا ہے کہ ا سپیشل برانچ کی معلومات کس قدر تیزاور ایڈوانس ہوا کرتی تھیں۔ پولیس کاعملہ معاشرے کی سب سے زیریں پرت سے براہ راست رابطے میں ہوتا ہے، اگر اس کے پاس چوکیداروں، نمبرداروں اورپوشیدہ مخبروں سے معلومات حاصل کرنے کے وسائل نہیں ہوںگے تو یہ ایک منظم گروہ تو ہو سکتا ہے لیکن اسے پولیس کہنا نہ صرف تکنیکی طور پہ غلط ہے بلکہ باعث شرم ہے۔اس قبل نو آبادیاتی ضروریات کے باعث پولیس ریاست کے خلاف ہونے والے تمام جرایم کی سرکوبی کی ذمہ دار سمجھی جاتی تھی۔ اس وقت سرکاری املاک کی چوری ہونے پہ رپورٹ کی ضرورت نہیں ہوتی تھی کیونکہ اس کا جواب ایس ایچ او کو دینا پڑتا تھا جبکہ قتل کی واردات پہ تو پورا تھانہ معطل ہو سکتا تھا، کیونکہ معاشرے میں ہونے والی ہر حرکت سے واقف ہونا پولیس کی ذمہ داری تھی جس کے لئے اس کے پاس نظام مخبریات تھا۔ تقسیم کے بعد نہ جانے کن وجوہات کی بنا پہ پولیس کا نظام مخبریات غیر فعال ہوتا گیا اور آہستہ آہستہ اس کا کام صرف رپورٹ کردہ جرائم پہ کاررواییاں کرنا رہ گیا اور زمانہ حال میںں صرف حکومت کے اہلکاروں کی حفاظت اور پروٹوکول مہیا کرنے تک محدود ہو گیا ہے۔ نظام اطلاعات کے معدوم ہونے کی وجہ سے محکمہ کی کارکردگی ہی متاثر نہیں ہوی بلکہ سیاسی مداخلت میں بھی اضافہ ہوا اور منظم جرائم کو پھلنے پھولنے کا موقع ملا ہے، یہی وجہ ہے کہ معاشرے میں قبضہ گروپ، منشیات فروشوں اور ناجائز دھندہ کرنے والے بتدریج زیر زمین دنیا سے نکل کر شرفا میں شامل ہوتے گئے اور آہستہ آہستہ ایوان اقتدار اور سرکاری عہدے بھی حاصل کرنے لگے ہیں۔ اور اگر یہ خدمت اعلی جاری رہی تو ایک وقت آئے گا جب چور قانون ساز ہوںگے، سارے بدمعاش پولیس میں ہوںگے اور رسہ گیر جج ہوںگے!

Encounter killings by police
"Encounter killing" is a term used in India and Pakistan since the late 20th century to describe killings by the police or the armed forces, allegedly in self-defence, when they encounter suspected gangsters or terrorists. In the 1990s and the mid-2000s, the Mumbai Police used encounter killings to attack the city's underworld, and the practice spread to other large cities. Critics are sceptical of many of these reported incidents, and further complain that the wide acceptance of the practice has led to incidents of police creating 'false encounters' to cover-up the killing of suspects when they are either in custody or are unarmed.
Ishrat Jahan case
The Ishrat Jahan encounter case is an ongoing criminal case in the Gujarat state of India, in which the Indian Central Bureau of Investigation (CBI) initially accused officers of the Ahmedabad Police Crime Branch and members of the Subsidiary Intelligence Bureau (SIB) of Ahmedabad of jointly having carried out a staged "encounter killing" by shooting dead four people on 15 June 2004. 
The bodies of the four people killed in the incident, 15 June 2004
٭٭٭

No comments:

Post a Comment