Wednesday, 7 February 2018

ہر عوامی بات پہ فتوی دینے والا "مجنوں" ہے



ہر عوامی بات پہ فتوی دینے والا "مجنوں" ہے 
مندرجہ ذیل کا ترجمہ و تشریح مطلوب ہے:
ما تعلمتُ العلمَ إلا لنفسِي ، وما تعلمتُ ليحتاج الناسُ إليَّ، وكذلك كانَ الناسُ.
..الإمام مالك رضي الله عنه

علم، کثرت سوال، تحقیق وتدقیق اور طول وعرض میں جانے کا نام نہیں۔ بلکہ حکمت اور علم ایک نور ہے۔ اللہ جسے چاہیں عطا فرمادیں۔ یہ دست وبازو کا کرشمہ یا محنت وسعی کا ثمرہ نہیں۔ بلکہ خالص وہبی اور عطائی ہے۔ خوش نصیب لوگ ہی اس سے بہرہ ور ہوپاتے ہیں۔
علم، اللہ کے نور کا عکس وپرتو ہے۔ یہ حقائق شناسی کی روشنی ہے جس کے دل میں یہ القاء ہوگئی پھر اس پہ حقائق اس طرح منکشف ہو تے چلے جاتے ہیں جیسے آفتاب کی روشنی کے سامنے سیاہ وسفید نظر آنے لگتے ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ کا ارشاد ہے:
"ليس العلم بكثرة الرواية ولكنه نور يجعله الله في القلوب"۔
علم کثرت روایات کا نام نہیں ہے بلکہ وہ تو ایک نور الہی ہے جسے اللہ لوگوں کے دلوں میں القاء فرماتے ہیں۔
عبد اللہ بن وہب امام مالک رحمہ اللہ سے نقل فرماتے ہیں۔
ما تعلمتُ العلمَ إلا لنفسِي، وما تعلمتُ ليحتاج الناسُ إليَّ، وكذلك كانَ الناسُ .
..الإمام مالك رضي الله عنه

ان کا ارشاد ہے کہ میں نے علم اپنی ذات کے (فائدے) لئے حاصل کیا ہے نہ کہ اس لئے کہ لوگ میرے محتاج بنے رہیں (اور مجھ سے سوالات کرتے پھریں)
وہ کہتے ہیں کہ پہلے کے لوگ اسی طرح تھے کہ جزئیات و سوالات، قیل وقال اور چنیں وچناں کے تکلفات میں نہیں پڑتے تھے۔
فرماتے ہیں کہ (علم کثرت معلومات ومسائل کا نام نہیں بلکہ) علم در اصل حکمت ودانائی کا نام ہے۔ علم وحکمت ایک نور ہے۔ جسے اللہ چاہیں اسے یہ نور عطا فرماکر راہ یاب فرماتے ہیں۔
سوالات وجوابات  کی کثرت  کو علم نہیں کہتے ہیں۔
اسی لئے امام مالک رحمہ اللہ کا ارشاد گرامی ہے کہ پوچھے گئے سوالات میں "لاأدري" ۔۔ناواقفیت کا اظہار" عالم دین کے لئے ڈھال ہے۔ اس ڈھال سے غفلت کی صورت میں اور نہ جانتے ہوئے بھی ہر بات میں بلا تحقیق جواب دینے کی سعی لاحاصل کرنے سے عالم اپنی بات میں خود پھنس جاتا یے۔
ہیثم بن جمیل کا بیان ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے کسی نے اڑتالیس سوالات کئے۔ امام نے صرف سولہ سوالات کے جوابات دیئے۔ باقی میں "لاأدري" کے ذریعہ مسئلہ سے ناواقفیت کا بر ملا اظہار فرمادیا۔
خالد بن خداش بھی کچھ اسی طرح فرماتے ہیں کہ میں نے امام مالک
رحمہ اللہ سے چالیس مسائل پوچھے۔ جن میں امام صاحب رحمہ اللہ نے صرف پانچ کے جواب مرحمت فرمائے۔ (باقی میں صاف صاف فرمادیا کہ مجھے معلوم نہیں)
رقم الحديث: 225
(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَبْدِ اللَّهِ الْحَافِظُ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْعَبَّاسِ مُحَمَّدَ بْنَ يَعْقُوبَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ بْنَ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَكَمَ الْمِصْرِيَّ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ وَهْبٍ، يَقُولُ : سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، يَقُولُ: " قَالَ بَعْضُهُمْ: مَا تَعَلَّمْتُ الْعِلْمَ إِلا لِنَفْسِي، وَمَا تَعَلَّمْتُهُ لِيَحْتَاجَ النَّاسُ إِلَيَّ، قَالَ مَالِكٌ: وَكَذَلِكَ كَانَ النَّاسُ، لَمْ يَكُونُوا يَتَكَلَّفُونَ هَذِهِ الأَشْيَاءَ، وَلا يَسْأَلُونَ عَنْهَا، قَالَ مَالِكٌ: وَالْعِلْمُ الْحِكْمَةُ وَنَورٌ يَهْدِي بِهِ اللَّهُ مِنْ يَشَاءُ، وَلَيْسَ بِكَثْرَةِ الْمَسَائِلِ" .
(وعن مالك قال: "جُـنَّةُ العالم: لا أدري، فإذا أغفلها؛ أصيبت مقاتله".
- قوله: "لا أدري":
قال الهيثم بن جميل: "سمعت مالكا سئل عن ثمان وأربعين مسألة، فأجاب في اثنين وثلاثين منها بـ: "لا أدري".
وعن خالد بن خداش قال: "قدمت على مالك بأربعين مسألة، فما أجابني منها إلا في خمس مسائل".)

علم انسان کو عملی زندگی پہ آمادہ کرنے والی تحریکی قوت کا نام  ہے۔ جس کا علم  اسے عمل پہ آمادہ نہ کرسکے وہ وبال جان ہے اور جہل ہے ۔۔۔ عمل کرنے والے زیادہ قیل وقال اور سوال وجواب کے بکھیڑوں میں نہیں پڑتے۔ "کثرت سوال" ترفع وتکبر کی جڑ ہے"۔ اس سے مزاج وطبعیت میں تکبر پیدا ہوتا ہے۔ عمل کا شوق رکھنے والے بیجا سوالات کرنے سے گھبراتے ہیں کہ نہ جانے کون سا سخت حکم سامنے آجائے کہ پھر عمل کرنا دشوار ہوجائے۔ جسے کوئی کام نہیں ہوتا وہی تقریریں چھانٹا کرتا ہے۔
قرآن وحدیث میں کئی جگہ اس طرح کے بیجا سوالات کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ بخاری میں ہے:
بَاب مَا يُكْرَهُ مِنْ كَثْرَةِ السُّؤَالِ وَتَكَلُّفِ مَا لَا يَعْنِيهِ وَقَوْلُهُ تَعَالَى (لَا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ)
6859 حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ حَدَّثَنَا سَعِيدٌ حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ عَنْ ابْنِ شِهَابٍ عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ أَعْظَمَ الْمُسْلِمِينَ جُرْمًا مَنْ سَأَلَ عَنْ شَيْءٍ لَمْ يُحَرَّمْ فَحُرِّمَ مِنْ أَجْلِ مَسْأَلَتِهِ
صحیح البخاري

عبداللہ بن یزید مقری، سعید، عقیل، ابن شہاب، عامر بن سعد بن ابی وقاص، سعد بن ابی وقاص سے روایت کرتے ہیں کہ انھوں نے بیان کیا کہ نبی
صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں میں سب سے بڑا مجرم وہ شخص ہے جس نے کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جو حرام نہ تھی اور اس کے سوال کرنے کی وجہ سے وہ حرام کردی گئی۔
مسلم شریف میں ہے:
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ سُهَيْلٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يَرْضَی لَکُمْ ثَلَاثًا وَيَکْرَهُ لَکُمْ ثَلَاثًا فَيَرْضَی لَکُمْ أَنْ تَعْبُدُوهُ وَلَا تُشْرِکُوا بِهِ شَيْئًا وَأَنْ تَعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا وَيَکْرَهُ لَکُمْ قِيلَ وَقَالَ وَکَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةِ الْمَالِ
مسلم شریف رقم الحدیث 1715

زہیر بن حرب، جریر، سہیل، حضرت ابوہریرہ
رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ تمہاری تین باتوں سے راضی ہوتا ہے اور تین باتوں کو ناپسند کرتا ہے جن باتوں سے راضی ہوتا ہے وہ یہ ہیں کہ تم اس کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرو اور اللہ کی رسی کو مل کر تھامے رہو اور متفرق نہ ہو اور تم سے جن باتوں کو ناپسند کرتا ہے وہ فضول اور بیہودہ گفتگو اور سوال کی کثرت اور مال کو ضائع کرنا ہیں۔
2277 حَدَّثَنَا عُثْمَانُ حَدَّثَنَا جَرِيرٌ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ وَرَّادٍ مَوْلَى الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ شُعْبَةَ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ حَرَّمَ عَلَيْكُمْ عُقُوقَ الْأُمَّهَاتِ وَوَأْدَ الْبَنَاتِ وَمَنَعَ وَهَاتِ وَكَرِهَ لَكُمْ قِيلَ وَقَالَ وَكَثْرَةَ السُّؤَالِ وَإِضَاعَةَ الْمَالِ ۔صحيح البخاري
اسی طرح عالم دین اور مفتی کے ذمہ ہربات کا جواب دینا بھی ضروری نہیں ہے۔بلکہ سامنے والے کے فہم واستعداد اور سوال کی واقعی ضرورت کے مدنظر ہی جواب دینا چاہئے ۔کبھی انتشار فتنہ کے خوف سے بھی جواب ترک کرنا پڑتا ہے۔بہت سی باتیں جاننے کی ہوتی ہیں۔ بتلانے کی نہیں!
آج کل اپنی قابلیت بگھا
رنے کے لئے لوگ ہر ہر بات کی تحقیق وتدقیق میں پڑجانے کو علمی کمال تصور کرتے ہیں۔ جبکہ ایسے لوگوں کو حضرت عبد اللہ بن عباس وعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہما "مجنوں وپاگل" کہتے ہیں جو مخاطب اور عوام الناس کے ہر سوال کے جواب میں فتوی ٹھونک دیتا ہے:
عن ابن مسعود وابن عباس -رضي اللہ عنہما- من أفتی عن کل ماسئل فہو مجنون۔ (مقدمۃ رسم المفتي قدیم/۳، جدید دارالکتاب دیوبند/۴)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو شخص ہر سوال کے جواب میں فتویٰ دیتا ہے وہ مجنون ہے۔
عن أبي واصل قال: قال عبداللہ: من أفتی الناس بکل مایسألونہ فہو مجنون۔ (المجعم ۹/ ۱۸۸، رقم: ۸۹۲۴) 
حضرت ابو واصل فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص لوگوں کے ہر سوال کے جواب میں فتوی دیتا ہے وہ مجنون ہے۔
اس لئے جہاں ہر طرح کے لایعنی سوالات کرنے سے منع کیا گیا ہے وہیں ہر بات کا بلا سوچے سمجھے جواب دینے کو بھی حماقت سے تعبیر کیا گیا ہے۔
محمد صابر نظامی القاسمی /بیگوسرائے
٢١\٥\١٤٣٩هجري
..........
محمد صابر نظامی القاسمی جنرل سکریٹری جمعیت علمائے بیگوسرائے

No comments:

Post a Comment