السلام علیکم،
مولوی صاحب ، میں بینک میں جاب کرتا ہوں ۔ میں نے حج اور عمرہ کا اراردہ کیاہوا ہے۔کیا میرا حج اور عمرہ کرنا جائز ہے؟دوسری بات یہ کہ میری شادی کو 2 مہینے ہوگئے ۔مجھے پہلے اپنی شریک حیات کو عمرہ یا حج کروانا چاہئے یا پھر پہلے اپنے ماں باپ کو کروانا چاہئے؟ شریعت کیا کہتی ہے، اس بارے میں میری مدد فرمائیے۔
مولوی صاحب ، میں بینک میں جاب کرتا ہوں ۔ میں نے حج اور عمرہ کا اراردہ کیاہوا ہے۔کیا میرا حج اور عمرہ کرنا جائز ہے؟دوسری بات یہ کہ میری شادی کو 2 مہینے ہوگئے ۔مجھے پہلے اپنی شریک حیات کو عمرہ یا حج کروانا چاہئے یا پھر پہلے اپنے ماں باپ کو کروانا چاہئے؟ شریعت کیا کہتی ہے، اس بارے میں میری مدد فرمائیے۔
Asslam o allkum molvi saab ma bank ma job karta ho ma umera ya hajj ka irada kia hwa ha kia mera hajj ir umerha karna jaiz ha or dosri bat ya ha ka meri shadi ko 2 month ho gie ha means ka phly mjhy or meri wife ko umerha ya haj karna chaya ya phir mjhy phly apny maa baap ko karwana chaya shryaat kia khti ha is bary ma plese help me.
جواب: بینک کی ایسی آمدنی جس میں سود کا حساب و کتاب لکھنا پڑے یہ جائز نہیں ہے بلکہ حرام ہے. اور ایسی رقم سے حج و عمرہ کرنا بھی جائز نہیں. اور پہلے آپ حج کرلو اس کے بعد بقیہ حضرات کو کروانا. ویسے شوہر کے اوپر کسی کو بھی حج یا عمرہ کروانا از روئے شریعت ضروری نہیں. اور اگر بینک ہی کی رقم ہو تو یہ حیلہ کرسکتے ہیں کہ کسی کافر سے قرض لے اور بینک کی رقم سے اپنا قرضہ ادا کردے.
فتاوی دینییہ. دیوبند آن لائن.
واللہ تعالی اعلم.
.......
فتاوی دینییہ. دیوبند آن لائن.
واللہ تعالی اعلم.
.......
سوال: کیا حج فرض ادا کرنے کیلئے پہلے والدین کو حج کروانا یا پہلے بیٹیوں کی شادی کروانا ضروری ہے؟
(۱) صورت مسئولہ میں اگر لڑکے کے پاس اتنی استطاعت ہو کہ والدین کو اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے تو والدین کو اپنے ساتھ لے جائے، اور اگر اس وقت والدین کو ساتھ لے جانے کی حیثیت نہ ہو تو خود حج کے لئے چلا جائے۔ پہلے والدین کو حج کروانا اس کے بعد خود کرنا یہ شرعی حکم نہیں ہے۔ البتہ استطاعت ہوجانے پر والدین کو بھی حج کروادے اس کی کوشش جاری رکھے۔ یاد رہے کہ اگر والدین کو حج کروایا خود نہ کیا تو پھر بھی اس کو بعد میں اپنا حج ادا کرنا لازم ہے۔
(۲) جب حج فرض ہوگیا تو حج کے لئے جانا ضروری ہے، خواہ اولاد کی شادی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ نہ جانے پر گنہگار ہوگا اور یہ کہنا کہ اولاد کی شادی کروائے بغیر حج فرض نہیں ہوتا اور حج کے لئے نہیں جاسکتا یہ اعتقاد درست نہیں ہے۔
وفی الاشباہ معہ الف و خاف العزوبۃ ان کان قبل الخروج اھل بلدہ فلہ التزوج ولو فقتہ الحج۔ (شامی ص ۱۹۸)"
......
سوال # 151469
حضرت! میں یہاں انڈیا میں ایک سرکاری بینک میں ملازمت کرتا ہوں اب کچھ دنوں میں میں ریٹائر ہونے والا ہوں، ریٹائرمنٹ کے بعد جو فنڈ اور پیسہ مجھے ملے گا اس سے میں حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ مہربانی کرکے بتائیں کہ کیا اس پیسے سے حج کیا جاسکتا ہے؟ شکریہ
Published on: Jun 19, 2017
جواب # 151469
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1250-1187/L=9/1438
حج پاکیزہ آمدنی سے کرنا چاہیے ،بینک میں ایسے کام کی ملازمت جس میں سود لکھنے وغیرہ کے اعتبار سے سود پر تعاون ہو جائز نہیں اور اس سے حاصل آمدنی بھی پاکیزہ نہیں ہے؛البتہ اگر آپ کو رٹائر کے بعد پینشن ملے توآپ اس رقم سے حج کر سکتے ہیں؛کیونکہ یہ کسی عمل کا بدل نہیں ہے بلکہ تبرع محض ہے اور حلال ہے،اسی طرح اگر فنڈ کی رقم سے حج کریں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hajj--Umrah/151469
..............
(۱) صورت مسئولہ میں اگر لڑکے کے پاس اتنی استطاعت ہو کہ والدین کو اپنے ساتھ لے جاسکتا ہے تو والدین کو اپنے ساتھ لے جائے، اور اگر اس وقت والدین کو ساتھ لے جانے کی حیثیت نہ ہو تو خود حج کے لئے چلا جائے۔ پہلے والدین کو حج کروانا اس کے بعد خود کرنا یہ شرعی حکم نہیں ہے۔ البتہ استطاعت ہوجانے پر والدین کو بھی حج کروادے اس کی کوشش جاری رکھے۔ یاد رہے کہ اگر والدین کو حج کروایا خود نہ کیا تو پھر بھی اس کو بعد میں اپنا حج ادا کرنا لازم ہے۔
(۲) جب حج فرض ہوگیا تو حج کے لئے جانا ضروری ہے، خواہ اولاد کی شادی ہوئی ہو یا نہ ہوئی ہو۔ نہ جانے پر گنہگار ہوگا اور یہ کہنا کہ اولاد کی شادی کروائے بغیر حج فرض نہیں ہوتا اور حج کے لئے نہیں جاسکتا یہ اعتقاد درست نہیں ہے۔
وفی الاشباہ معہ الف و خاف العزوبۃ ان کان قبل الخروج اھل بلدہ فلہ التزوج ولو فقتہ الحج۔ (شامی ص ۱۹۸)"
......
سوال # 151469
حضرت! میں یہاں انڈیا میں ایک سرکاری بینک میں ملازمت کرتا ہوں اب کچھ دنوں میں میں ریٹائر ہونے والا ہوں، ریٹائرمنٹ کے بعد جو فنڈ اور پیسہ مجھے ملے گا اس سے میں حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ مہربانی کرکے بتائیں کہ کیا اس پیسے سے حج کیا جاسکتا ہے؟ شکریہ
Published on: Jun 19, 2017
جواب # 151469
بسم الله الرحمن الرحيم
Fatwa: 1250-1187/L=9/1438
حج پاکیزہ آمدنی سے کرنا چاہیے ،بینک میں ایسے کام کی ملازمت جس میں سود لکھنے وغیرہ کے اعتبار سے سود پر تعاون ہو جائز نہیں اور اس سے حاصل آمدنی بھی پاکیزہ نہیں ہے؛البتہ اگر آپ کو رٹائر کے بعد پینشن ملے توآپ اس رقم سے حج کر سکتے ہیں؛کیونکہ یہ کسی عمل کا بدل نہیں ہے بلکہ تبرع محض ہے اور حلال ہے،اسی طرح اگر فنڈ کی رقم سے حج کریں تو اس کی بھی گنجائش ہے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hajj--Umrah/151469
..............
سوال # 13814
(۳) کیا میں اورمیری ماں اس پیسہ سے حج کرسکتے ہیں جس کو میری بہن نے دیا ہے جو کہ ایک بینک میں کام کرتی ہے؟ یہ پیسہ اس کے بینک میں کام کرنے کی ماہانہ تنخواہ سے ہے۔
Published on: Jun 18, 2009
جواب # 13814
بسم الله الرحمن الرحيم
فتوی: 920=192tl/ل
(۳) اگر آپ کی بہن بینک میں کسی ایسے کام کی ملازمت کرتی ہیں جس میں سود پر لینے، دینے، لکھنے یا گواہی دینے کے اعتبار سے تعاون کرنا پڑتا ہے تو ایسے ملازمت کی آمدنی حلال نہیں ہے، اور ایسے روپئے سے حج کرنا درست نہیں، لیکن اگر کوئی حلال آمدنی نہیں ہے تو اس روپے سے حج کرنے کی یہ صورت کی جاسکتی ہے کہ کسی غیرمسلم سے قرض لے کر حج کرلیا جائے اور قرض میں یہ رقم دیدی جائے۔
http://www.darulifta-deoband.com/home/ur/Hajj--Umrah/13814 https://youtu.be/HC-aIWYke3w
.......
بینک کی نوکری ناجائز ہے، سائل کے ذمے لازم ہے کہ کسی حلال روزگار کی تلاش کرے، البتہ جب تک کوئی نئی نوکری نہیں ملتی اور گزربسر کی کوئی اور صورت نہ ہو تو اس نوکری کو ناجائز سمجھتے ہوئے نئے روزگار کی حقیقی تلاش کرتے رہنے کے ساتھ اس نوکری کو کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کی آمدن سےصرف ضرورت کے بعد استعمال کرتا رہے جیسے ہی کوئی نئی نوکری ملے گو وہ اس موجودہ نوکری سے کم منافع بخش ہو موجودہ نوکری کو چھوڑنا لازم ہوگا اور حلال ذرائع آمدن میں میسر آنے پر بشرط استطاعت اتنی رقم صدقہ بھی کردے جتنا حرام مال استعمال کرچکے ہیں۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/bank-ki-mulazmat-ka-hukum/-0001-11-30
.......
بینک کی نوکری ناجائز ہے، سائل کے ذمے لازم ہے کہ کسی حلال روزگار کی تلاش کرے، البتہ جب تک کوئی نئی نوکری نہیں ملتی اور گزربسر کی کوئی اور صورت نہ ہو تو اس نوکری کو ناجائز سمجھتے ہوئے نئے روزگار کی حقیقی تلاش کرتے رہنے کے ساتھ اس نوکری کو کرنے کی گنجائش ہے۔ اس کی آمدن سےصرف ضرورت کے بعد استعمال کرتا رہے جیسے ہی کوئی نئی نوکری ملے گو وہ اس موجودہ نوکری سے کم منافع بخش ہو موجودہ نوکری کو چھوڑنا لازم ہوگا اور حلال ذرائع آمدن میں میسر آنے پر بشرط استطاعت اتنی رقم صدقہ بھی کردے جتنا حرام مال استعمال کرچکے ہیں۔
http://www.banuri.edu.pk/readquestion/bank-ki-mulazmat-ka-hukum/-0001-11-30
................
http://www.onlinefatawa.com/fatawa/view_scn/12261 |
No comments:
Post a Comment