۱۳؍ نومبر ۲۰۱۷ء کی دوپہر میں قافلۂ علم وکمال کی ایک ایسی بافیض اور دلنواز شخصیت نے آخرت کی راہ لے لی جن کی کتابِ زندگی کا ہر ورق درخشاں اور فکر آگہی کا عنوان بتانے والا تھا۔ علم، ادب، دانش، کمال، ذہانت، ذکاوت اور شرافت وآدمیت جیسے عناصر کی ترکیب سے جنم لینے والی یہ عظیم ہستی حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی کی ذات والا صفات تھی، افسوس کہ اخلاق ومروت کی یہ مجسم تصویر بھی اب سدا کے لئے آنکھوں سے اوجھل ہوگئی
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ع
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
اس تیرہ خا ک دان میں کتنے ہیں جو نام ور ہوکر بے نام ونشان ہوگئے اور کتنے ہیں جن کے نخلستانِ حیات میں بہاریں رقص کناں ہیں، لیکن خلقِ خدا کی نفع رسانی نہ ان کے لئے مقدر اور نہ وہ اس خیر خواہانہ جذبہ کے روادار نتیجتاً وہ اپنی من چاہی زندگی گزار کر اس طرح لقمۂ اجل بن جاتے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی، قرآن مقدس کا یہ حقیقت افروز بیان ذیل کی آیت میں نفع رسانی کے اسی خوبصورت جذبہ کا اظہار واعتراف ہے جو ہر مؤمن کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
’’فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآئً وَاَمَّا مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالْ بہر حال جھاگ تو وہ یونہی اڑ جایا کرتا ہے، اورجو چیز لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتی ہے وہی دیر پا ہوتی ہے‘‘۔
حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی نے بھی امت کی اصلاح وتربیت اور اس کے نوجوانوں کو قال اللہ وقال الرسول کے زمزمے سناکر ان نصیبہ ورں میں اپنا نام درج کرالیا جنہیں سعادتِ دارین کا مژدہ سنایاگیا ہے ۔ حضرت مولانا نے جن علمی راہوں کا انتخاب کیا وہ ان کا خاندانی اختصاص بھی تھا ، آخر کون نہیں جانتا کہ بر صغیر میں جب اسلام کو پسپا کرنے اور حرف غلط کی طرح مٹانے کی سازشیں بروبحر میں شباب پر تھیں تو اسی صدیقی النسل اور یارِ غار سے نسبت پانے والے حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے تحفظِ شریعت اور بقائے دین کی خاطر قیامِ مدارس کا صور پھونک دیا تھا ، انہوں نے اپنی مؤمنانہ فراست سے فرنگیوں کے مذموم مقاصد کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ مدتِ مدید تک اسلام کے قلعوں کو استحکام ودوام بخشنے کے اصول بھی بتا گئے، مولانا محمد اسلم کے شہرت پذیر والد گرامی اور دارالعلوم دیوبند کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے والے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب جن کے علم وکمال کی عظمتوں سے ہر کوئی آشنا ہے ایک خدا رسیدہ عالم دین اور طبقۂ علماء کی مظلوم شخصیت تھے ، مولانا محمد اسلم صاحب نے اسی عالمِ ربانی کے یہاں۳؍جون ۱۹۳۷ء میں آنکھیں کھولیں، آپ کی تعلیم وتربیت تا انتہا دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، جبکہ عصری تعلیم علیگڈھ مسلم یونی ورسٹی میں پائی،آل انڈیا ملی کونسل کے صدر نشین حضرت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی نے ابھی تین روز پیشتر ہی کاتب الحروف کو بتایاکہ مولانا محمد اسلم قاسمی اور میرا سن پیدائش ایک ہی ہے اور ہم دونوں نے کنز الدقائق حضرت مولانا سید اختر حسین میاں دیوبندی سے پڑھی تھی، پھر دورۂ حدیث میں بھی درسی رفاقت رہی، یہ ۱۹۵۷ء کا سال تھا ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے صرف تین ماہ بخاری شریف پڑھنے کا موقع ملا تھا کہ آپ نے دارِ فانی سے منھ موڑ لیا آپ کے وصال کے بعد حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی ؒ کو شاہی سے بحیثیت شیخ الحدیث لایاگیا اور پھر آپ نے ہی بخاری شریف پڑھائی۔
۱۹۶۰ء کے آس پاس آپ عملا دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوگئے، مگر اس قت ایک ملازم کی حیثیت ہی سے آپ متعارف تھے درس وتدریس اور صحافت وخطابت کے میدان میں شناخت کا کوئی عنصر نہیں تھا، لیکن ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم کی انتظامیہ نے جب اجلاس صد سالہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو مولانا حامد الانصاری غازی کے بعد اس کے لئے بنائے گئے عارضی دفتر کے قائم مقام نگراں مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی ہی تھے ، وہاں آپ کی انتظامی صلاحیتوں کا راز کھلا، پھر جب دارالعلوم میں نئی انتظامیہ تشکیل پائی اور وقف دارالعلوم کے نام سے ایک دوسرے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد اسلم قاسمی کی خوابیدہ صلاحیتوں نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کردیں۔
چنانچہ درس وتدریس اور تقریر وتحریر کے میدان میں ان کی شناخت اس قدر تیزی سے ابھری کہ وہ اپنے اقران پر بھی بھاری سے دکھائی دینے لگے ، حتیٰ کہ قومی سطح پر ان کی پہچان تسلیم کی جانے لگی، اللہ جل وعلا نے واقعی ان کے اندر بے شمار خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں ، وہ نہایت ذہین اور زودفہم انسان تھے ، ان کا مطالعہ بہت زیادہ وسعت پذیر تھا، قدیم وجدید مراجعِ علم ان کی نگاہوں کے سامنے تھے، حدیث ، فقہ، تفسیر ، ادب ، بلاغت اور تاریخ اسلامی پر ان کی گہری نظر تھی، جبکہ سیرت النبیؐ تو آپ کا خاص موضوع تھا ، اس موضوع سے آپ کی دلچسپی عشق کی حدتک واقع ہوئی تھی ، جو آپ کے عاشقِ رسول ہونے کی بدیہی دلیل ہے، اسی لئے آپ نے سیرت حلبیہ جیسی شاہ کار عربی تصنیف کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ایک مقبول سیرت نگار کے طور پر علمی برادری نے آپ کے اس کام کو بنظر استحسان دیکھا ،جبکہ دیگر موضوعات پر بھی آپ کے قلمی معرکے دیکھنے اور پڑھنے کے لائق ہیں کہ قاسمی خانوادہ کے اس گل سرسبد نے مولانا نانوتوی کے علمی نسب نامہ کی کس طرح حفاظت فرمائی اور علم وقلم کا ایسا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں کہ مستقبل کا مؤرخ ان کی شخصیت اور خدمات سے صرف نظر کرنے کی ہمت نہ جٹاسکے گا، دارالعلوم وقف دیوبند کی تعمیر وترقی اور اس کے استحکام میں مولانا کی قربانیاں نقش دوام کی حیثیت رکھتی ہیں جو ان شاء اللہ ان کے حسنات میں اضافہ کا سبب ہوں گی۔
وہ اپنے بزرگوں اور پیش رو اکابر کے طریق پر چلتے ہوئے نہایت یکسوئی کے ساتھ دینی وعلمی کاموں کو آگے بڑھاگئے، ان کے حینِ حیات تو شاید لوگوں کو ان کی مقبولیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکا تھا مگر آپ کے جنازہ میں اہل علم کی امڑی بھیڑ اور سوشل میڈیا پر ہورہے ماتم سے یہ حقیقت توبہرحال منکشف ہوگئی کہ لوگوں کے جگر ان کے حادثۂ رحلت سے چھلنی اور آنکھیں اشک بار ہیں، وہ زبان حال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ حادثہ محض قاسمی خانوادہ کا ذاتی صدمہ نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کا قیامت سے گذرنا ہے جنہیں فی الحقیقت ان کے وجود باجود کی قدر ومنزلت کا کسی بھی درجہ میں ادراک تھاع
وماکان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما
اسی لئے یہاں گنگوہ میں جیسے ہی آپ کے وصال کی اطلاع ملی تو جامعہ کی علمی فضا سوگوار ہوگئی، یہاں اس صدمہ کی شدت بایں معنیٰ بھی تھی کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کی جامعہ اور اس کے بانی حضرت مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ پر خاص توجہ تھی اور وہ بارہا یہاں تشریف لاکر خطاب اور دعا فرمایا کرتے تھے، اسی نسبت سے حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی بھی یہاں تشریف لاتے رہے اور کبھی امتحان لیکر اپنے تأثرات سے بھی آگاہ فرماتے ، اب آپ رخصت ہوئے تو اپنی یادوں کے اجالے بھی چھوڑگئے ہیں ، اللہ آپ کوکروٹ کروٹ وہاں کی راحتیں نصیب فرمائے اور اپنا قرب عطا کرے، آمین۔
آسماں لحدپہ ان کی شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ وہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مفتی محمد ساجد کھُجناوری
استاذ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
انا للہ وانا الیہ راجعون۔
ع
وہی چراغ بجھا جس کی لو قیامت تھی
اسی پہ ضرب پڑی جو شجر پرانا تھا
اس تیرہ خا ک دان میں کتنے ہیں جو نام ور ہوکر بے نام ونشان ہوگئے اور کتنے ہیں جن کے نخلستانِ حیات میں بہاریں رقص کناں ہیں، لیکن خلقِ خدا کی نفع رسانی نہ ان کے لئے مقدر اور نہ وہ اس خیر خواہانہ جذبہ کے روادار نتیجتاً وہ اپنی من چاہی زندگی گزار کر اس طرح لقمۂ اجل بن جاتے ہیں کہ کانوں کان خبر نہیں ہوتی، قرآن مقدس کا یہ حقیقت افروز بیان ذیل کی آیت میں نفع رسانی کے اسی خوبصورت جذبہ کا اظہار واعتراف ہے جو ہر مؤمن کو پیش نظر رکھنا چاہئے۔
’’فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْہَبُ جُفَآئً وَاَمَّا مَایَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْکُثُ فِی الْاَرْضِ کَذٰلِکَ یَضْرِبُ اللّٰہُ الْاَمْثَالْ بہر حال جھاگ تو وہ یونہی اڑ جایا کرتا ہے، اورجو چیز لوگوں کے لئے نفع بخش ہوتی ہے وہی دیر پا ہوتی ہے‘‘۔
حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی نے بھی امت کی اصلاح وتربیت اور اس کے نوجوانوں کو قال اللہ وقال الرسول کے زمزمے سناکر ان نصیبہ ورں میں اپنا نام درج کرالیا جنہیں سعادتِ دارین کا مژدہ سنایاگیا ہے ۔ حضرت مولانا نے جن علمی راہوں کا انتخاب کیا وہ ان کا خاندانی اختصاص بھی تھا ، آخر کون نہیں جانتا کہ بر صغیر میں جب اسلام کو پسپا کرنے اور حرف غلط کی طرح مٹانے کی سازشیں بروبحر میں شباب پر تھیں تو اسی صدیقی النسل اور یارِ غار سے نسبت پانے والے حجۃ اللہ فی الارض حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی نے تحفظِ شریعت اور بقائے دین کی خاطر قیامِ مدارس کا صور پھونک دیا تھا ، انہوں نے اپنی مؤمنانہ فراست سے فرنگیوں کے مذموم مقاصد کو نہ صرف ناکام بنایا بلکہ مدتِ مدید تک اسلام کے قلعوں کو استحکام ودوام بخشنے کے اصول بھی بتا گئے، مولانا محمد اسلم کے شہرت پذیر والد گرامی اور دارالعلوم دیوبند کو بین الاقوامی سطح پر متعارف کرانے والے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب جن کے علم وکمال کی عظمتوں سے ہر کوئی آشنا ہے ایک خدا رسیدہ عالم دین اور طبقۂ علماء کی مظلوم شخصیت تھے ، مولانا محمد اسلم صاحب نے اسی عالمِ ربانی کے یہاں۳؍جون ۱۹۳۷ء میں آنکھیں کھولیں، آپ کی تعلیم وتربیت تا انتہا دارالعلوم دیوبند میں ہوئی، جبکہ عصری تعلیم علیگڈھ مسلم یونی ورسٹی میں پائی،آل انڈیا ملی کونسل کے صدر نشین حضرت مولانا حکیم محمد عبداللہ مغیثی نے ابھی تین روز پیشتر ہی کاتب الحروف کو بتایاکہ مولانا محمد اسلم قاسمی اور میرا سن پیدائش ایک ہی ہے اور ہم دونوں نے کنز الدقائق حضرت مولانا سید اختر حسین میاں دیوبندی سے پڑھی تھی، پھر دورۂ حدیث میں بھی درسی رفاقت رہی، یہ ۱۹۵۷ء کا سال تھا ، شیخ الاسلام حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ سے صرف تین ماہ بخاری شریف پڑھنے کا موقع ملا تھا کہ آپ نے دارِ فانی سے منھ موڑ لیا آپ کے وصال کے بعد حضرت مولانا فخرالدین مرادآبادی ؒ کو شاہی سے بحیثیت شیخ الحدیث لایاگیا اور پھر آپ نے ہی بخاری شریف پڑھائی۔
۱۹۶۰ء کے آس پاس آپ عملا دارالعلوم دیوبند سے وابستہ ہوگئے، مگر اس قت ایک ملازم کی حیثیت ہی سے آپ متعارف تھے درس وتدریس اور صحافت وخطابت کے میدان میں شناخت کا کوئی عنصر نہیں تھا، لیکن ۱۹۸۰ء میں دارالعلوم کی انتظامیہ نے جب اجلاس صد سالہ منعقد کرنے کا فیصلہ کیا تو مولانا حامد الانصاری غازی کے بعد اس کے لئے بنائے گئے عارضی دفتر کے قائم مقام نگراں مولانا محمد اسلم صاحب قاسمی ہی تھے ، وہاں آپ کی انتظامی صلاحیتوں کا راز کھلا، پھر جب دارالعلوم میں نئی انتظامیہ تشکیل پائی اور وقف دارالعلوم کے نام سے ایک دوسرے دارالعلوم کا قیام عمل میں آیا تو مولانا محمد اسلم قاسمی کی خوابیدہ صلاحیتوں نے بھی انگڑائیاں لینی شروع کردیں۔
چنانچہ درس وتدریس اور تقریر وتحریر کے میدان میں ان کی شناخت اس قدر تیزی سے ابھری کہ وہ اپنے اقران پر بھی بھاری سے دکھائی دینے لگے ، حتیٰ کہ قومی سطح پر ان کی پہچان تسلیم کی جانے لگی، اللہ جل وعلا نے واقعی ان کے اندر بے شمار خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں ، وہ نہایت ذہین اور زودفہم انسان تھے ، ان کا مطالعہ بہت زیادہ وسعت پذیر تھا، قدیم وجدید مراجعِ علم ان کی نگاہوں کے سامنے تھے، حدیث ، فقہ، تفسیر ، ادب ، بلاغت اور تاریخ اسلامی پر ان کی گہری نظر تھی، جبکہ سیرت النبیؐ تو آپ کا خاص موضوع تھا ، اس موضوع سے آپ کی دلچسپی عشق کی حدتک واقع ہوئی تھی ، جو آپ کے عاشقِ رسول ہونے کی بدیہی دلیل ہے، اسی لئے آپ نے سیرت حلبیہ جیسی شاہ کار عربی تصنیف کو اردو کے قالب میں ڈھالا اور ایک مقبول سیرت نگار کے طور پر علمی برادری نے آپ کے اس کام کو بنظر استحسان دیکھا ،جبکہ دیگر موضوعات پر بھی آپ کے قلمی معرکے دیکھنے اور پڑھنے کے لائق ہیں کہ قاسمی خانوادہ کے اس گل سرسبد نے مولانا نانوتوی کے علمی نسب نامہ کی کس طرح حفاظت فرمائی اور علم وقلم کا ایسا سرمایہ چھوڑ گئے ہیں کہ مستقبل کا مؤرخ ان کی شخصیت اور خدمات سے صرف نظر کرنے کی ہمت نہ جٹاسکے گا، دارالعلوم وقف دیوبند کی تعمیر وترقی اور اس کے استحکام میں مولانا کی قربانیاں نقش دوام کی حیثیت رکھتی ہیں جو ان شاء اللہ ان کے حسنات میں اضافہ کا سبب ہوں گی۔
وہ اپنے بزرگوں اور پیش رو اکابر کے طریق پر چلتے ہوئے نہایت یکسوئی کے ساتھ دینی وعلمی کاموں کو آگے بڑھاگئے، ان کے حینِ حیات تو شاید لوگوں کو ان کی مقبولیت کا صحیح اندازہ نہیں ہوسکا تھا مگر آپ کے جنازہ میں اہل علم کی امڑی بھیڑ اور سوشل میڈیا پر ہورہے ماتم سے یہ حقیقت توبہرحال منکشف ہوگئی کہ لوگوں کے جگر ان کے حادثۂ رحلت سے چھلنی اور آنکھیں اشک بار ہیں، وہ زبان حال سے یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ حادثہ محض قاسمی خانوادہ کا ذاتی صدمہ نہیں ہے بلکہ ہر اس شخص کا قیامت سے گذرنا ہے جنہیں فی الحقیقت ان کے وجود باجود کی قدر ومنزلت کا کسی بھی درجہ میں ادراک تھاع
وماکان قیس ہلکہ ہلک واحد ولکنہ بنیان قوم تہدما
اسی لئے یہاں گنگوہ میں جیسے ہی آپ کے وصال کی اطلاع ملی تو جامعہ کی علمی فضا سوگوار ہوگئی، یہاں اس صدمہ کی شدت بایں معنیٰ بھی تھی کہ حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب ؒ کی جامعہ اور اس کے بانی حضرت مولانا قاری شریف احمد گنگوہیؒ پر خاص توجہ تھی اور وہ بارہا یہاں تشریف لاکر خطاب اور دعا فرمایا کرتے تھے، اسی نسبت سے حضرت مولانا محمد اسلم قاسمی بھی یہاں تشریف لاتے رہے اور کبھی امتحان لیکر اپنے تأثرات سے بھی آگاہ فرماتے ، اب آپ رخصت ہوئے تو اپنی یادوں کے اجالے بھی چھوڑگئے ہیں ، اللہ آپ کوکروٹ کروٹ وہاں کی راحتیں نصیب فرمائے اور اپنا قرب عطا کرے، آمین۔
آسماں لحدپہ ان کی شبنم افشانی کرے سبزۂ نورستہ وہ اس گھر کی نگہبانی کرے
مفتی محمد ساجد کھُجناوری
استاذ جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ
No comments:
Post a Comment