Monday, 19 February 2018

عید میلاد النبیؐ: دلائل اور اُن کا جائزہ

ذکر و شکرِ نعمت کا صحیح طریقہ اختیار کیا جائے، سنن رسولﷲ ﷺ کو اپنایا جائے، یہ سال میں ایک مرتبہ نہیں ہر روزکرنے کا کام ہے
ہم عید میلاد النبیؐ  کی شرعی حیثیت کے بارے میں ذکر کر آئے ہیں کہ اس کا عہد ِرسالت و خلافت اور دورِ صحابہ و تابعین سے کوئی ثبوت نہیں ملتا بلکہ ساتویں صدی ہجری (625ھ) میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بہنوئی اور موصل کے قریبی شہراَربل کے گورنر ملک مظفرابو سعیدکوکبری نے اسے رواج دیا۔وہ محفلِ میلاد میں بھانڈ،مراثی،راگ ورنگ اور ناچنے والوں کو جمع کرتا اور راگ سنتا اور گانا باجاسن کر خود بھی ناچاکرتا تھا۔ عیسائیوں کے کرسمس کی دیکھا دیکھی میں مصری فاطمیوں نے جشنِ میلاد کو رواج دیا تھا۔ قرونِ اُولیٰ میں اس کا ثبوت نہ ہونے اور ساتویں صدی میں آکر شروع ہونے کی وجہ سے ہی اہلِ علم نے اسے ’’بدعت‘‘ قرار دیا ہے۔
اس میلاد کے جواز کا فتویٰ سب سے پہلے مَلک مظفر کے عہد کے ایک مولوی شیخ ابو الخطاب ابن دحیہ نے ایک رسالے ’’التنویر فی مولد البشیر النذیر‘‘ میں دیاجس کی تالیف پر اسے ملک مظفر نے ایک ہزار دینار انعام دیا تھا۔ اس مولوی ’’ابن دحیہ‘‘ کو کبار علمائے حدیث نے کذاب،ناقابلِ اعتبار،غیر صحیح النسب، بے تکی اور فضول باتیں کرنے والا قرار دیا ہے جس کی تفصیلات’’ البدایہ والنہایہ‘‘ اور ’’لسان المیزان ‘‘میں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ایسے اوٹ پٹانگ مولوی کے فتوے کی جو حیثیت ہوسکتی ہے وہ ظاہر ہے پھر اس کے پیچھے مولویوں کی ایک بھیڑ لگ گئی اور متأخرین میلادیوں نے اس کے جواز کے جو دلائل دیئے ہیں ان کے ذکر اور ان پر بحث و تنقید کیلئے تو ایک طویل مقالہ درکار ہے البتہ یہاں محض اشاروں میں مختصراً عرض کر رہے ہیں، مثلاً:
    اعتراض:
    کہا جاتا ہے کہ اگر میلاد بدعت ہے تو یہ بدعتِ حسنہ ہے اور اس کی کئی مثالیں سابق میں پائی گئی ہیں۔جیسا کہ نمازِ تراویح کی جماعت ہے۔ یہ نبی کریم ﷺ سے تو صرف 3 دن با جماعت ثابت ہے۔ پھر عہدِ فاروقی میں حضرت عمر ؓ نے پورا مہینہ جماعت کا اجراء کیا اور با جماعت نماز ادا کرتے لوگوں کو دیکھ کر فرمایا:
’’ یہ اچھی بدعت ہے۔‘‘
اسی طرح ہی میلاد بھی ہے۔
    جواب:    اس کا جواب یہ ہے کہ نمازِ تراویح کو بدعت کہنا درست نہیں کیونکہ یہ بدعت تب ہوتی جب اس کا نبی کریم ﷺ سے کوئی ثبوت ہی نہ ملتا حالانکہ ایسا نہیں بلکہ دیگر کتبِ حدیث کے علاوہ خاص صحیح بخاری شریف میں سیدہ عائشہؓسے مروی حدیث میں مذکور ہے کہ 3 دن نبی اکرم ﷺ نے با جماعت تراویح پڑھائی لیکن چوتھے دن تراویح کی جماعت کیلئے آپ ﷺ تشریف نہ لائے جس کا سبب یہ بتایاکہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں یہ تم پر فرض نہ ہوجائے، پھر تم اسے ادا نہ کرسکتے۔
جب نبی کریم ﷺ اس دنیا سے تشریف لے گئے اور تراویح کی فرضیت کا خدشہ زائل ہوگیا تو فراستِ فاروق ؓ نے الگ الگ تراویح پڑھنے کی بجائے اتفاق واتحاد کی برکت کے پیشِ نظر نبی ﷺ کی سنت کے مطابق با جماعت ادائیگی کا اجراء فرمایا۔انہوں نے اپنے ارشاد میں بدعت کا جو لفظ استعمال فرمایا ہے وہ بھی اپنے متبادر و معروف معنوں میں نہیں بلکہ یہ مشاکلہ( یعنی شکلا ً ملتا جلتا )ہے جو کہ عربوں میں معروف تھا کہ ایسا لفظ استعمال کرنا جس سے اس کا اصل معنیٰ نہیں بلکہ کوئی دوسرا معنیٰ مراد ہوتاہے۔
    خود قرآنِ کریم میں اس مشاکلہ کی مثال موجود ہے،سورہ البقرہ آیت138 میں ارشادِ الٰہی ہے:
    ’’اللہ کا رنگ (دین ِ اسلام) اختیار کرو اور اللہ سے اچھا رنگ کس کا ہوگا؟۔‘‘
    یہاں صبغہ سے مراد رنگ یا پاؤڈر نہیں بلکہ اسلام مراد ہے۔
    اسی طرح قولِ فاروق میں بدعت سے مراد ہے :
    ’’ گزشتہ ایام میں نہ پائی جانے والی چیز کو وجود میں لانا۔‘‘
     جبکہ یہ بھی نہیں کہ با لکلیہ سابق میں موجود نہ تھی بلکہ اس کا اجراء سنت رسول ﷺہونے کے پیش نظر ہی کیا گیا تھا۔
اعتراض:
    دوسری دلیل کے طور پر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ قرآن کریم پر اعراب نہیں تھے، وہ حجاج بن یوسف ثقفی نے لگوائے،پھر یہ عمل بھی بدعت ہوا۔
    جواب:     یہ محض مغالطہ اور غلط فہمی ہے ورنہ اعرابِ قرآن ’’بدعت‘‘ کے ضمن میں ہرگز نہیں آتا بلکہ یہ’’ مصالح مرسلہ‘‘ کے باب سے ہے یعنی ’’دینی اُمور میں سے کسی حرج کو رفع کرنے اور کسی ضروری امر کی حفاظت کیلئے کوئی اقدام کرنا‘‘۔ بات دراصل یہ تھی کہ عہدِ حجاج میں دولتِ اسلامیہ بہت زیادہ پھیل گئی تھی اور عرب و عجم کا اختلاط اور باہم رشتہ داریاں ہورہی تھیں جس کے نتیجہ میںلغتِ عربی میں کمزوری آنے لگی اور ’’لحن‘‘ عام ہوتاگیا حتیٰ کہ خود حجاج ایک فصیح و بلیغ عرب ہونے کے باوجود قرآن کریم کے بعض حروف میں لحن (یعنی قواعد کی خلاف ورزی)کر جاتا تھااور زیر والے حروف کوزَبر سے یا زَبر والے کو زیر سے پڑھ جاتا تھا اور یحییٰ بن یعمر نے اس پر نکیر بھی کی تھی لہٰذا حفاظتِ تلفظ کیلئے اعراب ضروری تھا کیونکہ ’’جس چیز کے بغیر کوئی واجب ادا نہ کیا جاسکے، وہ بھی واجب ہوتی ہے‘‘  لہٰذا اعراب ِ قرآن کو قطعاً میلاد کیلئے بطورِ استدلال استعمال نہیں کیا جا سکتااور ان مصالح مرسلہ کی کئی دیگرمثالیں بھی موجود ہیں ،مثلاً:۔
    جمع و تدوینِ قرآن جو کہ عہدِ صدیقی و عثمانی میںعمل میں آئی،وہ بدعت کے قبیل سے ہر گز نہیں ہوسکتی کیونکہ حفاظتِ قرآن مسلمانوں پر واجب ہے اور یہ امورِ کمالیات و تحسینات کے باب سے ہیں۔
    جمعہ کی پہلی آذان،مساجد کے منارے، محرابیں، مساجد میں لاؤڈا سپیکر کا استعمال بھی اسی قبیل ِمصالح سے ہے۔
     حضرت ابوبکر صدیق ؓ کا مانعینِ زکوٰۃ سے جنگ کرنا حضرت فاروق ؓ کا ایک مجلس کی 3 طلاقوں کو ہی نافذ کر دینا۔ صدقات سے مؤلفۃ القلوب کا حصہ بند کرنا، خراج ، دیوان اور جیلوں کو جاری کرنا۔بھوک و قحط سالی میں چوری کی حد کو موقوف کرنا وغیرہ سب اپنے اپنے وقت کی اہم ضرورتیں اور دینی اعتبار سے مفید اور دافع ضرر اُمور تھے۔ اسی طرح ہی ائمہ مجتہدین کی طرف سے بھی بعض قواعد و ضع کئے گئے ہیں جو کہ مصالح مرسلہ ضروریہ میں سے ہیں۔
    اعتراض:
    جشنِ میلاد کے دلدادگان (یعنی چاہنے والے)یہ بھی دلیل دیتے ہیں کہ حصولِ نعمت پر ذکروشکر واجب ہے اور نبی اکرم ﷺ کی ولادت بھی ایک عظیم نعمت ہے لہٰذا شکرانِ نعمت کے طور پر یہ جشن مناتے اور خوشیاں کرتے ہیں۔
جواب:    اس سلسلہ میں عرض ہے کہ یہ صحیح ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا وجودِ مسعُود ایک نعمتِ عظمیٰ ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ شکرانِ نعمت واجب ہے مگریہ کہاں لکھا ہے کہ ذکروشکرِ نعمت کیلئے جلوس نکالنا، جلسے کرنا،بھنگڑے ڈالنا،سبیلیں لگانااورقوالیاں سننا ضروری ہے۔کیا صحابہ و تابعین، ائمہ مجتہدین حتیٰ کہ خود صاحبِ میلادﷺ نے ایسے ہی اس نعمت کا شکریہ ادا کیا تھا؟اگر نہیں توپھر ہمیں اس کا حق کس نے دیا؟ اور اگر اسی طرح شکرِ نعمت واجب ہے تب تو پھر کاروبارِ زیست ٹھپ کرنا پڑیں گے تاکہ ہر روز جلوس وجشن کا اہتمام کیا جاسکے کیونکہ اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کا تو شمارہی مشکل ہے جیساکہ سورۃالنحل آیت18اور سورہ ابراہیم آیت34میں خود باری تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے:
    ’’اگرتم اﷲ تعالیٰ کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو نہیں کرسکوگے۔‘‘
      اگر ذکر و شکرِ نعمت کا صحیح طریقہ اختیار کیا جائے، سنن رسول ا ﷲ ﷺ کو اپنایا جائے تو پھر یہ ہر مسلمان ہر روز کرتا ہے نہ کہ سال میں صرف ایک دن ۔
    اعتراض :
    عید میلاد کے جواز کی دلیل کے طور پریہ بھی کہا جاتا ہے کہ نبی اکرم ﷺ یومِ عاشوراء کا روزہ رکھا کرتے تھے اور اس کا حکم بھی فرمایاتھا۔ چونکہ یہ دن مبارک تھا، اس دن کو یہودی بھی روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن اﷲتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دلائی تھی اور ہمیں بالاولیٰ چاہئے کہ نبی ﷺ کی ولادت کے بابرکت دن کا روزہ رکھیں۔
    جواب:    اندازہ فرمائیں کہ کتنی ٹیڑھی سوچ ہے۔ نبی اکرم ﷺنے توروزہ رکھااور اس کا حکم فرمایا مگر آج کے میلادمنانے والے روزہ رکھنے کی بجائے دستر خوان سجاتے ،سبیلیں لگاتے، قوالیاں سنتے اور بھنگڑے ڈالتے ہیں۔ آپ ﷺ نے یومِ عاشوراء کا روزہ رکھامگر اپنے یومِ ولادت کے بارے میں آپ ﷺ سے ایسی کوئی چیز ثابت نہیں تو ہمیں آپ ﷺ کی اتباع کرنی چاہئے نہ کہ اپنی طرف سے ابتداع ،نہ روزہ کی شکل میں اور نہ ہی لہوولعب کے انداز میں۔
     دوسری بات یہ بھی ہے کہ یومِ عاشوراء کا روزہ تو قریش پہلے ہی رکھا کرتے تھے اور ممکن ہے کسی سابقہ شریعت سے انہوں نے اس کا حکم لیا ہو۔ جیسے حرمت والے4 مہینوں کا احترام کرنا اور حج کرنا وغیرہ ہیں۔ عہدِ جاہلیت میں لوگوں کے روزہ رکھنے کا ثبوت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں موجود ہے۔ جس حدیث میں مذکور ہے کہ نبی اکرم ﷺ جب ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے اور یہودیوں کو روزہ رکھتے دیکھا تو پوچھا کہ یہ کیسا روزہ ہے؟ انہوں نے نجاتِ موسٰی ؑ کا واقعہ بتایا اور کہا ہم اسی کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھتے ہیں تو نبی اکرم ﷺ نے فرمایا تھا کہ میں موسیٰ علیہ السلام پر تم سے زیادہ حقدار ہوں لہٰذا آپ ﷺ نے بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم دیا تو اس کے بار ے میں قاضی عیاض ؒنے کیا خوب کہاہے کہ:
    ’’نبی اکرم ﷺ نے( یہود سے سن کر)اس روزے کی ابتداء نہیں کی ‘‘بلکہ صحاح و سنن میں مذکورہ صحیح حدیثِ عائشہؓ سے ثابت ہے کہ’’عہدِ جاہلیت میں بھی قریش روزہ رکھا کرتے تھے۔‘‘اور امام قرطبی فرماتے ہیں کہ ہوسکتا ہے قریش دین ِابراہیم ؑکے کسی حکم پر روزہ رکھتے ہوں۔ نبی اکرم ﷺ  کا روزہ رکھنا موافقتِ دین ِابراہیم ؑکے سبب ہو،جیسا کہ حج کا معاملہ ہے۔ پھر جب یہود کو روزہ رکھتے دیکھا تو ان کی تالیفِ قلب کیلئے بھی روزہ رکھا اور اس کا حکم فرمایا ہو۔اس میں بھی کوئی امرِ مانع نہیں کہ فریقین ایک ہی دن کا روزہ 2 الگ الگ اسباب کی بنا پر رکھتے ہوں۔
    اعتراض:
    بعض قائلینِ مِیلا دکا کہنا ہے کہ نبی اکرم ﷺ اپنے یومِ ولادت پر ایک مینڈھا بطورِ عقیقہ ذبح کیا کرتے تھے تو ہم لوگ کیوں نہ عید ِمیلاد منائیں۔
    جواب:    سب سے پہلے تو عقیقہ کا معنیٰ سمجھ لیں، امام ابن قدامہ ؒ لکھتے ہیں کہ:
    عقیقہ اس ذبیحہ کو کہتے ہیں جو بچے کی طرف سے ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ وہ کھانا جو بچے کی ولادت کی خوشی میں پکا یا اور کھلایا جائے وہ عقیقہ کہلاتا ہے۔
     ان کا کہنا ہے کہ ہمارے اصحاب کے نزدیک سنت یہ ہے کہ بچے کی پیدا ئش کے7و یں دن ذبح کیا جائے اور تب نہ ہوسکے تو14 ویں دن ہو یا پھر21ویں دن جیسا کہ سیدہ عائشہؓ سے مروی ہے۔
     جو شخص بالغ ہوجائے اور اس کا عقیقہ نہ کیا گیا ہو، اس میں اختلاف ہے کہ وہ اپنی طرف سے عقیقہ کرے یا نہیں؟
    بہر حال اگر جواز والوں کی بات ہی لے لی جائے تو عمر میں ایک مرتبہ عقیقہ کرنا ہوگا اورپھر ہمیشہ کیلئے یہ سلسلہ ختم ہو جائے گا۔ چہ جائیکہ ہرسال عقیقہ کیا جائے اور کسی قطعی طریق سے ہرگز ثابت نہیں کہ نبوت ملنے کے بعد آپ ﷺ نے ایک مرتبہ بھی عقیقہ کیا ہو، کہاں ہر سال عقیقہ کا دعویٰ۔ جس روایت میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے نبوت ملنے کے بعد اپنی طرف سے عقیقہ کیا،اس کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی  ؒ فرماتے ہیںکہ مسند بزار کی روایت صحیح ثابت نہیں، خود امام بزار کا کہنا ہے کہ:یہ روایت بیان کرنے میں عبداﷲ اکیلا منفرد ہے اور وہ ضعیف ہے۔
    آگے فرماتے ہیں:
    امام عبدالرزّاق، صاحب المصنف کا کہنا ہے کہ محدثیں نے صرف اس روایت کے بیان کرنے کی وجہ سے عبد اﷲبن محرر سے روایت لینا ہی ترک کردیا تو گویا اس روایت کے بیان کرنے نے عبداﷲبن محرر کی ثقاہت ہی مٹادی تھی لہٰذا اس سے کسی قسم کا استدلال کیسے دُرست ہوسکتا ہو؟ ۔
    اعتراض:
     اِسی سلسلہ میں بعض مناظر لوگ کہتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے کیونکہ اس دن آپ ﷺ پیدا ہوئے تھے اور پھر اسی سے عیدِ میلاد کا جواز پیدا کرتے ہیں۔
    جواب:     یہ صحیح ہے کہ نبی کریم ﷺ پیر کا روزہ رکھا کرتے تھے لیکن یہ بھی یاد رہے کہ اُنہی احادیث میں جمعرات کے روزے کا بھی ذکر ہے  چنانچہ ابوداؤد، ترمذی، نسائی میں ہے کہ نبی اکرم ﷺ پیر اور جمعرات کا کوشش کرکے روزہ رکھا کرتے تھے جبکہ نسائی اور ابوداؤد میں ہے کہ نبی ﷺ نے سیدنا اسامہؓ کے پوچھنے پر بتایا کہ پیر اور جمعرات کوبندوں کے اعمال اﷲ کے حضور پیش کئے جاتے ہیں اور میں یہ بات پسند کرتا ہوں کہ میرے اعمال اس حال میں اٹھائے جائیں کہ میں روزے سے ہوں۔
     صحیح مسلم و ترمذی میں بھی پیر اور جمعرات کے روزہ کی یہی وجہ بیان ہوئی ہے۔ مسلم کی ایک حدیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ پیر کے روزے کے بارے میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی دن میں پیدا ہوا تھااور اسی دن میں مبعوث کیا گیا یا مجھ پر وحی نازل کی گئی تھی۔
    ان تمام احادیث سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے کہ پیر و جمعرات کے روزے کا اصل سبب اعمال کا پیش کیا جانا ہے۔ اضافی سبب( صرف پیرکے روزہ کیلئے) یہ بھی تھا کہ آپ ﷺ اسی دن پیدا ہوئے تھے۔اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر آپ  ﷺ کا روزہ رکھنا محض ولادت کی وجہ سے ہوتا تو آپ ﷺ  صرف پیر کا روزہ رکھتے، جمعرات کا نہ رکھتے۔ پھر پیر کا روزہ بھی سال میں ایک مرتبہ رکھتے جو آپ ﷺ کی تاریخِ ولادت کے موافق ہوتا، ہر ہفتہ میں نہ رکھتے کیونکہ کسی واقعہ کی یاد سال میں ایک مرتبہ ہی منائی جاتی ہے نہ کہ ہفتے میں ایک مرتبہ۔
    لہٰذا معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کا روزہ رکھنا اعمال کے اللہ کے سامنے پیش کئے جانے کی وجہ سے تھا۔ اگر کوئی حب ِ رسولﷺ کا دم بھرنے والا ہے تو وہ ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کا روزہ رکھا کرے جو سنتِ رسول ﷺہے نہ کہ بدعات کا ارتکاب کرے اور بدعات کے جواز کیلئے احادیث کا مفہوم توڑ موڑ کر بیان کرتا پھرے۔روزے کی بجائے، اکل و شرب کی محفلوں کی طرف دعوت دیتا پھرے۔
    نبی کریم ﷺ سے یہ بھی ہر گزثابت نہیں کہ آپ ﷺ نے ربیع الاوّل(9یا12) کا روزہ کبھی رکھا ہو جو کہ آپ ﷺ کا یومِ ولادت ہے لہٰذا اگر کوئی شخص ہر سال اس دن کا روزہ اس نیت سے رکھے تو یہ گویا نبی ﷺ سے پیش قدمی، شریعت سازی اور نعوذُ باﷲ نبی  ﷺکو شریعت آموزی ہے۔
محمد منیر قمر۔ الخبر

No comments:

Post a Comment