رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے 1400 سال پہلے سرزمین عرب کو بُتوں سے
پاک کیا تھا، دبئی میں مندر کے افتتاح نے صرف
سرزمین عرب کا ہی نہیں بلکہ پوری دُنیا کے مسلمانوں کا سر شرم سے جھکادیا
ہے. ایک تصویر کے ساتھ تحریر ملی ہے کہ: "اسلام کے خلاف سازشیں روز اول سے ہوتی رہی ہیں اور جب تک طاغوتی طاقتوں کا وجود رہیگا تب تک ہوتی رہیں گی۔ لیکن اس میں اصل بات یہ ہے کہ مسلمان کس طرح ان سازشوں کے خلاف ردعمل کریں۔ آج کل ایک تصویر سوشل میڈیا پر نشر کی جا رہی ہے کہ چند عرب حضرات کچھ ہندو پجاریوں کے ساتھ بتوں کی پوجا کر رہے ہیں۔ اس میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اکثر تصاویر سچ نہیں بولتیں۔ کوئی بھی ہندو عربوں جیسا حلیہ اختیار کرکے تصاویر بنواسکتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ بالفرض ایک دو شخص بت پرستی کی طرف مائل ہوکر مرتد ہو بھی جاتے ہیں تو اس کی تشہیر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اسلام کے مقابلے منفی باتوں سے حتی الامکان بچنا چاہئے کیوں کہ ان منفی باتوں کی تشہیر سے ہم نادانستہ طور پر اسلام دشمن طاقتوں کو ہی تقویت پہنچاتے ہیں۔ اور سب سے اہم اور آخری بات یہ ہے کہ سرزمین عرب پر طاغوت کی پرستش کے متعلق سیدنا جابر بن عبداللہ انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بیشک شیطان اس بات سے ناامید ہوچکا ہے کہ جزیرہ عرب میں نمازی (یعنی مسلمان) اس کی عبادت کریں، لیکن وہ انہیں فساد پر آمادہ کرتا رہے گا۔“ اس کے علاوہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”شیطان اس بات سے ناامید ہوچکا ہے کہ تمہاری (جزیرہ عرب) کی زمین پر اس کی عبادت کی جائے، لیکن وہ تم سے ایسے (گناہ کرواکے) راضی ہو جائے گا، جنہیں تم حقیر سمجھتے ہو۔“ لہذا اس قسم کی منفی تشہیر کو سرے سے مسترد کردیا جائے اور اس کی تشہیر کی بجائے ایسی پوسٹ فورا ڈلیٹ کردی جائیں۔"
میرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ حدیث ہے؟ حوالہ کے ساتھ بتائیں.
الجواب: حضرت ثوبان رضی اللہ تعالٰی عنہ سے ایک طویل حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ و سلم نے فرمایا:
{لا تقوم الساعۃ حتی تلحق قبائل من امتی بالمشرکین و حتی تعبد قبائل من امتی الاوثان}
"اتنی دیر تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے قبائل مشرکین کے ساتھ نہ مل جائيں اور یہاں تک کہ میری امت کے قبائل بتوں کی عبادت کریں گے-"
ابو داؤد، کتاب فتن:4252- مسند احمد: 5/278- 284- ابن ماجہ: 2/1304 (3952)- مسند طیالسی (991)/ 133-
الجزء رقم :4، الصفحة رقم: 290
.................
.................
چند پیشین گوئیاں
راوی:
وعن ثوبان قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا وضع السيف في أمتي لم
يرفع عنها إلى يوم القيامة ولا تقوم الساعة حتى تلحق قبائل من أمتي
بالمشركين وحتى تعبد قبائل من أمتي الأوثان وإنه سيكون في أمتي كذابون
ثلاثون كلهم يزعم أنه نبي الله وأنا خاتم النبيين لا نبي بعدي ولا تزال
طائفة من أمتي على الحق ظاهرين لا يضرهم من خالفهم حتى يأتي أمر الله .
رواه أبو داود.
حضرت
ثوبان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا ۔ جب میری امت میں آپس میں تلوار چل جائے گی تو پھر قیامت تک
امت کے لوگوں کے قتل وقتال سے باز نہیں رہے گی۔ اور اس وقت تک قیامت قائم
نہیں ہوگی جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے اور
اس وقت تک قیامت قائم نہیں ہوگی جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے
لگیں گے۔ اور حقیقت یہ ہے کہ میری امت میں سے تیس جھوٹے (یعنی نبوت کا
دعویٰ کرنے والے) ظاہر ہوں گے۔ ان میں سے ہر ایک یہ گمان کرے گا کہ وہ اللہ
کا نبی ہے جب کہ واقعہ یہ ہے کہ میں خاتم النبیین ہوں میرے بعد کوئی نبی
نہیں ہوگا اور میری امت میں سے ہمیشہ ایک جماعت حق پر ثابت قدم رہے گی
(یعنی عملی طور پر بھی اور علمی طور پر بھی دین کے صحیح راستے پر چلنے والی
ہوگی اور دشمنان دین پر غالب رہے گی) اس جماعت کا کوئی بھی مخالف وبدخواہ
اس کو نقصان نہیں پہنچا سکے گا (کیونکہ اس جماعت کے لوگ دین پر ثابت قدم
اور برحق ہونے کی وجہ سے اللہ کی مدد و نصرت کے سایہ میں ہوں گے) تآنکہ
اللہ کا حکم آئے۔ (ابوداؤد، ترمذی)
تشریح:
حدیث کے پہلے جملے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ایک دفعہ کو بعض مسلمانوں کی وجہ
سے میری امت میں باہمی محاذ آرائی آپس میں قتل وقتال کی سیاست کو عمل ودخل
کا موقع مل گیا تو پھر مسلمانوں کی باہمی خونریزی اور ایک دوسرے کے خلاف
تشدد وطاقت کے استعمال کا ایسا سلسلہ شروع ہو جائے گا جو قیامت تک ختم نہیں
ہوگا اور ہمیشہ میری امت کے لوگ کہیں نہ کہیں اور کسی نہ کسی صورت میں
اپنی ہی صفوں کے خلاف لڑتے رہیں گے۔ چنانچہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کا یہ فرمانا بالکل صحیح ثابت ہوا اور حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ
عنہ کے زمانے سے مسلمانوں کی جو باہمی محاذ آرائی شروع ہوئی تھی اس کا
سلسلہ اب تک جاری ہے۔
"جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشین گوئی کا کچھ حصہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہی سامنے آگیا تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں عرب کے چند قبائل کچھ شرپسندوں اور منافقین کے فریب میں آکر ارتداد میں مبتلا ہوگئے اور کفر وشرک کی طاقتوں کے ساتھ مل گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فراست ودانش مندی اور قوت فیصلہ کی مضبوطی واولوالعزمی نے ان مرتدین کا استیصال کردیا تھا۔
"جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے." میں بتوں کا پوجنا اگر حقیقی معنی میں مراد ہے تو کہا جائے گا کہ شاید آئندہ زمانے میں کوئی وقت ایسا بھی آئے جب مسلمانوں کے کچھ طبقے ایمان واسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود، واقعۃً بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ ویسے موجودہ زمانے میں بھی ایسے مسلمانوں کا وجود بہرحال پایا جاتا ہے جو قبر پرستی اور تعزیہ کی پرستش وغیرہ کی صورت میں اپنی پیشانیاں غیر اللہ کے آگے سجدہ ریز کرتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس جملے میں بتوں کو پوجنے والی بات اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اسے مجازی اور معنوی صورت مراد ہے تو پھر اس کے محمول کی بہت صورتیں ہوسکتی ہیں جو ہر زمانے میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک صورت مال ودولت اور جاہ واقتدار وغیرہ کے حصول کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی واحد آماجگاہ بنا لیتا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا ایک محمول وہ لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔
تعس عبدالدیناوعبدالدرہم۔ درہم ودینا یعنی مال ودولت کے غلام ہلاک ہوں۔ لفظ "خاتم" ت کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ آتا ہے۔ اور وانا خاتم النبیین کے جملہ نحوی قاعدہ کے اعتبار سے حال واقع ہوا ہے نیز لا نبی بعدی کا جملہ اپنے پہلے جملہ یعنی وانا خاتم النبیین کی تفسیر و وضاحت کے طور پر ہے۔ "تا نکہ اللہ کا حکم آئے" میں اللہ کے حکم "سے مراد قیامت ہے یا دین کا اس طرح تسلط وغلبہ پالینا مراد ہے کہ روئے زمین پر کفر کا کوئی نام ونشان باقی نہ رہے ۔ نیز حتی یاتی الخ کا جملہ، لفظ لاتزال سے متعلق ہے۔
"جب تک میری امت کے بعض قبائل مشرکوں کے ساتھ نہ جا ملیں گے" حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس پیشین گوئی کا کچھ حصہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد ہی سامنے آگیا تھا جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ابتدائی زمانہ خلافت میں عرب کے چند قبائل کچھ شرپسندوں اور منافقین کے فریب میں آکر ارتداد میں مبتلا ہوگئے اور کفر وشرک کی طاقتوں کے ساتھ مل گئے تھے، لیکن حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی فراست ودانش مندی اور قوت فیصلہ کی مضبوطی واولوالعزمی نے ان مرتدین کا استیصال کردیا تھا۔
"جب تک میری امت کے بعض قبائل بتوں کو پوجنے لگیں گے." میں بتوں کا پوجنا اگر حقیقی معنی میں مراد ہے تو کہا جائے گا کہ شاید آئندہ زمانے میں کوئی وقت ایسا بھی آئے جب مسلمانوں کے کچھ طبقے ایمان واسلام کا دعویٰ رکھنے کے باوجود، واقعۃً بتوں کی پوجا کرنے لگیں۔ ویسے موجودہ زمانے میں بھی ایسے مسلمانوں کا وجود بہرحال پایا جاتا ہے جو قبر پرستی اور تعزیہ کی پرستش وغیرہ کی صورت میں اپنی پیشانیاں غیر اللہ کے آگے سجدہ ریز کرتے ہیں اور اگر یہ کہا جائے کہ اس جملے میں بتوں کو پوجنے والی بات اپنے حقیقی معنی پر محمول نہیں ہے بلکہ اسے مجازی اور معنوی صورت مراد ہے تو پھر اس کے محمول کی بہت صورتیں ہوسکتی ہیں جو ہر زمانے میں پائی جاتی ہیں، ان میں سے ایک صورت مال ودولت اور جاہ واقتدار وغیرہ کے حصول کو اپنی زندگی کا اصل مقصد اور اپنی امیدوں اور آرزوؤں کی واحد آماجگاہ بنا لیتا ہے، اس صورت میں اس ارشاد گرامی کا ایک محمول وہ لوگ بھی ہیں جن کے بارے میں فرمایا گیا ہے۔
تعس عبدالدیناوعبدالدرہم۔ درہم ودینا یعنی مال ودولت کے غلام ہلاک ہوں۔ لفظ "خاتم" ت کے زیر اور زبر دونوں کے ساتھ آتا ہے۔ اور وانا خاتم النبیین کے جملہ نحوی قاعدہ کے اعتبار سے حال واقع ہوا ہے نیز لا نبی بعدی کا جملہ اپنے پہلے جملہ یعنی وانا خاتم النبیین کی تفسیر و وضاحت کے طور پر ہے۔ "تا نکہ اللہ کا حکم آئے" میں اللہ کے حکم "سے مراد قیامت ہے یا دین کا اس طرح تسلط وغلبہ پالینا مراد ہے کہ روئے زمین پر کفر کا کوئی نام ونشان باقی نہ رہے ۔ نیز حتی یاتی الخ کا جملہ، لفظ لاتزال سے متعلق ہے۔
مشکوۃ شریف۔ جلد چہارم۔ فتنوں کا بیان۔ حدیث 1342
...............
4252 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ – أَوْ قَالَ : إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ - فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ ؛ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَلَّا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍبِعَامَّةٍ، وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي : يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ، وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا – أَوْ قَالَ : بِأَقْطَارِهَا - حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا. وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ، وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ". قَالَ ابْنُ عِيسَى: " ظَاهِرِينَ ". ثُمَّ اتَّفَقَا : " لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ ".
حكم الحديث: صحيح
ابوداود
.........
الجزء رقم :4، الصفحة رقم:290
4252 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْأَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ – أَوْ قَالَ : إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ - فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ ؛ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَلَّا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ، وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي : يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ، وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا – أَوْ قَالَ : بِأَقْطَارِهَا - حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا. وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ، وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ". قَالَ ابْنُ عِيسَى : " ظَاهِرِينَ ". ثُمَّ اتَّفَقَا : " لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ ".
حكم الحديث: صحيح
حكم الحديث: صحيح
أَوَّلُ كِتَابِ الْفِتَنِ وَالْمَلَاحِمِ | بَابٌ : ذِكْرُ الْفِتَنِ وَدَلَائِلِهَا
رواہ ابو داود
رواہ ابو داود
.........
الجزء رقم :4، الصفحة رقم:76
2219 حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ ، قَالَ : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : "لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى يَعْبُدُوا الْأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي ثَلَاثُونَ كَذَّابُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي ".
هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحٌ.
حكم الحديث: صحيح
ترمذي
.......
سنن أبي داود
نوع الحديث:قدسي
4252 حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ وَمُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى ، قَالَا : حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ ، عَنْ ثَوْبَانَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : " إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ – أَوْ قَالَ : إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ - فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا، وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا، وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ ؛ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَلَّا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ، وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ ، وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي : يَا مُحَمَّدُ، إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ، وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ، وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ، وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مَنْ بَيْنَ أَقْطَارِهَا – أَوْ قَالَ : بِأَقْطَارِهَا - حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا، وَحَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يَسْبِي بَعْضًا. وَإِنَّمَا أَخَافُ عَلَى أُمَّتِي الْأَئِمَّةَ الْمُضِلِّينَ، وَإِذَا وُضِعَ السَّيْفُ فِي أُمَّتِي لَمْ يُرْفَعْ عَنْهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَلَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى تَلْحَقَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي بِالْمُشْرِكِينَ، وَحَتَّى تَعْبُدَ قَبَائِلُ مِنْ أُمَّتِي الْأَوْثَانَ، وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ، كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ، لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ ". قَالَ ابْنُ عِيسَى : " ظَاهِرِينَ ". ثُمَّ اتَّفَقَا : " لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللَّهِ ".
حكم الحديث: صحيح
بواسطة تطبيق جامع الكتب التسعة
...
لیشربن الناس من امتی الخمر یسمونھا بغیر اسمھا یعزف علی رؤسھم بالمعازف والمغنیات یخسف اللّٰہ بھم الارض… الخ
میری
امت کے کچھ لوگ شراب پئیں گے مگر اس کا نام بدل کر ان کی مجلسیں راگ باجوں
اور گانے والی عورتوں سے گرم ہوں گی۔ اللہ انہیں زمین میں دھنسا دے گا اور
ان میں سے بعض کو بندر اور خنزیر بنا دے گا۔
قرآن
و حدیث کی نصوص کے بعد اگر آئمہ اربعہ رحمھم اللہ کے اجماع کی طرف آئیں
تو ہمیں کتب فقہ میں بیسیوں ایسی عبارات ملتی ہیں جن سے گانے بجانے وغیرہ
کی حرمت پر ان حضرات کا اجماع ثابت ہوتا ہے۔ مثلاً
(قولہ
او یغنی للناس) لانہ یجمع الناس علی ارتکاب کبیرۃ کذا فی الھدایۃ و ظاہرہ
ان الغناء کبیرۃ… الخ، وفی المعراج الملا ھی نوعان محرم وھو آلات المطربۃ
من غیر الغناء کالمزمار… الخ (البحر الرائق ۷/۸۸)
قال فی الرعایۃ یکرہ سماع الغناء والنوح بلاالۃ لھو وہو محرم معھا… الخ (الانصاف ۱۲/۵۱)
مختصر
طور پر نقلی دلائل کے بعد اگر عقلی لحاظ سے دیکھا جائے تو گانے بجانے اور
میوزک و موسیقی کے آلات اور رقص و سرود کے محفلیں جمانے سے سوائے بے دینی،
الحادو گمراہی، گناہوں کی کثرت، بے شرمی و بے حیائی، حیا و پاکدامنی کے
فقدان اخلاقی بے راہ روی اور معاشرتی انتشار اور بے سکونی وغیرہ کے علاوہ
کوئی چیز نہیں پھیلی۔
بہر
کیف مسلمانوں کو اس قسم کے گناہوں سے بچتے ہوئے قرآن مجید کو زیادہ سے
زیادہ پڑھنے، سننے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔”
https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1643510412373212&id=120477478009854
No comments:
Post a Comment