Saturday, 10 February 2018

سلمان ندوی صاحب کی خدمت میں

دہلی میں جمنا کے کنارے سینکڑوں ایکڑ سرکاری زمین پر اپنا کلچرل پروگرام منعقد کرکے اس زمین کو برباد کرنے کے ملزم سری سری روی شنکر نے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ایگزیکٹو کمیٹی کے ممبر مولانا سلمان ندوی سے بابری مسجد کی ملکیت پر جو "سودا" کیا ہے اس کے لئے وہ قابل مبارکباد ہیں۔ اتنا واضح سودا آج تک کوئی اور نہیں کرسکا تھا۔ آپ 25 منٹ کی وہ ویڈیو دیکھئے جس میں مذکورہ میٹنگ کی روداد ریکارڈ کی گئی ہے۔ اس میں مولانا سلمان ندوی کا فقہی ‘سیاسی اور ڈپلومیٹک بیان قابل سماعت ہے ۔۔۔ یہ ویڈیو republic world.com پر دیکھا جاسکتا ہے۔۔۔
مولانا نے تین باتیں بہت واضح انداز میں کہی ہیں:
1 : مجھے ابھی معلوم ہوا ہے کہ فقہ حنبلی کے مطابق اسلام میں مسجد کو دوسری جگہ شفٹ کیا جاسکتا ہے۔
2 : ہم دوسری کسی بھی جگہ جہاں مسلمانوں کی آبادی ہوگی77 بیگہ زمین پر شاندار مسجد تعمیر کرلیں گے۔
3 : اور (بابری مسجد کی جگہ) ہندو بھائی اپنا شاندار مندر تعمیر کرلیں گے۔
مولانا سے انتہائی ادب کے ساتھ چند سوالات ہیں:
-1 کیا بابری مسجد حنبلی مسلک کے مسلمانوں نے تعمیر کی تھی؟
-2 کیا بابری مسجد کا مقدمہ حنبلی مسلمان لڑ رہے ہیں؟
-3 کیا آپ نے مسلک حنبلی اختیار کرلیا ہے؟
-4 کیا آپ کو آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ‘سنی سینٹرل وقف بورڈ یوپی، ہاشم انصاری کے بیٹے اور ایک اور مسلم فریق نے اپنا نمائندہ بناکر سری سری سے ملنے کیلئے بھیجا تھا؟
-5 کیا آپ نے اس کی کوئی ضمانت ملاحظہ فرمائی کہ سری سری روی شنکر، ہندؤں کے تمام فریقوں کے نمائندے تسلیم کرلئے گئے ہیں؟
-6 کیا آپ نے فقہ حنبلی میں مسجد کی منتقلی کے حکم والی شرائط کا بھی مطالعہ کیا ہے؟
-7 اور کیا مسجد کی منتقلی کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر وہاں غیر اللہ کی پرستش کرنے والے لوگ مندر کی تعمیر کی ضد کریں تو مسجد منتقل کردی جائے؟
آج حیدر آباد میں پرسنل لا بورڈ کا اجلاس منعقد ہوا۔اس میں کیا ہوا‘ اس پر اس وقت تک کوئی بات نہیں کی جاسکتی جب تک بورڈ خود ہی کوئی پریس بیان جاری نہ کردے۔معلوم ہوا ہے کہ مولانا کی مساعی جمیلہ کے سلسلہ میں بورڈ نے ایک کمیٹی تشکیل دیدی ہے۔۔۔ آج شب میں کسی بھی وقت پریس سے بورڈ کے ذمہ داران گفتگو کرسکتے ہیں۔ بورڈ کااب تک کا موقف واضح اور قابل عمل ہے کہ مقدمہ کے فیصل ہونے کا انتظار کیا جائے۔اور جو فیصلہ آئے اس کا احترام کیاجائے۔
مولانا سلمان ندوی سے دو سوال اور کرنے ہیں:
-1 چند ماہ قبل جب طلاق ثلاثہ پرملک میں ہنگامہ آرائی جاری تھی تو اس وقت آپ کو فقہ حنبلی میں اس مسئلہ کو تلاش کرنے کا خیال کیوں نہیں آیا؟
-2 اور یہ کہ اگر آپ کو فقہ حنبلی میں مسجد کی منتقلی کے مسئلہ کا حال ہی میں علم ہوا ہے تو آپ نے اس مسئلہ کو مقدمہ کے اصل فریقوں کے سامنے کیوں نہیں رکھا؟
پرسنل لا بورڈ کے سامنے اس مسئلہ کو رکھنا آپ کے لئے اور بھی آسان تھا۔ اور ایسی صورت میں تو اور بھی آسان تھا جب بورڈ کے ترجمان مولانا سجاد نعمانی صاحب ہیں۔ نعمانی صاحب کو نرسمہاراؤ کے زمانہ میں اِسی خیال کا حامی تصور کیا جاتا تھا جو آج آپ پر حاوی ہے ۔۔۔۔ مولانا گفت وشنید کے ذریعہ مسائل کا حل انتہائی خوبصورت بات ہے۔ لیکن گفت وشنید کی کچھ منصفانہ بنیادیں ہوتی ہیں۔ ہندو فریق تو گفت وشنیدکی ان بنیادی شرائط میں سے ایک پر بھی عمل کے لئے تیار نہیں ہے۔ اور آپ ہیں کہ سری سری کے سامنے بِچھے جاتے ہیں۔ آپ کی علمی شان اِس کی متقاضی نہیں تھی کہ آپ مسجد پر دعوے سے دستبراری کیلئے مشرکوں کے سامنے اُس فقہ کا حوالہ دیں جس کا شمالی ہندوستان میں کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ آپ نے جس وثوق کے ساتھ سری سری کی میٹنگ میں مسجد سے دستبردار ہونے اور دوسری جگہ مسجد تعمیر کرنے کی نوید سنائی ہے کیا آپ کو یقین ہے کہ ہندوستان کے مسلمان آپ کے ہاتھ پر اُسی طرح بیعت کرنے کا اعلان کردیں گے جس طرح آپ نے ایک خط کے ذریعہ ابوبکر البغدادی کو امیر المومنین تسلیم کرنے اور اس کے ہاتھ پر بیعت کی خواہش کا اظہار کردیا تھا؟
مولانا آج آپ کی وجہ سے ٹی وی چینلوں پر مردود قادیانی تک بڑے طمطراق سے بحث میں حصہ لے کر مسلمانوں کا مذاق اڑا رہے ہیں اور اُن کی طرف سے بابری مسجد سے دستبرداری کا اعلان کر رہے ہیں۔ ذرا غور کیجئے کہ آپ نے مسلمانوں کو کس چوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ حیرت ہے کہ آپ کو معلوم تھا کہ 9فروری کو حیدر آباد میں پرسنل لا بورڈ کا اجلاس ہورہا ہے جس میں خود آپ کو بھی شریک ہونا تھا لیکن 8 فروری کو آپ بنگلور میں اِس تاثر کے ساتھ سری سری کے ساتھ میٹنگ کر رہے ہیں کہ جیسے پرسنل لا بورڈ نے آپ کو اپنا نمائندہ بناکر بھیجا ہے؟ ہمیں خوشی ہوگی اگر آپ بابری مسجد کے مقدمہ کے تمام فریقوں، علماء اور پرسنل لا بورڈ کو بھی اپنے موقف کا حامی اور قائل بناسکیں۔ لیکن اگر یہ ممکن نہ ہوا تو خدا کے لئے آپ بھی یہ خیال دل سے نکال دیں اور مسلمانوں کو کسی نئے امتحان میں مبتلا نہ کریں۔ موجودہ حالات میں فقہ حنبلی کی بجائے عدالت کے فیصلہ کا انتظار اور احترام زیادہ بہتر ثابت ہوگا۔
ایم ودود ساجد
...............
مولانا سلمان ندوی کی بورڈ کو توڑنے کی کوشش 
مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ ماننے سے انکار، 
آر ایس ایس کے اشارے پر کام کرنے کا الزام
حیدرآباد ۔10 (ملت ٹائمز) بابری مسجد پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بور ڈ کا فیصلہ ماننے سے انکار کرنے کے بعد مولانا سلمان ندوی اب بورڈ کو توڑنے کی کوشش کررہے ہیں اور یہ کہہ رہے ہیں کہ بورڈ تمام مسلمانوں کی نمائندہ تنظیم نہیں ہے ،چند لوگوں کی اس پراجارہ داری ہے ۔اس کام کیلئے مولانا سلمان ندوی میڈیا بطور خاص انڈیا ٹی وی کا سہارا لے رہے ہیں ۔
ذرائع کے مطابق ایک جانب مسلم پرسنل لاءبوڈر کی میٹنگ جاری تھی دوسری طرف میٹنگ کے باہر مولانا ندوی انڈیا ٹی وی کو انٹر یو دے رہے تھے ۔میٹنگ میںانہوں نے بورڈ پر سنگین الزامات لگائے، بی جے بی کے وزیر ایم جے اکبر کی زبان بولتے ہوئے کہا کہ بورڈ مسلمانوں کا نمائندہ ادارہ نہیں ہے، اسلام پر مولویوں کی اجارہ داری نہیں ہے۔ انہوں نے بورڈ کے ترجمان مولانا خلیل الرحمن سجاد پر بھی انٹرویومیں سنگین الزامات عائد کرتے ہوئے کہاکہ وہ آر ایس ایس سے ملے ہوئے ہیں اور بورڈ سنگھ پریوار کو اشارے پر کام کررہاہے۔ انٹر ویو کے دوران انہوں نے مولانا سجاد کی ایک د و ویڈیو کلپ بھی نمائندہ کو سنائی۔ انہوں نے بورڈ کی مجلس عاملہ کے رکن مولاناکمال فاروقی ،قاسم رسول الیا س اور اسدالدین اویسی پر شدت پسندی کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاکہ یہ سب شدت پسند ہیں اور یہی لوگ میرے خلاف سب سے زیادہ کاروائی کا مطالبہ کررہے تھے۔ انہوں نے یہ بھی کہاکہ اب بورڈ کے اجلاس میں میں نہیں جاﺅں گااور نہ ہی میرا کوئی تعلق ہے ۔ بورڈ آر ایس ایس سے ملا ہوا ہے۔ انہوں نے اشاروں میں مولانا ارشد مدنی پر بھی سخت تنقید کی۔ مولانا ندوی نے انٹر ویو میں یہ بھی کہا کہ اویسی شریعت سے نابلد ہیں ،وہ ایک سورہ فاتحہ کا ترجمہ نہیں کرسکتے ہیں،شریعت کے واقف کار ہم ہیں، ہم بتلائیں گے کہ شریعت کیا ہے اور فقہ حنبلی کے مطابق اسلام مکمل طور پر اجازت نہیں دیتا ہے۔ مولانا ندوی نے یہ بھی کہا کہ سنی وقف بورڈ ہمارے ساتھ ہے اور ہم ہزار مخالفت کے باوجود شری شری روی شنکر کے ساتھ بابری مسجد کی جگہ رام مندر بنائیں گے اور مسجد بنانے کیلئے دوسرے علاقے میں ایک بڑی جگہ لیں گے جہاں مسجد کے ساتھ ایک مسلم یونیورسٹی بھی بنائیں گے۔
واضح رہے کہ مولانا ندوی کے متنازع بیان پر گذشتہ شام بورڈ کی مجلس عاملہ میں کاروائی کی بات کی گئی تھی اور ان کی تفتیش کیلئے ایک چار رکنی کمیٹی بھی تشکیل دی گئی تھی۔
........
مولانا سلمان ندوی کا انڈیا ٹی وی کو دیا گیا انٹرویو پر چند سوالات:
پرسنل لا انگریزوں کا دیا ہوا لفظ ہے تو اب تک کیوں وابستہ رہے؟ آپ کے ناناجان اور دیگر اکابر کو منوالیتے اور نام تبدیل کرکے شریعت اپلیکیشن بورڈ رکھ لیتے!
رحیم الدین انصاری جو دار العلوم حیدرآباد کے ناظم ہیں کس ادارہ کے فارغ ہیں پتہ ہے آپ کو؟ یہ بھی نہیں معلوم کہ یہ اجھل الجاھلین ہے اور قاسم الیاس رسول اور کمال فاروقی جنہوں نے آپکے ساتھ بدتمیزی کی ان جیسا علماء کے ساتھ  کرتا ہے! کیا آپ اسکو ڈگری دے دیں گے؟ اپنے ادارہ سے عالمیت کی!
آپ خود کافی جذباتی بیانات دینے میں مشہور ہیں اتنی سنجیدہ ذہنی اچانک کہاں سے اور کیسے آگئی ؟
مولانا سجاد صاحب کی آر یس یس والوں سے دوستی انہی غلط فہمیوں کو دور کرنے ہوگی جیسے آپ کی ہورہی ہے ورنہ آپ کو یہ شری شری روی شنکر کا پتہ کس نے بتایا ؟
آپ تو اتنے جذباتی ہیں کہ داعش کے خلیفہ کو خط لکھنے میں ذرا دیر بھی نہیں کی اور بر صغیر میں آپ ہی سب سے پہلے عالم ہونگے جنہوں نے ایسے خطوط لکھے ہوں گے 
وقتا فوقتا آپکے بریکنگ نیوز جیسے بیانات سے ہی اندازہ ہوتا رہتا ہے کہ آپ ماحول کو گرمانے کا مزاج رکھتے ہیں یہ سب کیا ہورہا ہے؟ اب بورڈ کو بھی توڑ دیں گے آپ پھر کیا چیز بچی رھ گئی ندوہ ؟ وہ سانحہ کب پیش آنے والا ہے؟
ابو امامہ 

................
شاید کے اتر جائے تیرے دل میں میری بات        
ھمارے ملک ھندوستان کی عدالتیں اپنے سارے فیصلے مسلمانوں کے خلاف ھی نہیں سناتی ہیں؛ بلکہ ان کے فیصلے مسلمانوں کے حق میں بھی آتے رھتے ہیں، بابری مسجد کے سلسلےمیں لکھنؤ ہائی کورٹ کی الہ آباد بنچ کا فیصلہ اگرچہ مسلمانوں کے خلاف تھا؛ لیکن حق کی طلب اور انصاف کے حصول کے لئے ایک دروازہ اور کھلا ھوا تھا، جسے سپریم کورٹ کہا جاتا ھے؛ چناں چہ سواد اعظم کی رائے اور مشورہ کے مطابق ھمارے قائدین اس مسئلے کو سپریم کورٹ لے جانے پر متفق ھوئے، اس وقت گرامی قدرحضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی حفظہ اللہ نے اختلاف رائے کا اظہار نہیں فرمایا، یا ان  کا اختلاف منظرعام پر نہیں آیا؛حالانکہ اس وقت بھی حضرت موصوف "بورڈ" کےرکن عاملہ تھے اور آج بھی رکن عاملہ ہیں، اب جب کہ معاملہ سپریم کورٹ میں ھے اور یومیہ کی بنیاد پر سماعت شروع ھونے والی ھے، ایسے موقع پر بشمول حضرت موصوف کے ھم تمام برادران اسلام کا دینی اوراخلاقی فریضہ ھے کہ ھم اللہ کی ذات پر بھروسا رکھیں اور سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار کریں، اھل علم اچھی طرح واقف ہیں کہ "مشورہ سے پہلے مشورہ خیانت ھے اور مشورہ کے بعد مشورہ بغاوت ھے" غزوۂ احد کےموقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام سے مشورہ لیا کہ مدینہ میں رہ کر مقابلہ کیا جائے، یا باھر نکل کر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رائےتھی کہ مدینہ میں رھکرھی مقابلہ کیا جائے؛ لیکن اکثرصحابۂ کرام رضی اللہ عنھم کی رائےاوران میں جو نوجوان تھےان کا اصرارتھا کہ باھرنکل کرمقابلہ کیا جائے؛ چناں چہ امام الانبیاء والرسل نےاپنےرائے کی قربانی پیش فرمادی اور جمہور کی رائے کےمطابق مدینہ سے باھرمقابلے کا فیصلہ ھوگیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنےحجرے میں تشریف لے گئے اور زرہ پہن کر باھرتشریف لائے، اب صحابۂ کرام نےچاھا بھی کہ مدینہ میں رھکرھی مقابلہ کرلیں گے، مگرآپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے لیے آمادہ نہ ھوئے اور مقابلے کے لئے روانہ ہوگئے.
وقت کا اہم ترین تقاضا ہے کہ ھم مذکورہ اسوۂ حسنہ کو پیش نظر رکھیں، اجتماعی رائے پر عمل کریں اور انفرادی رائے کو دفن کردیں.
اللهم وفقنالماتحب وترضى.آمين.
(محمد زاہد ناصری القاسمی)
............
مولانا سلمان ندوی بکنے والا بندہ نہیں ہے 
یاد دکھنا ایک دن دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو کر رہے گا
جس نے سب سے پہلے للکارا: یہ وہی سلمان ہے
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
"مخلص احباب کی خدمت میں ایک درخواست،،
درخواست یہ ہے کہ ہمیں بابری مسجد کے تنازع میں جناب حضرت مولانا سید سلمان حسینی ندوی دامت برکاتہم العالیہ جیسے نڈر،بےلوث اور بےباک عالم دین کے حالیہ مصالحتی فارمولا پیش کرنے پر منہ کھولنے سے پہلے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے لکھنؤ کے ایک ایسے پروگرام میں جس میں حکومت کے رام ولاس پاسوان جیسے کئی وزراء جلوہ افروز تھے،
خود مفکراسلام حضرت مولاناؒ  بھی تشریف فرما تھے، ایسے ذمہ دار پروگرام میں مولانا سید سلمان حسینی ندوی نے بڑے جذباتی انداز میں حکومت اور حکومت کے تمام ذمہ داران کو بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار ٹھرایا اور ڈائس پر بیٹھے وزراء کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ یہ لوگ اپنی اوقات میں رہیں، انہیں ہماری اسلامی حمیت اوردینی غیرت کا اندازہ نہیں ہے،ہماری پوری اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ ایسے ایسے کتنے ہی لوگ ہمیشہ ہماری جوتیوں میں رہے ہیں،
جب اسٹیج سے مولانا سید سلمان حسینی ندوی صاحب حکومت اور حکومت کے وزراء کو یہ سب آنکھوں سے آنسوں بہاتے ہوئے کہ رہے تھے تومفکراسلام حضرت مولانا،سید سلمان حسینی ندوی کو "سلمان" "سلمان" کہ کر روک رہے تھے، 
اس وقت کی وہ تقریر تمام ہندوستان کے مسلمانوں نے بے حد پسند کی اور مولانا سید سلمان حسینی ندوی کی  تعریف وتوصیف  میں خوب زمین وآسمان کے قلابے ملائے،
آج  جب 26/25 برس گزرنے پر بھی بابری مسجد کی شہادت کا مسئلہ جوں کا توں رہا،بلکہ اس مسئلہ نے کئی پیچیدہ مسائل پیدا کئے،ایسے حالات میں ایک ایسا عالم دین جس کی جرات و بیباکی اوردینی غیرت کے عالم اسلام کے تمام مسلمان گواہ ہیں، اور ایسا عالم دین کہ جس نے سب سے پہلے بابری مسجد کی شہادت میں آنسوں بہاتے ہوئے حکومت کو اس کی شہادت کا ذمہ دار ٹھرایا،تو ایسے عالم دین کے مصالحتی فارمولا پر بےجا تبصرے کرنے کے بجائے سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے اور جلد ازجلد کوئی لائحہ عمل تیار کرنا چاہئے،اسی میں ہم ہندوستانی مسلمانوں کی کامیابی ہے،اللہ کرے ہم ایسا کرسکیں۔
دعاؤں کا طالب
محمد محسن سہارنپوری.... کاپی پیسٹ
....................
کسی مسجد کو غیر اللہ کی عبادت کیلئے دینا قطعا حرام،
شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں:
مسلم پرسنل لا بورڈ
حیدرآباد میں بورڈ کا سہ روزہ سالانہ اجلاس جاری، 
مولانا سلمان ندوی نے کاروائی کی بات پر بورڈ کے خلاف سراپا احتجاج،
پورے ملک کے مسلمانوں میں علماء کے آپسی اختلافات سے بے چینی کی لہر
حیدرآباد سے ١۰ فروری کی موصولہ رپورٹ کے مطابق یہاں آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی استقبالیہ کے اجلاس میں بابری مسجد کے بارے میں بورڈ کے موقف پر تفصیلی طور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ اس اجلاس کے بعد رات میں میڈیا کو اس کی روداد سے واقف کرواتے ہوئے مولانا عمرین محفوظ رحمانی سکریٹری بورڈ اور بیرسٹر اسد الدین اویسی رکن پارلیمنٹ حیدرآباد و صدر استقبالیہ نے کہا کہ بابری مسجد کے سلسلہ میں بورڈ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے کہ یہ مسجد ہے اور جس جگہ ایک مرتبہ مسجد بن جاتی ہے، وہ قیامت تک کے لئے مسجد رہتی ہے۔
مسجد کے سلسلہ میں جب بھی ہندو مذہبی رہنماوں کی طرف سے مصالحت کی پیشکش ہوئی، بورڈ نے کبھی انکار نہیں کیا بلکہ منصفانہ اور باعزت حل پیش کرنے کا مطالبہ کیا لیکن ان کا ہمیشہ ایک ہی جواب رہا کہ مسلمان ایک طرفہ طور پر مسجد سے دستبردار ہوجائیں مگر مسلمان ایسا نہیں کرسکتے، کیونکہ کسی مسجد کو غیر اللہ کی عبادت کے لئے دینا قطعا حرام ہے اور شریعت میں اس کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔اگر مسلمان ایسا کریں گے تو وہ اللہ کو جواب دہ ہوں گے۔ انہو ں نے مزید کہا کہ بورڈ کا یہ موقف ہے کہ معاملہ عدالت میں ہے۔ بورڈ نے فیصلہ کیا ہے کہ عدالت کا جو بھی فیصلہ ہوگاقانونی طورپر اسے ماناجائے گا ۔عدالت میں جو مقدمہ چل رہا ہے وہ عقیدہ اور آستھا کا نہیں ہے۔اس لئے امید ہے کہ فیصلہ مسلمانوں کے موقف کے مطابق ہوگا ۔اگر ایسا ہواتونہ یہ کسی کی جیت ہوگی اور نہ کسی کی ہار،بلکہ انصاف کی فتح ہوگی ۔
قبل ازیں جمعہ کے اجلاس کی صدارت مولانا سید محمد رابع حسنی ندوی صدر کل ہند مسلم پرسنل لا بورڈ نے کی۔ اجلاس میں بورڈ کے ارکان عاملہ‘ خصوصی مدعوئین‘ مندوبین اور استقبالیہ کے ذمہ داران اور ارکان شریک تھے ۔ شہ نشین پر مولانا کاکاسعید احمد عمری نائب صدر بورڈ‘ مولانا سید ولی رحمانی جنرل سکریٹری بورڈ‘ مولانا سید ارشد مدنی رکن عاملہ‘ جسٹس سید شاہ محمد قادری رکن عاملہ موجود تھے جبکہ اجلاس کے اہم شرکاء میں مولانا سید خلیل الرحمن سجاد نعمانی‘ مولانا محمود مدنی‘ جناب ظفر یاب جیلانی ایڈووکیٹ‘ مولانا سید محمد قبول بادشاہ قادری شطاری‘ مولانا مفتی خلیل احمد‘ مولانا محمد رحیم الدین انصاری اور دوسرے شامل ہیں۔
صدر استقبالیہ بیرسٹر اسد الدین اویسی صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے خطبہ استقبالیہ سے اپنے خطاب میں مسلم تنظیموں اور اداروں کا شکریہ ادا کیا۔انہوں نے کہا کہ مسلم پرسنل لا بورڈ ہندوستان بھر میں اسلام اور شریعت پر ہونے والے حملوں کے دفاع اور سربلندی کے لئے خدمات انجام دے رہا ہے۔ بورڈ کی جانب سے بابری مسجد اور تین طلاق جیسے اہم مقدمات کی بھی سپریم کورٹ میں پیروی کی جارہی ہے جس کے لئے کافی اخراجات درکار ہوتے ہیں۔ حیدرآباد کے سہ روزہ اجلاس کے لئے جو استقبالیہ کمیٹی تشکیل دی گئی تھی اس نے اپنی مساعی کے ساتھ کچھ رقم جمع کی ہے جو بورڈ کے اخراجات کے لئے پیش کی جارہی ہے ۔
انہوں نے صدر بورڈ مولانا سید رابع حسنی ندوی سے خواہش کی کہ وہ اسے قبول کریں۔ صدر مجلس نے کہا کہ بورڈ کی جانب سے ملک بھر میں شریعت سے متعلق بیداری اجلاس منعقد کئے جارہے ہیں۔ علماء و مشائخ نے تقریباً 4 ریاستوں میں مختلف مقامات پر بڑے جلسوں میں شرکت کی ۔ مولانا خالد سیف اللہ رحمانی جنرل سکریٹری و ترجمان بورڈ نے خیر مقدمی خطاب کیا اور کہا کہ آزادی کے بعد مسلمانوں کی معاشی ‘ تعلیمی اور سماجی پسماندگی کے علاوہ کئی مسائل تھے لیکن ان مسائل سے زیادہ شریعت اور تعلیم کے مسائل نہایت سنگین ہوگئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ بابری مسجد کو صرف ایک عمارت یا ایک زمین کا مسئلہ نہیں کہا جاسکتا ۔انہوں نے کہا کہ کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ کے قیام کے وقت جو حالات تھے‘ موجودہ دور کے تقاضے ‘ پہلے سے زیادہ سنگین ہیں۔ ایسے نازک مرحلے میں شریعت کی حفاظت اہمیت کی حامل ہے اور بورڈ اس معاملہ میں مسلمانوں کے نمائندہ ادارہ کی حیثیت سے اپنا رول ادا کرنے کی پوری کوشش کررہا ہے۔ بورڈ کا مقصد صرف اور صرف رضائے الٰہی ہے۔ ایسے مرحلے میں مسلمان اگر جدوجہد نہیں کریں گے تو مسلمانوں کی شناخت اور تشخص ختم ہوجائے گی.
.....................
بابری مسجد کے متعلق مولانا سلمان ندوی صاحب کا دو ٹوک موقف
 babri msjid ke mutalliq do wajeh mokaf
Video link
https://youtu.be/ITYBi1TDnrY
.............

*خبط عظمت اور عجب نفس کا انجام* 
 
 _بقلم  :   ابو اسامہ الحسنی_ 

آج کل سوشلستان کے دینی حلقے کی اکثر تحریروں ، تبصروں اور تجزیوں میں حضرت مولانا سلمان حسینی ندوی صاحب  ہی چھائے ہوئے ہیں ۔جدہر دیکھتاہوں "تو ہی تو " کا منظر درپیش ہے۔
ایسی مقبولیت اور عوامی کشش تو بہت کم لوگوں کو حاصل ہوتی ہے۔
حضرت مولانا سلمان صاحب قسمت کے بہت دھنی واقع ہوئے کہ وہ ایسے خانوادے میں آنکھیں کھولیں جن کی وجاہت اور عظمت کی چھاپ دینی وادبی  حلقوں میں بہت گہری  ہے۔اسی  خاندانی پس منظر اور نسبت  نے ان کی شخصیت کو حلقہ علماء  میں محبوبیت ومقبولیت بخشی ۔لوگوں سے  عقیدت ومحبت کی بے تحاشہ سوغاتیں ملیں۔
 مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ سے خاندانی وعلمی انتساب کی وجہ سے حلقہ علماء میں انہیں ایک عزت ووقار ملا ۔ہندوستان سے عربستان تک اسی نسبت نے ان کی شخصیت کو متعارف کرانے میں کردار ادا کیا۔
 وہ ذاتی صلاحیت واستعداد سے بھی مالا مال تھے۔شستہ زبانی ، طلاقت لسانی ،عربی زبان وادب پہ یکساں عبور و قدرت ،طرز القاء، منفرد طرز خطابت اور پرکشس لب ولہجہ کے باعث وہ ہندستان کے علاوہ عربوں میں بھی کافی مقبول ہوئے ۔۔۔۔
عوام وخواص کی اس ارزاں پذیرائی کے باعث شعوری یا غیر شعوری طور پر وہ عشق ذات اور عجب نفس میں بری طرح گرفتار ہوگئے۔ ۔۔۔  انہیں اپنی مقبولیت ،شہرت وخطابت پہ ناز ہونے لگا۔شخصیت میں کبر ونخوت دبے پائوں سرایت کر گئی۔وہ اپنے خیال میں ہی خود کو اکلوتے ادیب ، محدث ،مفسر، داعی، مجاہد اور دین ودنیا کے سب سے قابل ترین فرد شمار کرنے لگے۔اپنی رائے۔اپنی عقل اور اپنے فہم کو اٹل جاننے لگے۔شاید انہیں شبہ ہوچلا کہ وہی *عقل کل* ہیں۔ ان کے سارے اعمال *آب زمزم* سے دھلے ہوئے ہیں ۔
مغالطہ سے شاید وہ یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ شاعر نے غالبا انہی کے لئے کہا تھا : 
 **تر دامنی پہ شیخ ہماری نہ جائیو!  دامن نچوڑ دیں تو فرشتے وضو کریں* * 
یہی نشہ اعصاب پہ سوار تھا۔دھیڑے دھیڑے سعودی حکومت ،مختلف ادارے ، افراد وشخصیات پہ کیچڑ اچھالنا شروع فرمادیا۔
بعض معاصر علمی شخصیات پہ علمی نقد کے ساتھ کردار کشی بھی کی ۔من گھڑت اور بے بنیاد الزامات لگانے سے بھی باز نہ آئے ۔انتہائی قابل احترام شخصیات کو مباہلہ کا چیلنج تک کرنے لگے۔ *ازہر ہند دارالعلوم دیوبند  کے نصاب تعلیم پہ انتہائی توہین آمیز رکیک تبصرے اور جملے بازی کرنے لگے* ۔
جس پرسنل لاء بورڈ کے پلیٹ فارم سے ان کی شناخت ہوئی۔جس کے اسٹیج سے ان کی شعلہ بیانی عوامی حلقے میں متعارف ہوئی۔جسے وہ خود مسلمانوں کا متحدہ پلیٹ فارم کہتے نہیں تھکتے تھے۔اچانک اب تیس سال بعد اسے انگریزوں کی تخلیق کہنے لگے۔۔۔۔بابری مسجد کی شہادت کے بعد 25 سال تک خاموش رہنے والی شخصیت کو اب  پچیس سال بعد بے گناہ مسلمانوں کا قتل عام اچانک یاد یاد آگیا ۔ کسی سے صلاح مشورہ کئے بغیر  مجتہد مطلق کی طرح اچانک مسجد کی اراضی کو مندر سے تبادلہ کی کوشش کرنے لگے۔
حسب عادت شریفہ میڈیا میں اپنی اس اجتہادی کوشش کو متعارف بھی کرایا ۔
علم وفضل، صلاح وتقوی ، خاندانی وجاہت وشرافت میں ان سے کافی ممتاز، لائق وفائق بورڈ کے ذمہ داران نے جب  پوری لجاجت وعاجزی ،خیر خواہی ودلسوزی کے ساتھ انہیں سمجھانے کی  اوران کے موقف کے ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کی تو الٹے ان سے نوک جھونک اور تلخ کلامی پہ اتر آئے ۔ ان کی ضد ،ہٹ دھرمی اور تلون مزاجی کے باعث سینکڑوں اکابر علماء و مشائخ سمیت مسلمانوں کے متحدہ پلیٹ فارم کی جگ ہسائی  ہوئی ۔سینکڑوں وہزاروں علماء اور لاکھوں کروڑوں عوام کو سخت ذہنی اذیت وتشویش لاحق ہوئی ۔ بھگوائی میڈیا کو مسلمانوں پہ ہنسنے کا ایک نیا چٹپٹا عنوان ہاتھ آگیا۔بالآخر بورڈ کے چار رکنی کمیٹی  جس میں ان کے ماموں جان صدر بورڈ جیسے ولی صفت بزرگ بھی ہیں نے افہام وتفہیم سے بات حل کرنے کی کوشش کی ۔لیکن حضرت  مولانا سلمان صاحب انہی ذمہ داروں کے خلاف میڈیا اور ٹاک شوز میں آکر رکیک حملے کرکے انہیں ارایس ایس کا ایجنٹ قرار دینے لگے۔پرسنل لاء بورڈ کے متوازی شرعیت اپلیکشن بنانے کا عندیہ  بھی دیدیا۔۔جب پانی سر سے اونچا ہوگیا اور بات بننے کی بجائے مزید خراب تر ہوتی  چلی گئی تو مجبورا انہیں بورڈ سے خارج کرنے کی سفارش کی گئی ۔
بورڈ سے برطرفی کے بعد مولانا سلمان صاحب کافی جذباتی نظر آئے۔دوران درس ان کی آنکھ اشکبار بھی ہوئی۔رونے کی آواز بھی آئی۔رلانے والے کو بددعائیں بھی دیں۔۔۔۔لیکن یہ نہ سوچا کہ ان کی سابقہ زبان درازیوں اور حالیہ شرمناک موقف وہٹ دھرمی سے کتنے علماء، دانشوران، زاہد شب زندہ دار ، وکلاء  سماجی کارکن اور عوام روئے!  
میرا ہی نہیں ،امت کے سواد اعظم کا ماننا ہے کہ حضرت مولانا سلمان صاحب سے  اس معاملے میں یقینا چوک ہوئی ہے۔اپنی غلطی کے ادراک سے ہی شکست وہزیمت کے راز جانا جاتا ہے .غلطی کے تجزیہ کرنے کے بعد ہی فرد ،قوم اور ادارے مضبوط ہوتے ہیں اور مزید ہزیمت وفضیحت کے تدارک کی راہیں تلاشی جاتی ہیں۔انسانی جبلت کا خاصہ ہے کہ وہ "کامیابیوں " سے نہیں ' "ناکامیوں " سے سیکھتاہے ۔ٹھوکڑیں کھاکر ہی اس کا شعور پختہ ہوتا ہے ۔اگر زندگی میں صرف کامیابیاں ،خوشیاں اور حصولیابیاں  ہی ہوں تو سیکھنے اور اخذ نتائج کا عمل رک جائے اور شعوری ارتقاء کا سلسلہ تھم جائے۔
حضرت مولانا ندوی صاحب کے بیشمار معتقدین ،محبین ،تلامذہ اور متوسلین ہونگے ۔یقینا حضرت مولانا کی ضد اور ناعاقبت اندیش فیصلے اور جمہور سے انحراف وتعزل سے وہ بھی اندر سے دکھی ہونگے ۔ان کی اس اجتہادی غلطی کی تاویل وتائید کرنے کی بجائے اس حقیقت کو سمجھیں کہ بورڈ  پہ کسی کے آنے یا جانے سے فرق نہیں پڑتا ۔وہ چلتا رہے گا ۔پہلتا پہولتا رہے گا۔
فرق اس سے پڑا اور بہت بڑا فرق پڑا کہ *"آہنی اور فولادی آری پہ ڈنگ مارنے والا ناگ ڈنگ مار مار کے جب زخمی ہوگیا ،اس کی نخوت و غیرت کو چوٹ لگی۔تو فولادی آری کو جکڑ کر دم گھونٹ کر مار ڈالنے کی کوشش کی ۔جس طاقت سے اس فولادی آری کو جکڑنا اور دم گھونٹنا چاہا اسی سرعت سے وہ ناگ خود مردہ ہوگیا "*
ابو اسامہ الحسنی 
26/51439 ہجری
.........
اچھے خاندان میں پیدا ہونا، 
خالق قدیر کی مصلحت بھی ہے اور 
اس کی طرف سے رحمت بھی، 
اس میں انسان کا اختیار نہیں ہوتا ہے، لیکن خاندانی نسبت کا اپنی انا اور خود سری کی تسکین کے لیے استعمال سے کئی طرح کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں، جب نسبت ضد، خود سری، اور شہزادگی نخرے میں بدل جائے تو ملوکیت اور خانقاہی والی شہزادگی میں کوئی زیادہ فرق نہیں رہ جاتا ہے، ایک ملک تقسیم کر دیتی ہے تو دوسری ملت کو، نام، ملت، اصول و دستور اور دین دھرم کا لیا جاتا ہے لیکن اصلا معاملہ اپنی ضد اور مفاد و انا کی تسکین وتکمیل کا ہوتا ہے،  پوری تاریخ میں ہمیشہ ملت اور اداروں کی تقسیم میں یہ شہزادگی نخرے کا عمل دخل نظر آتا ہے، تاریخ آج بھی خود کو دھراتی رہتی ہے، ہم نے ہمیشہ نسبت والی شہزادانہ خودسری کے خلاف لکھا اور بولا ہے، لیکن ملت میں جب تک عمومی بیداری نہیں پیدا ہوگی تب تک حالات میں کوئی جوہری وبہتر تبدیلی نہیں آ سکتی ہے، خاندانی شہزادے جب تک امت وملت کے دیگر افراد کو غلام کے بجائے اپنا معاون کار اور ساتھی سمجھ کر کام نہیں کریں گے، تب تک تقسیم کا یہ سلسلہ جاری رہے گا،
 12/2/2018

https://m.facebook.com/story.php?story_fbid=1169060873228341&id=100003733199161
.......
اس میں شک نہیں ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اسلامی شریعت کے  معاشرتی احکام ومسائل کے تحفظ و رہ نمائی کے لیے ہے، نہ کہ کچھ لوگوں کی سیاسی امنگوں کی تکمیل کے لئے، مولانا سلمان ندوی  نے جو کچھ کہا ہے اس کا الگ تناظر ہے، لیکن کچھ بورڈ کا استعمال جس طرح اپنی سیاست کے لئے کررہے ہیں، اس کو بھی روکنا ضروری ہے، بات کرنے کے طریقے سے بھی مسئلہ پیدا اور ختم ہوتا ہے، مولانا ندوی سے اختلاف رکھنا الگ بات ہے، ہمیں بھی کئی باتوں میں اختلاف ہے، لیکن ایجنٹ، دلال وغیرہ کہنا بھی غیر  شریفانہ رویہ ہے، ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ مندر/ مسجد کا  معاملہ، عام مسائل کی طرح نہیں ہے کہ مفاد عامہ کے لئے اس کے حوالے سے بات کی جائے، کچھ برس ہوئے کہ انڈیا نیوز پر ایک پروگرام میں سڑک وغیرہ کے لئے مسجد  کو ہٹانے اور منتقل کرنے کی بات سبرامنیم سوامی نے اٹھائی تھی، اور کہا تھا کہ سعودی عرب اور دوسرے مسلم ممالک میں ایسا ہوتا رہتا ہے، اس پروگرام میں جناب ظفریاب جیلانی کے ساتھ ہم بھی شامل تھے، اس وقت سوال آیا تھا کہ کون لوگ یہ نکتے بتاتے ہیں؟ ویسے یہ کوئی راز نہیں ہے، مولانا وحید الدین خاں جیسے لوگ آدھے ادھورے مسائل سنگھ اور دیگر غیرمسلموں کو بتاکر گمراہ کرتے رہتے ہیں، ہمیں آج نہیں، برسوں سے فقہ حنبلی کا مسئلہ معلوم ہے کہ جب موقوفہ چیز، چاہے مسجد ہی کیوں نہ ہو، کی ویران ہوکر یا ناقابل استعمال ہوکر، نفع بخشی اور وقف کا مقصد ختم ہوجائے تو  بدلے میں اسے دوسری جگہ قائم کیا جائے، یہ مسئلہ کسی وجہ سے وقف کی ملکیت، واقف کی طرف واپس ہونے کے ذیل میں زیر بحث آتا ہے، ہم نے مذکورہ چینل پر جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ فقہ حنبلی کے مسئلے کا تعلق مندر وغیرہ کے لئے مسجد کی جگہ دینے سے نہیں ہے، یہ اور مسائل کی طرح نہیں ہے، بلکہ مسجد کے  بنیادی تصور وعقیدہ توحید سے متصادم ہے، جب کہ مفاد عامہ معاملے میں ایسا نہیں ہے،  یہ اور دیگر باتوں کے سامنے آنے سے سبرامنیم سوامی خاموش ہو گئے تھے، ہم نے ان سے سوال کیا تھا کہ کیا ہندو دھرم شاستر میں رام جنم بھومی مندر کے متعلق کوئی تصور ہے، جیسا کہ اسلامی شریعت میں مسجد حرام، مسجد نبوی، مسجد اقصی اور ان کے تحت دیگر مساجد کا ہے؟ اور باتیں بھی ہوئی تھیں، جن کا جواب سوامی نہیں دے سکے تھے، بحث میں شریک سوامی چکر پانی نے بھی کہا تھا کہ نعمانی جی نے عجیب بات کہہ دی، پوری طرح معاملے کو سمجھے بغیر کوئی بھی مسئلہ بتادینا مسئلے کا حل نہیں ہے، ہم نے کل بھی کہا تھا کہ مسجد کے بنیادی تصور، توحید کے منافی عمل، مندر وغیرہ کے لئے، کوئی حنبلی بھی مسجد کی جگہ دینے کے لئے کبھی بھی تیار نہیں ہوگا، ویسے بھی جب سپریم کورٹ میں معاملہ خاص مرحلے میں ہے تو اس طرح کی بحث کا کوئی زیادہ مطلب بھی نہیں ہے، ہمیں مسجد جیسے معاملے میں طے کردہ متفقہ موقف کے بعد ہی بات کرنا چاہئے، تفرد کی راہ اپنانے سے مسائل پیدا ہوتے ہیں، حل نہیں، 13/2/2018
مولانا عبدالحمید نعمانی 
(ساگر ٹائمز)
https://www.facebook.com/abdulhameed.noumani/posts/1169529256514836
.......


AIMPLB panel to probe Maulana meeting with Sri Sri Ravi Shankar
The All India Muslim Personal Law Board's aamilah (working committee) has launched an investigation into Board member Maulana Salman Nadwi meeting Art of Living founder Sri Sri Ravi Shankar to discuss an out of court settlement of the Ayodhya dispute case and coming out with statements

An aamilah member, who did not wish to be identified, told The Hindu that the decision was taken after an argument between other Board members and Maulana Nadwi late on Friday night.

“The investigating committee will comprise president Maulana Rabey Hasani Nadwi, general secretary Maulana Wali Rahmani, secretary Maulana Khalid Saifullah Rahmani and aamilah member Maulana Arshad Madani. It is difficult to say when the report will be presented. The members have to talk to Maulana Nadwi as well,” the aamilah member said, adding that the aamilah consultations are closed-door events.

Heated exchange of words
Sources close to the aamilah said that as soon as Maulana Nadwi entered the venue, members began to express their displeasure at his meeting with Sri Sri Ravi Shankar. The sources added that while a large number of senior Board members remained silent, there was a heated exchange between Maulana Nadwi and other aamilah members.

“They were harsh with Maulana Nadwi. But he was vehement and stood his ground, claiming that he is working in the interest of the Muslim community,” the sources said.

While clarifying that no impeachment motion has been moved against Maulana Nadwi, a senior Board member expressed his doubts about the removal of the cleric.

On Friday, Board secretary Maulana Rahmani clarified that the cleric had met the Art of Living founder in his personal capacity. “The Board has nothing to do with this meeting,” he said.
....................................
مولانا عبد الحمید نعمانی کے فیس بک وال سے ان کے شکریہ کے ساتھ

No comments:

Post a Comment